قاضی مجاہدالاسلام قاسمی: ہمہ جہت شخصیت کے مالک



 یوم وفات پر خاص

عابد انور 

مفکر ملت قاضی مجاہدالاسلام قسمیؒ کی گوناگوں شخصیت، علمی و فقہی مقام، فقہی خدمات، قاضی صاحب سے وابستہ یادیں، ہندوستانی مسلمانوں کو متحد کرنے کی ان کی کوششیں، مسلمانوں کے مسائل سے قاضی صاحب کی آگاہی او رجن کے سینے میں ملت اسلامیہ کے لیے دل دھڑکتا تھا جنہوں نے ہنددوستانی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے رات کی نیند، دن کا چین و سکون وقف کردیاتھا۔حضرت قاضی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت، خدمات اور علمی مقام اتنا بلند تھا کہ بڑے بڑے علماء اور بیرون ممالک کے علماء و فضلا آپ سے فیض یاب ہونے کو باعث افتخار سمجھتے تھے، آپ نے جہاں جنوبی افریقہ میں مسلم پرسنل کی تدوین میں نمایاں خدمات انجام دی وہیں آپ ماریشش میں مسلم پرسنل لا کی تدوین میں رہنمائی کی اور جنوبی افریقہ اور ماریشش کی حکومتوں کی جانب سے آپ کو اس کے لیے خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ آپ نے نہ صرف مسلمانوں کی قومی و ملی مسائل میں قیادت و سیادت کی بلکہ آپ ایسے ملک میں جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ہے، جہاں سود زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہے اور مسلمانوں کا اس سے بچنا تقریباً ممکن نہیں یہاں پر بھی آپ نے رہنمائی کی کہ مسلمان کس طرح غیر اسلامی معاشرہ میں اس لعنت سے بہت حد تک گریز کرتے ہوئے اپنی  تجارتی و اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھیں اور اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر پیچھے نہ پائیں۔ اس کے لیے آپ نے ”جدید تجارتی شکلیں“ تالیف کیں اور بینکنگ نظام پر بھی آپ بھرپور، مکمل واضح خیال کا اظہار کیا۔

قاضی مجاہدالاسلام کی پیدائش 9 اکتوبر 1936کو دربھنگہ کے مردم خیزمقام قاضی بہرہ میں ہوئی تھی۔ وفات 4 اپریل 2000میں دہلی ہوئی تھی۔ دربھنگہ کے مہدولی میں واقع اپنی رہائش گاہ کے احاطے میں ان کی تدفین ہوئی تھی۔ قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ آپ کے والد مولانا عبدالاحد قاسمی جنہیں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن(1920-1851 جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی میں سے ایک)کے شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے،ابتدائی تعلیم میں خاص توجہ دی گئی۔ اس کے بعد آگے اور ثانوی تعلیم کے لئے مدرسہ محمودالعلوم دملہ، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور دارالعلوم مؤ ناتھ بھنجن کا رخ کیا۔ 1951میں دارالعلوم دیوبند داخلہ لیا اور حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی، حضرت مولانا حسین احمد بہاری، شیخ الادب مولانا اعزاز علی وغیرہ نابغہ روزگار اساتذہ زانو تلمذ تہہ کیا اور 1955میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ خانقاہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے بعد امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے قاضی القضاہ مقرر کئے گئے۔جس کے امارت شرعیہ کو نئی شناخت ملی۔ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی  (5 دسمبر 1913۔31دسمبر 1999)کے انتقال کے بعد قاضی صاحب کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا صدر مقرر کیاگیا تھا۔ یہ عرصہ بہت کم رہا لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ کے آپ بانی رکن تھے اور بیشتر موقعوں پر مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ نسبندی کا معاملہ ہو، یا شاہ بانو مقدمہ کایا  بابری مسجد، یا ملک میں دیگر حالات کا، ہر وقت میں فعال خدمات انجام دیں اور تمام اکابرین کے شانہ بشانہ کام کیا۔آل انڈیا ملی کونسل جو اب جیبی ادارہ سے زیادہ کچھ نہیں رہا، قاضی صاحب نے ملک کی اہم جماعت کی صف میں لاکھڑا کردیا تھا اور حکمراں طبقہ، سیاسی پارٹیاں اس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتی تھیں۔ملی کونسل کا سب سے بڑا عہدہ سکریٹری جنرل کا تھا اور قاضی صاحب سکریٹری جنرل تھے اور اس دوران بہت اہم کام انجام دئے تھے جس میں عثمان آباد مہاراشٹر میں زلزلہ کے بعد بازآبادکاری کا کام بھی شامل ہے۔ وہ بلاکی ذہانت رکھتے تھے اور مسئلے کو حل کرنے میں ماہر تھے۔یہی وجہ ہے کہ جس ادارے میں گئے  انہیں اعلی مقام تک پہنچا دیا۔ قاضی صاحب قاضی القضاۃ امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے علاوہ ہ اکسپرٹ ممبر انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی، جدہ، ممبر اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ المکرمہ، نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بہار،و اڑیسہ اورجھارکھنڈ، چیرمین وفاق المدارس اسلامیہ بہار، رکن اساسی شریعتہ بورڈ آف الامین اسلامک فائنانشیل ممبر المجمخ العلمیہ العالی دمشق، شام، رکن اعزازی الہیتہ الخیریہ،الاسلامیہ العالمیہ کویت، سکریٹری مولانا سجاد ہاسپٹل امارت شرعیہ پھلواڑی شریف پٹنہ،  ممبر گورننگ کونسل انسٹی ٹیوٹ ابجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی، بانی صدر المعہد العالی للتدریب فی القصاۃ والافتا پھلواڑی شریف پٹنہ، صدر منت اللہ رحمانی ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ پھلواڑی شریف پٹنہ،چیف ایڈیٹر سہ ماہی بحث و نظر، نئی دہلی، سرپرست ماہنامہ ملی اتحاد دہلی کے علاوہ درجنوں تعلیمی اداروں کے سرپرست، معاون، مشیرکار رہے ہیں۔ 

