ہندوستان میں اسلاموفوبیاکی بڑھتی واردات اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی




 عابد انور

دنیا میں خاص طور پر ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے واقعات مسلمانوں کی نسل کشی کی جانب گامزن ہونے کا اشار ہ کرتے ہیں۔ہندوستان میں اس کی روک تھام کیلئے اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہاہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات، نفرت انگیز مہم، کھلم کھلا قتل عام کی اپیل،مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی دھمکی اور مسلمانوں کے خلاف قانون کے بیجا استعمال کی نہ صرف پردہ پوشی کی جارہی ہے بلکہ اس کی ہمت افزائی بھی کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں جہانگیرپوری، کھرگون، کرناٹک، گجرات اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی وارداتیں اس کی مثال واضح مثال ہیں۔سب سے افسوسناک اور تشویشناک رویہ عدلیہ اور پولیس کا ہے جو ان وارداتوں کو نظر انداز کرتی آرہی ہے۔کہیں کہیں مجرموں کے حق میں نظر آتی ہے۔ رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر متعدد مقامات پر پولیس کو ہندو شرپسندوں کوآڑ فراہم کرتے ہوئے دیکھا گیا۔عدالت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نفرت انگیز تقریر مسکرا کرکی تھی اس لئے یہ نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں نہیں آتی۔ دوسری طرف اسی عدالت کا رویہ شرجیل امام،عمر خالد اور جمہوریت پسند لوگوں کے بارے میں جارحانہ ہوجاتا ہے۔ اس صورت کے سبب اسلاموفوبیا کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور پوری دنیا کے ممالک اس پر تشویش کا اظہا ر کررہے ہیں لیکن یہاں کے حکمراں ٹولے کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ حکمراں اور اکثریتی طبقہ کے اس بے حس رویہ سے نہ صرف ملک کی شبیہ داغ دار ہورہی ہے بلکہ پوری دنیا میں ملک بدنام بھی ہورہا ہے۔ سیاسی، سماجی، انسانی، آزادی،بھکمری، غذا، خوش رہنے اور دیگر شعبے میں ہندوستان کی رینکنگ گرتی جارہی ہے لیکن حکمراں ٹولے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو اس بات سے خوش ہیں وہ اپنے ایجنڈے کی طرف صحیح سمت میں جارہے ہیں۔اس لئے پوری دنیا کی مذمت، ناراضگی اور تشویش کے اظہار کے باوجود شدت پسندہندو جماعتیں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں سرگرم ہیں۔ ان کا ادنی کارکن سے لیکر ایم ایل ایز، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلی اور مرکزی وزراء تک شامل ہیں۔ اس سے اسلاموفوبیا کے شدید تر واقعات کااندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس ایجنڈے کا پتہ چلتا ہے جس کا اظہار حکمراں جماعت گاہے بگاہے کرتی رہتی ہے۔ یہ پوچھنا عدالت کا کام تھاکہ آئین ہند پر حلف لینے والے اراکین اسمبلی و پارلیمان ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ کیسے کھلم کھلا آئین و قانون کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں لیکن عدالت نے آج تک اس ضمن میں کسی کو سزا نہیں دی بلکہ ان کو تحفظ فراہم کیا جس کی وجہ سے ملک کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں مسلمان کہیں بھی خود محفوظ تصور نہیں کرتے۔ حالانکہ اقوام متحدہ اور امریکہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف قانون بنادیا ہے اس کے باوجود ہندوستان میں اسلاموفوبیا کا شدت کے ساتھ جاری رہناکسی بڑے انہونی واقعات کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ 

