یوپی اسمبلی انتخابات:حکمراں ٹولہ قانون کی دھجیاں اڑانے پر آمادہ



 عابد انور 

اترپردیش انتخابات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں اسی طرح نفرت اور جہالت کو انڈیلنے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی انتخابی کمیشن کی خاموشی یہ بتارہی ہے کہ ہندوستان میں انتخابات آئین کے تحت نہیں لڑے جاتے بلکہ ذات پات، مذہبی جذبات برانگیختہ کرکے، فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیکر، مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کے ماحول کو بناکر لڑے جاتے ہیں اور ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون قاتلوں، زانیوں، فرقہ پرستوں، نفرت کے کاروبار کرنے والوں اور آئین کی دھجیاں اڑانے والوں کے سامنے ننگا ناچ کرتے نظرآتے ہیں۔ عملاً ہندو راشٹر میں تبدیل اترپردیش میں اس وقت کے جو حالات ہیں وہ ہندوستان کے مستقبل کی حالت کو طے کریں گے۔ یہ ہندوؤں پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کو پسند کرتے ہیں، کس کا انتخاب کرتے ہیں اور کس کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی پوری فرقہ پرستوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ سوائے چند لوگوں کے جو ہمیشہ اور ہر دور ایسے لوگ آواز بلند کرتے رہے ہیں لیکن اکثریتی کی خاموشی ہی فرقہ پرستوں کی قوت ہے اور آسانی سے ہر طرح کے جرائم کو انجام دیتے ہیں۔ اگر سول سوسائٹی نے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں کی تو آنے والی نسل کے لئے یہ ہلاکت خیز ہوگی اور انہیں خود کو ہندو کہنے میں شرم محسوس ہوگی۔

انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ ہو یا وزیر داخلہ امت شاہ یا پردھان سیوک نریندرمودی ہوں، ہر شخص نفرت اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کررہاہے۔ اس کے سہارے یہ لیڈرہندو ووٹ کی صف بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔ بار بار، جرائم، ڈکیٹی، فساد، قتل وغیرہ کی مثال پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اترپردیش سے جرائم کا صفایا کردیا ہے۔ اس پر بی بی سی ہندی نے ایک فیکٹ رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں حکومت کے دعوی کا موازنہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ”پچھلے ہفتے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ریاست میں پچھلے پانچ سالوں میں کوئی فساد نہیں ہوا۔ اس کے دعوے کی حقیقت کیا ہے؟ یہ بیان غلط ہے، حالانکہ فسادات کی تعداد میں کمی آئی ہے۔کیا دعویٰ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ کیونکہ دیئے گئے چارٹ سے واضح ہے کہ 2017 سے ہر سال کسی نہ کسی طرح کے فسادات ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں خاص طور پر بات نہیں کی لیکن میں نے یہاں ان دونوں قسم کے فسادات کا ذکر کیا ہے کیونکہ جب پچھلی بار ہم نے ایسا کیا تھا تو حکومت نے ہمیں نوٹس بھیجا تھا کہ ہم دونوں میں فرق کریں۔حال ہی میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پریس کو جاری اپنے بیان میں حکومت کی کامیابیوں کو گناتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنما ماضی میں بھی ایسے ہی دعوے کر چکے ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) سے حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار مجموعی فسادات کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ فسادات بھی بتاتے ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے بعد سے ریاست میں کوئی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا ہے لیکن جب 2017 میں ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد 195 فرقہ وارانہ واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔لیکن اتر پردیش میں فسادات کی کل تعداد کے اعداد و شمار مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔مجموعی طور پر، 2017 سے فسادات کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن 20-2019 کے درمیان اس میں 7.2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ریاست مہاراشٹرا اور بہار سمیت ٹاپ پانچ ریاستوں میں شامل ہو گئی جہاں سب سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے 2016 میں ریاست میں 8,016 فسادات ہوئے تھے۔اس کے بعد 2017 میں یہ تعداد 8,900 تھی۔ یہ سال 2018 میں 8,908 اور سال 2020 میں 6,126 تھی۔اسی طرح یوگی حکومت  نے جرائم کی شرح میں تقریباً 60 فیصد کمی آنے کا دعوی کیا ہے۔ حقائق کی جانچ: یہ غلط ہے۔ جرائم میں کمی آئی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے۔ ہاں، کمی رہ گئی ہے، تو کیا ہم اسے آدھا سچ کہیں؟مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ باتیں مغربی یوپی کے سہارنپور میں اپنی ایک تقریر کے دوران کہیں۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق جرائم کو دو زمروں میں رکھا گیا ہے۔ ایک وہ جو تعزیرات ہند (IPC) کے تحت آتے ہیں اور دوسرے وہ جو خصوصی قانون یا مقامی قانون (SLL) کے تحت آتے ہیں۔ملک کی پارلیمنٹ وہ خصوصی قوانین بناتی ہے جو منشیات جیسے مخصوص مضامین سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ مقامی قوانین کسی خاص علاقے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2017 کے بعد آئی پی سی کے تحت درج ہونے والے کل جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہم نے درست موازنہ کے لیے 2013 اور 2020 کے درمیان ڈیٹا کو دیکھا۔ اکھلیش یادو حکومت کے آخری چار سال اور موجودہ یوگی حکومت کے پہلے چار سال۔



