اقوام متحدہ اور 21ممالک کا ہندوستان میں اقلیتوں کی حالت پر تشویش کا اظہار




 عابد انور 

ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا اقتدار کا دورانیہ جوں جوں طویل ہورہاہے، کمزور طبقو، اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے تئیں ان کا رویہ ظالمانہ، متعصبانہ، امتیازات سے پراور رعونت خشونت سے بھرپور ہوتا جارہا ہے اور یہ طبقہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کے وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کھلم کھلا اقلیتوں کے خلاف نفرت اگھلتے ہیں لیکن ان لوگوں کے خلاف نہ حکومت نے، نہ عدالت، نہ پارلیمنٹ نے اور نہ ہی سسٹم نے کوئی کارروائی کی جس کی وجہ سے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھتا چلاگیا۔ گزشتہ سات آٹھ سال سے بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن اور تنظیموں نے آواز اٹھائی لیکن حکومت اسے نظر انداز کرتی رہی اور اسے یکطرفہ قرار دے کر مسترد بھی کرتی رہی۔ اس سے فرقہ پرست عناصر کا حوصلہ بڑھتا رہا۔ پہلے جو کام ڈھکے چھپے کرتے تھے وہ ببانگ دہل کرنے لگے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عدالت جس کا کام نگرانی کرنا اور ہر معاملے میں انصاف کرنا ہوتا ہے وہ بہت حد تک فرقہ پرستوں کے کاز کا حصہ بن چکی ہے۔ کسی کسی معاملے میں عدالت کا تبصرہ تو نظر آتا ہے لیکن وہ تبصرہ کبھی فیصلہ میں تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ اگر عدالت کا تبصرہ فیصلے میں تبدیل ہوتا تو ہندوستان میں اس قدر نفرت کا ماحول عام نہیں ہوتااور نہ ہی عوام کے ذہن نفرت سے آلودہ ہوتے۔ حکومت نے مکمل طور پر شرپسند عناصر کو کھلم کھلا چھوٹ دے دی ہے اور عدالت کا کام ان پر لگام لگانا تھا۔ ہندوستان کے موجودہ حالات، اقلیتوں اور خاص طور پرمسلمانوں کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ، ظالمانہ، حقیرانہ اور کھلم کھلا ناانصافی کے خلاف پوری دنیا میں آواز اٹھ رہی ہے لیکن حکومت پر اس کا کوئی ذرہ برابر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے ٹھان لیا ہے کہ دنیا کچھ بھی کہے وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرے گی اور ان کو ذلیل و خوار کرنے کے طریقے وضع کرتی رہے گی۔ 

اقوام متحدہ نے حقوق کے جائزے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسی کے ساتھ رکن ممالک نے اقلیتوں کے حقوق، آزادی اظہار، پرامن اسمبلی کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔انسانی حقوق کے چھ بین الاقوامی گروپوں نے گزشتہ 21نومبر کو جاری رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ 10 نومبر 2022 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جامع متواتر جائزہ کے عمل کے دوران رکن ممالک کی طرف سے کی گئی سفارشات کو فوری طور پر اپنائے اور ان پر عمل درآمد کرے۔ ان پر عمل کرتے ہیں یہ سفارشات کئی اہم خدشات کا احاطہ کرتی ہیں، بشمول اقلیتی برادریوں اور کمزور گروپوں کا تحفظ، صنفی بنیاد پر تشدد کا مقابلہ کرنا، سول سوسائٹی کی آزادیوں کو برقرار رکھنا، انسانی حقوق کے محافظوں کو تحفظ فراہم کرنا  اور حراستی تشدد کا خاتمہ۔یہ گروپس ہیں: انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس (FIDH)، ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (OMCT)، CSW، انٹرنیشنل دلت یکجہتی نیٹ ورک، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ۔اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک جامع متواتر جائزہ (UPR) کے عمل میں حصہ لیتے ہیں، جس میں ہر ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اس کے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ اس جائزے سے قبل اقوام متحدہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں حکومت ہند نے دعویٰ کیا کہ وہ ''انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے مضبوطی سے پرعزم ہے''۔ تاہم، گزشتہ کئی UPRs کے دوران، ہندوستان نے اہم سفارشات کو نظر انداز کیا ہے، جن میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنا، اپنی سیکورٹی فورسز کی جوابدہی کو یقینی بنانا، اور آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے حق کا تحفظ شامل ہے۔اس متواتر جائزے کے دوران، جو کہ ہندوستان کے لیے چوتھا ہے، 130 رکن ممالک نے 339 سفارشات پیش کیں، جن میں ملک کے انسانی حقوق کے سب سے اہم خدشات کو اجاگر کیا گیا۔2017 میں اپنے آخری جائزے کے بعد سے، وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے تحت ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بری طرح بگڑ گئی ہے۔ حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، طلباء، حکومت کے ناقدین اور پرامن مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی اور ہراساں کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے سخت قوانین کا استعمال کرتے ہوئے آزاد اور جمہوری اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں، امتیازی سلوک اور اشتعال انگیزی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روایتی طور پر پسماندہ دلت اور آدیواسی برادریوں کو انصاف اور مساوی تحفظ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔



کم از کم 21 ممالک نے ہندوستان پر زور دیا کہ وہ مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو بہتر بنائے۔ ان میں سے بہت سے ممالک نے بڑھتے ہوئے تشدد اور نفرت انگیز تقاریر اور حکومت کی طرف سے ''تبدیلی مخالف'' قوانین جیسی امتیازی پالیسیوں کو اپنانے پر تشویش کا اظہار کیا۔انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کئی ایسے قوانین اور اقدامات نافذ کیے ہیں جنہوں نے مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو جائز قرار دیا ہے، اور متشدد ہندو اکثریت پسندی کو تقویت دی ہے۔حکومت نے دسمبر 2019 میں شہریت کا قانون منظور کیا جو پہلی بار مذہب کو شہریت کی بنیاد بنا کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ اگست 2019 میں، حکومت نے واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو دی گئی آئینی خودمختاری کو منسوخ کر دیا اور خطے میں اظہار رائے کی آزادی، پرامن اسمبلی اور دیگر بنیادی حقوق کو سلب کرنا جاری رکھا۔ اکتوبر 2018 سے، ہندوستانی حکومت نے کم از کم 13 روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کو ان کی جانوں اور حفاظت کو لاحق خطرات کے باوجود میانمار واپس بھیجا ہے۔ ہندوستان کی کئی ریاستوں نے گائے کے ذبیحہ مخالف قوانین کا استعمال کرتے ہوئے مسلمان مویشی تاجروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے، جب کہ بی جے پی سے وابستہ گروپوں نے مسلمانوں اور دلتوں پر ان افواہوں پر حملہ کیا ہے کہ گائے کو مارا جاتا ہے یا بیف کے لیے تجارت کی جاتی ہے۔ کم از کم 10 ہندوستانی ریاستوں نے جبری تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن وہ عیسائیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ان قوانین کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ مختلف ریاستیں ان قوانین کا استعمال ہندو خواتین کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمان مردوں کو ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے بھی کرتی ہیں۔ 2022 کے دوران، بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں سرکاری مشینری نے قانونی اجازت کے بغیر یا مناسب عمل کے بعد مسلمانوں کے گھروں اور جائیدادوں کو مسمار کیا۔ یہ فرقہ وارانہ تصادم کے دوران تشدد کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں فوری یا اجتماعی طور پر سزا دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

20 ممالک نے کہا کہ ہندوستان کو اظہار رائے کی آزادی اور اسمبلی کے حق کے تحفظ کو بہتر بنانا چاہئے اور ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس میں سول سوسائٹی گروپس، انسانی حقوق کے محافظ اور میڈیا اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ ان میں سے کچھ ممالک نے کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی اقلیتی برادریوں کے ارکان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (UAPA) کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران، حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متعدد ماہرین نے اس قانون کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے اس پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی ہے اور اسے آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کرنے والے کارکنوں اور دیگر افراد کو حراست میں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کئی ممالک نے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA) کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے، جو کہ NGOs کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرنے والا قانون ہے  اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کرے تاکہ اسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق لایا جا سکے۔ اس پر نظرثانی یا ترمیم کرے۔

