ملک میں صحیح معنوں میں قانون کا نفاذ ہوجائے تو ہر جگہ بی جے پی کی بھی حکومت گرجائے گی



عابد انور 

مہاراشٹر میں پیش آنے والے سیاسی واقعات سے جمہوریت کی لاشوں سے اب بدبو آنے لگی ہے۔ہندوستان میں جمہوریت صرف ایک طبقہ کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کرنے کا ہی نام ہے۔ مہاراشٹر میں جو کھیل ہوا ہے اور جس طرح ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی کا خوف دکھاکر اسمبلی کے اراکین کو خریدا جارہا ہے وہ ہر جگہ ممکن ہے۔اگر پورے ملک کے اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تو بی جے پی کی بھی کہیں حکومت نہیں رہے گی۔اس کی کھلم کھلا دلیل درج ذیل میں پیش کی جانے والی رپورٹ ہے۔ ملک میں جمہوریت جوں جوں جوان ہورہی ہے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کی شمولیت بڑھ رہی ہے۔ کیوں کہ کئی دہائیوں سے مجرمانہ شبیہ والے افراد کو ہندوستان کے اکثریتی عوام نے نہ صرف سر پر بٹھایا ہے بلکہ اقتدار کی کرسیاں بھی سونپی ہیں۔ ہندوستان کے اکثریتی عوام کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں مذہب کے نام کبھی بھی کہیں بھی ورغلایا جاسکتا ہے۔اکثریتی طبقہ مسلمانوں کو مارنے، ستانے، ذلیل کرنے، تمام سہولتوں سے محروم کرنے، سیاست میں جانے سے روکنے اور اسمبلی سے لیکر پارلیمنٹ تک تمام جمہوری اداروں میں نمائندگی ختم کرنے کے نام پر ہندوتو کے علمبرداروں کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ یہ پہلے کچھ علاقے تک محدود تھا اور پورے ملک میں یہ وبا پھیل چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ  دینے سے کتراتی ہیں اور کوئی بھی مسلمانوں کے حقوق، ان کے مسائل اور ان کی تکلیف کے بارے میں بات کرنے سے ڈرتا ہے کیوں کہ اسے خوف ہوتا ہے کہ اس سے ہندو ناراض ہوجائیں گے۔اس لئے پورے ملک میں اسمبلی سے لیکر پارلیمنٹ تک مسلمانوں کی نمائندگی ختم ہوتی جارہی ہے۔یہ بات صاف طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کی کامیابی سے اکثریتی طبقہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ بسا اوقات ایسے مجرموں سے اکثریتی طبقہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ان کی بہو بیٹیوں کی عزت داؤ پر لگتی ہے، ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے لیکن ان کے لئے سکون کی بات یہی ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچاتاہے یا پہنچانے کا جذبہ رکھتا ہے۔اسی بنیاد پر اس وقت ملک انتخاب ہورہا ہے۔گزشتہ کرناٹک اسمبلی میں یہی بات کہی گئی  تھی اور یہاں تک کہا گیا تھاکہ سلطان کی’جینتی‘ منانے والوں سبق سکھائیں گے۔ گرچہ کانگریس کی سیٹ کم آئی لیکن عوام نے انہیں بی جے پی سے دو فیصد زائد ووٹ دئے۔ یہ ہندوستانی جمہوری نظام اور الیکشن نظام کی ناکامی ہے کہ ایک کم فیصد ووٹ لیکر 34سیٹ زائد لے آیا ہے اور دوسرا دو فیصد زائد ووٹ لیکر بھی 34نشست کم لایا۔  مجرمانہ شبیہ رکھنے والے بی جے پی اراکین اسمبلی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بی جے پی کے  103 ایم ایل ایز کی تحقیقات میں اے ڈی آر کو پتہ چلا ہے کہ41 فیصد یعنی  42 ایم ایل ایز  ایسے ہیں جن کے خلاف فوجداری معاملات درج ہیں۔ اس معاملے میں، کانگریس دوسرے نمبر پر ہے اور جنتا دل (سیکولر) تیسرے نمبرپر ہے۔ کانگریس میں 78 نشستوں میں سے 23 اور  جے ڈی ایس 38 نشستوں میں سے 11 اراکین اسمبلی اس زمرے میں آتے  ہیں۔بی جے پی کے 29، کانگریس کے 17 اورجے ڈی ایس کے  8 قانون سازوں کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملات ہیں۔کانگریس کے 11 جنتا دل ایس کے تین اور بی جے پی اور کے پی جے پی کے ایک ایک اراکین اسمبلی ایسے ہیں جن کے اثاثے 100 کروڑ روپے سے زائد ہیں۔ کانگریس کے ہوسکوٹ سیٹ سے فاتح این ناگ راجو کی مجموعی اثاثہ  1015 کروڑ روپے سے زائد ہے۔پارٹی کے ہی کنک پور سے فاتح ڈی کے شیوکمار  اور ہببل سے جیتنے والے سریش بی ایس ماتھر کی مجموعی اثاثے، 840 کروڑ روپے اور 416 کروڑ روپے ہیں۔



