عتیق احمد کا ہی قتل کیوں 233کا کیوں نہیں



 

تیشہ فکر عابد انور  

عتیق احمد کے قتل پر لکھا گیا مضمون

عتیق احمد،محمد اشرف، عتیق احمد (15اپریل 2023 کو قتل)کے بیٹے اسعد، غلام حسن کے بزدلانہ، بربریت، وحشیانہ اور ظالمانہ قتل نے ایک بار پھر ہندوستان کی جمہوریت کی پول کھول دی ہے، جنگل راج کسے کہتے ہیں یہ ثابت کردیا ہے۔ جنگل میں بھی کسی حدتک حکمرانی ہوتی ہے لیکن بی جے پی والی حکومت میں حکومت، انصاف، قانو ن اور نظم و ضبط کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا۔ حکومت کے وزیروں اور غنڈوں کی زبان میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی دونوں کے رویے، طرز عمل اور باڈی لنگویز میں کوئی فرق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مدر آف ڈیموکریسی کا تمغہ لئے پھر رہے ہیں۔ سارے کام غیر جمہوری طورپر جمہوریت کے نام پر کرتے ہیں۔  عتیق احمد اور ان کے بھائی محمد اشرف کو پولیس اور میڈیا کی موجودگی بہیمانہ قتل کیا گیا۔ یہ حکومت کی منشاکے عین مطابق معلوم ہوتا ہے کیوں کہ حکومت کے سربراہ کھلم کھلا جب کہتے رہے ہیں، ٹھوک ڈو، مٹی میں ملادو، تو اس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ماورائے عدالت انصاف (قتل) کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں جب یکطرفہ سڑک پر انصاف ہوگا تو پھر عدالت کی ضرورت کیا ہے اور اسے بند کرکے اس کے اہلکاروں کو گو سیوا کے لئے بھیج دینا چاہئے۔ اترپردیش کی عدالت، پولیس، انتظامیہ، مقننہ اور ایکزی کیوٹیو کے رویے سے کبھی بھی مسلمانوں کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں۔ انتظامیہ نے عتیق کے گھر کو بلڈوزر کے ذریعہ مہندم کرچکی ہے، یہاں تک کے وہ جس کرائے کے مکان میں تھے اس کو بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کردیا لیکن عدالت کی آنکھ نہیں کھلی۔ عدالت آنکھ بند کرکے حکومت کی منشا یا ہندوتو کی منشا پرمستقل طور پر عمل پیراہے۔ عدالت کے طرف انصاف سے بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی عدالت انصاف کرنا بھول گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیوان کے شہاب الدین کی ضمانت ایک دن میں مسترد کردیتی ہے لیکن اجے عرف ٹینی کے بیٹے کے ضمانت کو مسترد کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ ضمانت منسوخ کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے اسے پھرضمانت مل جاتی ہے۔ تصور کریں عتیق احمد اور محمد اشرف کی جگہ کوئی ہندو ہوتا اور مارنے والا مسلمان ہوتا تو اب تک سارے ملزمین کے گھر کو بلڈوزر سے منہدم کردیاگیا ہوتا اور مسلمانوں کے خلاف مہم چل رہی ہوتی اور اب تک کئی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہوتا۔ عتیق احمد کو جس طرح بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا اس کے ملزمین کے لئے وزارت عظمی اور وزرات اعلی کی کرسی کو خالی کردینا چاہئے۔ جیسا کہ ملزمین نے کہا کہ انہوں نے دھرم کا کام کیا ہے۔ جس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ انہوں نے عتیق اور محمد اشرف کو قتل کرکے ہندو مذہب پر عمل کیا ہے۔ہندو نوجوانوں نے اتنا بڑا کام کیا ہے اس کا انعام تو ملنا ہی چاہئے۔ ہندوؤں کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو اپنی بیٹیوں کی شادی ان ملزموں نوجوانوں نے کردینی چاہئے۔ 

