ملک کی دگرگوں حالت اور عوام کی ترجیحات



 عابد انور

ملک کے حالات جوں جوں دگرگوں ہوتے جارہے ہیں، اسی طرح نفرت، عداوت، اشتعال انگیزی، نفرت انگیز بیانات اور تقاریر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک پوری طرح جنگل کی راج کی گرفت میں ہے۔ جہاں ایک طبقہ کو ہر ناجائز کام کرنے کی آزادی، ظلم روا رکھنے کی کھلم کھلا چھوٹ اور نظام کو مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی غیر قانونی کارروائی کی غیر معلنہ اجازت ہے۔ اس طرح کے حالات کو جنگل راج نہیں کہا جائے گا تو پھر کیا کہا جائے گا۔ ملک میں کسی دن بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آتا جس سے اندازہ ہو یہاں انسانیت زندہ ہے۔ یہاں کا نظام پوری طرح سے انسانیت مبرا ہوچکا ہے اور جو بھی انسانیت کی بات کرتا ہے اسے زنداں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس وقت کوئی ایسا نظر نہیں آتا جسے ملک کی فکر ہو، بلکہ فکر کرنے والوں کی زندگی دشوار گزار بنانے کے لئے دن رات تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ فسطائی طاقتوں کے خلاف جو بھی آواز اٹھاتا ہے اس کے گھر سی بی ؎آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس والوں کو بھیج دیا جاتاہے۔اس کے پیچھے میڈیا کو پاگل کتے کی طرح چھوڑ دیا جاتاہے جو بغیر کسی ثبوت کے کردارکشی شروع کردیتے ہیں اور وہ سب کچھ ڈھونڈ لیتے ہیں جو چھاپہ مارنے والوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے ظلم کے خلاف آواز ٹھانے والوں کی تعداد دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ اگر ہندوستان میں اکثریتی فرقہ ظالم نہیں ہے تو کم از کم ظلم کی خاموش حمایت ضرور کرتا ہے۔ آج تک کسی خالص ہندو گروپ نے مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، اکا دکا آواز آتی بھی ہے تو  وہ ظلم اور میڈیا کے شور میں دفن ہوجاتی ہے۔ اگر یہاں کے ہندو انصاف پسند ہوتے تو کسی انتہا پسند ہندوؤں (جسے مٹھی بھر کہا جاتا ہے) کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف گالی گلوج کریں، ان کی مساجد پر بھگوا جھنڈا لہرائیں، مساجد کی بے حرمتی کریں۔ ہندوؤں کے انصاف پسند اور بھائی چارہ کا اندازہ لگانا ہوتو آپ فساد زدہ علاقہ کا دور کریں۔ فساد زدہ علاقہ میں مسلمانوں کے گھر، عبادت گاہ آپ کو جلے ہوئے ملیں گے جب کہ ہندوؤں کے گھر محفوظ ملیں گے۔ جہاں بھی مخلوط آبادی ہے وہاں ہندو محفوظ ہوتا ہے جب کہ مسلمان غیر محفوظ، فروری 2020کے دہلی فسادات علاقہ کا جن لوگوں نے دورہ کیا ہوگا تو دیکھا ہوگا ایک گھر (مسلمان کا) جلا ہوا لیکن اس کے متصل دوسرا (ہندو کا) گھر محفوظ ہے۔تیسرا مسلمان کا گھر جلا ہوا ہے اور چوتھے گھر ہندو کا محفوظ ہے۔ ہندو اگر چاہتے تو وہ سامنے آکر مسلمانوں کا گھر بچا سکتے تھے لیکن کہا یہاں تک گیا ہے کہ فسادیوں کی رہنمائی ہندو پڑوسی نے کی تھی۔ باہر آنے والوں ہندو فسادی کو کیا معلوم کہ گھر کس کا ہے، مسلمان کا ہے یا ہندو، کا ہے۔ فساد کے دوران ہندو پڑوسی ہی فسادیوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے گھر، دوکان اور ان کے ادارے کو تباہ و برباد کرنے میں فسادیوں کی مدد کرتے ہیں۔ دہلی فسادزدہ علاقہ کا دورہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ کیوں کہ سارا سسٹم ہندو زدہ (ہندوتوا کا شکار) ہوچکا ہے اس لئے ان سے کسی انصاف یا رحم کی امید کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی ملک کے ہر شہری کو سب سے زیادہ امید عدالتوں سے ہوتی ہے اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے ہر طرح کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف عدالت کا سہارا لیتے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے یہ راستہ بھی تقریباً مسدود ہوچکا ہے۔ بابری مسجد فیصلہ عوام کے سامنے ہے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے فیصلے اور بعض عرضیوں پر عدالت کی خاموشی سے اس طرح کی غیر معلنہ ذہنیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ عدالت اپنے تبصرے میں حکومت، پولیس اور نظام کے خلاف سخت  بات کہتی  ہے لیکن یہ سخت تبصرہ فیصلے میں کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر متعصب میڈیا کی نفرت انگیز مہم کے خلاف جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر تقریباً ایک درجن سماعت ہونے بعد بھی اب تک حتمی سماعت نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی عدالت نے میڈیا کے خلاف کوئی ہدایت جاری کی ہو۔ البتہ عدالت نے عدالت کے خلاف سخت تبصرے کئے، نفرت کی آلودگی پھیلانے والا قرار دیا، اسی طرح دہلی فسادات میں پولیس کے کردار پر سخت تبصرہ کیا، شرجیل امام اور عمر خالد اور خالد سیفی کے معاملے بھی عدالت نے سخت تبصرے کرتے ہوئے پولیس کے رول پر سوالیہ نشان لگایا لیکن عدالت کایہ تبصرہ عمرخالد، شرجیل امام، گلفشاں اور خالد سیفی کی ضمانت میں تبدیل نہیں ہوا۔مطلب صاف ہے کہ یہ تو ہیڈ لائن بن جاتی ہے کہ پولیس کو پھٹکار لگائی گئی لیکن اسی پولیس کو کسی بے گناہ کو پھنسانے کیلئے عدالت سزا نہیں دیتی۔ ایسی صورت میں انصاف کا دروازہ بھی بند ہوتا نظر آرہا ہے کہ مسلمان کس پر بھروسہ کریں، کس سے منصفی چاہیں، کس کے سامنے اپنی فریاد پیش کریں۔ اس وقت متھرا،بنارس کے گیان واپی مسجد اور تاج محل کا معاملہ چل رہا ہے جب کہ اس پر پہلے سپریم کورٹ کا رخ سامنے آچکا ہے لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ نے ہی ضلع جج کو سماعت کے لئے کہہ دیا۔ جب کہ عبادت گاہ قانون 1991وجود ہے۔جس کی رو سے15 اگست  1947میں جوبھی عبادت گاہ کی صورت حال وہ برقرار رکھی جائے گی اس کے باوجودنچلی عدالت کا سماعت کرناغیر منصفانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ اگر عدالت منصفانہ ہوتی تو سب سے پہلے سروے رپورٹ کو لیک کرنے والوں کو سزا دیتی، میڈیا پر کارروائی کرتی جو غیر مصدقہ لیک رپورٹ کے سہارے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ 

