دہلی فسادات منظم، منصوبہ بند مسلمانوں کو نشانہ بناکر پربا کیا گیاتھا۔دہلی اقلیتی کمیشن

عابد انور

Thumb

نئی دہلی، 16 جولائی (عابد انور)شمال مشرقی دہلی میں رواں سال ماہ فروری میں ہونے والے بھیانک فسا کو منظم، منصوبہ اور ایک فرقہ کو نشانہ بناکر برپا کیا گیا فساد قرار دیتے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن نے پولیس پر لاپروائی برتنے، بعض جگہ فسادیوں کا ساتھ دینے اور مسلم خواتین کی آبرو کی حفاظت نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔یہ الزام آج یہاں جاری ایک رپورٹ میں لگایا گیا ہے۔ 
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے اپنی میعاد ختم ہونے سے تین دن قبل چار رپورٹیں جاری کی۔ یہ تمام رپورٹیں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل، ڈائی، ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا اور دہلی کے تمام وزراء  اور دہلی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی گئیں۔انہوں نے یہ رپورٹ ایک پریس میٹنگ میں جاری کی۔یہ رپورٹیں، شمال مشرقی علاقوں میں مسلم خواتین کے بارے میں، سکھ فسادات کے متاثرین کی موجودہ صورت حال سے متعلق، شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ اور دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2019-2020 پر مشتمل ہیں۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ شہادتوں میں، پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہہ پیدا ہوتا ہے وہیں دہلی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا  ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے۔ خواتین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے  ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔
 رپورٹ میں پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے  لفظ ’آزادی‘ کے نعرے کااستعمال کیا۔ اس میں کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی شامل ہے جس میں خواتین مظاہرین کے سامنے پولیس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے۔ زبانی زیادتیاں بھی فطری طور پر جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔ یہ واضح ہے کہ پولیس مدد کے لئے آگے نہیں آئی اور متعدد واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث رہی۔
 تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد شہادتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا توتاخیر ہوئی ہے یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگین نوعیت کے باوجود پولیس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولیس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزدملزمین کے نام  اپنی شکایت سینہیں خارج کردیئے۔ کچھ معاملات میں  شکایات کو پہلیسے درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر نتھی کردیا گیا۔

شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کچھ معاملات میں پولیس ملوث تھی اور اس نے حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولیس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولیس  افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا  اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں سے کہا کہ "انہیں مت روکو"۔ کچھ معاملات میں، پولیس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں  پولیس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ "جو چاہے کرلو"۔ کچھ  شہادتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی افسران نے  حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو بحفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں، پولیس نے متاثرین کو بھی بحفاظت  باہرنکالا۔
اس رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدرسوں، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیاتھا۔  حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ کوویڈ۔19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے  متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دئے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔

تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد شہادتیں تشدد کے دوران پولیس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ  ان کے سامنے تشدد پھیل رہا تھا۔  نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس موقع پر  نہیں پہنچی۔ شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولیس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کاآرڈر نہیں ملا ہے۔ پولیس نے غیرقانونی طور پر جمع ہونے والے کو منتشر کرنے، یا تشدد کرنے  والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظربند کرنے کے اقدامات کرنے کے اختیار کوبھی استعمال نہیں کیا۔
 مسلح ہجوم شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا، افراد پر حملہ کیا، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے"جے شری رام"، "ہر ہر مودی"، "مودی جی، کاٹ دو ان ملوں کو"، "آج تمھیں آزادی دینگے" وغیرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئی مسلم افراد، گھروں، دکانوں، گاڑیوں  اور مساجد وغیرہ املاک  پر  چن چن کر حملہ کیا۔ گواہوں نے بتایا کہ ہجوم میں بڑی تعداد میں بیرونی افراد شامل تھے لیکن ان میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے جن کو  متاثرین پہچان سکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں، آنسو گیس کے گولوں، گیس سلنڈروں اور آتشیں اسلحوں سے لیس تھے۔
شمال مشرقی دہلی کے متعدد علاقوں میں، مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا گیا، جلایا گیا اور مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ حملے اس حد تک منصوبہ بند تھے کہ ان جہاں مالکان ہندو تھے لیکن جائیدادیں مسلمانوں کو کرایے پر دی گئیں تھیں، ان  عمارتوں کو بچالیا گیا لیکن غیر منقولہ املاک کو لوٹ لیا گیا یا احاطے کے باہر لا کرجلا دیا گیا۔متاثرین کی شہادتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد کسی "فساد" کی طرح بے ساختہ نہیں تھا بلکہ وہ منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تھا۔
امن و امان قائم رکھنے میں حکام کی ناکامی کی وجہ سے تشدد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے معاملات میں معاوضے کی رقم کے تعین میں شدید اختلاف ہے۔ سرکاری ملازمین کی اموات کی حالت میں بڑی مقدار میں معاوضہ دیا جارہا ہے جبکہ لوٹ مار، جلانے، املاک اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کے لئے یا تو معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے یا بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔ تشدد کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی، متعدد معاملات میں نقصانات کا  توثیقی عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ بہت سے معاملات میں توثیق کے بعد بھی یا تو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے یا "عبوری معاوضہ" کے نام پر بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔
9 مارچ، 2020 کو  دہلی اقلیتی کمیشن نے مسٹر ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ آف انڈیا،کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے تحت کمیٹی کو ۲۳۔۲۷ فروری ۲۰۲۰  کے دوران شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے تشدد  کی تحقیق کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ کمیٹی نے اپنا کام شروع  ہی کیا تھا کہ  کوویڈ 19 لاک ڈاو?ن نے  اس کے کام کو شدید متاثر کیا۔  پھرکمیٹی نے جون 2020 میں لاک ڈاؤن  میں تخفیف کے بعداپنا کام دوبارہ شروع کیا۔