اگر عتیق احمد بڑے مافیاتھے اور ان کا قتل کیا جانا ضروری تھا تو ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہیں ان کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔ سزا دینے کے لئے صرف مختار انصاری، افضل انصاری، اعظم خاں،عبداللہ اعظم، فیضل مسلمان ہی کیوں ضروری ہے۔ اس ضمن میں رپورٹ درج ذیل میں پیش کی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ اگر آج قانون کا نفاذ ہوجائے تو مرکزی اور اترپردیش کی حکومت اوندھے منہ گرجائے گی لیکن سوال بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ عدالت عملاً ناکارہ ہوچکی ہے۔

سیاست کو جرم سے پاک کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود الیکشن جیت کر 17ویں لوک سبھا کے رکن بنے لیڈروں میں سے 233(43فیصد) کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔نامزدگی داخل کرتے وقت دیئے گئے حلف ناموں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیتنے والے امیدواروں میں سے 159(29فیصد) کے خَاف سنگین مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ ان میں عصمت دری، قتل، قتل کی کوشش، اغوا اور خواتین کے خلاف جرائم وغیرہ شامل ہیں۔نیشنل الیکشن واچ کے تخمینہ کے مطابق دس نومنتخب اراکین پارلیمنٹ نے تو مجرمانہ معاملات میں سزا ہونے کی بات تک قبول کی ہے۔ ان میں سے پانچ بھارتیہ  جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں جبکہ چار کانگریس اور ایک وائی ایس آر کانگریس کے امیدوار طورپر جیتے ہیں۔ ان میں سے چار ترقی پسند ریاست کیرالہ سے جبکہ دو مدھیہ پردیش سے اور ایک ایک امیدوار اترپردیش، راجستھان، مہاراشٹر اور آندھراپردیش ے کامیاب ہوئے ہیں۔کانگریس کے ٹکٹ پر کیرالہ کی اڈوکی سیٹ سے جیتے ڈین کوریاکوسے پر کل ملاکر 204معاملات درج ہیں۔ ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 37کی سنگین دفعات اور دیگر دفعات کے تحت معاملے درج ہیں۔ مدھیہ پردیش کی دھار سیٹ سے جیتے بی جے پی کے چھتر سنگھ دربار کے خلاف صرف ایک معاملہ درج ہے جن پر تین سنگین دفعائیں لگائی گئی ہیں۔ راجستھان کی باڑ میر لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے کیلاش چودھری پر دو معاملات درج ہیں جن میں دو سنگین دفعات اور چھ دیگر دفعات کے تحت ہیں۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر مہاراشٹر کے ممبئی۔ شمال مشرق سے نومنتخب منوج کشوربھائی کوٹک پر دو معاملات درج ہیں۔کیرالہ کی ترشور سیٹ پر کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ٹی این پرتپن پر سات معاملات درج ہیں ان پر ایک سنگین دفعہ اور 35دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔ کیرالہ کی ہی کنور سیٹ پر کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے کے سدھاکرن پر تین معاملات درج ہیں۔ ان پر ایک سنگین دفعہ اور چھ دیگر دفعات لگائی گئی ہے۔ آندھراپردیش کے اننت پور سے وائی ایس آر کانگریس کے امیدوار تلا ری رنگیا پر دو معاملات درج ہیں۔ ان پر ایک سنگین دفعہ اور تین دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔ کیرالہ کے پلکڑ علاقہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر نومنتخب وی کے شری کنڈن پر کل ملاکر سات معاملات درج ہیں۔ ان پر 29دفعات لگائی گئی ہیں۔ اترپردیش کے ڈومریا گنج سے بی جے پی کے ٹکٹ پر نومنتخب جگدمبیکا پال پر تین معاملات درج ہیں اور تین دفعات لگائی گئی ہیں۔ مدھیہ پردیش کی ساگر سیٹ پر بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے راج بہادر سنگھ پر ایک معاملہ درج ہے۔

