وکی لیکس: راہل کے اعتراف حقیقت پربھگوا بریگیڈ چراغ پاکیوں


 

عابد انور 

(یہ مضمون 2010 میں لکھا گیا تھا)

وکی لیکس نے ہندوستان میں ہندو دہشت گردوں کے بارے کیا کہہ دیا کہ پورا بھگوا بریگیڈ پیچ وتاب کھائے بیٹھاہے۔ یہاں تک کہ راہل گاندھی سے اس کی ذات اور اس کا مذہب پوچھا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے سربازار اسے ننگا کردیا گیا ہو۔ ابھی وہ اجمیر، سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور مالیگاؤں بم دھماکے کے الزامات سے ابھر نہیں پایا تھا کہ وکی لیکس نے راہل گاندھی کے ہندودہشت گردوں کے بارے میں موقف کو اجاگر کرکے پییروں سے زمین کھینچ لی۔ حب الوطنی اور د ریش بھکتی کے نام پر بھگوا بریگیڈ جس طرح ملک میں دہشت گردانہ کارروائی انجام دے رہا ہے اس سے جمہوری اور شہری آزادی تلف ہورہی ہے۔ خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اس بریگیڈ کو کھلم کھلا چھوٹ ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ کام وہ لوگ پولیس سے چھپ کر تے ہیں بعض مقامات پر تو پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور میڈیا خاصا کوریج دے کر اس کی دہشت گردی کو بڑھاوا دے کر برابر کا حصہ دار بنتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہندوستانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ ہندوستان میں پھیلی دہشت گردی، فرقہ پرستی، لاقانونیت، بدعنوانی اورمعاشرے کی تباہی کی ذمہ دار ہے کیوں کہ انہوں نے اس طرح کے موضوعات پر کبھی بھی منصفانہ رپورٹ شائع نہیں کی بلکہ انہوں نے گمراہ کن اور من گھڑت رپورٹ شائع کرکے اور دکھاکر عوام، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سب سے اہم اور حیران کن بات یہ ہے کہ واردات ہونے تک کسی کو خبر نہیں ہوتی لیکن واردات ہونے کے فوراً بعد نہ صرف یہ کہ یہ کس نے انجام دیا ہے بلکہ اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے اور پیسہ کہاں سے آتا ہے کب سازش کی گئی اور کون کون لوگ اس میں ملوث ہیں چند منٹوں اور گھنٹوں کے بعد میڈیامیں آجاتا ہے۔ میڈیا سے اس بارے میں جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں اس طرح کی رپورٹ پہلے سے تیار کرکے تو نہیں رکھی جاتی کہ دھماکہ ہونے کے بعد کس کا نام لینا ہے۔ میڈیا کے کچھ خاص لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دھماکہ کس نے انجام دیا ہے لیکن مسلم دشمنی میں وہ اپنا فرض منصبی 

بھول جاتے ہیں۔ 


 

 کانگریس کے جنرل سکریٹری ہندوستانی سیاست میں بوڑھوں کی نیند حرام کرنے والے نوجوان لیڈر راہل گاندھی نے سابق امریکی سفیر ٹموتھی جے رومر سے ایک تقریب میں تبادلہ خیال کے دوران اس حقیقت کا انکشاف کردیا تھاکہ ملک کومسلم انتہا پسندوں سے زیادہ ہندو انتہا پسندی سے خطرہ ہے۔ سابق امریکی سفیر سے یہ بات ۰۲ جولائی ۹۰۰۲ کو ایک ظہرانے کے دوران ہوئی تھی۔ وکی لیکس کے انکشاف کے مطابق بات چیت کے دوران راہل گاندھی نے ہندو دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندو انتہا پسند گروپوں میں اضافہ بڑا خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔ مسٹر راہل گاندھی نے اس ملاقات میں بعض ہندو لیڈروں کے انتہا پسندانہ کردار کے بارے میں بھی بات چیت کی تھی۔ اس میں نیا کچھ نہیں ہے پوری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو قعرمذلت میں دھکیلنے کے لئے کن کن سطحوں پر سازش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشنوں سمیت امریکی وزارت خارجہ اپنی رپورٹ گاہے بگاہے جاری کرتی رہتی ہے وکی لیکس نے بھی اس ضمن میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ راہل گاندھی کے نانا اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو نے بھی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے فکرمند ہوکر ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”مسلم فرقہ پرستی سے زیادہ ہندو فرقہ پرستی ملک کے لئے خطرناک ہے“۔ان کی یہ بات صد فیصد درست ہے ہندو فرقہ پرستی نے ملک کی ایک بڑی اقلیت کو کس قدر تنگ دستی، بدحالی، مفلسی اور بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو جانی، مالی، معاشی اور معاشرتی طور پرتباہی کے دلدل میں دھکیلتے تھے اس میں زیادہ بدنامی ہونے لگی تو دہشت گردانہ کارروائی کے ذریعہ مسلمانوں کو برباد کرنے کے درپے ہوگئے۔ ہندوستانی میڈیا نے اس کادل کھول کر ساتھ دیا کیوں کہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی اور ماحول سازی میں اس نے زبردست کردار ادا کیا ہے۔ اس میں خطرہ کی کوئی بات بھی نہیں تھی کیوں کہ دھماکہ ہوتے ہی خود ساختہ کسی مسلمان سے ملتے جلتے تنظیموں کا نام اچھال دیا جاتا۔ادھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوتی دوسر طرف ہندو انتہا پسند اپنی کامیابی پر خوشیاں مناتے۔ تفتیشی ایجنسی عمداً کسی مسلم نوجوان کو گرفتار کرلیتی اور اس کے بعد پولیس کے بیانوں کی بنیاد پر میڈیا میں ٹرائل شروع ہوجاتا۔ صفحہ اول پر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ من گھڑت کہانیاں شائع کی جاتیں لیکن جب ہندو دہشت گردوں کے بارے کچھ لکھنے کی باری آتی ہے تو پہلے تو سانپ سونگھ جاتا ہے اگر لکھنا بھی ضروری ہوا تو چند سطروں میں اکتفا کردیا جاتاہے۔ ابھی حالیہ واقعہ میں مکہ مسجد دھماکہ کے سلسلے میں جب ہندوانتہا پسندوں پر چارج شیٹ داخل کی گئی تو انگریز اور ہندی کے بیشتر اخباروں نے ایسی جگہ پر اور چھوٹی خبر شائع کی کہ عام طور پر لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ ان اخباروں میں بڑا گروپ کا ایک اخبار بھی شامل ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے اس کی پالیسی سیکولر اقدارپر مبنی ہے۔ 

 سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوؤں کا ایک بڑاطبقہ ہندو دہشت گردی کو تسلیم نہیں کرتا ان کے خیال میں ہندو کبھی دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتے۔ ایک ہندو مضمون نگار ساکیندر پرتاپ ورما نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ”ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس ہندو فلسفہ میں قدرت کی پوجا، چینٹیوں کو آٹا کھلانا، ناگ کو دودھ پلانا شامل ہے وہاں پر پلا بڑھا کوئی شخص کیا اس دہشت کی راہ پر چل سکتا ہے“۔یہی بات میڈیا اور ہندوکے ایک بڑے طبقہ کے دماغ پر حاوی ہے اس لئے وہ کبھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ ہندو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ سب سے اصل وجہ یہ ہے یہ طبقہ مسلمانوں کے قتل کو قتل تسلیم نہیں کرتااس لئے انہیں دہشت گردانہ کارروائی نظر نہیں آتی۔ اس طبقے کا مشن ہی جب مسلمانوں کی تباہی و بربادی ٹھہرا تو وہ کیوں کر اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیں گے۔ اس لئے اس طبقے سے یہ امید رکھنا کہ وہ اس طرح کی کارروائی کو دہشت گردانہ کارروائی کے ترازو میں تولیں گے مشکل ہے۔ ویسے بھی جب حکومت، انتظامیہ اور میڈیا کی حمایت انہیں حاصل ہے تو فکر کس بات کی؟۔ 

 راہل گاندھی کے بیان پر بھگوا پارٹی اور سنگھ پریوار کو واویلا مچانے سے پہلے انہیں اپنی زمینی حقیقت کا ادراک اور اپنا گھناؤنا کردار کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اپنی آنکھوں پر پڑی دبیز پٹی کو اتار کر دیکھنا چاہئے کہ ان کے سیاہ کارنامے اور اندھی مسلم دشمنی نے مسلمانوں کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت، میڈیا، انتظامیہ اور تفتیشی ایجنسیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دہشت گردانہ کارروائی کون انجام دے رہا ہے۔ وہ جان بوجھ کر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے آنکھ موند کر بیٹھی تھیں، انہیں یہ معلوم تھا کہ مسلمانوں کو جب چاہے پکڑلوکوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی ایسا اگر کچھ ہوتا ہے تو بھگوا بریگیڈ کا سیاسی بازو موجود ہے جو مورل ڈاؤن ہونے نام پر ان کے دفاع میں کمر کس کر میدان میں اترے گا۔ 

ہندو انتہا پسندوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ مسلم مقامات پر دھماکے کرنے شروع کئے ان کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچے جو مرنے سے بچ جائیں پولیس کے ذریعے انہیں ہراساں کیا جائے۔اسی لئے انہوں نے ایسے دن کا انتخاب کیا جس میں بھیڑ زیادہ ہو۔ اجمیر،مالیگاؤں اور مکہ مسجد بم دھماکے اس کی مثال ہیں۔ مسلمان اور کچھ ایماندار افسران نے کئی ہندو انتہا پسندوں کی طرف توجہ دلائی لیکن پولیس محکمہ میں بیٹھے متعصب افسران اوربرہمنی ذہن کے حامل تفتیشی ایجنسیوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔کئی بار بجرنگ دل اور دیگر ہندو انتہا پسند بم بناتے دھماکہ میں مارے گئے اور کئی باردھماکہ خیز مادہ کے ساتھ پکڑے بھی گئے لیکن ان سب کوہلکے انداز میں لیا گیا اور پٹاخہ کا دھماکہ قرار دے کر افسران نے ان لوگوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ کئی بار تو ان کے ٹھکانے سے کرتا پائجامہ،نقلی داڑھی اور دیگر اشیاء بھی برآمد ہوئیں جو یہ چیخ چیخ کر کہتی تھیں کہ یہ مسلمانوں کے خلاف بڑی سازش کا حصہ ہیں۔لیکن تفتیشی افسران نے بروقت کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کئی بار کئی کوئنٹل دھماکہ خیز اشیاء برآمد کئے گئے۔کانپور سمیت ملک کے متعدد مقامات پر دھماکہ خیز اشیاء کے ساتھ ہندو انتہا پسند گرفتار کئے گئے لیکن تفتیش آگے نہیں بڑھی اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ گرفتار شدہ مجرموں کے ساتھ کیا حشر ہوا۔