کمیٹی نے تشدد کے متاثرین کو معلومات دینے کی دعوت دی اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف مقامات پر متاثرہ گواہوں سے  بیانات اور دستاویزات حاصل کئے اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کا موقع پر سروے کیا۔ کمیٹی اور دہلی اقلیتی کمیشن دونوں نے دہلی پولیس سے ایف آئی آرز کی  کاپیاں اور گرفتاریوں وغیرہ کے بارے میں معلومات طلب کیں لیکن پولیس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مجموعی صورتحال پر غور کرتے ہوئے  کمیشن نے کمیٹی کی میعاد30 جون 2020 تک بڑھا دی۔
کمیٹی نے 27 جون 2020 کو اپنی 130 صفحات  پر مشتمل رپورٹ کمیشن کو پیش کردی۔ کمیشن نے رپورٹ پر غور کیا اور اسے قبول کرلیا۔ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ  لیفٹیننٹ گورنر دہلی اور وزیر اعلی دہلی  کو مزید کارروائی کی درخواست کے ساتھ تین روز قبل پیش کر دی ہے۔ دہلی کے تمام وزراء اور اسپیکر دہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اس رپورٹ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے۔
 دونوں مطالعات کو اس امید کے ساتھ دہلی حکومت کو  پیش کیا گیا ہے کہ ان مطالعوں کی سفارشات کو  دونوں پچھڑے ہوئے طبقات کی ترقی کے لئے  رو بہ عمل  لایا  جائے گا۔
تیسری رپورٹ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہے جسے دہلی اقلیتی کمیشن نے فروری 2020  کے اواخر میں دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں بھڑکنے والے فسادات کی تحقیقات کے لئے گذشتہ 9 مارچ کو مقرر کیا تھا۔ 130 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ تشدد کی بنیاد،  وجوہات، مذہبی مقامات سمیت املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا ایک مکمل جائزہ ہے۔
چوتھی اشاعت دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال2020-2019  ہے جو دہلی اقلیتی کمیشن کی موجودہ ٹیم کے عہدے کا تیسرا اور آخری سال ہے جو 19 جولائی کو ختم ہوجائے گا۔ یہ قانونی تقاضا ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن  ہر سال اپنی سالانہ رپورٹ سفارشات کے ساتھ دہلی حکومت کو پیش کرے جس پر حکومت غور کرے گی اور بعد میں کمیشن کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کی گئی رپورٹ کے ساتھ  حکومت اسے دہلی قانون ساز اسمبلی میں پیش کرے گی۔ 250 صفحات پر مشتمل یہ سالانہ رپورٹ کمیشن کے کام پچھلے سال کے دوران کمیشن کے کام کا ایک خلاصہ پیش کرتی ہے۔ اس میں قومی دارالحکومت کے علاقے میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کی ایک جھلک ملتی ہے۔
یہ چار رپورٹیں یہ ہیں:
1.     شمال مشرقی علاقوں میں مسلم خواتین کے بارے میں رپورٹ۔
2.      سکھ فسادات کے متاثرین کی موجودہ صورت حال سے سے متعلق رپورٹ؛
3.     شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے  فسادات  کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ اور
4.      دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2019-2020
پہلی رپورٹ شمال مشرقی ضلع  میں مسلمان خواتین کے سماجی وتعلیمی حالات کے بار ے میں ہے۔اقلیتی کمیشن  کے لئے یہ مطالعہ ڈیولپمنٹ اورینٹڈ آپریشنز ریسرچ سروینے تیار کیا ہے۔ اس مطالعے کا فیلڈ ورک پچھلے فروری میں اس علاقے میں ہونے والے فسادات سے قبل مکمل ہوگیا تھا۔ یہ رپورٹ یہاں آن لائن ہے:
https://archive.org/details/dmc-northeast-delhi-women-status-2020
دوسرا مطالعہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں بچ جانے والوں کی سماجی و اقتصادی اور تعلیمی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس کو ہیومن ڈویلپمنٹ سوسائٹی نے اقلیتی کمیشن کے لئے تیار کیا ہے۔یہ رپورٹ یہاں آن لائن ہے:
https://archive.org/details/DMC-sikh-status-report-1984-riot
دونوں مطالعات کو اس امید کے ساتھ دہلی حکومت کو  پیش کیا گیا ہے کہ ان مطالعوں کی سفارشات کو دونوں پچھڑے ہوئے طبقات کی ترقی کے لئے رو بہ عمل  لایا  جائے گا۔
تیسری رپورٹ اس تحقیقاتی کمیٹی  کی رپورٹ ہے جسے دہلی اقلیتی کمیشن نے فروری 2020  کے اواخر میں دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں بھڑکنے والے  فسادات کی تحقیقات کے لئے گذشتہ  ۹ مارچ کو مقرر کیا تھا۔ 130 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ تشدد کی بنیاد،  وجوہات، مذہبی مقامات سمیت املاک کو پہنچنے والے نقصانات  کا ایک مکمل جائزہ ہے(ذیل میں تفصیلات ملاحظہ کریں)۔
چوتھی اشاعت دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۲۰۱۹۔ ۲۰۲۰  ہے جو دہلی اقلیتی کمیشن کی موجودہ ٹیم کے عہدے کا تیسرا اور آخری سال ہے جو 19 جولائی کو ختم ہوجائے گا۔ یہ قانونی تقاضا ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن  ہر سال  اپنی سالانہ رپورٹ سفارشات کے ساتھ دہلی حکومت کو پیش کرے جس پر حکومت غور کرے گی اور بعد میں کمیشن کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کی گئی رپورٹ کے ساتھ  حکومت اسے دہلی قانون ساز اسمبلی میں پیش کرے گی۔ 250 صفحات پر مشتمل یہ سالانہ رپورٹ کمیشن کے کام پچھلے سال کے دوران کمیشن کے کام کا ایک خلاصہ پیش کرتی ہے۔ اس میں قومی دارالحکومت کے علاقے میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کی ایک جھلک  ملتی ہے۔یہ رپورٹ یہاں آن لائن ہے: https://archive.org/details/dmc-annual-report-2019-20_202007
