کیا مسلمان اب بھی کہیں گے کہ بی جے پی آگئی تو کیا ہوگا!

 


عابد انور 

مسلمان بھی کتنے سادہ لوح اور بھولے بھالے ہیں جو کبھی بروقت کسی مسئلے کا ادراک نہیں کرتے، نہ ہی آنے والے مسائل کے بارے میں بتانے والوں کی بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، نہ ہی کسی کے انجام کے بارے میں آگاہ کرنے پر ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’کیا ہوجائے گا‘، ’کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا‘، ’ہماری آبادی اتنی ہے کہ حکومت ہمارے کے خلاف فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے گی‘ اور ’یہ سب وہم ہے‘۔ یہ ساری باتیں اس وقت سے کہی جارہی تھیں جب 2014 کے پارلیمنٹ کے عام انتخابات ہونے والے تھے اور پورا ملک بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے رنگ میں سرابور تھا۔ملک کے اکثریتی طبقہ کو یہ احساس شدت دلایا جارہا تھا کہ ان کا پالن ہار اور کھیون ہار آنے والا تھا جو آتے ہی ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنادے گا، ہر طرف سونے کی برسات ہوگی، سب کی جیب میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے ہوں گے، پوری دنیا کے لوگ ہندوستان کا ویزہ لینے کے لئے لائنوں میں کھڑے نظر آئیں گے، امریکہ ہندوستان کے سامنے گڑگڑائے گا، بھیک مانگے گا کہ ہمارے شہریوں کو ویزہ دے دو، نوکری دے دو، چین حکومت کے سامنے گھٹنے کے بل چل کر معافی مانگنے آئے گا، ڈالر 40روپے ہوگا، پیٹرول 30 روپے لیٹر ملنا شروع ہوجائے گا۔ غرضیکہ ہر طرف بہار ہی بہار ہوگا۔ خوشیاں ہی خوشیاں ہوگی، رشوت، بدعنوانی اور آلودگی نام کی کوئی ملک نہیں ہوگی۔ایک اشارے پر ڈاکٹر علاج کرنے دوڑا چلاآجائے گا، صحت خدمات کا پوری دنیا میں ڈنکا بج جائے گا۔ بھکمری کا نام و نشان نہیں ہوگا اور ہندوستان پوری دنیا کو کھانا کھلائے گا۔کسانوں کو آمدنی دوگنی ہوجائے گی، کھیتی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا اور اتنی آمدنی ہوگی کہ لوگ نوکری چھوڑ کر کھیتی کرنے کے لئے بھاگیں گے۔ اس لئے اکثریتی طبقہ نے اسی طرح مودی اور بی جے پی کا استقبال کیا تھا جس طرح کسی بھگوان کا استقبال کیا جاتا ہوگا۔ اس وقت کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد (یو پی اے)کی حکومت تھی۔ اس حکومت کے خاتمہ کے لئے 2012 سے جال بچھائے جاچکے تھے۔ ایک ایک کردار طے کردئے گئے تھے جس میں سپریم کورٹ کے جج سے لیکر بیوروکریٹ،سادھو سنت، بابا، فلمی ایکٹر، سیاست داں، سماجی کارکن، وکلاء، کارپوریٹ دنیا کے لوگ اور تمام شعبہ حیات سے وابستہ عیار و مکار،دھوکہ باز، ملک کو لوٹنے والے، ملک کو کھوکھلا کرنے والے اور ملک کی شبیہ کو داغدار کرنے والے زانی، قاتل اور سفاک لوگ ان کی حمایت میں خم ٹھوک کر میدان میں آچکے تھے۔ اس وقت ایسا محسوس کرایا جانے لگا تھا کہ ملک کی تمام بربادی کے لئے کانگریس ہی ذمہ دار ہے لوگوں نے مان بھی لیا تھا۔ بے روزگاری ہے تو کانگریس کی وجہ سے ہے، بدعنوانی کا نام دوسرا کانگریس ہے، کنبہ پروری کانگریس کی شناخت ہے۔ جب کہ آج تک کسی عدالت میں کانگریس پر لگنے والے الزامات ثابت نہیں ہوسکے لیکن الزام لگانے والے اقتدار اعلی سے لیکرآئینی عہدے پر پہنچ گئے۔ مگر ان میں سے کسی کو ذرہ برابر شرم نہیں آئی۔کیوں کہ احسان فراموش قوم کو غیرت اور شرم کہاں آتی ہے۔ احسان کرنے والے، تحفظ فراہم کرنے،مددکرنے والے، سرا ٹھاکر زندگی گزارنے کے لئے حوصلہ دینے والوں کو سب سے پہلے اپنے راستے سے ہٹاتی ہے۔ تصور کریں کہ اگر کانگریس نہ ہوتی ملک کا کیا ہوتا، دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا نیٹ ورک ریلوے نظام نہیں ہوتا۔ سوئی سے لیکر ہوائی جہاز ہندوستان نہیں بنارہا ہوتا۔ خلاء میں کمند نہیں ڈال رہا ہوتا۔اتنی نورتن کمپنیاں نہ ہوتیں، بیشتر معاملات میں خود کفیل نہیں ہوتا۔ 2014 میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد جہاں 28کروڑ تھی اس وقت 80 کروڑ ہے جسے حکومت خصوصی غذائی اسکیم کے تحت کچھ کلو راشن فراہم کر رہی ہے۔ اس کے باوجود اکثریتی طبقہ یہ سمجھتاہے کہ ملک وشو گرو بن چکا ہے۔ منطقی سوچ سے عاری اکثریتی طبقہ پرمودی، یوگی، بی جے پی اور سنگھ پریوار کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ کانگریس اور خاص طور پر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے کئے گئے کام، احسان اور ملک کی تصویر اور تقدیر بدلنے والی حکمت عملی کو یکسر مسترد کررہا ہے اور بیشتر لوگوں کی زبان پر ہے یہی ہے کہ ’انہوں نے کیا کیا ہے‘۔ 