قاضی صاحب نے درجنوں تصنیفی خدمات انجام دی جو عربی اردو میں ہیں جن میں بیشتر کا تعلق فقہی مسائل سے ہے،۔ عربی تصانیت اورتالیفات میں الوقف، نظام القضاء فی الاسلام،قضایا فقیہہ معاصرہ، فقہ المشکلات، الذبائح، صنوان القضا(چار ضخیم جلدیں)، دراستہ فقیہ، دراستہ علمیہ، بحوث فقہیہ، میڈیکل ایشوز (انگریزی)۔ اردو تصانیف و تالیفات میں اسلامی عدالت، مجلہ فقیہ جلد چہارم تک، مجلہ فقہیہ جلد پنجم کے دو حصے، مجلہ فقہیہ اسلامیہ کے جلد ششم کے دو حصے،  ضرورت و حاجت، اشتراط فی النکاح، طبی اخلاقیات،خطبات بنگلور، فتاوی امارت شرعیہ، جلد اول اور دوم، کتاب العشر و الزکوۃ، کتاب الفسخ و التفریق، اوقاف، حج و عمرہ، جدید تجارتی شکلیں، ولایت نکاح، بیع بالقسیط، شیئرز اور کمپنی، مباحث فقہیہ، آداب قضاء نظام الفتاوی، جلد اول اور دوم، شامل ہیں۔

حضرت قاضی صاحب بڑے درجہ کا عالم دین، مدبر، مفکر، قائد اور ہمہ جہت سوچ رکھنے والے انسان تھے بیک وقت تمام مکتب فکر، مختلف الخیال، اپنے ناقدین  و مخالفین کو اپنے اندر سمونے کی طاقت، ملت کے مسائل، مسلمانوں کے خلاف سازش سے آگاہی اور تدار کی اقدامات کرنے، اپنے ہم عصر علماء کے زخم سہنے کے عادی تھے۔ ان کے اندر وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک صحیح مسلم رہنما میں ہونا چاہیے، لیکن افسوس کہ علماء کا ایک طبقہ جو قاضی صاحب سے کچھ سینئر، کچھ جونیئراور کچھ ہم عصر تھے اورہیں انہوں نے قاضی صاحب کی کبھی قدر نہیں کی ہمیشہ ان کی وسیع المشربی کو ہدف تنقید بناتے رہے اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں قاضی صاحب کا بلند وبالا علمی مقام بھی تھا، دلوں کو فتح کرنے کا ہنر سے واقفیت بھی وجہ ہوسکتی ہے اور سب سے بڑی ہدف تنقید کی  وجہ شاید قاضی صاحب کا صوبہ بہار سے تعلق تھا بغض و عناد میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ناقدین نے قاضی صاحب کو جہنمی تک کہہ دیا اور اس کا موازنہ غلام احمد قادیانی سے کر بیٹھے، حالانکہ کون جنتی ہے کون جہنمی اس کا علم خدا کو ہے لیکن نعوذ باللہ ناقدین اپنے آپ کو خدا کا ہمسر سمجھ بیٹھے۔ قاضی صاحب کو لعن طعن کرنے میں آل بنوامیہ (سب لوگ نہیں) نے بھی کافی زور سے حصہ لیا ہے او رقاضی صاحب کے معاملے میں بغض وعناد کے حد تک معاملہ رکھتے تھے اور قاضی صاحب کی وفات کے بعد بھی سرگرم ہیں۔

