عابد انور
دنیا کے زیادہ تر ممالک میں کوئی نہ کوئی دن یوتھ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سوامی ویویکانندکے یوم پیدائش یعنی 12 جنوری کو ہر سال قومی یوتھ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ضابطے کے مطابق 1985 کو بین الاقوامی یو تھ ڈے اعلان کیا گیااور اس کے مطابق ہر سال مختلف ممالک میں 12 اگست کو قومی اور بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ حکومت نے سوامی ویویکانند کی خدمات اور نوجوانوں کے تئیں ان کے لگاؤ کی وجہ سے ایساکیا گیا ہے۔سوامی جی نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ نوجوان کے لئے مفید تر ہے اور ان کی تحریریں آنے والے لمبے وقت تک ہمیں متاثر کرتی رہیں گی اور نوجوانوں کو ایک راستہ دکھائیں گی۔ براہ راست یا بالواسطہ طور پر انہوں نے موجودہ ہندوستان کو متاثر کیا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل سوامی ویویکانند کے افکار و خیالات سے مستفید ہوگی اس لئے ہندوستان میں 1985 سے 12 جنوری کو قومی یوتھ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔سوامی ویویکانند کی پیدائش 12 جنوری 1863 کو ہوئی تھی۔
کسی بھی ملک کے مستقبل کا انحصار ملک کے نوجوانوں پر ہوتا ہے جس ملک میں جتنے تعمیری صلاحیت کے حامل نوجوان ہوں گے وہ ملک اتنی ہی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مختلف سطح پر نوجوانوں کے لئے پروگرام مرتب کرتی ہے اور اس کو نافذکرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ آج اگر ہندوستان اطلاعاتی تکنالوجی اور اور کمپیوٹر کے میدان میں آًگے ہے تو اس کا سہرا ہندوستان کے سب سے کم عمروزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے سرجاتا ہے جنہوں نے نوجوان ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوستانی نوجوان ملک کا نام روشن کرنے میں پیش پیش ہیں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں نوجوانوں نے اپنی کم عمری میں نصرت و فتح کا جھنڈا بلند نہ کیا ہو۔ہندوستانی سیاست میں جہاں اب تک طویل عمر کے لوگوں کا قبضہ رہا ہے ان کی جگہ اب نوجوان لے رہے ہیں۔ حالات اس حد تک خراب ہیں کہ جس پارٹی میں دیکھیں بزرگ رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد موجودہے۔ ہندوستانی سیاست کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ یہاں سیاست سے ریٹائر ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں سیاست سے رخصت دو ہی صورتوں میں ہوتے ہیں یا تو ان کی موت ہوجاتی ہے یا وہ بستر مرگ پر ہوتے ہیں۔
خوش آئند بات ہے کہ ملک کے نوجوان سیاست سمیت تمام شعبہائے حیات میں آگے آرہے ہیں اور ملک کا کمان سنبھال رہے ہیں۔ پہلے کے بہ نسبت آج ہندوستانی سیاست میں نوجوانوں کی تعداد کچھ بڑھی ہے اور وہ اسے کیریر کے طورپر اپنانے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں راہل گاندھی کا پروگرام ”بھارت کھوج“ یقینا قابل تحسین ہے۔ اس سے ملک کے خواندہ نوجوان سیاست سے وابستہ ہوں گے اور ہندوستانی سیاست میں بوڑھوں کا دبدبہ کم ہوگا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم اور راہل گاندھی کے پرنانا جواہر لال نہرو نے ڈسکوری آف انڈیا لکھی تھی اور ان کے پرناتی راہل گاندھی اپنے پرنانا کی اس کتاب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے سیکورٹی کی پرواہ کئے بغیر نکلتے ہیں اور اس کابھارت کھوج یقینا قابل تعریف قدم ہے اس سے نہ صرف انہیں ہندوستان کو سمجھنے کا موقع ملے گا بلکہ ہندوستان کی غریبی بھی دیکھنے کوملے گی۔ ہندوستان کی تلاش انہیں ایک نئے ہندوستان سے متعارف کرائے گا جہاں شہروں میں خوش حالی، رنگینیاں، شاپنگ مال اور سیرو تفریح اور تعیش کے بے شمار اسباب دستیاب ہیں وہیں دیہات کے لوگوں کو پیٹ بھر نے کے لئے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ کسی بھی ملک کا مستقبل ان کے نوجوانوں کی فکر، سوچ، کردار اور عمل پر منحصر کرتا ہے آج ہندوستان جیسے ملک میں نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے اور دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ یہ صرف ان نوجوانوں کی ذاتی کامیابی نہیں ہے بلکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ لے جانے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب جو صدیوں اپنے منفرد شناخت اور پہچان رکھتی ہے اس میں انہی نوجوانوں کا عمل دخل ہے
حالیہ مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں نوجوانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ آج ملک کی ستر فیصد آبادی کی جو عمر ہے وہ ۵۳ سال سے کم ہے، اس کو دوسرے لفظوں ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں ہندوستان نوجوانوں کا ملک بنتا جارہاہے یعنی نوجوان ہورہا ہے۔ اتر پردیش کے 12 کروڑ ووٹروں میں تقریبا 25 فیصد (چار کروڑ سے زیادہ) 18 سے 30 سال کے درمیان کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے تقریبا 53 لاکھ وہ ووٹر ہیں جو 18 سال کے ہیں اور پہلی بار ووٹنگ کریں گے۔ ۵۳ سال سے کم عمر کی اس آبادی میں سے ۸ء۸۳ فیصد لوگ پندرہ سے ۴۳ سال کے درمیان ہیں اور تقریباً ۰۳۲ میلین آبادی ایسی ہے جو ۰۱ سال سے ۹۱ سال کے درمیان ہیں۔ اس طرح سے آج کے ہندوستان کا ہردوسرا شخص نوجوان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۰۲۰۲ تک ہندوستانی نوجوانوں کی اوسط عمر ۹۲ سال ہوگی۔ جب کہ چین اور امریکہ میں ۷۳، یوروپ میں ۵۴ اور جاپان میں ۸۴ ہوگی۔نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اس کا صحیح طریقے سے استعمال کریں۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کریں اور اتنی بڑی افرادی قوت کا ہم اگر صحیح جگہ استعمال کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔ اس کے برخلاف اگر ہم نے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا تو یہ ہمارے لئے ایک بوجھ بھی بن سکتا ہے۔
لیکن آئینے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگلے دہائی تک اگر نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت نہ کی گئی تو تابناک مستقبل کی بجائے ناکامی کے تاریک دل دل میں پہنچ جائے گی۔ آج ہندوستانی سماج میں نوجوانوں کے مسائل اور مفادات پر شاید ہی کوئی مستحکم اور مثبت قدم اٹھایاگیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کی ایک لمبی فوج کھڑی ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ۰۰۰۲ سے ۵۰۰۲ تک تعلیم یافتہ باروزگار نوجوانوں کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے۔ اس دوران سکینڈری اسکول سے ڈگری تک چھ سے سات فیصد نوجوان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں کی تعداد حالات اور بھی خستہ ہے۔ دیہی خواتین گریجویٹ کی تعداد میں ۴۳ فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ شہری علاقے میں ہائی اسکول سے گریجویشن تک ۰۲ فیصد یا اس سے زیادہ۔ آج کل کال سنٹروں، بی پی او، کے پی او وغیرہ کا کافی شہرہ ہے لیکن اس کے اندر جھانک کر دیکھیں تو صورت حال مختلف نظر آئے گی۔ اس میں نوجوانوں کا ایک خاص طبقہ ہی نظر آتا ہے۔ دنیا میں اس وقت نوجوان کی تعداد آبادی کے لحاظ ہے نصف ہے۔ یعنی تقریباً تین بلین۔ اس میں پچاس کروڑ نوجواوں کی آمدنی یومیہ صرف دو ڈالر ہے۔ ان میں سے تیس کروڑ اسی لاکھ نوجوان وہ ہیں جن کی آمدنی صرف ایک ڈالر یومیہ ہے۔ ۰۰۵ میلین میں سے ۰۷ فیصد نوجوان کی تعداد ایشیا میں رہتے ہیں۔