اگنی پتھ اسکیم:نوجوانوں کو ان کے کئے سزا مل رہی ہے



 عابد انور 

ہندوستان میں نوجوانوں کی حیثیت،عزت، وقاراور ا ن کی اہمیت صرف ووٹ دینے، جاہل، گنواروں اور موت کے سوداگروں کیلئے دری بچھانے، مختلف جیتنی کے موقع پر تلوار، غیر قانونی اسلحہ لہرانے اور مسلم مخالف نعرے لگانے کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ہندوستان میں نوجوانوں کی حیثیت کا اندازہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ابھی حالیہ اگنی پتھ اسکیم نے نوجوانوں کی عزت و وقار کو پوری دنیا کے سامنے لادیا۔ وہ نوجوانوں کو چپراسی، سیکورٹی گارڈ اور اس طرح کی نوکریوں کے لئے تیار کر رہی ہے۔ جہاں چپراسی کے لئے پی ایچ ڈی ڈاکٹرس، ایم بی اے، انجینئرس وغیرہ درخواست دیتے ہوں وہاں بے روزگاری کی خطرناک صورت حال کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اگنی پتھ اسکیم کے اگنی ویروں نے گزشتہ تین چار دنوں سے جس طرح ملک میں مظاہرہ کیا ہے، حکومت کو آئینہ دکھایا ہے اور سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاکر جس طرح اپنے غصے کا اظہار کیا ہے اگر یہی غصہ2019 کے پارلیمانی اور 2022اتراسمبلی انتخابات کے موقع پر ظاہر کیا ہوتا تو انہیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ 2014 سے لیکر اب تک حکومت نے نوجوانوں کو روزگار کے نام پر لالی پاپ دینے کے علاوہ کیا کیا ہے۔ جب بھی کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں چھ ماہ قبل سے وزیر اعظم کے دورے کی لائن لگ جاتی ہے اور ہزاروں کروڑ روپے کے منصوبے کی سنگ بنیاد ان چھ ماہ کے دوران رکھ دیتے ہیں لیکن ان آٹھ برسوں کے دوران کسی میڈیا نے یا ملک کے نوجوانوں نے حکومت سے نہیں پوچھا کہ ان منصوبوں کا کیا ہوا۔ کتنے منصوبے پورے ہوئے، کتنے مصنوبے کے فیتے کاٹنے وہ پہنچے۔ وزیر اعظم نے سال رواں کے شروع ہونے والے اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل جن میڈیکل اداروں یا دیگر اداروں کے فیتے کاٹے تھے ان میں سے کتنے مکمل ہوئے تھے یا ان میں کتنے کام کر رہے ہیں۔ یہی نوجوان مودی کی انتخابی لچے دار تقریر وں پر تالیاں بچاتے تھے، مودی، مودی اور ہر ہر مودی کے نعرے لگاتے تھے۔ مودی نے جس طرح ملک کو برباد کیا ہے یا ملک کو فروخت کیا ہے اس کے ذمہ دار یہاں ووٹر اور نوجوان ہیں جو دو سو روپے پیٹرول خریدنے پر خوشی خوشی آمادہ ہیں۔ جو لوگ بھی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے، ملک کی بربادی،فرقہ وارانہ یکجہتی کو ملیامیٹ کرنے، ملک میں منافرت کا ماحول پیدا کرنے اور پوری دنیا میں ملک کی شبیہہ کو داغدار کرنے کیلئے مودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ دراصل یہاں کے عوام، یہاں کے ووٹر، نوجوان اور خاص طور پر فرسٹ ٹائم ووٹر ذمہ دار ہیں۔جنہوں نے مودی کو واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپا تھا محض اس لئے وہ مسلمانوں کو سبق سکھارہا ہے، ان کو ذلیل کر رہاہے، ان کے املاک، عزت کو تباہ کر رہا ہے، ہر رسوخ اور صاحب ثروت کو دھول چٹا رہا ہے۔ ان کی عبادت کی بے حرمتی سے لیکر قبضے تک کروارہی ہے۔ مودی کو یہاں کے عوام اور نوجوانوں نے جس کیلئے ووٹ دیا وہ بخوبی کر رہے ہیں بلکہ امید سے بڑھ کر کر رہے ہیں۔ ایسی شاندار کارکردگی کے باوجود ان سے روزگار ماننا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگنی پتھ کے اگنی ویروں کو سرجھکاکر حکومت کی اسکیم پر سرخم تسلیم کرنا چاہئے۔ بلکہ اس احسان کے بدلے اگنی ویروں کو سو دو سو میٹر تاریخ ساز گیندے کا مالا پہناکر تمام بی جے پی لیڈروں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ 