مسلمان و اسلام کو مٹانے کے لیے دشمنان اسلام کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔ لیکن مذہب اسلام اپنی پہلی چمک دمک کے ساتھ آج بھی پرکشش بنا ہوا ہے کیونکہ یہ دین ابدی ہے اور قیامت تک باقی رہنے والا ہے البتہ مسلمانوں کا دین کے تئیں بے رخی، مذہب سے غفلت و عدم واقفیت اور مسلمانوں کا مذہب کے بارے میں جمود کا شکار ہوجاناہردور میں ہوتارہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی اسلام اور مسلمانوں کی شان اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لیے ہر دور میں برگزیدہ شخصیتوں کو پیدا فرماتے رہے ہیں، تاکہ دین کی شان وشوکت پر کوئی آنچ نہ آئے۔اس کے لیے جہاں حجۃ الاسلام امام قاسم نانوتویؒ نے مسلمانوں کو آریہ سماج اور عیسائیوں سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے آگے آئے وہیں چمنستان قاسمی کا ایک تناور درخت حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے بدعات و خرافات سے لوہا لیا۔ غرضیکہ ہر دور کے علماء کرام تحریک اسلام اور احیاء دین کا کام کرتے رہے۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ احیاء دین کے سلسلے میں کافی سرگرم تھے ہندوستانی مسلمانوں پر دین اسلام کا مکمل نفاذ دیکھناچاہتے تھے۔ وہ اس کے لیے مختلف جہت اور مختلف طور طریقوں سے کام کرنے کے عادی تھے اس میں تعاون دینے کے لیے تمام طبقہ سے چاہے وہ ماہر قانون ہوں، یا پروفیسر ہوں، ڈاکٹر، انجینئر ہوں بزرگ علماء کے ساتھ ساتھ نوجوان علمائے سے بھی موضوع  پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اس کے لیے ان علماء کے دلوں میں جذبہ دینی حمیت پیدا کرتے تھے وہ دعوت اسلام کے طریقہ پر بھی تبدالہ خیال کرتے تھے اور قاضی صاحب کا خیال کہ اس سائنسی اور تکنالوجی کے دور میں دعوت اسلام بھی مسلموں کو انہی کی زبان و بیان میں دینا چاہیے۔اس کے لیے قاضی صاحب ملک کے مدارس کے ذہین فضلاء کی ایک کھیپ تیار کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے منصوبہ بھی بنایا تھا او ر اس پر کچھ حد تک عمل بھی ہوا اس منصوبہ کے تحت وہ مدارس اسلامیہ کے ذہین و فطین اور باصلاحیت طلباء کے لیے تربیتی کیمپ کا انعقاد کرتے تھے اسی طرح کا کیمپ ضلع غازی آباد میں لگایاگیا تھا جس میں مدارس اسلامیہ کے ذہین اور بااستعداد طلباء نے حصہ لیاتھا۔ راقم السطور نے کئی مرتبہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور میں ذ ہین طلباء کا سروے کیاتھا۔ اس کا جو خاکہ تیار کیاتھا وہ بہت عمدہ اور امید افزا تھا اگر یہ سلسلہ اپنے منصوبہ کے تحت جاری رہتا تو ہندوستان میں دعوت اسلام و دین اسلام کی تصویر کا رخ کچھ اور ہوتا۔

ہندوستان میں شیخ سرہندیؒ کے بعد احیاء اسلام کی شاہ محدث دہلوی سے شروع ہوتی ہے اس سے اس سے بہت سے حضرات جڑتے چلے گئے جس میں سید احمد شہیدؒ اور سید اسماعیل شہید کا نام بطور خاص قابل ذکر ہے۔ ان حضرات نے احیاء اسلام کی کوشش کرکے ہندوستان میں اسلام کو مخدوش ہونے  اور صفحہ ہستی سے مٹانے سے روکنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اسی سلسلے کی کڑی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اورحضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی تھے دونوں حضرات کا احیاء اسلام کے سلسلے میں تصور یکساں تھا۔