 

 راہل گاندھی کے سچ بولنے پر سنگھ پریوار اور بھگوا بریگیڈ کے شور و غوغا کرنے سے پہلے انہیں اپنی کرتوت پر بھی نظر ڈال لینی چاہئے۔ ۳۰۰۲ میں جمعۃ الوداع کے روز پربھنی کی مسجدبم پھینکنے کے الزام میں بجرنگ دل کا کارکن سنجے چودھری کو۲۱ جون ۶۰۰۲ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ۶ اپریل ۶۰۰۲ کو اکزیکیٹو انجنئر راجکونڈاوار کے گھر پر دھماکہ ہوا جس دو افراد ہلاک ہوئے تھے اور دو شدید طورپر زخمی، جائے واردات سے نقلی ڈاڑھی اور ٹوپی برآمد ہوئی تھی۔ اسی طرح ۶۰۰۲ کے مالیگاؤں بم دھماکے کے بارے میں پولیس افسران نے مسلمانوں کے الزام کو یہہ کہکر خارج کردیا تھا کہ بجرنگ دل میں بم دھماکہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔۱۰۰۲ اور ۲۰۰۲ کے دوران اورنگ آباد کے بم دھماکے میں بھی بجرنگ دل کارکنوں کا ہاتھ تھا۔ پولیس افسران ان تمام دھماکوں میں پہلے سیمی کا نام لیا تھا۔ ممبئی کے واشی کے وشنو داس بھاوے آڈیٹوریم اور راج سینما ہال میں بم دھماکہ کے لئے ہندو جاگرن سیمتی اور دیگر ہندو تنظیموں کے چار افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان کے گھروں سے ۲ ریوالور، ۲۹ کارتوس اور دھماکہ خیز مادہ امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ، ٹائمر، ڈیٹونیٹر، ریموٹ کنٹرول اور بڑی تعداد میں بم سازی کے آلات برآمد کئے گئے۔ اجمیر بم دھماکے میں ہندو دہشت گردوں سمیت آر ایس ایس کے کئی سرکردہ لوگوں کا نام آچکا ہے یہ باتیں فرد جرم میں کہی گئی ہیں۔ حیدرآباد کے مکہ مسجد کے بم دھماکے میں کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی جہنم بنادی گئی تھی یہی نہیں حیدرآباد کے مدارس پر بھی زبردست دبش ڈالی گئی تھی لیکن کیا ہوا۔ سارے مسلم نوجوانوں کو رہا کرنا پڑا۔ ۳۱ دسمبر کو مکہ مسجد دھماکے کے سلسلے میں متعدد افراد کے  خلاف فرد جرم عائد کردی گئی۔ان لوگوں کا تعلق آر ایس ایس اور ابھینو بھارت سے ہے۔ دیویندر گپتا، لوکیش شرما، چندر شیکھراور اسیمانند اور۷۰۰۲ میں مدھیہ پردیش میں اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے سمیر کلکرنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سندیپ ڈانگے اور رام چندر کلسانگر ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ابھی حال میں بنارس میں گھاٹ پر ہوئے دھماکہ میں نلیش پانڈے کو حراست میں لیا گیا ہے۔ 

ان تمام واقعات اورناموں کے باوجود اگر بی جے پی،سنگھ پریواراور بھگوا بریگیڈ راہل گاندھی کے سچ کے اعتراف پر چراغ پا ہے تو کیا کہا جائے گا۔ ہندوستان کی بدنصیبی ہی کہی جائے گی اور اسے قانون کا مذاق اڑانے اور جمہوریت کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ جب تک ہندوستان میں خفیہ ایجنسیوں میں ایمانداراور تعصب سے پاک افسران کی کمی رہے گی اس وقت تک ہندوستان میں دھماکے ہوتے رہیں گے اورمعصوم اور بے گناہ افراد کی زندگی جہنم بنتی رہے گی۔ افسران کے انتخاب میں اس بات کاخیال ضرور رکھاجانا چاہئیے کہ وہ کتنے سیکولر ہیں، اقلیتوں، قانون اور آئین کے تئیں کتنے وفادار ہیں اور قانون کی علمداری میں ذات پات، مذہب اور علاقائی تعصب کو تو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔


Comments

Post a Comment