2013 اور 2016 کے درمیان آئی پی سی کے تحت کل 991,011 رجسٹر کیے گئے تھے۔اگلے چار سالوں میں، اس زمرے کے تحت جرائم کی تعداد 7 فیصد اضافے کے ساتھ 1,360,680 ہو گئی۔دریں اثنا، ریاست میں رپورٹ ہونے والے جرائم کی کل تعداد بڑھ کر 3,514,373، ایس پی کے دور میں 3,514,373 اور بی جے پی کے دور میں 2,471,742 ہوگئی۔ چنانچہ بی جے پی کے دور حکومت میں اس میں 7 فیصد کمی آئی۔یہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور یہ سب سے زیادہ جرائم کی شرح والی ریاست بھی ہے۔ یہ 2020 میں درج ہونے والے مجرمانہ مقدمات کی کل تعداد میں تیسرے نمبر پر تھا۔یہ درست ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں ڈکیتی کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن این سی آر بی کا سرکاری تخمینہ 70 فیصد نہیں بلکہ 61 فیصد کی کمی ہے۔اگر ہم ایس پی کے پورے دور (2012-16) سے موازنہ کریں، تو بی جے پی کے چار سالوں (2017-20) میں یہ تعداد 57 فیصد تک گر گئی۔اس عرصے میں قتل کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ 2013-16 کے مقابلے 2017-2020 میں قتل میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو مختلف زمروں میں رکھا گیا ہے۔ ان میں جہیز کے لیے موت، عصمت دری کے بعد قتل، شوہروں پر ظلم، اغوا اور اغوا، خودکشی کے لیے اکسانے جیسے جرائم شامل ہیں۔2013 اور 2016 کے درمیان خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد 156,634 رہی۔یہ تعداد 2017-2020 کے دوران بڑھ کر 224,694 ہوگئی، یعنی 43 فیصد اضافہ۔ریاست میں 2019 اور 2020 کے درمیان خواتین کے خلاف جرائم میں 17 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ لیکن یہ ریاست خواتین کے خلاف ایسے جرائم کی تعداد میں سرفہرست ہے۔ اس کے بعد مغربی بنگال، راجستھان، مہاراشٹر اور آسام کا نمبر آتا ہے۔