سیرت سید احمد شہیدؒ کے مقدمہ میں احیاء اسلام پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ صاحب لکھتے ہیں کہ: 

ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل بھی نہیں ہوسکتا، اسلام کے نظام عمل کا ایک مستقل حصہ ایسا ہے جو حکومت پر موقوف ہے، حکومت کے بغیر قرآن مجید کا ایک پورا حصہ ناقابل عمل رہ جاتا ہے، خود اسلام کی بھی حفاظت قوت کے بغیر ممکن نہیں، مثال کے طور پر اسلام کا پورا نظام مالی ودیوانی، فوجداری معطل ہوجاتا ہے اس لیے قران غلبہ و عزت کے حصول پر زور دیتا ہے اور اسی لیے حلافت اسلامی بہت اہم اور مقدس چیز سمجھی گئی اور اس کو اکابر صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا جسے بہت سے کوتاہ نظر نظر نہیں سمجھتے اور اسی کی حفاظت کے لیے حضرت حسینؒ نے اپنی قربانی پیش کی تاکہ اس کا مقصد ضائع نہ ہو اور نااہل ہاتھوں میں نہ جانے پائے(احمد شہیدؒ صفحہ ۷۵۔۸۵ مصنف مولانا ابوالحسن علی ندوی)

مولانا کی یہ تحریر 1938 کی ہے، جب انگریزی حکومت تھی اور اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے حالات اس قدر سنگین نہیں تھے جو اس وقت ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جب تک اسلامی حکومت نہ ہو اس وقت تک احکام اسلام کا مکمل نفاذ نہیں ہوسکتا ہے اور نہ قرآن و حدیث کے ایک ایک جملہ پر عمل ہوسکتا ہے۔مولانا علی میاں اس وقت زندہ ہوتے اور ہندوستان کے موجودہ صورت حال کو دیکھتے تو نہ جانے ان پر کیا گزرتی۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب نے مباحث فقہیہ میں لکھا ہے کہ:

”ہمارے لیے بس قرآن و سنت دستور العمل ہے، ہم ایک جماعت ہیں، بھیڑ ہیں اور جب تک امیر حق پر قائم رہے اس کی اطاعت میں اللہ اور سول کی اطاعت ہے ہمارے نزاعات کو اللہ و رسول کی عدالت میں پیش ہونا چاہے اور اس عدالت کا فیصلہ ہمیں دل کی گہرائیوں سے قبول کرنا چاہیے۔“

موجودہ حالات میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکتا اس لیے قاضی صاحب چاہتے تھے کہ حالات حاضرہ کے مطابق جس قدر ممکن ہو مسلمان اپنے اوپر حکام اسلام نافذ کریں۔

مباحث فقہیہ  میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:

”اس لیے اگر شریعت محمدیہ مٹ رہی ہو، حضورﷺ کی سنت مردہ ہوچکی ہو، ایسے وقت میں شریعت محمدیہ کے قیام اورطریقہ کار رسالت مآب کی احیاء کی جدوجہد جہاد میں داخل ہے اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ جس کے پاس جتنی بھی صاحیت ہو اسے بہرحال استعمال کرے ورنہ سنت کو مردہ ہوتے ہوئے د یکھنا، شریعت کو مٹتے ہوئے دیکھنا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا، غیر اسلام پر راضی اور قانع ہوجانا اور پھر ایمان کا دعوی کرنا دونوں میں کوئی ربط نہیں، (مباحث فقیہ صفحہ۱۹۲)

قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ احیاء اسلام کے لیے اتحاد امت کو ضروری قرار دیتے تھے اسی لیے قاضی صاحب مختلف المسلک اور مختلف الفکر افراد کو ساتھ لے کر چلتے تھے تاکہ اتحاد امت میں دراڑ پیدانہ ہو یہی وجہ ہے کہ آپ کے ساتھ مختلف مکتب  فکر اور شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آپ سے وابستہ تھے۔ قاضی صاحب ان حضرات سے ان کی صلاحیت کے مطابق کام لیاکرتے تھے۔ اسی تعلق  سے قاضی صاحبؒ مباحث فقیہ کے صفحہ ۱۹۲ پر لکھتے ہیں کہ:

”خدا نے  اور خدا کے رسول نے مسلمانوں کی زندگی کو اجتماعیت کے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیا ہے، اسلام انتشار انار کی اور لامرکزیت کو کسی حال میں پسند نہیں کرتا، وہ مذہب کوانسان کا پرائیویٹ مسئلہ قرار نہیں دیتا،بلکہ قرآن کی روشنی میں اسلام انسانوں کی پیدائش سے لے کر موت تک اور خالص نجی زندگی سے لے کر اجتماعی اور تمندنی مسائل تک میں یہ چاہتا ہے کہ بندے بس خدا کی مرضی پر چلیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ چند وقتوں کی نماز پڑھ کر پنے کوفارغ  کرلیں، دین کو مسجد کی چار دیواریوں میں محدود کردیں، گھروں، بازاروں، کاروبار میں، شادی بیاہ میں، مرنے جینے نیز دوسرے سیاسی اور تمدنی مسائل میں اسلام کی رہنمائی سے الگ ہوکر زندگی گزاریں ایسانہیں ہوسکتا۔“

قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے نظام قضا کو وسعت دے کر بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے دور دراز علاقوں تک وسعت دیا تاکہ مسلمان اپنے مسائل اسلامی احکام کے مطابق حل کریں۔

اسلامی عدالت نامی کتاب تصنیف فرماکر مسلم علماء پر احکام اسلام اور عائلی قوانین اپنے اوپر نافذ کرنے اورعمل کرنے کے لیے  دل کھول دی، وہ ایسے معاشرہ کی تشکیل کرناچاہتے تھے جہاں کوئی بھوکا نہ سوئے اور مسلمان اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے حقوق وفرائض کے تئیں بیدار رہیں۔ ایک دوسرے کو سہارا دیں، جب تک ایسا نہیں کرتے احیاء دین نہیں ہوسکتا۔ قاضی صاحبؒ نے ان باتوں کو لازمی قرار دیتے  ہوئے مباحث فقہیہ میں لکھا ہے:

اسلام اس انفرادیت کو پسند نہیں کرتا جس میں فرد اپنے ذاتی مفادات کے لیے زندہ رہتا ہے بلکہ اسلام ایسی اجتماعی زندگی پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں ہر فرد پر دوسرے افراد کے تئیں فرائض اور حقوق عائد ہوتے ہوں معاشرہ کا کوئی فرد بے سہارا لاوارث نہ رہے بلکہ ہر ضرورت مند اور معاشرہ کا ہر وہ شخص جو خود اپنی کفالت کا اہل نہیں اور نہ اپنی روزی خود کما سکتا ہے اس کی ذمہ داری سماج کے کسی دوسرے فرد پر عائد کی گئی ہے۔ صفحہ 200

آج مسلمانوں میں جتنی خرابیاں اور خرافات نظر آرہی ہیں اس کے لیے اسلام ذمہ دار نہیں ہے اسلام کی شکل نہیں بدلی ہے بلکہ مسلمان بدل گئے ہیں اس لیے ساری خرابیاں مسلم معاشرہ میں در آئی ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں لا تعداد غیر اسلامی نشانات اور رسومات نظر آرہے ہیں، اسی لیے قاضی صاحبؒاصلاح معاشرہ پر بہت زور دیتے تھے۔

آج یہ بات عام ہوگئی ہے کہ اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی نزاع کے سلسلے میں قرآن کی غلط تشریح کے ذریعہ اپنے کو حق پر ثابت کرنے کے لیے سہارا لیا جارہا ہے اور ہر مسلمان اپنے مفاد اور حساب سے دین کی تشریح کرنے پر آمادہ ہے تاکہ ان کیذاتی مفاد کی تکمیل ہو۔ اس طرح کی چیزیں قاضی صاحبؒ کو سخت ناپسند تھیں۔

وہ اس بات کے سخت خلاف تھے کہ ہر آدمی اجتہاد و استنباط کا فریضہ ادا کرے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مباحثہ فقہیہ میں لکھا ہے کہ:

اجتہاد ایک نازک ترین ذمہ داری ہے اگر ہر کس و ناکس کو اجتہاد کی اجازت دے دی جائے تو دین ایک کھیل بن کر رہ جائے گا، خواہشات نفس کی پیروی کی جائے گی، ”مصالح شرعیہ“، اور ”مقاصد تشریع“ کو نظر انداز کردیا جائے گا اور شریعت کے نزول کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا، کار اجتہاد نازک ؔذمہ داری ہے اگر نا اہل افراد یا ایسے لوگوں کے حوالہ کردی جائے جو خوف خدا سے خالی اور خشکی و تری میں بے محابا چکنے کا مزاج رکھتے ہیں تو یقین ہے کہ یہ اصول اجتہاد سے ناواقف اور اہلیت اجتہاد سے مرحوم لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور اللہ کی مخلوق کو بھی گمراہ کریں گے۔

