اتراکھنڈ کی جیلوں میں قیدی جانوروں سے بھی بدتر حالت میں



عابد انور

اتراکھنڈ اس وقت جوشی مٹھ کے زمین دوز ہوجانے کے خطرہ کے سبب سرخیوں میں ہے۔ اتراکھنڈ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران پے درپے خطرات، آفات، سیلاب، لینڈ سلائڈ، مٹی کے تودے گرنے اور کیچڑ کے سیلاب سے دوچار رہا ہے۔ اسے دیو بھومی کہا جاتا ہے لیکن جو صورت حال ہے اور جس طرح وہاں قدرت کے ساتھ کھیلواڑ کیا گیا ہے اور خاص طور پر گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران وسیع پیمانے پر اور ترقیات کے نام پر قدرت کے مذاق کیا گیا ہے یہ بہت جلد آفات کی سرزمین کا نام لے لے گا۔ 

جوشی مٹھ الکنندا اور دھولی گنگا کے سنگم کے بائیں پہاڑی ڈھلوان پر واقع ہے۔ اس سنگم کو وشنو پریاگ کہتے ہیں۔ الکنندا، بدری ناتھ کے اوپر سے آتی ہے، وشنوپریاگ میں جھیل میں جا کر سیدھا جا پہنچتی ہے۔ دھولی گنگا یہاں صحیح زاویہ سے ملتی ہے۔ دھولی گنگا کی طرف جاتے ہوئے، تقریباً 15 کلومیٹر اوپر این ٹی پی سی کا تپوون وشنوگڑ ہائیڈرو پروجیکٹ ہے۔ فروری 2021 میں یہ پورا منصوبہ گلیشیئر کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب میں تباہ ہو گیا تھا۔ اس پروجیکٹ سائٹ کے قریب ایک سرنگ بنائی جا رہی ہے، جو اسے الکنندہ سے جوڑنے کے لیے جاری ہے۔ ڈیم کے پانی کو متبادل راستہ دینے کے لیے ایسی سرنگیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ آدھی بنی سرنگ سب کے نشانے پر ہے۔ مقامی لوگوں سے لے کر جوشی مٹھ کو بچانے کی مہم میں لگے ہوئے لوگ اس سرنگ کو کوس رہے ہیں۔ لوگوں کا غصہ حکومت سے زیادہ اس ٹنل اور این ٹی پی سی پر نظر آرہا ہے۔ این ٹی پی سی کی اس سرنگ کا ذکر ہر کسی کے ہونٹوں پر صرف ایک بار آتا ہے۔جوشی مٹھ کا پورا علاقہ اپنے آپ میں کافی خوبصورت ہے۔ یہاں کے میدانی علاقے، پہاڑوں سے بہتی ہوئی الکنندا دلکش ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کے لیے یہ کسی جنت سے کم نہیں لیکن نئے سال پر کسی کی نظر اس پر پڑی۔ 2 جنوری سے اب تک کچھ ایسا ہو رہا ہے جس پر مقامی لوگ یقین نہیں کر پا ئیں۔ سڑکیں اور مکانات پھٹنے لگے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ برسوں سے یہاں رہنے والے خاندان کہاں جائیں؟ وہ اپنی یادوں کے ساتھ بھاگنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے وہ گرودوارہ اور اسکول میں پناہ لے رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حکومت اور انتظامیہ سے مسلسل مدد کی درخواست کی جا رہی ہے۔ لیکن اس ناگہانی آفت کا ذمہ دار کون ہے؟ ٹنل اور این ٹی پی سی کو لے کر لوگوں میں حکومت سے زیادہ غصہ ہے۔ این ٹی پی سی کی اس سرنگ کا ذکر ہر ایک کی زبان پر ایک بار آتا ہے۔اس سرنگ میں، ایک ٹی بی ایم  (ٹنل بورنگ مشین، میٹرو کی ٹنل کھودنے والی مشین سے بڑی) دلدل میں پھنس گئی ہے۔ یہ مشین این ٹی پی سی کے لیے گلے کی ہڈی کی طرح بن گئی ہے۔ اسے نگلا نہیں جا رہا، نہ تھوکاجا رہا ہے۔ ایک دیہاتی جو کبھی اس سرنگ میں گاڑی چلاتا تھا نے بتایا کہ اس مشین کو ہٹانے کے لیے سرنگ کے اندر غلط طریقے سے بڑے دھماکے کیے گئے۔ جوشی مٹھ میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کی وجہ سے اس سرنگ کا  اس علاقے کی پوری زمین پھٹ چکی ہے۔ سڑکوں پر ایسی دراڑیں پڑ گئی ہیں جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ اس پورے علاقے میں مختلف مقامات پر پڑی شگافوں سے خوف وہراس پھیل رہا ہے۔ جوشی مٹھ جو پہلے بہت خوبصورت لگتا تھا، اب ہر وقت ایک خوف تیرتا رہتا ہے۔ لوگوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ آئے روز یہ شگاف یا تو چوڑے ہوتے ہیں یا پھر کسی نہ کسی گھر میں نئی شگاف نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ جوشی مٹھ کی زمین کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔

یہ آفت قدرتی نہیں بلکہ انسانوں کی لائی ہوئی ہے۔ جب پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے میں حکومت شامل ہو، عدالت کوئی کاروائی نہ کر رہی ہو، پولیس اور انتظامیہ نفرت کے تاجروں کے شانہ بشانہ چل رہی ہو، ہندوتوا کے دوش پر سوار ہندوراشٹر کے خواب میں حقیقت میں تبدیل کرنے میں دن رات کوشاں حکومت اتراکھنڈکی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے چار دھام پروجیکٹ اور دیگر پروجیکٹ کے لئے اتراکھنڈ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ وہاں سب سے بڑا انسانی المیہ پیش آنے والا ہے لیکن وہاں کی حکومت نیقیدیوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں پہنچادیا ہے۔ اترا کھنڈ میں جیلوں کی حالت انتہائی خوفناک ہے اور ان میں بند قیدیوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھا جارہا ہے۔ ایک بیرک میں ایک، دو اور تین نہیں بلکہ 180 قیدیوں کو ٹھونسا گیا ہے۔یہ چونکانے والا جیل انسپکٹر جنرل (آئی جی) دیپک جیوتی گھلڈیال کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ آئی جی جیل کی جانب سے آج چیف جسٹس آر ایس چوہان کی قیادت والی بینچ میں جیلوں کی بدترین حالت کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی گئی۔ عدالت نے گزشتہ 17 نومبر کو آئی جی جیل کو ہدایت دی تھی کہ وہ ریاست کی تمام 13 جیلوں کا شخصی طورپر دورہ کرکے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔عدالت کے سامنے ابھی تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ریاست کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ بھیڑ ہے اور قیدیوں کو گنجائش سے دوگنی تین گنی تعداد میں ٹھونس کر رکھا جارہا ہے۔ لیکن آج جو حقیقت سامنے آئی ہے اس سے سبھی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔آئی جی کی جانب سے پیش رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہری دوار جیل میں 817 قیدیوں کے برخلاف 1400 قیدیوں کو رکھا جارہا ہے۔ ان میں سے 1335 مرد قیدی جب کہ 65 خاتون قیدی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہری دوار جیل میں صرف 13 مرد بیرک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک بیرک میں 58 قیدی رہنے پر مجبور ہیں۔اسی طرح ایک خاتون بیرک ہے اور اس میں 65 خاتون قیدیوں کو ٹھونس دیا گیا ہے۔ 