اس قانون کے ذریعے، ہندوستانی حکومتی مشینری نے ہزاروں سول سوسائٹی گروپوں، خاص طور پر انسانی حقوق یا کمزور کمیونٹیز کے حقوق پر کام کرنے والے گروپوں کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ اس قانون کو اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکتوبر 2020 میں، اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ ''ایسی این جی اوز کو دھمکانے یا سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو دراصل انسانی حقوق کی رپورٹنگ اور وکالت کرتی ہیں جو ریاستی نظام کے لیے تنقیدی سمجھی جاتی ہیں۔''انیس ممالک نے کہا کہ ہندوستان  اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف کنونشن کی توثیق کرے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر ہندوستان نے 1997 میں دستخط کیے تھے لیکن اس کی کبھی توثیق نہیں ہوئی۔ 2012 اور 2017 دونوں UPR کے دوران، ہندوستان نے کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کی توثیق کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن اس نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے ہیں، جبکہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے معلومات حاصل کرنے یا زبردستی اعتراف جرم کرنے کے لیے تشدد اور دیگر زیادتیوں کا استعمال معمول کے مطابق کیا جاتا ہے۔

برسراقتدار پارٹی کے لیڈران، وزراء اور اہلکار ہر معاملے کو ہندو مسلم رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف ماحول بناتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم میں اضافہ ہورہا ہے۔ہندو  فرقہ پرست طاقتوں نے اپنی فنڈنگ کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کا شکار کرنے کے لئے ہندو نوجوانو.ں کواتار دیا ہے۔ پورے ملک میں یہ مہم چل رہی ہے اور یہ سب حکومت کے علم میں بھی ہوتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب حکومت کے اشارے پر ہوتا ہے۔ کوئی ہندو لڑکی اسلام قبول کرتی ہے یا مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو مسلم لڑکے اور اس کے گھر والوں کے خلاف فوراً ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ اس کے گھر کو بھی منہدم کردیا جاتا ہے جب اس کے برعکس کوئی مسلم لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے یا جبراً کرائی جاتی ہے تو پورا سسٹم اسے تحفظ فراہم کرنے میں لگ جاتا ہے۔ صورت حال اس قدر خراب ہے کہ معمولی الزام میں مسلم نوجوان برسوں میں جیل میں بند ہیں۔ ایک شاہ رخ صرف گولی چلاتا ہے جس سے کوئی زخمی نہیں ہوتا لیکن اسے جیل ہوتی ہے جب کہ ایک ہندو پولیس کے سامنے گولی چلاتا ہے اور اس سے زخمی بھی ہوتا ہے لیکن اسے فوراً ضمانت مل جاتی ہے۔ یہ ہندوستان میں عدالت کا انصاف کا پیمانہ ہے۔


Comments

  1. ہندوستان میں حقوق انسانی کی پامالی اور اقلیتی طبقہ کو چوطرفہ ہراساں کیا جانا، مسلمانوں کے علاوہ یہاں کے سبھی سیکولر اور ذی شعور طبقہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم اقوام متحدہ میں ان مظالم کے خلاف آواز اٹھنا، یقینا خوش آئند اقدامات میں سے ہے۔
    آپ (عابد انور صاحب) نے موضوع پر
    بہت عمدہ‌ مضمون ہم قراء کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ مضمون خود بتا رہا ہے کہ اسے آپ نے بڑی محنت اور لگن سے تیار کیا ہے ۔
    آپ کا مضمون دو ٹوک، بے باک اور کسی بھی لاگ لپیٹ سے بالا تر ہے۔ حقائق، شواھد و دلائل اور معلومات سے بھر پور ہے۔ امید ہے کہ حکمراں ٹو لہ اور محکمۂ انصاف عدل ایسے مضامین دیکھ، اور پڑھ کے خواب غفلت سے بیدار ہو اور ہندوستان کی قابل فخر گنگا جمنی تہذیب کا محافظ بنے۔
    پر امید۔۔۔
    مہربان علی، نئی دہلی

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت بہت شکریہ، انشاء اللہ محنت رنگ لائے گی، اپنا کام کوشش کرنا ہے نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

      Delete

Post a Comment