راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت کی منسوخی، جمہوریت اور عدلیہ کے رنگ



 عابد انور 

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی پارلیمنٹ سے رکنیت ختم ہوگئی۔ایسا انوکھا واقعہ جمہوریت کی ماں ہونے کا دعویدار ملک میں ہی ممکن ہے۔ غیر جمہوری ملک بھی اس طرح کے ہتھکنڈے اپنانے سے ڈرتے ہیں۔ جمہوریت کا جنازہ اس قدر دھوم سے دھام سے جمہوریت اور قانون کے نفاذ کے نام پر نکلے گا اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔’مدر آف ڈیموکریسی‘ کا پوری دنیا میں ڈھول پیٹنے والے ملک میں جہاں ایک مسلم وزیر نہ ہو، جس پارٹی میں ایک مسلم رکن پارلیمنٹ نہ ہو، جہاں نشانہ بناکر مسلمانوں کے گھر منہدم کیا جارہا ہو، احتجاج کرنے پر یو اے پی اے اور قومی سلامتی ایکٹ لگاکر جیل میں بند کیا جاتا ہوں، جہاں عدالت کا نظریہ ہی یہ ہو باہر نہیں آنے دینا ہے، جہاں بے قصور نوجوانوں کو معمولی غلطی کے لئے برسہا برس سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہو، جہاں مسلمانوں پر گولی چلانے والوں کو پھول کے ہار پہنائے جاتے ہوں اور اسے ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہو، مسلمانوں کو کھلم کھلا قتل عام کی دھمکی دینے والوں کو بھگوان کا درجہ حاصل ہو، بلقیس بانوں کے قاتلوں اور آبروریزی کرنے والوں کی سزا معاف ہوجائے، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ کو کوئی ثبوت نہ مل پائے، جہاں ایک وزیر اعلی اپنے خلاف قتل اور سنگین جرائم کی مقدمے کو خود ختم کردے، جہاں وزیر اعظم سے لیکر وزراء تک ایک طبقہ کو نشانہ بنائے، ان کے کپڑ وں سے پہچاننے کی بات کہہ کران کے خلاف اکثریتی طبقوں کو اکسائے، سرے عام گولی مارنے کی بات کہے اور ان کا بال بھی باکا نہ ہو، جہاں ایم پی، ایم ایل اے کی خریداری کھلم کھلا ہو اور عدالت خاموش تماشائی رہے، جہاں فساد کرواکر مسلمانوں کا قتل، ان کے گھر کو آگ کے حوالے کیاجاتا ہو، جہاں کی خفیہ ایجنسیاں، تحقیقاتی ایجنسیاں اور ای ڈی حکومت کے اشارے پر رقص کرے، جہاں کا میڈیا جو بدقستمی سے جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، جھوٹی خبریں پھیلانے اور ایک طبقہ کے قتل عام کے لئے راہ ہموار کرنے میں مسابقت کرے، جہاں احسان فراموشی گھٹی میں شامل ہو، سام، دام، ڈنڈ بھید کو چانکیہ نیتی کا درجہ حاصل ہو، جھوٹ، مکر فریب اور دھاندھلی سے بازی جیتی جاتی ہو،جہاں مہنگائی کا احساس حکمراں طبقہ کودیکھ کر ہوتا ہو اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم پر جشن کا سماں ہو ایسے نظام میں راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان کو یہ سزا ملنی ہی چاہئے، کیوں کہ ان کے پرنانا نے ملک کو سینچا سنوارا، سانپ بچھو والے ملک کو توہم پرستی سے آزاد کرایا، ان کی دادی نے اور والد نے ملک کے لئے قربانی دی، کمپیوٹر انقلاب لایا۔ یہ گناہ کم ہے، اس لئے راہل گاندھی کو پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ جیل میں بھی ڈالنا چاہئے تاکہ وہ بھی اکثریتی قوم کی طرح ساورکر کی اہمیت کو تسلیم کرسکیں۔



عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے تحت اگر کسی شخص کو دو سال یا اس سے زیادہ کی سزا سنائی جاتی ہے تو وہ ایوان کا رکن رہنے کا اہل نہیں رہ جاتا۔ اس کے علاوہ وہ شخص اگلے چھ سال تک الیکشن نہیں لڑ سکتا۔راہل گاندھی کو جس کے لیے دو سال کی سزا سنائی گئی ہے وہ بیان 2019 میں کرناٹک کے کولار میں لوک سبھا انتخابات کے دوران دیا گیا تھا۔راہل گاندھی کے اس بیان کے خلاف بی جے پی لیڈر پرنیش مودی نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔راہل گاندھی کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 499 اور 500 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔پورنیش مودی نے الزام لگایا کہ راہل گاندھی کے اس تبصرہ سے پوری مودی برادری کی بدنامی ہوئی ہے۔سورت کی عدالت نے اس کیس کی سماعت کے بعد راہل گاندھی کو دو سال قید کی سزا سنائی۔جمعہ کو لوک سبھا سے راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ راہل گاندھی کیرالہ کے وایناڈ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔پرنیش مودی کے خلاف راہل نے کچھ نہیں کہا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں کوئی کارروائی کی تھی، اس کے باوجود نچلی عدالت کا فیصلہ ہندوستانی نظام عدل کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی ایک نہیں سیکڑوں مثالیں ہیں۔

 بی جے پی کے رہنماؤں کو مسلم مخالف مسلم دل آزاری والا بیان دینے میں مہارت حاصل ہے لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، نہ عوام کی عدالت میں اور نہ ہی ملک کی عدالت میں۔بھارتیہ جنتا پارٹی حکمرانی والی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نرنجن جیوتی کو وزارت کے عہدے سے برطرف کرنے سے متعلق اپوزیشن کے مطالبات مسترد کر دیا تھا۔ محترمہ جیوتی نے ملکی اقلیتوں کے خلاف غیرمہذب زبان کا استعمال کیا تھا۔ پیر کے روزیکم دسمبر کو نئی دہلی میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ جیوتی نے کہا تھا کہ عوام کو طے کرنا ہے کہ آیا وہ رام کے بچوں کی حکومت چاہتے ہیں یا حرامزادوں کی اولادوں کی۔کچھ بر سوں قبل سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے سینئر رہنما اٹل بہاری واجپئی وارانسی کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ چکے  تھے بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی نے کانگریس کی صدر محترمہ سونیا اور ان کے بیٹے اورکانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے بارے میں نازیبان الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یہاں کوئی مکان کرایہ پر بھی نہیں دے گااور راہل گاندھی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھاکہ انہیں یہاں کوئی ڈرائیور بھی رکھنا پسند نہیں کرے گا۔ سنت کبیر نگر کے خلیل آباد کے چوراہے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کے اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ، موجودہ وزیر اعلی اور فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ واضح لفظوں میں کہا تھا کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ بدزبانی، بدتمیزی، بدخلقی، دل آزادی اور نسلی امتیاز کے حق میں بیان دینے کی سزا ن لیڈران کونہیں ملتی اور کبھی یہ اپنی سزا کے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ رہنما خود کو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں۔جو دل میں آتا ہے بولتے ہیں جو من کرتا ہو کرتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے بلکہ سیاست میں ان کا قد اونچا ہی ہوگا۔جس دن ایسے لیڈروں کو سزاملنی شروع ہوجائے گی اسی دن سیاست میں غیر شائشتہ بیان بازی کا دروازہ اپنے آپ بند ہوجائے گا۔ 

گری گراج سنگھ نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی پر نسلی تبصرہ کر تے ہوئے.حاجی پور میں گری راج سنگھ نے کہا، 'اگر راجیو گاندھی کوئی نائجیرین لیڈی سے بیاہ کئے ہوتے، گوری چمڑی نہ ہوتی تو کانگریس پارٹی اس کی قیادت کو قبو ل کرتی۔ گری راج نے راہل گاندھی پر بھی نشانہ بنایااور کہا کہ جس طرح سے ملیشیا کے لاپتہ طیارے کا آج تک پتہ نہیں چلا، اسی طرح سے راہل کہاں غائب ہیں، کسی کو نہیں معلوم۔یہ پہلا موقع نہیں ہے، گری راج سنگھ نے کہا کہ اگر راجیو گاندھی کسی نائجیریائی عورت کے ساتھ شادی کی ہوتی اور اگر وہ گوری نہیں ہوتی تو کیا کانگریس انہیں اپنا لیڈر منتخب کرتی۔گری راج نے کہا کہ سونیا گاندھی گوری چمڑی کی وجہ سے کانگریس کی صدر بنی ہیں 