منتخب ہوئے کل ملاکر گیارہ اراکین پارلیمنٹ کے خلاف قتل سے متعلق معاملات درج ہیں۔ان میں سے پانچ بی جے پی، دو بہوجن سماج پارٹی، ایک کانگریس، ایک نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، ایک وائی ایس آر کانگریس اور ایک آزاد امیدوار ہے۔ بی جے پی کے ہورین سنگھبے سوائتشاسی ضلع (آسام) سے،نسیت پرمانک کوچ بہار (مغربی بنگال) سے، اجے کمار کھیری (اترپردیش) سے، سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر بھوپال (مدھیہ پردیش) سے اور چھتر سنگھ دربار دھار (مدھیہ پردیش) سے منتخب ہو ئے ہیں۔ بی ایس پی کے اتل کمار سنگھ گھوسی(اترپردیش) اور افضل انصاری غازی پور(اترپردیش) سے کامیا ب ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال کے بہرام پور سے کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ادھیر رنجن چودھری پر کل ملاکر سات معاملات درج ہیں۔ آسام کے کوکراجھار سے آزاد امیدوار کے طورپر کامیاب ہوئے  نابھا کمار سرنیا پر کل ملاکر پانچ معاملات درج ہیں۔ این سی پی کے ٹکٹ پر مہاراشٹر کے ستارا سے نومنتخب ادین راجے پرتاپ سنگھ مہاراج پر آٹھ اور آندھراپردیش کے ہندو پور سے وائی ایس آر کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے کے جی مادھو پر دو معاملات درج ہیں۔الیکشن واچ نے اس بار کل ملاکر 539نومنتخب اراکین پارلیمنٹ کے اعلانات کا تجزیہ کیا ہے۔ 2014کے  لوک سبھا انتخابات میں 185کامیاب اراکین پارلیمنٹ (34فیصد) کے خلاف اور 2009کے الیکشن میں 162کامیاب اراکین پارلیمنٹ کے خلاف مجرمانہ معاملات درج تھے۔

مجرمانہ شبیہ رکھنے والے بی جے پی اراکین اسمبلی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بی جے پی کے  103 ایم ایل ایز کی تحقیقات میں اے ڈی آر کو پتہ چلا ہے کہ41 فیصد یعنی  42 ایم ایل ایز  ایسے ہیں جن کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ اس معاملے میں، کانگریس دوسرے نمبر پر ہے اور جنتا دل (سیکولر) تیسرے نمبرپر ہے۔ کانگریس میں 78 نشستوں میں سے 23 اور  جے ڈی ایس 38 نشستوں میں سے 11 اراکین اسمبلی اس زمرے میں آتے  ہیں۔بی جے پی کے 29، کانگریس کے 17 اورجے ڈی ایس کے  8 قانون سازوں کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملات ہیں۔کانگریس کے 11 جنتا دل ایس کے تین اور بی جے پی اور کے پی جے پی کے ایک ایک اراکین اسمبلی ایسے ہیں جن کے اثاثے 100 کروڑ روپے سے زائد ہیں۔ کانگریس کے ہوسکوٹ سیٹ سے فاتح این ناگ راجو کی مجموعی اثاثہ  1015 کروڑ روپے سے زائد ہے۔پارٹی کے ہی کنک پور سے فاتح ڈی کے شیوکمار  اور ہببل سے جیتنے والے سریش بی ایس ماتھر کی مجموعی اثاثے، 840 کروڑ روپے اور 416 کروڑ روپے ہیں۔

