اترپردیش میں مسلمانوں پر حالیہ مظالم ہندوؤں کو خوش کرنے کی کوشش



 عابد انور

حضرت محمد ﷺ کی اہانت کرنے کے سلسلے میں مسلم ممالک سمیت پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغدار ہوئی ہے اور ایسا ہلکا سا محسوس ہوا تھا کہ شاید حکومت اپنی ناک بچانے اور مزید ذلت و رسوائی سے بچنے کیلئے جابرانہ و ظالمانہ قدم سے احتراز کرے گی لیکن ایسا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دنیا کی پہلی حکومت ہوگی جوایک طبقہ کا ناطقہ بند کرنے کیلئے سرگرم سازش میں شامل ہوئی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد جس طرح مظاہرین کے ساتھ پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کیا ہے جسے پہلے بہت سارے سیکولر صحافی صحیح مان رہے تھے کہ مظاہرین کو تشدد میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ سارے ویڈیو فوٹیج کو دیکھا جائے تو پولیس اور انتظامیہ کو دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مختلف ہندوؤں کے مکانات سے پتھر پھینکے جارہے ہیں۔ پولیس گولیاں چلارہی ہے، پتھر پھینک رہی ہے۔ اگر مسلم مظاہرین مشتعل تھے تو انہیں آنسو گیس کے گولے فائرکرکے منتشر کیا جاسکتا تھا۔ یہاں تک کے لاٹھی چارج کرکے بھی بھگایا جاسکتا تھا لیکن پولیس تو حکومت کے اشارے پر ماورائے عدالت مسلمانوں کو سزا دینے کیلئے سڑکوں پر آتی ہے۔ جب وزیر اعلی بغیرکسی تحقیقات کے پہلے ہی سخت کارروائی کرنے کا حکم جاری کردے تو پھر عدالت کی ضرورت کیا ہے۔ یا تو عدالت کو خود ہی اپنا بوریہ بسترا گول کرلینا چاہئے یا پھر یہ اعلان کردینا چاہئے کہ ان کا کام مسلمانوں کو سزا دینا ہے انصاف کرنا نہیں اور وہ صرف ہندوؤں کے تنازعے کو سلجھانے کے لئے ہیں۔ مسلمان حضرت محمد ﷺ کی اہانت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے خلاف نماز جمعہ کے بعد اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ وہ کسی سے لڑنے یا جھگڑنے نہیں آئے تھے لیکن ایک سازش کے تحت بھیڑ میں کچھ ایسے لوگوں کو شامل کردیتے ہیں جو مسلمانوں کی شکل میں سنگباری اور بدتمیزی کرتے ہیں۔ جلوس میں ہتھیار لہرانا، بدتمیزی کرنا، مذہبی جذبات مجروح کرنا اور پتھراؤ کرنا کن لوگوں کا شیوہ ہے یہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ ایسے عناصر ہوسکتے ہیں جن کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ کانپور تشدد لیکر 10جون والے مظاہرے تک جن لوگوں کو پولیس نے کلیدی ملزم گردانا ہے وہ مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے جیسا کہ ان کے اہل خانہ بتایا ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے سخت کارروائی اور مظالم اس لئے ڈھائے جارہے ہیں تاکہ ہندوؤں کو خوش کیا جاسکے۔ کیوں کہ مسلم ممالک کے سامنے بی جے پی حکومت کے جھکنے اور نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی کرنے سے نہ صرف  بی جے پی لیڈران اور کارکنا ن ناراض ہیں بلکہ وہ اپنے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اسی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اور ہندوؤں کے غیظ و غضب کو سرد کرنے کے لئے اترپردیش سمیت پورے ملک کے مسلمانوں پر ظلم کا نیا سلسلہ روا رکھا جارہاہے۔ 