سی طرح بی جے پی کے اس وقت کے صدر نتن گڈکری نے 8جولائی 2012کو دہرہ دون میں ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس سے پوچھا تھا کہ وہ افضل گرو کا اس طرح دفاع کررہی ہے جیسے وہ اس کا داماد ہو۔اسی طرح انہوں نے  15جون 2011 کو کانگریس پر سخت تنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس بن لادن کی اولاد ہے اور اپنی بدتمیزی جاری رکھتے ہوئے آگے کہا تھاکہ کانگریس’منی‘ سے بھی زیادہ  بدنام ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندرمودی نے 2007کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی شان میں بدتمیزی کرتے ہوئے کہا تھاکہ انہیں یہاں (گجرات میں) کوئی ڈرائیور رکھنابھی پسند نہیں کرے گا۔19 اپریل 2014کو نتن گڈکری نے بہار انتخابی مہم کے دوران ایک پریس کانفرنس میں اپنی بے لگام زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہہ دیا تھاکہ ذات پات بہار کے ڈی این اے میں ہے لیکن جیسے ہی یہ احساس ہوا کہ اس سے بی جے پی کے ووٹ پر منفی اثر پڑے گا انہوں نے فوری طور پر اس سے انحراف کیا۔بی جے پی کے ہی لیڈر اور سابق وزیر گری راج سنگھ نے بی جے پی کے سابق قومی صدرنتن گڈکری کی موجودگی میں 19 اپریل 2014کو جھارکھنڈ کے گڈا پارلیمانی انتخاب میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مودی کی مخالفت کررہے ہیں انہیں انتخابات کے نتائج کے بعد ملک چھوڑنا ہوگا۔ انہوں نے مسلمانوں کا نام لئے بغیر کہا نریندرمودی کے حامیوں کے لئے اچھے دن آئیں گے مخالفین کو ملک سے بھگا دیا جائے گا۔ انہوں نے پاکستان بھگادینے تک کی بات کہی۔ پاکستان بھگانے کا لفظ صرف مسلمانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات خود وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ جولوگ نریندرمودی کو روکنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ان کے لئے صرف پاکستان میں جگہ بچے گی۔اس کھلم کھلا اور دھمکی آمیزبیان کے بعد بھی کوئی گنجائش بچتی ہے کہ نہ صرف ان لیڈروں پر انتخابی پابندی عائد ہونی چاہئے بلکہ پارٹی کی منظوری کو بھی معطل کیا جانا چاہئے اگر ہندوستان میں امن و قانون یا جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے اور الیکشن کمیشن ہندوستانی آئین پر یقین رکھتا ہے تو ان لیڈروں اور ان کی پارٹی کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔


بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ 'کسی کیس میں ایک بار سٹے لگنے کے بعد برسوں تک کیس رک جاتا ہے، لیکن پورنیش مودی کا کیس اچانک تیزی سے بھاگنے لگا، اور بھاگے نہیں بلکہ گھوڑے کی رفتار سے بھاگنے لگے'۔یوگیندر یادو نے لوک سبھا میں راہل گاندھی کی 7 فروری کی تقریر کو اہم قرار دیا، ''اس تقریر کے بعد 16 فروری کو درخواست گزار پورنیش مودی نے ہائی کورٹ سے اسٹے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ 27 فروری کو کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی، جبکہ عام طور پر اس ملک میں کیس کی دوبارہ سماعت میں سال لگ جاتے ہیں، لیکن یہاں 10 دن میں سماعت شروع ہو جاتی ہے۔ نہ صرف سماعت شروع ہوئی بلکہ ایک نئے جج نے اس کی سماعت شروع کی، جن کی ترقی کا اعلان حال ہی میں ہوا ہے۔''یوگیندر یادو کہتے ہیں، ''نئے جج 27 فروری کو کیس کی سماعت شروع کرتے ہیں اور 23 مارچ کو کیس میں حکم آتا ہے، اس معاملے میں راہل گاندھی کو زیادہ سے زیادہ سزا مل سکتی ہے، حکم آنے کے بعد لوک سبھا سکریٹریٹ 24 گھنٹے کے اندر نوٹس لے رہا ہے۔ اس معاملے میں راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کردیتا ہے۔یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ 'ماہرین بتاتے ہیں کہ ہتک عزت کے معاملے میں عام طور پر کوئی سزا نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو یہ بہت علامتی سزا ہے'۔یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ ”دو سال کی سزا کا مطلب یہ ہے کہ ہتک عزت کیس میں راہل گاندھی کا جرم سب سے سنگین ہے، اتفاق سے کسی بھی مجرمانہ معاملے میں دو سال کی سزا پارلیمنٹ سے رکنیت کی منسوخی کا بھی معیار ہے۔“ اگر راہل گاندھی کو دو سال سے بھی کم سزا ہوئی تھی، راہل گاندھی کی رکنیت ختم نہیں کی جا سکتی تھی، کتنا دلچسپ اتفاق ہے۔یوگیندر یادو کہتے ہیں، ”اس میں دو پیچ ہیں، پہلا یہ کہ آرٹیکل 103 کے مطابق اگر کسی رکن پارلیمنٹکی رکنیت کسی بھی وجہ سے منسوخ ہو جاتی ہے، تو ایسی صورت حال میں صدر کو اس سلسلے میں حکم جاری کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے صدر الیکشن کمیشن سے اپنی رائے لیں گے۔''دوسرا پیچ یہ ہے کہ پہلے جتنے بھی کیسز کا حوالہ دیا جا رہا ہے، ان میں نوٹس جاری ہونے سے پہلے کم از کم ایک سے دو ماہ کا وقت دیا جاتا تھا، دیا جاتا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا؟ رائے کہاں لی گئی؟''