جو لوگ ملازمت میں ہیں ان کے بھی مسائل بہت اہم ہیں جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ ان میں سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں ان کے کام کے حساب سے اجرت نہیں ملتی۔ ان،میں بہت سے نوجوان وہ ہیں جو اپنی صلاحیت اور قابلیت سے نچلے درجے میں کام کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں صلاحیت کے مطابق کام نہیں مل پاتا۔ اس سے ان کے اندر احساس محرومی اور کمتری پیدا ہوتی ہے جو ان کی شخصیت کے نشو و نما میں منفی رول ادا کرتا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو ملک کی پالیسی سازی اور ملک کے مستقبل کے لئے فیصلہ کرنے میں ان کو جمہوری انداز میں شامل کیا جائے۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی فلاح بہبود میں ترو تازہ دماغ کا اہم رول ہوگا۔ ملک ترقی کے نئے منازل طے کرے گااور ساتھ ہی ساتھ ان نوجوانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ ملک کی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہوں گے۔
ہر دور میں نئی نسلوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے خاص کر ٗ۱۲ ویں صدی میں نوجوانوں کا رول کئی معنوں میں اہم ہے۔ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعدادنے اپنی محنت و مشقت کے بل پر کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جنہوں نے نام اور شہرت بھی حاصل کی ہے اور دولت بھی اور وہ اپنے میدان میں مسلسل کامیابی و کامرانی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ جیسے کہ کھیل میں نارائن کیتری کین اور ثانیہ مرزا، کونیرو ہمپی، مہندر سنگھ دھونی، عرفان پٹھان وغیرہ، ابھینو بندرا، راجیہ وردھن راٹھور، سچن تندولکر، انل کمبلے وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
ہندوستان کے ہونہار نوجوان جو ملک اور بیرون ملک ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور اس کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں، ان میں چند کے نام یہ ہیں۔ نیوز ویک کے ایڈیٹر فرید زکریا، امریکہ کے ریاستی گورنربابی، اندرا نوئی، کلپنا چاولہ، سنیتا ولیم، اروندھتی رائے، راجدیپ سردیسائی، برکھادت، دیبانگ گاندھی، جینتو کمار تاپدار میڈیکل انونشن، انوراگ ٹنڈن میڈیکل انونشن، کوشی ایپن میڈیکل انونشن، سنیل گپتا اکیڈمک لیڈر شپ، پردیپ کمار اکیڈمک لیڈر شپ، کری ویپپا رابعہ انسانی حقوق، ششانک گوئل انوارمنٹل لیڈر شپ،اراجاوا شرما سائنس و تکنالوجی وغیرہ شامل ہیں۔ نینو تکنالوجی کے میدان میں سبیر بھاٹیہ نمایاں نام ہے۔ سب سے بڑی بات جو ہندوستانیوں کے قابل فخر ہے وہ ہے چننئی کا ویشےٓ آنندس جنہوں نے ۶۱ سال کی عمر میں سافٹ ویئر انجینئر بن کر ایک مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح فیشن کے میدان،میں سریلی گوئل، قانون میں مانالی سنگھل، میڈیا سونیا ورما مینکا دوشی، سماجی خدمات میں مکتی دتہ بینک میں مادھوری پوری پوچ نمایاں ہیں۔اس سے ملک کے نوجوانوں کو یہ پیغام ضرور پہنچے گا کہ,,ہندوستان کی تشکیل نو میں“ ان کے کردار کی کیا اہمیت ہے اور وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس کی امید کرنی چاہیے۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں نوجوانوں کی جتنی تعداد ہے، اتنی اور کہیں نہیں ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ایک مثبت پہلو یہاں کے نوجوانوں کا اخلاقی معیار کا بلند ہونا ہے۔ مغربی ممالک میں نوجوانوں کے بگڑنے کافی خدشہ رہتا ہے، اس کی مقابلے میں ہندوستان میں ایسے ہونے کا اندیشہ بہت کم ہوتا ہے۔اتنے سارے مثبت پہلوؤں کے باوجود اگر نوجوانوں میں اگر نوجوانوں میں منفی سوچ پیدا ہورہی ہے، تو اسے دور کرنے کے لئے سماج میں ہر سطح پر کوشش کی ضرورت ہے۔ سماج کا نوجوان طبقہ شہروں کے نوجوانوں کی طاقت ہے، جو پرائیویٹ سیکٹر میں مسلسل کامیابی کے نئے زاویوں چھو ر ہے ہیں، وہیں دوسرا پہلو ہم تشدد واقعات کے طور پر روزانہ ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔ نوجوانوں کی اس منفی طاقت کو تعمیری اور مثبت سوچ کی طرف موڑنا سماج اور حکومت کا معاشرتی ذمہ داری ہونا چاہئے۔ حکومت ہند نے نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں روزگار سے مربوط کرنے کے لئے 10 ویں سالہ منصوبے کے آخری سال 2006-07 کے دوران منصوبہ بندی میں تبدیلی کی گئی تھی اور یہ محسوس کیا گیا تھا کہ منصوبے کو نفاذ، اثرات اور نتائج کے تناظر میں اور زیادہ مثبت بنانے کے لئے اسے دوبارہ وضع کئے جانے کی ضرورت ہے۔ 11 ویں سالہ منصوبے کے تناظر میں منصوبے کو تیار کرنے کے لئے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے تشکیل کردہ ورکنگ گروپ نے منصوبہ کا جائزہ لیا تھا۔ورکنگ گروپ نے سفارش کی ہے کہ دوبارہ وضع کردہ اسکیم میں پیدا ہونے والی ضرورتوں اور ترجیحات پر زیادہ دھیان دیا جانا چاہئے اور ساتھ ہی عملی تنظیمی صلاحیت، پروگرام اور تربیت کے طریقوں پر بھی توجہ دی جانا چاہئے۔
ہندوستان میں ہر منصوبہ اس لئے ناکام ہوجاتا ہے کہ منصوبہ سازی میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی نظر صرف اردگرد اور موجودہ حالات اور ڈیمانڈ پرہوتی ہے لیکن اگر اس میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے گا تو دوررس اثرات کے حامل منصوبہ بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ نوجوانوں نے ہندوستان میں اپنی طاقت دکھادی ہے۔ یہ بتادیا ہے کہ اگر انہیں نظر کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو کسی بھی حکومت کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے انا تحریک کے دوران بھی کیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف دیگر فرقے کے نوجوانوں کو تمام مواقع اور سہولتیں پیش کی جارہی ہیں وہیں مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو خصوصا وہ نوجوان آئی ٹی سیکٹر یا انجنئرنگ میں ہیں انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔گجرات قتل عام کے بعد جب پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی تھی اس کے بعد حکومت میں بیٹھے بعض وزراء اور اعلی خفیہ افسران نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ وہ راستہ جس میں بدنامی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ امریکہ کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے میں ہندوستان میں بھی بڑے پیمانے پر مسلم نوجوان کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کا بھرپور ساتھ ہندوستان کا ہندوتوا میڈیا نے،۔ اس بار اس کا نشانہ وہ ان نوجوانوں کی طرف سے آئی ٹی سیکٹر یا پروفیشنل سیکٹر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے یا اس سے فارغ تھے یا اس میں ملازمت کر رہے تھے۔ ان دس سالوں میں گرفتار شدگان مسلم نوجوانوں کی تعدادکو دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی۔اسی کے ساتھ مدارس کے فارغین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہاں بھی ہدف نوجوان طبقہ ہی تھا۔خفیہ ایجنسی مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کرنے لئے مختلف بہانے تراش رہے ہیں اورجس کو اور جب بھی چاہتی ہے اٹھالیتی ہے۔حیدرآباد کے مکہ مسجد بم دھماکے کے بے قصور نوجوانوں کی رہائی کے باوجود بھی اس ایجنسی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اگر مسلم نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوگا تو ہندوستان کا بھی ہوگا کیوں کہ یہ نوجوان ہندوستان کا جز لاینفک ہیں۔
Comments
Post a Comment