عدالت نے ہمیشہ مسلمانوں کو مایوس کیا



 عابد انور 

اندھیرنگری چوپٹ راجا کی کہانی سب نے پڑھی ہوگی لیکن اس کی تعبیر دیکھنا ہوتا ہو اور اسے سمجھنا ہو تو ہندوستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔ جہاں امن و امان گلر کے پھول کی مانند ہیں،عدالت ہے، پولیس ہے، انتظامیہ ہے اور حکومت ہے لیکن سب کا رخ ایک ہی ہے کہ وہ انتہا پسند ہندوؤں کے ایجنڈے کو کیسے پروان چڑھایا جائے۔ میڈیا کا تو کیا کہناوہ تو جمہوریت کے جنازے پر فحش رقص میں مصروف ہے۔اوباش حکام کے سامنے اس نے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ہے۔ جس کا کام جمہوریت، جمہوری آواز اور انسانی حقوق کا تحفظ تھا وہ اسے نہ صرف کچلنے اور بلکہ کچلنے والوں کی شان میں رطب اللسان ہے۔ ایسے میں ہندوستان میں کسی انصاف کی توقع کرنا یا رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔جو مسلمان کہتے ہیں کہ انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے وہ خود بھی دھوکے میں رہ رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی  دھوکہ میں رکھ رہے ہیں کیوں انصاف میں تاخیر انصاف نہیں ہوتا بلکہ انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے الزامات سے سپریم کورٹ سے سیکڑوں مسلم نوجوان بری ضرور ہوئے ہیں لیکن اسے انصاف ہرگز نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انصاف کا قتل اور اودھورا انصاف کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ان مسلمانوں نے جیل میں متوقع سزا پہلے ہی پوری کرلی تھی۔دس سال، پندرہ سال اوربیس سال کے بعد کسی کی باعزت رہائی ہوتی ہے تواسے انصاف کہیں گے؟ وہ تو عملاً سزا پوری کرچکا ہوتا ہے۔ انصاف تب ہوتا جب ان نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے والے پولیس افسران، سیاست داں اور سازش کرنے والوں کوسزا دی جاتی، جرمانہ عائد کیا جاتا، بازآبادکاری کی عدالت کی جانب سے ہدایت دی جاتی لیکن اس طرح کا کوئی حکم یا ہدایت عدالت کی جانب سے کسی معاملے میں نہیں دی گئی ہے۔ کچھ معاملے میں ادھورا نصاف دنیا کو دکھانے کے لئے ہوا ہے تاکہ ہندوستانی عدالت پر دنیا کی انگلیاں نہ اٹھے۔آج تک جتنے بھی مسلم مسائل رہے ہیں اس پر عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے مطابق نہیں ہوا ہے۔ عدالت آئین کو سامنے رکھنے کے بجائے اکثریت کے جذبات کو سامنے رکھتی ہے اور یہ دلیل دیتی ہے کہ اکثریت کی یہی خواہش ہے۔ ہندوستانی سسٹم کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرکے اکثریتی طبقہ کو راحت ملتی ہے۔ سسٹم کا یہ بھی خیال ہے کہ اکثریتی فرقہ کو راحت دینے کے لئے مسلمانوں کو اذیت دینے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔یہ نظارہ صرف عدلیہ کا نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستان کا ہے۔عدالت تو کبھی خاموشی اختیار کرکے، کبھی جلد سماعت نہ کرکے، کبھی عرضی کو خارج کرکے اور کبھی نچی عدالت بھیج کر ظلم کرنے والوں کو مزید ظلم کرنے کی مہلت دیتی ہے اور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ عدالتی انصافی کے ہزاروں معاملے ہیں۔ لوگ عدالت کا رخ اس لئے کرتے ہیں کہ ان کویقین ہوتا ہے کہ نظام حکومت ان کو اپنی انا کی تسکین کے لئے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن جب عدالت راحت نہیں د یتی یا سماعت ہی نہیں کرتی تواس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت یا نظام جو کچھ کرنا چاہتا ہے اسے کرنے کی عدالت کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت اور سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے بعد بھی جہانگیر پوری میں بلڈوزر کی کارروائی چلتی رہی لیکن عدالت نے اگلی سماعت میں اپنے حکم کی عدولی پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ردعمل کا ظاہر نہ کرنا بھی ظالم کی حوصلہ افزائی کرنا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح جمعےۃ علمائے کی عرضی دو سے زیادہ سال سے زیر التوا ہے۔ یہ میڈیا کی زہر افشانی اور تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم کے خلاف دائرکی گئی تھی لیکن متعدد سماعتوں کے باوجود میڈیا کے خلاف اب تک کوئی فیصلہ نہیں دیاگیا اور میڈیا کھلم کھلا فیک نیوز کے سہارے میں مسلمانوں کو بدنام کرنے،بالواسطہ طور پر مسلمانوں کے قتل عام پر لوگوں کو اکسانے، مسلم لڑکیوں کو بدنام کرنے، ان کے ساتھ بدسلوکی کو بڑھاوا دینے، حجاب کی آڑ میں مسلم لڑکیوں کے خلاف ماحول بنانے اور اب متھرا، گیان واپی مسجد اور قطب مینار کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے رات دن کام کررہا ہے۔ اگر عدالت نے پہلے سخت حکم دے دیا ہوتا تو نفرت کا بازار اس طرح گرم نہیں ہوتا۔