سب سے کم جائیداد بی جے پی کے کرشن راج سے فاتح ایس اے رام داس کی ہے ان کا مجموعی اثاثہ 39 لاکھ روپے ہے۔ جے ڈی ایس شری رنگاپٹنم، سے فاتح  اے ایس رویندر اور بہوجن سماج پارٹی  سماج پارٹی (بی ایس پی)کے کوللے گل کامیاب ہونے والے این مہیش اثاثہ کے معاملے میں بالترتیب  دوسرے  اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کا مجموعی اثاثے  68 اور 75 لاکھ روپے ہیں۔کانگریس کے کنک پور کامیاب ڈی کیشیو کمار پر سب سے زیادہ قرض ہے۔  ان کے اوپر  228 کروڑ روپے سے زاید  قرض ہے، اس میں سے 5 کروڑ روپے سے زائد  متنازعہ ہے۔کرناٹک جے ڈی ایس کے صدر  ایچ ڈی کمارسوامی پر  104 کروڑ روپے سے زائد کا قرض ہے۔ مسٹر کمارسوامی رام نگر سے جیت چکے ہیں۔ کانگریس کے وجے نگر سے کامیاب ایم کرشنپاکے اوپر  66 کروڑ روپے سے زائد  قرض  ہے۔اسمبلی قانون سازوں کی عمر 25 سے 40 سال کی عمر، 138 کی 41 سے 60 اور  64 کی 61 سے 80 سال تک ہے۔ تین قانون سازوں کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ اس بار کرناٹک اسمبلی میں سات خواتین کامیاب ہوئی ہیں۔ پچھلی اسمبلی کے 94 قانون ساز  دوبارہ جیت کرآئے ہیں۔

یہ صرف کرناٹک کا حال نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں انتخاب ہویئے ہیں وہاں  مجرمانہ پس منظر رکھنے والے بی جے پی اراکین اسمبلی تعداد سب سے زیادہ ہے۔مہاراشٹر الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کی مانیں تو اس بار کے مہاراشٹر اسمبلی میں کھڑے 2336 امیدواروں میں سے تقریبا 798 امیدواروں پر مجرمانہ معاملے درج تھے۔ اس بات کی اطلاع خود امیدواروں کو بھی ہے۔ اگر کانگریس، بی جے پی، ایم این ایس (مہاراشٹر نونرمان سینا)، شیوسینا اور این سی پی کی بات کریں تو ان کے 1318 امیدواروں میں سے 640 یعنی کہ 49 فیصد امیدواروں کی تو انہوں نے خود اس کا اشتراک کیا ہے۔ان تمام امیدواروں پر درج مقدمات پر غور کیا جائے تو قتل کی کوشش، اغوا، فرقہ وارانہ ماحول، خواتین کے خلاف جرائم آتے ہیں اور ان میں سے 537 یعنی 23 فیصد امیدواروں نے ان کے جرائم کی اطلاع دی ہے۔ وہیں 156 اسمبلی حلقے ایسے ہیں، جہاں کم سے کم 3 امیدواروں نے اپنے اوپر دائر مجرمانہ معاملے اعلان کئے ہیں، جسے ریڈ الرٹ علاقے قرار دیا گیا ہے، کیونکہ جہاں 3 یا 3 سے زیادہ امیدوار مجرمانہ شبیہ والے ہوتے ہیں اسے ریڈ الرٹ علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے۔مہاراشٹر اسمبلی کے انتخاب میں امیدواروں کی اوسط جائیداد 4.65 کروڑ روپے ہے۔ یہ بات مہاراشٹر الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹ ریفارمس کے ایک مطالعہ میں سامنے آئی تھی۔جن 2336 امیدواروں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 1095 یعنی کہ 47 فیصد امیدوار ایسے ہیں۔ ان میں سے 1318 امیدوار کانگریس، بی جے پی، ایم این ایس، شیوسینا اور این سی پی کے ہیں۔جبکہ سابق اسمبلی انتخابات کے لیے یہ اوسط جائیداد 2.81 کروڑ روپے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ امیدواروں کی جائیداد کافی اضافہ ہوا ہے۔