سب سے کم جائیداد بی جے پی کے کرشن راج سے فاتح ایس اے رام داس کی ہے ان کا مجموعی اثاثہ 39 لاکھ روپے ہے۔ جے ڈی ایس شری رنگاپٹنم، سے فاتح  اے ایس رویندر اور بہوجن سماج پارٹی  سماج پارٹی (بی ایس پی)کے کوللے گل کامیاب ہونے والے این مہیش اثاثہ کے معاملے میں بالترتیب  دوسرے  اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کا مجموعی اثاثے  68 اور 75 لاکھ روپے ہیں۔کانگریس کے کنک پور کامیاب ڈی کیشیو کمار پر سب سے زیادہ قرض ہے۔  ان کے اوپر  228 کروڑ روپے سے زاید  قرض ہے، اس میں سے 5 کروڑ روپے سے زائد  متنازعہ ہے۔کرناٹک جے ڈی ایس کے صدر  ایچ ڈی کمارسوامی پر  104 کروڑ روپے سے زائد کا قرض ہے۔ مسٹر کمارسوامی رام نگر سے جیت چکے ہیں۔ کانگریس کے وجے نگر سے کامیاب ایم کرشنپاکے اوپر  66 کروڑ روپے سے زائد  قرض  ہے۔اسمبلی قانون سازوں کی عمر 25 سے 40 سال کی عمر، 138 کی 41 سے 60 اور  64 کی 61 سے 80 سال تک ہے۔ تین قانون سازوں کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ اس بار کرناٹک اسمبلی میں سات خواتین کامیاب ہوئی ہیں۔ پچھلی اسمبلی کے 94 قانون ساز  دوبارہ جیت کرآئے ہیں۔

یہ صرف کرناٹک کا حال نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں انتخاب ہویئے ہیں وہاں  مجرمانہ پس منظر رکھنے والے بی جے پی اراکین اسمبلی تعداد سب سے زیادہ ہے۔مہاراشٹر الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کی مانیں تو اس بار کے مہاراشٹر اسمبلی میں کھڑے 2336 امیدواروں میں سے تقریبا 798 امیدواروں پر مجرمانہ معاملے درج تھے۔ اس بات کی اطلاع خود امیدواروں کو بھی ہے۔ اگر کانگریس، بی جے پی، ایم این ایس (مہاراشٹر نونرمان سینا)، شیوسینا اور این سی پی کی بات کریں تو ان کے 1318 امیدواروں میں سے 640 یعنی کہ 49 فیصد امیدواروں کی تو انہوں نے خود اس کا اشتراک کیا ہے۔ان تمام امیدواروں پر درج مقدمات پر غور کیا جائے تو قتل کی کوشش، اغوا، فرقہ وارانہ ماحول، خواتین کے خلاف جرائم آتے ہیں اور ان میں سے 537 یعنی 23 فیصد امیدواروں نے ان کے جرائم کی اطلاع دی ہے۔ وہیں 156 اسمبلی حلقے ایسے ہیں، جہاں کم سے کم 3 امیدواروں نے اپنے اوپر دائر مجرمانہ معاملے اعلان کئے ہیں، جسے ریڈ الرٹ علاقے قرار دیا گیا ہے، کیونکہ جہاں 3 یا 3 سے زیادہ امیدوار مجرمانہ شبیہ والے ہوتے ہیں اسے ریڈ الرٹ علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے۔مہاراشٹر اسمبلی کے انتخاب میں امیدواروں کی اوسط جائیداد 4.65 کروڑ روپے ہے۔ یہ بات مہاراشٹر الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹ ریفارمس کے ایک مطالعہ میں سامنے آئی تھی۔جن 2336 امیدواروں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 1095 یعنی کہ 47 فیصد امیدوار ایسے ہیں۔ ان میں سے 1318 امیدوار کانگریس، بی جے پی، ایم این ایس، شیوسینا اور این سی پی کے ہیں۔جبکہ سابق اسمبلی انتخابات کے لیے یہ اوسط جائیداد 2.81 کروڑ روپے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ امیدواروں کی جائیداد کافی اضافہ ہوا ہے۔

