دوسوسالہ اردو صحافت کا جائزہ:مسائل اور امکانات



 عابد انور 

اردو صحافت کی تاریخ جتنی تابناک ہے حال و مستقبل اتنی ہی موہوم نظر آرہی ہے حالانکہ اردو صحافت تمام ترنازک اور ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو صحافت آج اپنی دو سو سالہ سالگرہ منارہی ہے۔ اس موقع پر تابناک ماضی کی بات تو کی جارہی ہے لیکن روشن مستقبل کی بات نہیں کی جارہی ہے اور نہ لائحہ عمل کے بارے میں کوئی بات کی جارہی ہے۔ جبکہ اس موقع پر شاندار مستقبل کے ساتھ پروقار مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کرنی چاہئے۔ جب تک اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل کے چیلنج کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جاتا اس وقت تک ہم اردو صحافت کی تعمیری کردار کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ملک کا پہلا اردو اخبار جام جہاں نماں ہے جو اپنے فارسی اخبارمیں اردو کو ضمیمہ کے طور پر شائع کرتا تھا۔ اس کے بعد اردو اخبارات کا کاررواں بڑھنے لگااورملک کی آوازبھی بن گیا۔ ملک میں آزادی کی تحریک کی زبان بھی بن گئی۔ جنگ آزادی کا جائزہ لیں تو پوری تحریک اسی زبان کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے اور تمام انقلابی نعرے اسی زبان کی دین ہے۔ اپنے آغاز سے ہی وہ عوامی جذبات کا ترجمان رہی۔ 

اردو اخبارات کے آعاز وارتقا کے بارے میں مختلف آراء سامنے ہیں۔ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ کسی نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ”آگرہ اخبار“ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار ”جام جہاں نما“ کا ضمیمہ تھا جو27?مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف کا دعویٰ ہے کہ ”مراۃ الاخبار“ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ”اردو اخبار“ کے نام سے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان شہید نے کیا تھا۔ جنھوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ٹیپو سلطان نے ارشاد فرمایا کہ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ”فوجی اخبار“ رکھا جائے۔ یہ اخبار شاہی سرپرستی اور سرکاری نگرانی میں جاری ہوا جو اردو زبان کا پہلا اخبار تھا اگرچہ کہ عوام تک اس کی رسائی نہیں تھی بلکہ صرف شاہی فوج کے افسر اور سپائیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی۔ اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ مگر ٹیپو سلطان شہید کی دور بین نظروں نے یہ بھانپ لیا تھاکہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی اخبار میں جو تقطیع پر ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اس میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین اور تبادلے کی اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کیے جاتے تھے۔ یہ پانچ سال تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کر لیا اور اسے آگ لگادی۔

اردو صحافت کی تاریخ کا ذکر کیا جائے اوریو این آئی اردو سروس کا ذکر نہ آئے تو اس سے زیادہ زیادتی اردو صحافت کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ یو این آئی اردو سروس نے اردو صحافت کا نہ صرف کایا کلپ کردیا بلکہ اردو اخبارات کے مزاج کو بھی تبدیل کردیا۔ 

یو این آئی آردو سروس کی شروعات یوں تو اپریل 1992 سے ہوگئی تھی لیکن باضابطہ آغاز 5جون 1992 کو اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے ہاتھوں ہوا تھا۔ اردو والوں اور خاص طور پر اردو کے مدیران کی خواہش تھی کہ انگریزی اور ہندی کی طرح اردو میں بھی خبر رساں ایجنسی ہو اور اس سلسلے میں اردو اخبارات کے مدیران اور اردو کے بہی خواہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے رابطہ کیا گیا تھا اور اس جانب توجہ مبذول کرائی تھی۔راجیو گاندھی نے اس سلسلے میں پہل کی اور اردو خبر رساں ایجنسی شروع کرنے کے لئے  25 لاکھ روپے مختص کئے تھے۔ اردو اخبارات میں انگریزی سے ترجمہ ہوکر شائع ہونے والی خبروں میں یکسانیت نہیں تھی جسے اردو اخبارات کے مدیران اور قارئین دونوں محسوس کررہے تھے اور اردو اخبارات کی خبروں میں یکسانیت کی سخت ضرورت محسوس کرتے تھے۔ خبر رساں ایجنسی سے جاری ہونے والی انگریزی خبروں کااردو ترجمہ میں یکسانیت نہیں تھی ایک ہی لفظ کا مختلف ترجمہ کیا جاتا تھا جس کی جہ سے خبروں کی ہئیت بگڑ جاتی تھی۔ اسی کے ساتھ ترجمہ کرنے میں بہت وقت لگ جاتا تھا جس کی وجہ سے اہم خبریں اخبارات کا زینت بننے سے محروم ہوجاتی تھیں۔ اسی وجہ سے اردو اخبار والوں کو اردو خبر رساں ایجنسی کی شدت سے کمی محسوس ہوتی تھی اس لئے اردو کے مدیران اور بہی خواہوں نے اردو خبر رساں ایجنسی شروع کرنے کی حکومت سے بات کی اور یہ سنہری خدمت کا موقع یو این آئی کے حصے میں آیا۔ اس طرح یو این آئی اردو سروس کی شروعات ہوئی۔