انا، کیجریوال اور دیگر لوگوں کی کانگریس مخالف تحریک میں مسلمانوں خاص طور پر خلیجی ممالک میں رہنے والے مسلما نوں نے دل کھول کر حصہ لیا تھا بلکہ کیجریوال کی دل کھول کر مدد کی تھی۔2013میں ہی نہیں 2020کے دہلی اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر ووٹ دیا تھا۔ کیوں کہ مسلمانوں کی عادت و خصلت ہے  ’ہذا ربی‘۔ اپنے علاوہ ہر قوم میں مسیحا تلاش کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اپنا لیڈر ماننے کیلئے  ان میں صحابہ والی صفت تلاش نہیں کرتے لیکن جیسے ہی کوئی مسلمان لیڈر کے طور پر ابھرتا ہے ان میں صحابہ والی صفت تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں اور نہ ملنے پر ان کے خلاف محاذ آرائی شروع کردیتے ہیں۔ جب کہ کیجریوال، ملائم، اکھلیش، ممتا،  لالو، تیجسوی یا مختلف ریاستوں کے علاقائی پارٹیوں کے رہنماؤں کو ہم اپنا نجات دہندہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی چوں چرا نہیں کرتے۔ یہی حال 2014میں تھی، مسلمان ہر حال میں کانگریس کو سزا دینا چاہتے تھے، (میں کانگریس کا دفاع ہرگز نہیں کررہا ہوں، سیکڑوں مضامین کانگریس کے خلاف لکھے ہیں)انہیں بابری مسجد، ملک گیر فسادات، مسلم نوجوانوں کی دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری اور مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے جرم کے لئے ہر حال میں کانگریس کو تختہ دار پر لٹکانا چاہتے تھے۔ کانگریس اقتدار سے باہر بھی ہوگئی لیکن مسلمانوں کو اس سے کیا فائدہ ہوا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں کسی مسلمان کی نمائندگی نہیں ہے۔ بی جے پی کے تین راجیہ سبھا کے اراکین ہوا کرتے تھے۔ مختار عباس نقوی کے علاوہ دونوں (ڈاکٹر ظفر اسلام اور ایم جے اکبر) کی مدت کار ماہ جولائی میں ختم ہوگئی۔ مختار عباس نقوی کو مرکزی وزارت سے استعفی دینا پڑا کیوں کہ انہیں گزشتہ ماہ ہونے والے راجیہ سبھا کے انتخابات میں کسی ریاست سے منتخب نہیں کیا گیا اور نہ ہی نامزد کیا گیا ہے حالانکہ ان کے ہونے نہ ہونے سے مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ڈاکٹر ظفر اسلام اپنی کامیاب زندگی اور اعلی نوکری چھوڑ کرآئے تھے۔ ایم جے اکبر کاصحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ 2014 سے لیکر اب تک بی جے پی کے وزراء پر درجنوں بار سنگین الزامات لگے، ان کے ویڈیو بھی وائرل ہوئے، بدعنوانی کے الزامات بھی لگے، نقدی بھی برآمد ہوئی لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان سے استعفی لیا گیا لیکن جیسے ہی ایم جے اکبر کے خلاف ’می ٹو‘ مہم میں نام آیا ان سے استعفی لے لیا گیا۔ مودی حکومت سے کسی معاملے میں استعفی دینے والے پہلے وزیر تھے۔ اب رکن پارلیمنٹ بھی نہیں رہے۔