عدالت نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کو جانوروں سے بھی بد تر حالت میں رکھا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم و بیش یہی حالت روڑکی ذیلی جیل کی ہے۔ روڑکی جیل میں 244 کی گنجائش کے برخلاف 625 قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ ان میں 607 مرد اور 18 خواتین ہیں۔ جیل میں صرف 8 مرد بیرک موجود ہیں  اور ہر ایک بیرک میں 75 قیدیوں کو ٹھونس دیا گیا ہے۔عدالت کے سامنے یہ بھی بات سامنے آئی کہ جیل میں بند قیدیوں کے لیے ایک بھی بیڈ (چارپائی) موجود نہیں ہے اور سبھی قیدی فرش پر ہی سونے پر مجبور ہیں۔ جیل میں 625 قیدیوں کے لیے صرف دو بیت الخلا ہیں۔ دیواریں خستہ حالت میں ہیں۔ جیل میں باورچی خانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے مجبوراًٹین کے شیڈ میں لکڑی  سے کھانا تیار کیا جاتا ہے۔کم وبیش یہی حالت راجدھانی دہرادون جیل کی بھی ہے۔ یہاں بھی 580 کی گنجائش کے برخلاف 1491 قیدیوں کو رکھا جارہا ہے۔ یہاں بھی 26 بیرک موجود ہیں اور ہر ایک بیرک میں 54 قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی دیواروں کی حالت خستہ ہے۔ستار گنج سینٹرل جیل میں بھی 552 کے برخلاف 621 قیدی رکھے جارہے ہیں۔ یہاں 26 بیرکوں میں 621 رہنے پر مجبور ہیں۔ تقریباً یہی صورت حال ضلع جیل نینی تال اور ذیلی جیل ہلدوانی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلدوانی جیل میں 535 کی جگہ 1713 قیدی قید ہیں۔ یہاں بھی صرف 9 بیرک موجود ہیں اور ایک بیرک میں 180 قیدیوں کو ٹھونسا گیا ہے۔عدالت نے اس پر  انتہائی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ واقعی قیدیوں کوجانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھا جارہا ہے۔ عدالت نے کہاکہ یہاں آسانی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ قیدیوں کے لیے جیلوں میں رہنا تو دور سانس لینا بھی کتنا دشوار ہوگا۔ باورچی خانے کی حالت یہاں بھی قابل رحم ہے اور فرش پر روٹی بنائی جارہی ہے۔ بیت الخلا کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔عدالت نے داخلہ سکریٹری اور آئی جی جیل سے چند سخت سوالات کیے لیکن ان کے پاس اس کاکوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت نے کہا کہ کیا وہ خود یا اپنے بچوں کو 24 گھنٹے بھی یہاں رکھ سکتے ہیں۔ یہاں بھی 90 خاتون قیدیوں کو محض دو بیرکوں میں رکھا گیا ہے۔نینی تال جیل میں 71 کے برخلاف174 قیدی موجود ہیں۔ یہاں بھی قیدیوں کے لیے بیڈ کا انتظام نہیں ہے۔ شدید ٹھنڈ کے موسم میں بھی سبھی قیدیوں کو مجبوراً فرش پر سونا پڑتا ہے۔ الموڑا ضلع میں بھی 102 کے برخلاف 325 قیدی قید ہیں اور یہاں بھی سبھی قیدیوں کو 6 بیرکوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔چمولی جیل میں بھی 114 قیدی ہیں اور یہاں بھی صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔ پوڑی میں 185 قیدی ہیں۔ یہاں پانچ بیرک ہیں۔ یہاں بھی قیدیوں کے لیے ایک بھی بیڈ دستیاب نہیں ہے۔ رپورٹ میں لوہا گھاٹ عدالتی جیل کی حالت بھی انتہائی بدتر بتائی گئی ہے۔عدالت کے علم میں یہ بات آئی کہ ضلع جیل 1872 ء میں معرض وجود میں آئی تھی۔ جیل کی عمارت خستہ حالت میں ہے۔ لیکن 1149 برس پرانی جیل کی مرمت کے لیے بجٹ کا فقدان ہے۔جیلوں کی مرمت کے لیے حال ہی میں ایک کروڑ روپے حکومت نے منظور کیے ہیں۔عدالت نے کہا کہ قیدیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوسناک بات تو یہ ہے کہ قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیا جارہا ہے۔ عدالت نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ پتھورا گڑھ میں گزشتہ 15 برسوں میں جیل کی تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ یہاں 18 قیدی ہیں اور جیل کی بیرونی دیوار کو بنانے میں ہی ابھی تک سات کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔علاوہ ازیں اُدھم سنگھ نگر ضلع میں 48.20 کروڑ کی لاگت سے جیل کی تعمیر کی جارہی ہے۔ پہلے مرحلے میں دو برس میں صرف 480 قیدیوں کے لیے انتظام کیا گیا ہے۔ جب کہ یہاں 2580 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ بقیہ قیدیوں کے لیے کب جیل کی تعمیر ہوگی؟یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ریاست کے بیشتر جیلوں میں قیدیوں کے لیے کوئی مستقل طبی سہولت کا انتظام نہیں ہے۔ محض چند جیلوں میں ہی عارضی طبی سہولت  دستیاب ہے۔ اس پر بھی عدالت نے ناگواری کا اظہار کیا۔

جوشی مٹھ کے سلسلے میں پوری حکومت، میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر شعبوں میں افراتفری کا ماحول ہے اور اسے سب سے زیادہ بڑا انسانی المیہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن ہلدوانی کے معاملے میں ان کو کوئی انسانی المیہ دکھائی نہیں دیا۔ جوشی مٹھ کاا لمیہ قدرتی سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے لیکن ہلدوانی کا المیہمسلم دشمنی کا نتیجہ ہے۔ یہی نہیں آسام میں جگہ جگہ مسلمانوں کو سردی کے سخت ترین موسم اجاڑاجارہا ہے۔ ظلم و جبر کا اس سے بھیانک دور ہندوستان کی تاریخ نے نہیں دیکھا ہوگا۔ انصاف پوری طرح مرچکا ہے، انصاف کرنے والے مرچکے ہیں، ہر جگہ طرف ظلم و استبداد کا بول بالا ہے۔


Comments