اسلاموفوبیا کے خلاف سخت قدم اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ2022 کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کے مسلم ملکوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے متفقہ طورپر قرارداد منظور کرلی تھی۔ یہ قرارداد اسلامی تعاون تنطیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان نے پیش کیا تھا۔جب کہ ہندوستان سمیت کئی ممالک نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے شکایت کی کہ قرارداد میں ہندو مخالف فوبیا سمیت دیگر مذاہب کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی سطح پر تحمل اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے مقصد کے طور پر 15 مارچ کو متفقہ طور پر عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کی منظوری دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق قرار داد او آئی سی کے 57 رکن ممالک کے ساتھ ساتھ چین اور روس سمیت دیگر 8 ممالک کی حمایت سے پیش کی گئی تھی۔قرارداد میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں پر ہر قسم کے تشدد کے عمل اور عبادت گاہوں، مزاروں سمیت مذہبی مقامات پر اس طرح کے عمل کو سخت سے ناپسند کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قرارداد میں تمام رکن ممالک، اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں، دیگر علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی، نجی شعبہ اور مذہبی تنظیموں کو مناسب انداز میں عالمی سطح پر یہ دن منانے کی دعوت دی گئی ہے۔قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کئی ممالک نے اس کو سراہا لیکن ہندوستان فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور کہاتھا کہ دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت موجود ہے لیکن صرف اسلام کو الگ کر کے پیش کیا گیا اور دیگر کو خارج کردیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر منیر اکرم نے کہا تھاکہ‘اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے’اور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین نے نشاندہی کی کہ یہ فینومینا بڑھ رہا ہے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ابتدائی کلمات میں کہا کہ اسلاموفوبیا کے نتائج نفرت انگیز تقریر، امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں اور کمیونیٹیز کے ساتھ تفریق، دشمنی اور تشدد جیسے اقدامات ان کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور ان کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے مذہبی آزادی کی نائن الیون دہشت گردی کے حملوں کے بعد مسلمانوں پر چھائے ہوئے خوف اور مسلمانوں کے ساتھ تشدد پر مبنی رپورٹ کا حوالہ بھی دیاتھا۔اس طرح کے تقسیم، خوف اور بداعتمادی کے ماحول میں مسلمانوں کو اکثر توہین، منفی سوچ اور شرم کا احساس ہوتا ہے اور ایک اقلیت کے اقدامات کو بطور مجموعی زبردستی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا اس وقت پھیلاؤ کی رفتار اور بے قابو ہونے والی دونوں صورتوں میں خطرناک ہوگیا ہے اور زینوفوبیا، منفی شناخت اور مسلمانوں کو روایتی سوچ کے ذریعے تقسیم کرنا بھی نسل پرستی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف آف لائن اور آن لائن دونوں حالتوں میں نفرت انگیز جرم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم، شہریت، امیگریشن، روزگار، ہاؤسنگ اور صحت سمیت تمام دستاویزی شعبوں میں امتیازی سلوک بڑھ رہا ہے۔



منیراکرم نے او آئی سی کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ قرارداد کے درج ذیل مقاصد ہیں:1)بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر آگاہی میں اضافہ کرنا۔2) واضح پیغام دینا ہے کہ دنیا ہر قسم کی نسل پرستی، امتیاز، زینوفوبیا، منفی روایتی سوچ اور توہین کے خلاف ہے۔3) تمام مذاہب، ہر شعبے اور اقوام کے درمیان تحمل، بقائے باہمی اور بین المذاہب اور ثقافتی رواداری کے فروغ کا پیغام دینا ہے۔4)اس دن کو مناتے ہوئے تمام انسانیت کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرنا، انسانی توقیر کا احترام اور تنوع میں اتحاد کے لیے مشترکہ مفادات کا اعادہ کرنا ہے۔