دراصل مودی حکومت اکثریتی طبقہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ دیکھو ہم نے حکومت سے مسلمانوں کا صفایا کردیا۔ اس سے پہلے حکومت نے سسٹم کا بے جا اور ناجائز استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے لئے تمام دروازے بند کئے، مسلمانوں کے لئے ملک کو ایک بند گلی بنادیا۔ ان کے ووٹ کو بے حیثیت کردیا گیاجس میں کچھ مسلمانوں اور مسلم پارٹیوں کا بھی کردار نمایاں رہا ہے۔ جانے انجانے میں بی جے پی کے لئے معاون ثابت ہوئے۔ کانگریس کے دور میں جو کچھ مسلمانوں نے کمایا تھا اسے بی جے پی حکومت چھین رہی ہے۔ صاحب ثروت مسلمانوں کے لئے بنگلے بلڈوزر سے ڈھائے جارہے ہیں۔ اب تک مسلمانوں کی اربوں روپے کی جائداد ضبط کرچکی ہے۔ پہلے اذان اور اب نماز پر پابندی لگادی گئی ہے۔ بابری مسجد عدالت کے ذریعہ چھین لی گئی۔ عبادت ایکٹ کے باوجود متھرا کاشی کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کھلے میں نماز پڑھنے والوں کو جیل بھیجا جارہا ہے جب کہ اکثریتی طبقہ کی بیشتر عبادت گاہیں ناجائز جگہ پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری رپورٹ اور دیگر رپورٹ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جو مسلمان کہہ رہے تھے بی جے پی آئے گی تو کیا ہوگا۔ گزشتہ آٹھ سال میں کیاکیا ہوا وہ سب نظروں کے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا۔ عدالت میں انصاف کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ وہ حکومت کی منشا کے مطابق کام کرتی ہے۔ صدیق کپن، شرجیل امام، عمر خالد، خالد سیفی، سلطان، گلفشاں، فہد، شفاء الرحمان اور درجنوں مسلم نوجوان کو محض احتجاج کرنے کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا جہاں عدالت سے ضمانت تک نہیں مل رہی ہے۔ جب کہ نوپور شرما کے خلاف مقدمات درج ہونے کے باوجود ان کو گرفتار نہیں کیا گیا لیکن ان کے خلاف آواز بلند کرنے پر الٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد رہائی ملی۔ ورنہ ایک میں ضمانت میں ہوتی تو دوسرے اسی طرح کی ایف آئی آر میں گرفتار کرلیا جارہا تھا۔ بی جے پی کے اقتدار آنے کی وجہ سے یہ ہوا ہے کہ انصاف کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جرائم کو غیر معلنہ طور پر مباح قرار دے دیا گیا ہے۔عدالت بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتی۔کبھی کبھی اس کے خلاف تبصرہ کرکے انصاف کرنے کی اپنی ذمہ داری سے بری ہوجاتی ہے۔ بلکہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں نہیں ہوتی تھیں لیکن زیادتی کرنے والوں میں قانون کا خوف بھی ہوتا تھا اور کارروائی بھی ہوتی تھی لیکن اب قانون ہی ان کے ساتھ ہے تو پھر خوف کس بات کا۔ 

اگر مسلمانوں کو اپنے مصائب کم کرنے ہیں تو یکطرفہ طور پر تمام ریاستوں میں (ایک دو ریاست کو چھوڑکر)کانگریس کو ووٹ دینا ہوگا۔ ملک کی تمام علاقائی پارٹیاں خواہ انہیں قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہو، بالواسطہ  یا بلاواسطہ وہ بی جے پی کے لئے زمین تیار کرتی ہیں۔ بی جے پی جتنی ریاست میں اقتدار میں آئی ہیں وہ علاقائی پارٹیوں کے تعاون اور حمایت سے آئی ہے اور آج ان علاقائی پارٹیوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی کو سب کو نگلنے پر آمادہ ہے۔ ان پارٹیوں کا وجود مٹ بھی جائے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کا مقصد ہندو راشٹر کے قیام میں ’یوگدان‘ دینا تھا جو عملاً ہوچکا ہے۔ کانگریس کے زوال سے مسلمانوں کی نمائندگی میں بھی زبردست زوال آیا ہے۔ ہر صوبے میں جہاں کانگریس کی حکومت ہوتی تھی خواہ نام کے ہی سہی مسلم وزیر ہوتے تھے جو کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے اب بیشتر ریاستی وزارتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے۔ سوچنے والی بات ہے ہم کانگریس کو سزا دیتے دیتے خود سزا کی زد میں آگئے ہیں۔ 



Comments