گیان واپی مسجد کے معاملے میں اگر کوئی عدالت سے انصاف کی توقع رکھتا ہے کہ یہ سب سے بڑی احمقانہ سوچ ہوگی۔ اولاً تو نچلی عدالت کو حق ہی نہیں کہ پارلیمنٹ کے پاس کردہ عبادت گاہ قانون کے خلاف کسی عرضی کی سماعت کرے۔عدالت نے سروے کا یکطرف فیصلہ دیا۔پہلے ایک کمشنر کو متعین کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے اور اس کے بعد دو اور کمشنر مقرر کئے گئے ان کا بھی تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے۔ سب سے خلاف قانون بات عدالت نے کہی ہے وہ یہ مسجد کو متنازعہ جگہ قرار دیا ہے اور سروے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے عدالتی ذہنیت کا نداز ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سروے کیسا ہوگا اور نتیجہ کیا آئے گا اور عدالت کے فیصلے سے قبل ہی سروے رپورٹ لیک ہوگئی اور لیک کرنے والا کوئی اور نہیں سروے کمشنر ہی تھا جس کی ذمہ داری رازداری کی تھی۔ عدالت نے بھی دوقدم آگے بڑھاتے ہوئے حوض کو بند کرنے، اسے محاصرہ کرنے اور اس کی چھیڑ سے حفاظت کا حکم دے دیا۔ جب کہ عدالت کا پہلا سوال یہی ہونا چاہئے کہ جب رپورٹ پیش نہیں ہوئی تو شیو لنگ کہاں سے نکل آیااور رپورٹ لیک کیوں کی کیسے کی۔ عدایت وکیل کو سزا دیتی لیکن عدالت نے اس کے برعکس مسلم فریق کو سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ دے دیا۔ کیا کسی کے یہ کہہ دینے سے عدالت اس طرح کا حکم دے سکتی ہے۔ جب کہ مسلمان اس طرح اپنے حقوق کی حفاظت، اپنے اوقاف کی زمین کی حفاظت اور اپنے مذہبی ادارے کی حفاظت کے لئے جاتے ہیں ان کی عرضی کی سماعت کئے بغیر خارج کردی جاتی ہے۔ آج لاکھوں ایکڑ زمین پر سرکاری عمارتیں کھڑی ہیں۔ کیا عدالت حکم دے گی وہ مسلمانوں کو واپس کئے جائیں۔ صرف دہلی میں پچاس سے زائد بڑے قبرستان تھے جن کا اب کوئی اتہ پتہ نہیں ہے اور سب پر عمارت بن گئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں لال مسجد کا واقعہ سامنے ہے وقف کی زمین کو حکومت نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ سی آر پی ایف کو الاٹ کردیا۔جب کہ وہ گزٹ میں بھی شامل ہے اور وہ 1857کے مجاہدین آزادی کی قبریں ہیں جسے مسمار کرکے سی آر پی ایف کے لئے عمارتیں بنائی جارہی ہیں۔ اسی سیکڑوں زمینیں ہیں جس پر عدالت لیت و لعل کی وجہ سے وہ زمینیں ختم ہورہی ہیں۔ کیوں کہ عدالت پر ایسی قوم کا قبضہ ہے جس میں انصاف کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ گیان واپی مسجد کے معاملے میں نچلی عدالت کے اس غیر منصفانہ ہدایت سروے کے خلاف عدالت عظمی کو سماعت کرکے روک لگانی چاہئے تھی۔ کیوں کہ یکطرفہ سروے اور رپورٹ کے سہارے بابری مسجد کی تاریخ کو دہرائی جاسکتی ہے۔پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انصاف کا مذاق اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو ہندؤں کو سونپ دیا۔ کیوں کہ اکثریت کے یہی جذبات تھے۔ 