یو این آئی اردو سروس کی جب 1992  میں شروعات ہوئی تو اس وقت بہت کم اخبارات تھے۔کیوں کہ اخبار نکالنے کے لئے بہت لمبے چوڑے ملازم رکھنے پڑتے تھے۔ اس کے علاوہ اردو سروس لینے کے لئے کسی بھی شہر میں تین سبسکرائبر س کی شرط تھی جس کی وجہ سے بہت اخبارات سروس نہیں لے پاتے تھے۔ حیدرآباد میں اردو سروس کی خدمات حاصل کرنے کے لئے ایک اخبار نے پہل کی اور اضافی بوجھ اٹھاکر وہاں اردو سروس کی خدمات شروع کروائی۔ ابتدا ء میں 15,20اخبارات ہی تھے اور اس طرح اردو سروس کا کاررواں بڑھتا گیا۔ اس وقت چار سو سے زائد اردو کے اخبارات ہیں اور ویب سائٹس ہیں۔ اس وقت یو این آئی اردو سروس کی پہنچ تقریباً پورے ملک میں ہے اور یہ قومی زبان ہندی سے پہنچ کے معاملے میں کافی آگے ہے۔ابتداء میں یو این آئی اردو سروس اپنی خدمات ٹیلی پرنٹر کے ذریعہ مہیا کراتی تھی یہ ٹیلی فون لائن کے ذریعہ اضافی آلات لگانے کے بعد اخبارات کے دفتر میں پہنچتی تھی۔ رفتار سست تھی اخبارات کو اردو میں خبریں مل جایاکرتی تھی لیکن تاخیر ہوتی تھی کیوں کہ ٹیلی پرنٹر کو ایک لائن  ٹائپ کرنے میں چھ چکر لگانے پڑتے تھے جب کہ ہندی کو ٹائپ کرنے میں تین چکر اور انگریزی کو ٹائپ کرنے میں ایک چکر، اس طرح اردو سروس کی رفتار کم تھی۔ اس کے ساتھ اخبارات والوں کو خبریں ٹائپ کرانی پڑتی تھی۔ اس کے بعد یو این آئی ارو سروس میں وی سیٹ کا دور آیا جس سے اس کی رفتار بڑھ گئی اور خبریں براہ راست کمپیوٹر میں موصول ہونے لگیں۔ اس کے لئے اخبارات کے دفتر میں اینٹا لگانا پڑتا تھا۔ اس کا صرف اس وقت  25ہزار روپے آتا تھا۔ اسی کے ساتھ یواین آئی نے خبروں میں سرخیاں لگاکر دینی شروع کی ابتداء میں خبروں میں سرخیاں نہیں ہوتی تھیں صرف سلگ ہوتا تھا۔ اس وقت یو این آئی اردو سروس میں جو سافٹ ویئر استعمال ہورہا ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ ہر خبر صرف تین سیکنڈ میں سبسکرائبرس کو حاصل ہوجاتی ہے اور اردو اخبارات والوں کو ٹائپ بھی کرانے سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اب وہ اٹھاکر سیدھے پیج پر پیسٹ کرسکتے ہیں۔ اسی خبر میں ایڈت کرسکتے ہیں۔ جس طرح چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ 