مسلمانوں میں کمی یہی ہے کہ ان کے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے،حکمت عملی کا فقدان ہے، منصوبہ بندی نہیں ہوتی، بغیر چرواہے کے بھیڑ بکریوں کی ریوڑ کی شکل میں نکل پڑتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ایسے موقعے کی تاک میں وحشی درندے ہوتے ہیں اور شکار کرنے کیلئے جال بچھائے ہوں احتیاط لازم ہے۔ اس صورت حال میں جب جمہوریت کے چاروں ستون ان کی زندگی کو برباد کرنے کے درپے ہوں،ملک کا معاشرہ آپ کی بربادی پر جشن مناتا ہو۔اس سے خوش ہوتا ہوملّے(مسلمان) کاٹے جائیں، ان کی عورتوں کی عزت آبرو کونیلام کیا جائے، ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو کچھ توشعور کا مظاہرہ کرنا چاہے۔ شاہین باغ تحریک سے کچھ سبق لینا چاہئے۔مسلمانوں کو اکسانے اور اشتعال دلانے کیلئے یہ لوگ مختلف حربے اپنائیں گے اور سازشیں کریں گے، یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے وہ ان کی سازش کو ناکام بنائیں۔ اپنا موازنہ رام نومی اور ہنومان جینتی جلوس میں چلنے والے غنڈوں، لچوں اور لفنگوں سے نہ کریں۔ ان کے ساتھ حکومت ہے، جمہوریت کے چاروں ستون ہیں، یہاں کا مالدار طبقہ ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم ہندوؤں کی ٹولی ہے۔مسلمانوں کے پاس کیا ہے۔ جن مسلم ممالک نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اس سے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کچھ دن انتظار کریں ہم میں سے کچھ لوگ عرب ممالک کا دورہ کرکے حکومت کی حمایت کریں گے اور وہاں کی حکومت خوش ہوکر مودی کو کچھ اعلی اعزاز سے نواز دے گی۔آپ کا اپنا منصوبہ، آپ کی حکمت عملی اور آپ کا لائحہ عمل ہی آپ کو بچاسکتا ہے۔ 



 اترپردیش کے مختلف شہروں میں ناموس رسالت کے نام پر جمعہ کی نماز کے بعد نکالے گئے پرامن مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد پولیس نے جمعہ سے اب تک پریاگ راج، سہارنپور، مرادآباد اور فیروزآباد سمیت نو اضلاع میں شرپسندی میں ملوث تقریبا 309سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ریاست کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس(نظم ونسق) پرشانت کمار کی جانب سے دی گئی اطلاع کے مطابق ہفتہ کو پوری رات چلی گرفتاریوں کے نتیجے میں اتوار کی صبح  8بجے تک تشدد والے شہروں سے 304مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ابھی مزید گرفتاریاں ہونا باقی ہیں۔ حراست سے منسلک اعداد کے مطابق کل 9اضلاع میں درج کی گئی 13ایف آئی آر کے تحت کی گئی کاروائیوں میں یہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔اس سے جڑے اعداد کے مطابق پریاگ راج میں درج تین ایف آئی آر کے تحت 91 افراد کو گرفتارکیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سہارنپور میں بھی تین ایف آئی آر کے تحت 71اور ہاتھرس میں ایک ایف آئی آر کے تحت 51لوگ اب تک گرفتار ہوچکے ہیں۔وہیں امبیڈکر نگر میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور 28افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مرادآباد میں ایک ایف آئی آر درج کر کے 43افراد، فیروزآباد میں ایک ایف آئی آر کے تحت 15مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ علی گرھ میں 6اور جالون میں 2افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ شرپسندی سے وابستہ ایک ایف آئی آر لکھیم پوری کھیری میں بھی درج کی گئی ہے حالانکہ ابھی تک کھیری میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔اس درمیان پولیس انتظامیہ نے پریاگ راج تشدد کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر گرفتار کئے گئے محمد جاوید عرف جاوید پمپ کو گرفتار کر کے اتوار کو خلدآباد واقع ان کے عالی شان مکان کو مسمار کردیا ہے۔پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی(پی ڈی اے) نے ہفتہ کو خلدآباد کے اٹالا چوک علاقے میں واقعہ جاوید کے مکان کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کی رسمی کاروائی کی تکمیل کے بعد اتوار کی دوپہر 12بجے مکان کے باہری دیوار گرانا شروع کردیا۔ اس دوران پی ڈی اے کے سکریٹری اور پولیس و انتظامیہ کے اعلی افسران موجود رہے۔پی ڈی اے کے دو بلڈوزروں نے جاوید کے دو منزلہ مکان کو منہدم کرنے کی کاروائی شروع کرتے ہوئے باہری دیوار کو منہدم کردیا۔ اس کے بعد مان کے اندرونی حصے میں کچھ لوگوں کے موجود ہونے کی شبہ کے پیش نظر انہدامی کاروائی کو تھوڑی دیر کے لئے روک دیا گیا۔ پولیس اور پی ڈی اے کے افسران نے مکان کے اندر داخل ہو کر یہ یقینی کیا کہ مکان گرائے جاتے وقت کوئی اندر نہ ہو۔قابل ذکر ہے کہ پی ڈی اے نے جاوید کے گھر پر ہفتہ کو ہی نوٹس چسپاں کر دیا تھا۔ نوٹس میں ان کا مکان پی ڈی اے کی ضروری منظوری لئے بغیر بنائے جانے اور غیر قانونی قبضہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اتوار کو دن میں 11بجے تک خالی کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔مسلمانوں کے مکان کے انہدام کی کارروائی سہارنپور، کانپور اور دیگر مقامات پر ہوئی ہے۔ قبل ازیں جمعہ 10جون اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جمعہ کے روز ریاست کے مختلف شہروں میں مظاہرے کے دوران پتھراؤ کے واقعات کے بعد انتظامیہ کو مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔وزیر اعلی کے دفتر کے ذرائع نے بتایا تھاکہ مسٹر یوگی نے ریاستی حکومت کے سینئر انتظامی اور پولس حکام سے پتھراؤ اور نعرے بازی سے متاثرہ شہروں کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے ریاست کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم)، ڈائرکٹر جنرل آف پولس اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولس (لا اینڈ آرڈر) اور دیگر سینئر افسران کو شرپسندوں کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔

 ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ”ہندو قوم پرست جماعت کے کارکنان اس اقدام سے سخت ناراض ہیں۔ پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا بیانات پر مسلم ملکوں کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد بھارت میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دو رہنماؤں کو معطل کر دیا لیکن ہندو قوم پرست جماعت کے کارکنان اس اقدام سے سخت ناراض ہیں اور وزیر اعظم مودی اور پارٹی قیادت کے خلاف وہ سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ان دونوں معطل رہنماؤں نے آج پیر کو اپنی طرف سے الگ الگ جاری بیانات میں غیر مشروط معافی بھی مانگ لی ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں مسلمانوں کی جانب سے ان دونوں رہنماؤں، بی جے پی کی سابق قومی ترجمان نوپور شرما اور دہلی یونٹ کے ترجمان نوین جندل، کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے وہیں بی جے پی کے عام کارکن اپنی پارٹی کے اقدام سے دل گرفتہ اور سخت ناراض ہیں۔ دونوں رہنماؤں کو معطل کرنے کے بی جے پی کے فیصلے کے بعد سے ہی پارٹی کے عام کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ بیشتر سخت گیر کارکن اسے'ہندوؤں اور بھارت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام' قرار دے رہے ہیں اور وزیراعظم مودی کی قائدانہ صلاحیت پر سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔بی جے پی کے متعدد کارکنوں کا کہنا ہے کہ سن 2024 کے عام انتخابات میں پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔بی جے پی کے سینیئر رہنما اور تریپورا کے سابق گورنر تتھا گت رائے نے اپنے دل کا درد ایک ٹوئٹ کرکے بیان کرتے ہوئے  کہا کہ پارٹی ترجمان نوپور شرما کے ساتھ جو ''سلوک'' کیا گیا اس سے انہیں سخت ''مایوسی'' ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ وہ بی جے پی کی حمایت صرف اس کے نظریات، مذہب، سیاست اور قیادت کی وجہ سے کرتے ہیں جو کہ ان کے دل کے بہت قریب ہے۔ انہیں کسی چیز کا خوف یا کسی انعام کی توقع نہیں ہے۔بی جے پی کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے بی جے پی ترجمانوں کو پارٹی کے مرکزی دھارے سے دور عناصر  کہے جانے پر طنز کرتے ہوئے کہا، ''نوپور شرما مرکزی دھارے سے دور ہیں اور وہ بھی پارٹی کے ترجمان کے طور پر۔“ہندو قوم پرست جماعت شیوسینا نے کہا، ''جب ہندوتوا پر مصیبت آتی ہے تو بی جے پی والے منہ میں نمک کی ڈلی لے کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔''ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا، ''کانگریس نے واقعی 70برسوں میں وہ نہیں کیا تھا جو مودی جی نے آٹھ برسوں میں کر دکھایا۔ اتنی ذلت، اتنی شرمندگی ہم نے کبھی نہیں اٹھائی تھی۔''“

حکومت نے عرب ممالک کی ناراضگی کے بعد جو بیان جاری کیا ہے یا جو قدم اٹھایا ہے وہ ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات یا اسلام کا احترام کرتے ہوئے نہیں اٹھایا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی، ملک کی شبیہ داغدار ہونے سے بچانے اور ملک کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لئے اٹھایا ہے۔ اس میں کسی طرح سے بھی مسلمانوں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس سے نمٹنے کے طریقہ کارخود وضع کرنے ہوں گے۔ مسلمانوں کو کچھ تو سکھوں سے سیکھنا چاہئے۔ 

 

Comments

  1. صدفیصد صداقت ہے۔ عابد صاحب کی اس پہلو پر تحریر دل کو لگنے والی ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ مضمون۔
    عابد صاحب کی حقیقت بیانی اور بےباک صحافت کا ایک اعلی نمونہ ۔ اللہ زبان و بیان کی مزید قوت عطا فرمائے۔آمین

    ReplyDelete

Post a Comment