اگر مسلمانوں نے ہندو مذہبی عبادت گاہوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہوتا تو نچلی عدالت ہو یا اعلی عدالت یا عدالت عظمی فوراً 1991عبادت گاہ قانون کے تحت مقدمات خارج کرکے عرضی گزار پر جرمانہ ٹھوک چکی ہوتی اس لئے اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مسلمانوں کو پریشان کرنے اور ان کے خلاف مسائل پیدا کرنے میں عدالت بھی پیچھے نہیں ہے۔مسلمانوں کے سیکڑوں مقدمات عدالت میں زیر التوا یا مسلمانوں کے خلاف فیصل ہوگئے ہوں گے جس میں مسلم فریق نے مسلمانوں یا وقف زمین پر تعمیر کسی مندر کے خلاف دائرکئے ہوں گے۔ آثار قدیمہ کے تحت جتنی مساجد ہیں وہ نماز کے لئے تو بند ہیں لیکن وہاں فحاشی کی اجازت ہے۔ حیرت انگیز اور عدالتی نظام پر طمانچہ جڑتا اس وقت نظر آتاہے جب آثار قدیمہ کے بیشتر مساجد کے سامنے مندر بن گئے ہیں لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے اسے ہٹانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور عدالت نے اس پر نوٹس لیکر کارروائی کی جب کہ محکمہ آثار قدیمہ کے دائرے میں اور اس کے آس پاس کوئی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر چار منار کے سامنے مندر بن گئے، صفدر جنگ مقبرہ اور مسجد کے سامنے مندر بن گئے، مالویہ نگر میں واقع مسجد کو تو آثارقدیمہ نے نمازیوں کے لئے بند کردیا ہے لیکن اس کے سامنے مندر بناکر پوجا پاٹھ ہورہا ہے۔ آخر حکومت کے دوہرا معیار کی کوئی حد تو ہونی چاہئے۔جمہوریت کے نام فسطائیت اور آمریت کی وحشتناک مثال ہے۔ 

کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی سیاسی فائدے کے لئے کوئی بھی سیاسی کھیل سکتی ہے لیکن عدالت کی اس میں شمولیت بہت ہی خطرناک رجحان ہے۔ پوری دنیا میں یہ پیغام جارہا ہے کہ عدالت ہندو قوم پرست حکمرانوں کے ہاتھوں کا کھلونہ بن چکی ہے۔ کیوں کہ عدالت کے سامنے مسلمانوں کے کوئی بھی اہم موضوع  فوری سماعت کے لائق نہیں ہوتے۔ جہانگیر پوری، کھرگون اور ملک کی متعدد ریاستوں میں بغیر کسی عدالتی احکام کے گھر کو زمین بوس کرنے کے خلاف فوری طور پر عدالت عظمی کا کوئی حکم جاری نہ کرنا حکومت کے غیر قانونی کام میں شامل ہونا ہی ہے۔ عدالت نے ہی ناانصافی کرکے مسلمانوں کے لئے ہندوستان ایک بند گلی بنادیا ہے۔ اگر عدالت چاہے تو ہندوستان میں قانون کا راج قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے عدالت کو سرگرم ہونا ہوگا اور انصاف قائم کرنا ہوگا کیوں کہ انصاف قائم کئے بغیر نہ توملک میں امن قائم ہوگا اور نہ ہی ملک کی ترقی کی ہوگی۔ مسلمانوں کو بھی عدالت اس رویے کے خلاف بغیر لاگ ولپیٹ کے کھل کرنا بولنا ہوگا اور حکومت، انتظامیہ، عدالت اور میڈیا کی اس انصافی کے خلاف اپنی اواز بلند کرنی ہوگی ورنہ جس طرح آج کسی نہ کسی بہانے کسی گھروں پر بلڈوزر چل رہے ہیں، مساجد، مقابر کے نام و نشان مٹائے جارہے ہیں۔ اس کے خلاف متحدہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ایک ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو کب بیٹھیں گے۔کیوں پولیس بھی ان کی، انتظامیہ بھی ان کا، عدالت بھی ان کی، اسمبلی بھی ان کی،پارلیمنٹ بھی ان کی اور میڈیا بھی ان کا۔ ایسے میں مسلمانوں کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟  روزبروز مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا دامن تنگ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے سدباب کے لئے مسلمانوں کو مشترکہ طور پر لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ امراء حضرات یہ سوچتے تھے وہ پیسے کے بل پر اپنے آپ کو بچالیں گے اب تک سیکڑوں امیروں کے مکانات، کاروباری ادارے منہدم کئے جاچکے ہیں، زمین و جائداد ضبط کی جاچکی ہیں۔ یہ لوگ سوچتے تھے ان کا نمبر نہیں آئے گا لیکن جلد آگیا، سب کا نمبر آنے والا ہے۔ اس سے پہلے حالات موت اور مکمل تباہی و بربادی کے منہ تک لے جائے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔


Comments

Post a Comment