ابتداء میں بہت کم اسٹاف سے سروس شروعات کی گئی تھی لیکن اس وقت کام کرنے میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی اس لئے اردو سروس اپنے کاررواں کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہی۔اردو سروس اب بھی کم اسٹاف کے ساتھ بہتر سے بہتر خدمات دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ انگریزی اور ہندی کے اخبارات اطلاعاتی تکنالوجی نظام سے مربوط ہیں اسی طرح اردو اخبارات نے جدید تکنالوجی اپنانا شروع کردیا ہے۔ آج اردو اخبارات یو این آئی کی اردو سروس وی سیٹ یا ای میل کے ذریعہ لیتے ہیں۔ ان کے پاس وہ تمام سہولتیں موجود ہیں جو کہ دیگر زبانوں کے اخبارات کے پاس ہوتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ صدی اردو زبان کے لئے اچھی صدی ثابت ہوگی۔ اردو زبان نے جہاں برصغیر سے نکل کر یوروپ، امریکہ اور خلیجی ممالک میں اپنی جگہ بنائی ہے وہیں وہاں سے اردو کے بڑے بڑے اردو اخبارات بھی نکل رہے ہیں اور وہاں نئی نسل کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ آج عرب ممالک سمیت امریکہ، لندن، ناروے اور دیگر مغربی ممالک سے اردو اخبارات و رسائل شائع ہورہے ہیں۔ ان اخبارات کا موازانہ کسی بھی دیگر زبان کے بڑے اخبارات سے کیا جاسکتا ہے۔ اردو صحافت برقی ذرائع سے بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔ آج سینکڑوں کی تعداد نیوز پورٹل اور ویب سائٹس ہیں جن میں سائنس و تکنالوجی اور ترقیات سے متعلق مضامین ہوتے ہیں جو نوجوان نسل کی ایک ’کلک‘کی دوری پر ہے۔ 

اردو صحافت میں نیا موڑ اس وقت آیا جب یو این آئی اردو سروس کا آغاز ہوا۔ اس سے اردو اخبارات کی رسائی نہ صرف خبروں تک آسان ہوئی بلکہ وہ ترجمہ کے مشکل ترین مسائل سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے خبروں کے ترجمے میں ہم آہنگی پیدا ہوئی اور خبرو ں کا حصول بھی آسان ہوگیا۔ آج اردو خبارات کا نکالنا آسان ہوگیا ہے اور کم سے کم اسٹاف میں بھی اردو اخبار نکالا جاسکتا ہے۔ اس سے اردو اخبارات کی لاگت میں نہ صرف کمی آئی بلکہ اردو اخبارات منافع پر چلنے لگے۔ یو  این آئی اردو سروس کا آغاز اردو صحافت میں ایک انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس سے پہلے معدودے چند اخبارات نکلتے تھے جب کہ آج اردو اخبارات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یقینا اس کا سہرا یو این آئی اردو سروس کے سر بندھتا ہے۔ یو این آئی اردو سروس سے استفادہ کرنے والے اخبارات کی تعداد ۰۸ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیوزچینل بھی مستفید ہونے والوں میں شامل ہے۔  

یو این آئی اردو سروس نے نئی نسل میں اردو صحافت کے تعلق سے ایک ولولہ بھردیا اور ان کا رجحان اردو صحافت کی طرف مائل ہوا ہے۔ بہت نوجوان جو صحافت میں ڈپلومہ ہولڈر، گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں اردو صحافت کو بطور کیریر اپنانا چاہتے ہیں تو یہ یو  این آئی اردو سروس کی ہی دین ہے۔ اس نے نہ صرف صحافت کا ایک نیا دریچہ کھولا بلکہ اردوصحافت کے حجم کو بھی بڑا کردیا ہے۔ آج اردو اخبارات میں سائنسی، کیریر، تجارت اور ترقیات سے متعلق خبریں نظر آرہی ہیں تو یہ اردو سروس کی دین ہے۔ مختلف مواقع نیشنل اور ’ورلڈ ڈیز‘ پر خصوصی مضامین جاری کرکے اردو سروس نے قارئین کے ایک بڑے طبقہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یو این آئی اردو سروس نے صحافت کے معیار کو بلند کرنے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخبارات کی ضروریات کے مطابق نیوز جاری کی جائے اور ان کی ضروریات کاپورا خیال رکھا جائے۔ باقی آئندہ۔ 



Comments

  1. اردو صحافت اور یو این آئی کی گراں قدر خدمات کا ناقدانہ جائزہلیا گیا ہے۔محترم عابد انور صاحب کو سلام

    ReplyDelete

Post a Comment