اب ہندوستان کی اعلی عدلیہ کا امتحان اور ساکھ کا سوال ہے، وہ حکومت کی منشا کے مطابق کام کرتی ہے یا آئین کے مطابق۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر آئین پر بلاتفریق عمل کیا جائے اور عدالت آئین کے مطابق کام کرنا شروع کردے تو بی جے پی کے نوے فیصد رہنما جیل میں ہوں گے۔ بی جے پی میں ایسا کوئی نہیں ملے گا جس سے کوئی نہ کوئی جرم سرزد نہ ہوا ہو، اشتعال انگیزی تو ان کی فطرت میں شامل ہوتی ہے۔ اشتعال انگیز بیانات سیاست میں قدم رکھنے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ اسی اشتعال انگیزی کی وجہ سے اکثریتی طبقہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے، ہیرو بناتا ہے، ان کی حمایت میں جلوس نکالتا ہے یہ تمغہ امتیاز بی جے پی کے رہنمااور وزراء کو حاصل ہے کہ قاتل، زانی اور ظالموں کے حق میں ترنگا یاترا نکالتے ہیں۔شاید یہ مدر آف ڈیموکریسی کا تقاضہ ہے۔

Comments

  1. بہت عمدہ اور جامع تحریر!!
    بالکل ناجائز اور بے بنیاد طریقے سے حزب اختلاف کا سب سے نمایاں چہرہ' راہل گاندھی' کے خلاف نچلی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے اور اس کی پارلیمنٹری رلنیت ختم کرکے سر عام جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‌۔ اہالیان وطن اور عدلیہ کا کا یہی حال قائم رہا تو وطن عزیز میں لفظ جمہوریت تاریخ کا ایک حصہ ہوجائے گی اور چراغ سے بھی ڈھونڈے نہیں ملے گی۔
    آپ نے بے شمار اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں یہ اہم مضمون ضبط تحریر میں لایا ہے، جو اس کی اہمیت و جامعیت پر دال ہے۔
    مضمون پڑھ کر جہاں مایوسی ہی مایوسی ہاتھ لگی،وہیں آپ نے اوپری عدالتوں امید رکھنے کی بات کہی، اب یہ ہمارے دلاسے کا کچھ سامان کرسکتی ہے۔ یقینا عدلیہ کے پاس بے انتہا اختیار ہے، وہ چاہے تو اپنی خود مختاری کا ثبوت دیتے ہوۓ، جمہوریت کی نگرانی اور از سرنو قیام ممکن ہے۔
    اس عمدہ اور بےباک اظہار بیان کے لیے آپ کو مبارکباد۔ آج کے دنوں میں اس طرح کا مضمون لکھنا، بڑی جرأت و حوصلے کی بات ہے۔ البتہ جمہوریت کی بقا اور ہر حال میں قانون کی بالادستی کے لیے، بطور صحافی آپ نے‌اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔

    ReplyDelete

Post a Comment