آج کے عہد کی بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ لوگ جو مکان کی تعمیر سے لے کر معاشی مسائل تک اور پرئمری اسکول سے یونیورسٹی کی تدریس تک یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں مہارت، تربیت، تجربہ، تخصص (Specialisation) کو ضروری تصور کرتے ہیں وہ  دین کے معاملہ میں ناکارہ سے ناکارہ شخص کو رائے دینے اور اجتہاد کرنے کا اہل سمجھتے ہیں اور دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ اجتہاد کا نعہ با آواز بلند لگا رہے ہیں  ان میں اکثر لوگ ہیں جو اس دور کے منکرات و فواحش اور اللہ کے دین کی …… کواجتہاد کے مقدس نام پر محض اپنی خواہش نفس کی تکمیل  کے لیے حلال کرنا چاہتے ہیں۔صفحہ ۹۸

غرضیکہ  قاضی صاحبؒ نے زندگی کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جہاں مسلمانوں کی رہنمائی نہ کی ہو، چاہے وہ مذہبی معاملات ہوں، یا تجارتی و معاشی معاملات، بینکنگ ہو یا انشورنش عائلی معاملات ہوں یا ازدواجی زندگی، کس طرح بہتر اور اسلامی طریقے سے گزارے جائیں رہنمائی کی ہے۔ اسلامی، عائلی، عصری، تجارتی، معاشرتی اور مالیاتی موضوعات پر قاضی صاحب کے منعقدہ کردہ سیمنار ان کی سوچ اور ان کے عمل کے غماز ہیں۔ قاضی صاحب شریعت کے معاملے میں نہ شدت کے قائل تھے اور نہ اباحیت پسندی کے اس سلسلے میں قاضی صاحب نے ساتواں فقہی سیمینارمنعقدہ 30 / دسمبر تا 2/ جنوری 1995ء جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

”ان نازک حالات میں ہمیں مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتوں کا خیال کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کو ناقابل برداشت تنگی پیش نہ آئے۔ دوسری طرف اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ اس آزاد طرم فکر کو سہارا نہ ملے جو اجتہاد کے نام پر دین کی ایک ایک چولیں ہلانے کی فکر میں ہے ورنہ بقول اقبال مرحوم

لیکن مجھے ڈر ہے کہ آواز تجدید

مشرق میں تقلید فرنگی کا بہانہ

قاضی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے اقوال، تصانیف اور تحریکیں مسلمانوں کے لیے مہمیز کا کام دیں گی او ر ملت اسلامیہ جو عظیم صدمے سے دو چار ہے قاضی صاحب کے بتائے راستے، طریقے اور انداز کو اپنا کر سنگین سے سنگین حالات کا سامنا کرتے ہوئے دین کے ساتھ مستقبل کو سنواریں گے۔ حضرات کو حضرت قاضی صاحب کی وفات مسلمانان ہندکے لیے ایک بہت بڑا خلا  تھا اورہے جس کا پُر ہونا فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ایسی کشادہ دل کوئی شخصیت نظر نہیں آرہی ہے،جو تمام مکتب فکر افراد کو ساتھ لے کر چلیں۔ جو لوگوں کے جذبات کو سمجھیں، اپنی سنانے سے زیادہ سننے کی طاقت رکھیں اور اپنے چھوٹوں سے شفقت و محبت سے پیش آئیں اور ان کے خیال کو غور سے سنیں اور ان کو اہمیت دیں۔ اگر اس وقت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی زندہ ہوتے تو ہندوستانی مسلمانوں کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ نہ ہوتے جن حالات سے آج ہندوستان مسلمان گزر رہے ہیں۔مسلمان ایک دوسرے کے پیچھے چلنا سیکھیں جس طرح قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، حضرت مولانا قاری طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی، مولاناابوالحسن علی ندوی اور دیگر اکابر کے پیچھے چلاکرتے تھے۔ انہوں نے اپنے وقت کا انتظارکیا نہ کے کسی سے وقت کو چھین کر آگے بڑھے۔

9810372335

کالم نگار اور سینئر صحافی یو این آئی


Comments