ہندوستان میں 2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں نوجوانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ آج ملک کی ستر فیصد آبادی کی جو عمر ہے وہ  35سال سے کم ہے، اس کو دوسرے لفظوں ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں ہندوستان نوجوانوں کا ملک بنتا جارہاہے یعنی نوجوان ہورہا ہے۔ اتر پردیش کے 12 کروڑ ووٹروں میں تقریبا 25 فیصد (چار کروڑ سے زیادہ) 18 سے 30 سال کے درمیان کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے تقریبا 53 لاکھ وہ ووٹر ہیں جو 18 سال کے ہیں اور پہلی بار ووٹنگ کریں گے۔ 35 سال سے کم عمر کی اس آبادی میں سے 8ء38فیصد لوگ پندرہ سے34سال کے درمیان ہیں اور تقریباً 230میلین آبادی ایسی ہے جو 10 سال سے19 سال کے درمیان ہیں۔ اس طرح سے آج کے ہندوستان کا ہردوسرا شخص نوجوان ہے۔ہندوستان کی موجودہ آبادی  1,388,052,928 (138 کروڑ) لوگوں کے ساتھ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جب کہ چین 1,446,312,871 (1.44 بلین) سے زیادہ آبادی کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی تقریباً 17.85 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سیارے پر چھ میں سے ایک شخص ہندوستان میں رہتا ہے۔ اگرچہ، دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا تاج کئی دہائیوں سے چین کے سر ہے، لیکن ہندوستان  2030 تک کے اخیر میں سب سے پہلے نمبر پر آنے کے لیے تیار ہے۔ ہندوستان کی موجودہ آبادی کا 50% سے زیادہ 25 سال سے کم عمر اور 65% سے زیادہ 35 سال سے کم عمر کے ہیں۔ تقریباً 72.2% آبادی تقریباً 638,000 دیہاتوں میں رہتی ہے اور باقی 27.8% تقریباً 5,480 قصبوں اور شہری مجموعوں میں رہتی ہے۔ شرح پیدائش (ہر سال 1,000 افراد میں بچوں کی پیدائش) 22.22 پیدائش/1,000 آبادی (2009 کا تخمینہ) ہے جبکہ شرح اموات (ہر سال 1000 افراد میں اموات) 6.4 اموات1,000 آبادی ہے۔ زرخیزی کی شرح 2.72 بچے پیدا ہونے والے/عورت (NFHS-3، 2008) اور بچوں کی شرح اموات 30.15 اموات/1,000 زندہ پیدائشیں (2009 کا تخمینہ) ہے۔ ہندوستان میں دنیا کی سب سے زیادہ ناخواندہ آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی خواندگی کی شرح 74.04% ہے، جس میں مرد خواندگی کی شرح 82.14% اور خواتین کی شرح 65.46% ہے۔ کیرالہ میں سب سے زیادہ خواندگی کی شرح 93.9% ہے، لکشدیپ (92.3%) دوسرے نمبر پر ہے اور میزورم (91.6%) تیسرے نمبر پر ہے۔

ہر سال، ہندوستان دنیا کی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ لوگوں کا اضافہ کرتا ہے اور درحقیقت اس کی کچھ ریاستوں کی انفرادی آبادی کئی ممالک کی کل آبادی کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر، اتر پردیش (بھارت میں ریاست) کی آبادی تقریباً برازیل کی آبادی کے برابر ہے۔ ہندوستان کی 2001 کی مردم شماری کے مطابق اس میں 190 ملین افراد ہیں اور شرح  افزائش16.16% ہے۔ دوسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست مہاراشٹر کی آبادی، جس کی شرح  افزائش 9.42% ہے، میکسیکو کی آبادی کے برابر ہے۔ بہار، 8.07% کے ساتھہندوستان کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور اس کی آبادی جرمنی سے زیادہ ہے۔ مغربی بنگال 7.79% شرح نمو کے ساتھ، آندھرا پردیش (7.41%) اور تمل ناڈو (6.07%) بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے مقام پر ہیں۔ ہندوستان کا جنسی تناسب 948 ہے۔ کیرالہ ہر 1000 مردوں کے ساتھ 1058 خواتین کے ساتھ سب سے زیادہ خواتین کی جنسی تناسب والی ریاست ہے۔ پانڈیچیری (1001) دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ چھتیس گڑھ (990) اور تمل ناڈو (986) بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ 861 کے ساتھ ہریانہ میں خواتین کا جنسی تناسب سب سے کم ہے۔



ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجوہات میں سے کچھ غربت، ناخواندگی، اعلی شرح پیدائش، شرح اموات یا شرح اموات میں تیزی سے کمی اور بنگلہ دیش اور نیپال سے امیگریشن ہیں۔ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی سے گھبرا کر، ہندوستان نے شرح افزائش کو روکنے کے لیے بہت جلد اقدامات کرنا شروع کر دیے۔ درحقیقت ہندوستان 1952 میں نیشنل فیملی پلاننگ پروگرام شروع کرکے آبادی کی پالیسی رکھنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام نے کچھ نمایاں نتائج حاصل کیے، جس سے ملک کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ 1965-2009 میں، مانع حمل ادویات کا استعمال تین گنا سے زیادہ اور شرح پیدائش نصف سے زیادہ رہ گئی۔ کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے تاہم حتمی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہندوستان کی آبادی تقریباً تین گنا بڑھ گئی۔ جہاں ہندوستان نے آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول میں لانے کے لیے اپنے تقریباً تمام اہداف کھو دیے ہیں، وہیں 1978 میں چین کی 'ایک بچہ پالیسی' کے بعد کے لیے زبردست نتائج سامنے آئے ہیں۔ پالیسی کا دعویٰ ہے کہ 1978 سے 2000 تک 250 سے 300 ملین اور 1979 سے 2010 تک 400 ملین پیدائشوں کو روکا گیا ہے۔

2022 میں ہندوستان کی آبادی کتنی ہے؟

ایک فیصد سالانہ کی آبادی میں اضافے کی شرح کے ساتھ ہندوستان آہستہ آہستہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کے قریب ہے۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق، 2022 میں ہندوستان کی آبادی 1,388,052,928 ہونے کا اندازہ ہے۔1975 اور 2010 کے درمیان، آبادی دوگنی ہو کر 1.2 بلین ہو گئی، جو 1998 میں بلین تک پہنچ گئی۔ 2024 تک ہندوستان کے چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کا امکان ہے۔ توقع ہے کہ یہ 2030 تک 1.5 بلین سے زیادہ لوگوں کا گھر بننے والا پہلا ملک بن جائے گا، اور اس کی آبادی 2050 تک 1.7 بلین تک پہنچ جائے گی۔ اس کی آبادی میں اضافے کی شرح 0.98% ہے، جو 1972 سے 1983 تک 2.3% سے کم ہے، 2017 میں دنیا میں 112 ویں نمبر پر ہے۔ہندوستان میں اس کی آبادی کا 50% سے زیادہ 25 سال سے کم ہے اور 65% سے زیادہ 35 سال سے کم عمر ہے۔ 2022 میں، ایک ہندوستانی کی اوسط عمر 28.7 سال ہے۔ جبکہ چین کے لیے یہ شرح 38.4 اور جاپان کے لیے 48.6 ہے۔ 2030 تک، ہندوستان کا انحصار کا تناسب صرف 0.4 سے زیادہ ہو جائے گا۔ تاہم،ہندوستان میں بچوں کی تعداد ایک دہائی سے زیادہ پہلے تھی اور اب گر رہی ہے۔ 2007 میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد سے یہ تعداد کم ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں دو ہزار سے زیادہ نسلی گروہ ہیں، اور ہر بڑے مذہب کی نمائندگی کی جاتی ہے، جیسا کہ زبانوں کے چار بڑے خاندان ہیں (انڈو-یورپی، دراویڈین، آسٹروشیٹک اور چین-تبتی زبانیں) کے ساتھ ساتھ دو زبانیں الگ تھلگ ہیں: نہالی زبان، مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، اور بروشاسکی زبان، جموں اور کشمیر کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندوستان میں 1,000,000 لوگ اینگلو انڈین ہیں اور 700,000 ریاستہائے متحدہ کے شہری ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کی کل آبادی کا 0.1% سے زیادہ نمائندگی کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، صرف براعظم افریقہ ہی ہندوستان کی قوم کے لسانی، جینیاتی اور ثقافتی تنوع سے زیادہ ہے۔جنسی تناسب 2016 میں 1000 مردوں کے لیے 944 خواتین اور 2011 میں 940 فی 1000 تھا۔ یہ تناسب پچھلی صدی میں مسلسل گراوٹ کے بعد گزشتہ دو دہائیوں سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ملک نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، ملک کو کدھر لے جانا ہے یہ نوجوانوں کو طے کرنا ہے۔ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد 2019کے پارلیمانی انتخابات کے دوران نوجوانوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے وزیر اعظم مسٹر مودی نے کہا تھا کہ میں فرسٹ ٹائم ووٹر سے اپیل کرسکتا ہوں کہ شہید فوجی کے احترام میں اپنا ووٹ بی جے پی دیں اور نوجوانوں نے جھولی بھر بھر کر بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ جس کا نتیجہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے۔ اگر ملک کے نوجوانوں نے جہالت کے بجائے تعلیم کو، بے روزگاری کے مقابلے روزگار اور نفرت کے مقابلے محبت کو منتخب کیا ہوتا تو آج ان کو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔


Comments