امریکہ میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس نے اس کے خلاف قانون منظور کرلیاہے۔ مریکی ایوان نمائندگان نے گزشتہ سال  دسمبر 2021اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اسلاموفوبیا کی نگرانی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خصوصی مندوب مقرر کرنے سے متعلق قانون سازی منظور کرلی تھی۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس قانون سازی کے حق میں 219 ڈیموکریٹک اراکین نے ووٹ دیے تھے جبکہ 212 ریپبلکنز نے اس کی مخالفت کی تھی۔خصوسی مندوب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹس میں حکومتوں کی حمایت سے ہونے والے اسلام مخالف تشدد کے واقعات اور اس میں دی گئی چھوٹ پر بھی رپورٹ کرے گا۔یہ بل 2 قانون سازوں نے پیش کیا تھاجن میں ایک الہان عمر ہیں جو ایوان کے مسلم اراکین میں سے ایک ہیں اور اکثر نفرت آمیز بیانیے اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرتی رہتی ہیں جبکہ دوسری رکن جین شیکوسکی شگاگو کے مضافات سے تعلق رکھنے والی ایک 77 سالہ سفید فام یہودی خاتون ہیں۔دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کی نگرانی کرنے کے لیے ایک عہدے کی تخلیق یا یہ قدم ریپبلکن قانون ساز لارین بوئیبرٹ کے ایک بیان کے بعد اٹھایا گیا جس میں انہوں نے الہان عمر کو ایک مسلمان دہشت گرد سے تشبیہہ دی تھی۔قانون کی سمری کے مطابق مندوب خصوصی پالیسی سازوں کو مسلم دشمنی کے باہم منسلک عالمی مسئلے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرے گا۔ساتھ ہی مندوب امریکی قیادت کے لیے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا سے لڑنے کے ایک جامع حکمت عملی بھی قائم کرے گا۔جین شیکوسکی جنہوں نے نہ صرف بل پیش کرنے میں کردار ادا کیا بلکہ اس کی منظوری کے لیے بھرپور مہم بھی چلائی، کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا جائے۔ ہم نے اسے کئی طرح دیکھا ہے، میری کمیونٹی میں امریکی کانگریس میں، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا بھر میں ہورہا ہے اور ڈرامائی طور پر اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’نہ صرف لوگ ایک دوسرے کو برا بولتے ہیں بلکہ تشدد کی جانب گامزن ہیں۔ایوان میں بل پر ہونے والی بحث کے دوران ان کا کہنا تھا کہ صرف امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 500 سے زائد واقعات کا اندراج ہوا ہے۔ ’یہ ہم سے قریب ہیں لیکن یہی دنیا بھر میں بھی ہورہا ہے، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مسلمانوں کے لیے نفرت کو وبا کے پیمانے پر قرار دیا ہے جو ہر طرف ہورہی ہے‘۔

ہندوستان میں اسلاموفوبیا اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ ملک سے مسلمانوں کے نشانات کھرچ کھرچ کرمٹانے پر آمادہ ہیں۔کئی تاریخی مقامات کے نام بدلنے کے اب گاؤں تک کے نام بدلنے پر آگئے ہیں۔ تاییخ سے مسلمانوں کے کارناموں کو ہٹایا جارہا ہے۔ اس کی جگہ ملک کے غداروں، مخبروں، بزدلوں اور ملک کے لئے کوئی خاص کام انجام نہ دینے والوں سے پر کیا جارہاہے۔نفرت، اشتعال انگیزی حکمراں ٹولے کی خوراک ہے اور یہ بغیر نفرت پھیلائے، مسلمانوں کو اذیت دئے بغیر اورمسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت اس پرمکمل طور پر خاموش ہے۔ انہیں نہ تو روزگار کی فکر ہے، نہ صحت کی سہولت کی، نہ ہی صحت مند معاشرے کی اور نہ ملک کی بدنامی کی۔وہی لوگ مسلمانوں کو مارنے پر آمادہ ہیں جو ان کے سکھ دکھ کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گر کوئی مسلمان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے تو اس کے خلاف نفرت کی مہم شروع کردی جاتی ہے۔جمہوریت کے چاروں ستونوں نے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ ان کو یہ کب احساس ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کو تباہ کررہے ہیں۔


Comments

  1. زبردست جائزہ۔ ماشاء اللہ

    ReplyDelete
  2. وطن عزیز میں قلیتوں کے حالات نہایت تشویشناک ہیں۔ آپ نے اپنے مضمون میں ان کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی کے واقعات کو حقائق کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ ساتھ ہیں عدلیہ کا دوہرا کردار بھی تشویش کا باعث ہے۔
    آرٹیکل کافی عمدہ ہے۔ آپ کو مبارکباد۔آپ کا شکریہ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرا جزا

      Delete

Post a Comment