مسلمانوں کو یوپی اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ یوپی میں سماج وادی پارٹی برسراقتدار آئے، یا بی ایس پی، کانگریس آئے یا بی جے پی،اترپردیش کے ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ برس ہی نہیں ایک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے افسران موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے کے لئے کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں یوپی کے مسلمانوں کا نظر انتخاب انہیں امیدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہوں۔سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن میں علماء، صلحاء، مشائخ، دانشور، لیکچرر، پروفیسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حیات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، ریاست اور ملک میں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں، ان پر فرض عین ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت یا حق میں خم ٹھوک کر میدان میں انتخابات میں کود پڑیں بلکہ وہ حضرات اس بات کی کوشش کریں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔ کیوں کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی سازش تیار کی جاچکی ہے، مہرے، پیادے اور کارندے تیار ہوچکے ہیں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں۔ ایسے خوبصورت اور مذہبی لباس میں آر ایس ایس کے نمائندے آپ کے سامنے پیش ہورہے ہیں جو بات تو کریں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کی، مسلمانوں کی یک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی بھلائی نہیں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کام کو آسان بنانے کے لئے میدان میں ہیں۔ اس بار یوپی میں جس طرح کا سیاسی کھیل بی جے پی بہت ہی خاموشی سے کھیل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کیا میدان میں سیاست بہت سے آزمودہ کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامیابی کے غبارے پر سوار ہیں اور زعم ہے کہ اس کی حمایت کے بغیر کسی پارٹی کی حکومت نہیں بنے گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اعظم کا واقعہ سامنے ہے جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامیابی نہیں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسیم کے سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے میڈیا کارندے نے اعظم گڑھ کو ”آتنگ گڑھ“  کہہ کر بدنام کیا تھا۔ نئی اور پرانی سیاسی پارٹیوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے کہ انہیں خوف و دہشت، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے یا عزت کی۔ اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہیں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا خمیازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا  پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب چکانے کا موقع ملتا ہے اگر یہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا تو پھر شکایت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ 



مسلمانوں کو الجھانے اور ووٹ تقسیم کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔اس کی تلافی کرنے والا پھر کوئی نہیں ہوگی۔اس لئے مسلمانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔جذبات کے بجائے ہوش کا استعمال کریں۔ ان کے پاس محدود متبادل (آپشن) ہیں۔ مسلمانوں کو بدترین میں سے بدتر کا انتخاب کرنا ہے۔ فرقہ پرستوں کی کامیابی آپ کی تباہی کا آغاز ہوسکتی ہے۔

یوپی کا الیکشن کی تیاری ایک سخت امتحان سمجھ کر نا ہوگا۔اس وقت اس ریاست کو کئی طرح کی آگ میں جھونکنے کی تیاری میں مصروف شرپسندوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ایک سنہری موقع ہے کیوں کہ نفرت اور فساد کی آگ میں جھونک کر الیکشن کی لہلاتی فصل کو آسانی سے کاتی جاسکتی ہے۔ اس وقت یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور دیگرچھوٹی موٹی سیاسی  جماعتیں جو یوپی انتخاب میں اثر انداز ہوسکتی ہیں ان میں سرفہرست آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سرفہرست ہے۔ اس کی طرف مسلمانوں کا جھکاؤ تیزی سے ہوا ہے۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی کی طرف لوگ راغب ہوئے ہیں۔مسلمانوں کا ایک طبقہ ان کو پسند کرتا ہے خاص طور پر ان کے بولنے، مسلمانوں کے متعلق ان کے نظریے، پارلیمنٹ کی گئی ان کی تقریروں اورمسلمانوں کے مسائل پر ان کی بے باک رائے سے مسلمانوں کا یہ طبقہ بیرسٹر اسدالدین کو بہت پسند کرتا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ کم از کم وہ مسلمانوں کے بارے میں بے باک رائے تو رکھتے ہیں ورنہ کوئی مسلم لیڈر کچھ بولنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔اس مسلم طبقے کی یہ بھی دلیل ہے کہ سیکولرزم کو بچانے کے نام پر کب تک ہم ان نام نہادم سیکولر پارٹیوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں اور ان سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے علاوہ کچھ نہیں کیا۔


Comments

Post a Comment