ملک کے اعلی ترین آئینی عہدے (صدر) کے لئے گزشتہ سال 17 جولائی کو ہونے والے انتخاب کے ووٹروں میں 1581 رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی ایسے تھے، جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات ہیں۔ایک رپورٹ کی مطابق ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) اور نیشنل الیکشن واچ نے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے 4896 حلف ناموں میں سے 4852 کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 776 میں سے 774 اور پورے ملک کے 4120 میں سے 4078 ممبران اسمبلی کے حلف ناموں کا تعین کیا گیا تھا۔ نئے صدر کے انتخاب میں یہ 4852 رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی نے  ووٹ ڈالا تھا۔اے ڈی آر کے مطابق تجزیہ میں شامل 4852 ووٹروں میں سے 33 فیصد یعنی 1581 کا مجرمانہ ریکارڈ تھا۔ ان ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ نے اپنے آخری انتخاب کے وقت الیکشن کمیشن کے سامنے داخل حلف نامے میں خود اعتراف کیا تھا۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 34 فیصد یعنی 184 ایم پی اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 19 فیصد یعنی 44 ایم پی ایسے تھے اور ہیں، جن پر مجرمانہ معاملے ہیں جبکہ 4078 ممبران اسمبلی میں سے 33 فیصد یعنی 1353 کی مجرمانہ شبیہ کے ہیں۔تجزیہ میں شامل 4852 ممبران اسمبلی میں سے 993 یعنی 20 فیصد ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے حلف ناموں میں سنگین فوجداری مقدمات کی تفصیل دی تھی۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 22 فیصد یعنی 117 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 7 فیصد یعنی 16 ایم پی ایسے ہیں، جن کے خلاف سنگین فوجداری کا مقدمہ ہے۔ ممبران اسمبلی میں 860 یعنی 21 فیصد کے خلاف سنگین قسم کے کیس ہیں۔ اے ڈی آر کے مطابق 4852 ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی میں سے 71 فیصد یعنی 3460 کروڑپتی  ہیں۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 82 فیصد یعنی 445 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 194 یعنی 84 فیصد رکن پارلیمنٹ کروڑ پتی ہیں۔ ممبران اسمبلی میں 4078 میں سے 68 فیصد یعنی 2721 کروڑ پتی ہیں۔ 

گزشتہ سال مارچ میں اختتام پذیر اترپردیش کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں 36 فیصدرکن اسمبلی پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ایسوسی ایشن برائے جمہوری حقیں (اے ڈی آر) کے مطابق، 2017 میں اترپردیش کے اسمبلی کے انتخاب میں منتخب کردہ 403 میں سے فیصد  143 یعنی یعنی 36 فی صدرکن اسمبلی کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ جن کی بر وقت سماعت ہوئی تو یہ لوگ جیل جا سکتے تھے۔143میں سے  83 ممبران  بی جے پی ہیں۔ 11 ممبران ایس پی کے 4 ممبران  بی ایس پی کے اور 1 ممبرکانگریس کے اور تین آزاد  ایم ایل اے ہیں۔یہی نہیں اترپردیش سرکار میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ دونوں پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ جس میں انہوں نے 2014 میں لوک سبھا انتخابات میں داخل کئے گئے حلف نامے بتاگئے ہیں۔ جس میں قتل جیسے سنگین جرم شامل ہیں۔ ان میں 302 (قتل)، 153 (دنگا بھڑکانا) اور 420 (دھوکہ) شامل تھے۔بی جے پی میں سنگین جرائم کرنے والے سیاستدان سب سے زیادہ ہیں۔ بی جے پی کی سب سے زیادہ 83 یعنی 27 فی صد، ایس پی کی (24 فیصد)بی ایس پی 4 (21 فی صد)، کانگریس کا ایک (14 فی صد) اور تین  دیگرپر سخت آپرازی کیس درج ہیں. بی جے پی کے کیشوی پرساد موریا کے خلاف قتل سمیت کئی سنگین کیس درج ہیں. انہوں نے مئی 2014 میں جو حلف نامہ انتخابی کمیشن کو دیا تھا، اس کے مطابق ان کے خلاف 11 غیر قانونی معاملات ہیں۔ ان میں 302 (قتل)، 153 (دنگا بھڑکانا) اور 420 (دھوکہ) شامل تھے۔اسی طرح گجرات جسے ماڈل کے طور پر پورے ملک میں پیش کیا گیاتھا نئی کا بینہ میں 40 فیصد وزرائے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے ہیں جن میں سنگین جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنانے والے نتیش کابینہ میں 29میں سے22 یعنی 76 فیصد وزراء مجرمانہ شبیہ رکھنے والے ہیں۔


Comments