  انتخابی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) پانچ ریاستوں میں رواں سال  2022مارچ میں ختم ہونے والے اسمبلی انتخابات میں جیتنے والے 45 فیصد امیدواروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔اے ڈی آر نے گوا، منی پور، پنجاب، اتراکھنڈ اور اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں تمام 690 جیتنے والے امیدواروں کے خود تصدیق شدہ حلف ناموں کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 690 امیدواروں میں سے 219 (32 فیصد) جیتنے والے امیدواروں نے اپنے خلاف سنگین فوجداری  مقدمات کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 312 جیتنے والے امیدواروں میں سے جنہوں نے اپنے خلاففوجداری مقدمات کا اعلان کیا، ان میں سے 134 بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، 71 سماج وادی پارٹی (ایس پی)، 52 عام آدمی پارٹی (اے اے پی)، 24 کانگریس اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے سات امیدوار ہیں۔جیتنے والے امیدواروں میں سے تقریباً 87 فیصد کروڑ پتی ہیں۔اے ڈی آر نے کہا کہ تقریباً 87 فیصد یا 598 جیتنے والے امیدوار کروڑ پتی ہیں اور جیتنے والے امیدوار کی اوسط اثاثہ 8.7 کروڑ روپے ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گوا میں جیتنے والے امیدواروں میں سے 40 فیصد نے اپنے خلاف مجرمانہ مقدمات کا اعلان کیا، جبکہ 33 فیصد نے سنگین فوجداری مقدمات کا اعلان کیا۔ اے ڈی آر نے کہا کہ اتر پردیش میں، جیتنے والے امیدواروں میں سے 51 فیصد نے فوجداری مقدمات کا اعلان کیا، جبکہ 39 فیصد نے اپنے خلاف سنگین مجرمانہ مقدمات کا اعلان کیا۔اسی طرح، پنجاب میں، جیتنے والے امیدواروں میں سے 50 فیصد نے فوجداری مقدمات کا اعلان کیا جبکہ 23 فیصد نے اپنے خلاف سنگین فوجداری مقدمات کا اعلان کیا۔ اے ڈی آر نے کہا کہ اتراکھنڈ کے انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں میں سے 27 فیصد نے اپنے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے ہیں اور 14 فیصد کے خلاف سنگین مجرمانہ مقدمات ہیں، جب کہ منی پور کے انتخابات میں جیتنے والے 23 فیصد امیدواروں کے خلاف مجرمانہ مقدمات ہیں، جب کہ 18 فیصد کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ اپنے خلاف فوجداری مقدمات کا اعلان۔

مودی حکومت کے 70 (90 فیصد) وزیر کروڑ پتی ہیں اور فی وزیر کی اوسط اثاثہ 16.24 کروڑ روپے ہے۔ چار وزراء نے 50 کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کا ذکر کیا ہے۔انتخابی اصلاحات کے لیے کام کرنے والے گروپ اے ڈی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق وزراء کی کونسل میں شامل 78 وزراء میں سے 42 فیصد نے اپنے خلاف فوجداری مقدمات کا اعلان کیا ہے، جن میں سے چار کے خلاف قتل کی کوشش کے مقدمات بھی ہیں۔ بدھ کو کابینہ کے 15 نئے وزراء اور 28 وزرائے مملکت نے حلف اٹھایا جس کے بعد وزراء کونسل کے ارکان کی کل تعداد 78 ہو گئی۔ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) نے انتخابی حلف ناموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تجزیہ کیے گئے ان تمام وزراء میں سے 33 (42 فیصد) کے خلاف مجرمانہ مقدمات ہیں۔ تقریباً 24 یا 31 فیصد وزراء نے سنگین مجرمانہ مقدمات جن میں قتل، اقدام قتل، ڈکیتی وغیرہ کا اعلان کیا ہے۔

ملک کے اعلی ترین آئینی عہدے صدر رام ناتھ کووند کے ہونے والے انتخاب کے ووٹروں میں 1581 رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی ایسے تھے، جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات تھے۔ایک رپورٹ کی مطابق ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) اور نیشنل الیکشن واچ نے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے 4896 حلف ناموں میں سے 4852 کا تجزیہ کیاتھا۔ اس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 776 میں سے 774 اور پورے ملک کے 4120 میں سے 4078 ممبران اسمبلی کے حلف ناموں کا تعین کیا گیا تھا۔ صدر کے انتخاب میں یہ 4852 رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی نے  ووٹ ڈالا تھا۔اے ڈی آر کے مطابق تجزیہ میں شامل 4852 ووٹروں میں سے 33 فیصد یعنی 1581 کا مجرمانہ ریکارڈ تھا۔ ان ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ نے اپنے آخری انتخاب کے وقت الیکشن کمیشن کے سامنے داخل حلف نامے میں خود اعتراف کیا تھا۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 34 فیصد یعنی 184 ایم پی اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 19 فیصد یعنی 44 ایم پی ایسے تھے اور ہیں، جن پر مجرمانہ معاملے ہیں جبکہ 4078 ممبران اسمبلی میں سے 33 فیصد یعنی 1353 کی مجرمانہ شبیہ کے ہیں۔تجزیہ میں شامل 4852 ممبران اسمبلی میں سے 993 یعنی 20 فیصد ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے حلف ناموں میں سنگین فوجداری مقدمات کی تفصیل دی تھی۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 22 فیصد یعنی 117 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 7 فیصد یعنی 16 ایم پی ایسے ہیں، جن کے خلاف سنگین فوجداری کا مقدمہ ہے۔ ممبران اسمبلی میں 860 یعنی 21 فیصد کے خلاف سنگین قسم کے کیس ہیں۔ اے ڈی آر کے مطابق 4852 ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی میں سے 71 فیصد یعنی 3460 کروڑپتی  ہیں۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 82 فیصد یعنی 445 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 194 یعنی 84 فیصد رکن پارلیمنٹ کروڑ پتی ہیں۔ ممبران اسمبلی میں 4078 میں سے 68 فیصد یعنی 2721 کروڑ پتی ہیں۔ 


Comments