رپورٹ کی کاپی یہاں آن لائن بھی دستیاب ہے:
https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-fact-finding-2020
رپورٹ کے اہم نتائج اور سفارشات درج ذیل ہیں:
دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران  بی جے پی قائدین نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لئے متعدد تقاریر کیں۔ رپورٹ میں ان تقاریر کی تفصیلات ریکارڈ کی گئیں ہیں۔
 23 فروری 2020 کو موج پور میں شری کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فورا بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس تقریر میں انہوں نے شمال مشرقی دہلی کے جعفر آباد علاقے  میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔
سفارشات:
1. حکومت کو خصوصی تشکیل کے ذریعے ایک پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہوگی، اور اس میں 1) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج، 2) ایک سینئر ایڈوکیٹ، 3) ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار، جو ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے سے کم نہ ہو اور جس نے دہلی پولیس میں خدمات انجام  نہ دی ہوں، اور 4)  اچھی شہرت رکھنے والے ایک سول سوسائٹی کا رکن بطور ممبر ہوں گے۔ سربراہ اور ممبروں کے انتخاب میں  امیدواروں کی مناسبیت کا اندازہ مندرجہ ذیل معیارات کے مطابق کیا جانا چاہئے: (i) ذاتی  دیانتداری کا عمدہ ریکارڈ، (ii) انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے ثابت عزمی، اور (iii) قانون اور اس سے متعلق کاروائیوں کا علم.
2 کمیٹی کا مینڈیٹ کثیرالجہتی ہونا چاہئے اور اس میں یہ باتیں  شامل ہونی چاہئیں:
(i) تمام متعلقہ معاملات میں ایف آئی آر کی مناسب اور فوری رجسٹریشن کو یقینی بنائے جہاں شکایات کو ابھی تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔
(ii) تعزیرات ہند  کے سیکشن 164 کے تحت متاثرین کے بیانات کی ریکارڈنگ کو یقینی بنائے؛
(iii) دہلی گواہ پروٹیکشن اسکیم کے مطابق گواہ اورمتاثرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
(iv) پولیس کے ذریعے دائرکردہ چارج شیٹوں  کی روشنی میں ان کیسوں کا جائزہ لے جن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
(v) دہلی پولیس کے ذریعہ تشدد  ہونے دینے یا اپنی  ڈیوٹی سے دستبرداری کی تحقیقات، جس میں کمانڈ کی ذمہ داری بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی ساتھ تشدد کی براہ راست کارروائیوں میں ملوث ہونے اور  جنسی تشدد  کی تحقیقات بھی شامل ہے۔ یہ شواہد رپورٹ، تصویروں، ویڈیوز اور دوسری دستاویزات کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جائیں۔
(vi) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاوضہ تمام متاثرین کو منصفانہ اور وقتی طور پر ادا کیا جائے۔
(vii) ہنگاموں سے متاثر افراد کے لئے دہلی حکومت کی امدادی اسکیم کا جائزہ لیا جائے  تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا ہر زمرے  کے تحت معاوضے کی رقم نقصان، چوٹ اور نقصان کی مقدار کے متناسب ہے اور اگر  ضرورت ہو تو امدادی اسکیم  کا نیا خاکہ تحریری طور سے حکومت کو پیش کیا جائے۔
  (3)کلیمز  کمشنر کی مدد کے لئے ۲۔ ۳  ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو شاکی افراد  کو مدد دلانے میں کمشنر کی مدد کرے۔
(4)متاثرہ افراد کو قانونی خدمات کی فراہمی کے لئے دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ساتھ مل کر، فوجداری قانون کے عمل میں قابلیت رکھنے والے  5-10 تجربہ کار ٹرائل کورٹ کے وکیلوں کی ایک ٹیم تشکیل دے۔ ٹیم میں صنفی توازن کو یقینی بنایا جائے  اور یہ بھی  یقینی بنایا جائے کہ  عوام  اور / یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف جنسی تشدد کی شکایات درج کرنے سمیت خواتین اور بچوں کے متاثرین کی مدد کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نشانہ بننے والی خواتین کومؤثر قانونی نمائندگی کا یقین دلایا جائے نیز  جنسی تشدد کے مقدمات کی پیروی کرنے والوں کو ان کی پسند کے وکیل کی شمولیت کے لئے قانونی مدد دی جائے۔
(5) سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور نعروں کے شمالی مشرقی ضلع میں بھڑکنے والیتشدد سے براہ راست اور قریبی  تعلق کے بارے میں ہائیکورٹ کی مدد کے لئے کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے قانونی رائے حاصل کی جائے۔
(6) اس امر کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں کہ کسی بھی شخص نے جس نے کسی گروہ کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا ہو اس کو  ان معاملات میں سرکاری وکیل کے عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے۔
(7) سرکاری وکیلوں کے منصفانہ، غیر جانبدارانہ انداز میں اور انصاف کے مفاد میں کام کرنے کو یقینی بنانے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں۔
(8) موجودہ تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کو بطور بنیاد استعمال کرکے مذہبی عبادت گاہوں،مدرسوں ، قبرستانوں اور مزارات کو ہونے والے نقصانات کی قیمت کا تعین  کیا جائے اور ان کا معاوضہ دیا جائے۔
مکمل رپورٹ یہاں آن لائن ہے: 
https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-fact-finding-202

Comments