یہ گھناؤنا کھیل سسٹم کے سہارے اس وقت کھیلا جارہا ہے جب ملک کی حالت تمام سطحوں پر نازک ہے، بھکمری، خوش رہنے، تعلیم، سماجی سطح میں بے تحاشہ گراوٹ، میڈیا کی آزادی کی رینک میں ذلت آمیز حد تک زوال، انصاف پر لوگوں کے اعتماد کا متزلزل ہونا، 80فیصد لوگوں کے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنا، پینے کے پانی عدم دستیابی،معاشی حالت بے حد خراب ہونا، ملک پر بڑھتا بیرونی قرض، پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغدار ہونا اور لوگوں کا ہندوستانی شہریت ترک کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان کی صورت حال کس قدر خراب ہے۔ ڈوئچے ویلے سے وابستہ جاوید اختر کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چوٹی کے ایک فیصد آبادی کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ سب سے کم ترین آمدنی والی 10فیصد آبادی کی آمدنی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) نے ہندوستان میں عدم مساوات کی تازہ ترین صورت حال کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ ایک بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر آمدنی میں عدم مساوات کی خلیج کو دور نہ کیا گیا تو سماجی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے اہداف کا حصول مشکل تر ہوجائے گا۔یوں تو ہندوستان  میں لوگوں کی گھریلو حالت، ضروریات تک ان کی رسائی، خاطر خواہ پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی میں بہتری آئی ہے تاہم رپورٹ کے مطابق آمدنی میں پائی جانے والی خلیج نیز غربت او رروزگار کی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دس فیصد افراد کی  ماہانہ آمدنی25 ہزار روپے ہے۔ ایک ارب 30 کروڑ سے زیادہ آبادی والے بھارت میں 15 فیصد آبادی کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار روپے یا 64 ڈالر سے بھی کم ہے۔ چوٹی کے ایک فیصد افراد ملک کی قومی آمدنی کا 5 سے 7 فیصد کماتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پریشان کن بات یہ ہے کہ ان ایک فیصد افراد کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ سب سے کم ترین سطح کے 10 فیصد افراد کی آمدنی مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔بھارت کے 'نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے‘ کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں میں لوگوں کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ یہ اس لحاظ سے باعث تشویش ہے کیونکہ ملک کی بڑی آبادی شہروں کے مقابلے دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ عدم مساوات اور غربت ایسے عناصر ہیں جو سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کی مختلف صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ سن 2022 کے ایک مطالعے کے مطابق بھارت میں ایک ملازم کی اوسط سالانہ تنخواہ تین لاکھ 87 ہزار 500 روپے یعنی تقریباً 32 ہزار 840 روپے ماہانہ ہے جو کہ تقریباً 422 ڈالر کے برابربنتی ہے۔ لیکن یہ دیگر ملکوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ مثلاً امریکہ میں اوسطاً ماہانہ تنخواہ 4457 ڈالر اور روس میں 1348 ڈالر ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں اوسطاً کم ماہانہ تنخواہ کی وجہ سے ہی بہت سے ممالک سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور کسٹمر سروس کی ملازمتوں کے لیے بھارت میں آؤٹ سورسنگ کرتے ہیں۔ بھارت میں بہت سے افراد تکنیکی لحاظ سے مہارت یافتہ ہیں اور وہ انگلش بھی بول سکتے ہیں لہذا غیر ملکی کمپنیوں کو اس سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔

ہندودستانی  میں سماجی غیر آہنگی، عدم، مساوات اور بے روزگاری یہ صورت حال ہے پڑھے لکھے، ماسٹر ڈگری والے، انجینئر نگ کرنے والے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تین لاکھ 72 ہزار بھکاریوں میں سے 21 فیصد سینئر سیکنڈری اسکول پاس ہیں، تین ہزار سے زائد کے پاس پروفیشنل ڈپلوما ہے اور 410 کے پاس ماسٹرز ڈگری اور انجینئرنگ کی ڈگریاں ہیں۔ہندوستان نے 2011ء کی مردم شماری پر مبنی ’نان ورکرز بائی مین ایکٹیویٹی، ایجوکیشن لیول اینڈ سیکس‘ کے حوالے سے پچھلے دنوں اعدادو شمار جاری کئے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملک میں بھکاریوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 72 ہزار ہے۔ ان میں 21 فیصدیعنی تقریباً 78 ہزار بھکاری سینئر سیکنڈری اسکول امتحان یا بارہویں درجہ پاس ہیں جب کہ تقریباً تین ہزار کے پاس تکنیکی ڈپلوما یا سرٹیفکیٹ ہے۔حالانکہ ہندوستان میں بھیک مانگنا اور بھیک دینا جرم ہیں تاہم مذہبی اور سماجی روایات کے باعث اس لعنت کو ختم کرنے کی تمام تر حکومتی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ کیوں کہ حکومت میں عزم کی کمی ہے، انصاف کرنا اس کے خون میں شامل نہیں۔ کام کرانے آنے والوں کو پریشان کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ اس معاملے میں صرف نظام کوقصوروار ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔ اس سے زیادہ قصوروار یہاں کے عوام ہیں جو قاتل،زانی،بدعنوان،بے ایمان، رشوت خور اور وحشی اور درندہ صفت رہنما کو منتخب کرتے ہیں۔عوام کی ترجیحات کبھی بھی انصاف پسند حکمرانوں کو منتخب کرنے کی نہیں رہیں۔ ان کو روزگار، تعلیم، سماجی حیثیت، خوش حال زندگی اور منصفانہ معاشرہ نہیں چاہئے بلکہ وہ نفرت کی مہم چلانے والے رہنماؤں پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں عوام ووٹ دیتے نہیں ہیں بلکہ ووٹ فروخت کرتے ہیں اور تمام ناانصافیوں پر خاموش رہتے ہیں۔


Comments

  1. بہت بہتر اور بڑی اہمیت کا حامل مضمون۔ آپ کا دعویٰ بالکل حقیقت پر مبنی اور صد فیصد درست ہے کہ آج کا آزاد بھارت جن ناگفتہ بہ بھی حالات سے دو چار ہے، اس کا ذمہ دار یہاں کی عوام ہے۔ یہ جو لمپن ایلیمنٹس یا فرنچ ایلیمنٹس ہیں، اور جن کی تعداد معمولی ہے، ان کو یہاں کی اکثریت کا باطنی اور بسااوقات ظاہری تائید حاصل ہوتی ہے۔ عدلیہ کا رخ بھی اقلیت کے تئیں مایوس کن رہتا ہے۔ میڈیا کو کچھ بھی بولنے کا کھلم چھوٹ نفرت پروسنے میں زبردست کردار ادا کر رہا ہے، دوسری طرف انصاف پسند میڈ یا جن کی تعداد کم ہے ان کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں آپ کا بے باکی سے لکھا گیا مضمون ، آپ کی ہمت ، جرأت سلام !!!
    اللہ آپ کے قلم میں اور طاقت دے۔ آمین

    ReplyDelete

Post a Comment