لڑکیوں کے حقوق اور ہمارا معاشرہ


 عابد انور 


کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی، تہذیب و تمدن، ثقافت و کلچر کی شناخت ور تہذیبی اقدار کے برقرار رہنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس ملک کے بچوں کی کتنی بڑی تعداد اسکول جاتی ہے اور ان کی نشوو نمامیں کس حد تک حفظان صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کس حد تک بچوں کی نگہداشت و پرداخت کی جاتی ہے اور کتنا وقت بچوں کو دیاجاتا ہے۔ بچوں کے ارتقاء میں دستیاب وسائل کاکس حد تک استعمال کیا جاتا ہے اگر بچوں کے لئے تعمیر و ترقی، اس کے ارتقاء اور تعلیم کے وسائل کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے تو اس ملک کو روشن مستقبل، ترقی یافتہ اور مہذب ملک بننے سے کوئی نہیں روک سکتا خاص کر کمسن بچیوں کی طرف بھر پور توجہ، ان کے لئے دستیاب تعلیمی وسائل اچھی تربیت کا انتظام، بہتر ماحول کی دستیابی، متوزن غذا کی فراہمی اور شفقت ومحبت سے لڑکیوں میں خود اعتمادی واور خود انخصاری پیدا ہوگی، جس سے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں میں نمایاں کردار ادا کر سکیں گی کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب لڑکی پورے خاندان کے لئے باعث افتخار اور خاندان کو بنانے سنوارنے میں بھر پور ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔گرل چائلڈ ڈے کی پوری دنیا میں اہمیت ہے اور اسے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور یہ عہد کیا جاتا ہے کہ جہاں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ منعکس کی جائے گی وہیں شکم مادر میں لڑکیوں کے قتل کو بھی روکا جائے گا۔ اگر اسی طرح لڑکیوں کو شکم مادر میں قتل کیا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا سے مسکراہٹ ختم ہوجائے گی اور نسل انسانی کی افزائش رک جائے گی۔ ۱۰۰۲ کی مردم شماری کے مطابق ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کا قومی اوسط  ۶۳۹ ہے۔ 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 19 دسمبر 2011 کو اس بارے میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں لڑکیوں کے حقوق اور دنیا کی ان منفرد چیلنجوں کا جن کا کہ وہ مقابلہ کرتی ہے، کو منظوری دینے کے لئے 11 اکتوبر 2012 کو بین الاقوامی لڑکیوں کا دن یعنی یوم البنات منانے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسے بین الاقوامی لڑکیوں دن  بنانے کا مقصدبچیوں کی شادی کو ختم کرنا ہے۔اس موقع پر کئی پروگراموں کا انعقاد کیا  جاتا ہے جن میں لڑکیوں کے تحفظ کے لئے معاشرے میں کئے جا رہے اقدامات کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں بیس سے چوبیس سال تک کی تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں (1982-2012) میں لڑکیوں دلہن کی تعداد میں کمی کے باوجود دیہ ان  علاقوں اور خاص طور پر غریب طبقے میں یہ چیلنج اب بھی برقرار ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو 18 سال سے کم عمر میں شادی ہونے والی لڑکیوں کی تعداد اگلے دہائی (2010-2020) میں بڑھ کر 15 کروڑ تک ہو جائے گی۔  لڑکیوں کی حفاظت کے لیے انہیں تعلیم ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں منعقد کئی پروگراموں میں لڑکیوں کو بااختیار بنانے کیلئے معاشرے میں کئے جا رہے اقدامات کا تعارف کرایا گیا ہے۔ سماج سے آواز آنی چاہئے کہ ہر لڑکی کو مکمل طور پر اپنے بچپن کا حق ملے، وہ اسکول میں پڑھے تاکہ اس کو اپنی زندگی میں مزید موقع ملے۔دنیا میں ہر تین میں سے ایک لڑکی تعلیم سے محروم ہے۔ غربت کی وجہ سے لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجا جاتا۔ لاکھ باصلاحیت ہونے کے باوجود وہ پرائمری تعلیم سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ کم عمر میں ہی ان کی شادی کر دی جاتی ہے یا شادی کرنے کے لئے انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ آج کے وقت میں لڑکیاں لڑکوں سے ایک قدم آگے ہیں، لیکن آج بھی وہ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ باہر ہی نہیں بلکہ گھر میں بھی لڑکیاں امتیاز، گھریلو تشدد، جنسی حملہ کا شکار ہو رہی ہیں۔بین الاقوامی لڑکیوں  کا دن کا مقصد لڑکیوں کے معاملے پر غور کر کے ان کی بھلائی کی طرف فعال قدم بڑھانے کا ہے۔بین الاقوامی لڑکیوں کادن کے موقع پر دنیا بھر میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ کچھ پروگرام اقوام متحدہ سے وابستہ ہوتے ہیں تو کچھ پروگرام این جی او کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔بین الاقوامی لڑکیوں یوم کا مقصد ہے لڑکیوں کے معاملے پر غور کر کے ان کی بھلائی کی طرف فعال قدم بڑھانا،غربت، جدوجہد، استحصال اور تفریق کا شکار ہوتی لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا ہی اس کا بنیادی مقصد ہے۔



سال 2013 میں لڑکیوں کے دن کا موضوع 'لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدید (انوویشن فار گرل چائلڈ)' رکھا گیا ہے کیونکہ لڑکیوں کو تعلیم دینا ہمارا پہلا فرض ہے اور اخلاقی لازمیت بھی۔ تعلیم سے لڑکیاں نہ صرف با اختیار ہوتی ہیں بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہوتی ہیں۔ تعلیم غربت دور کرنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔اس طرح اقوام متحدہ کی اس پہل سے ایک طرف جہاں بچیوں کے تئیں لوگ بیدار ہوں گے وہیں دوسری طرف ہر جگہ پیار اور خوشی لٹانے والی لڑکیوں کے چہروں پر اعتماد کی سچی خوشی جھلکے گی۔ 

ہندوستان  میں لاکھوں لڑکیاں ہر سال گم ہو جاتی ہیں۔ انہیں زیادہ تر عصمت فروشی اور گھریلو کام کاج کے لئے فروخت کیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں غیر قانونی طور پر لڑکیوں کو ان کے جنم سے پہلے ہی مارنے کے چلن کی وجہ سے مرد و کے لگانپات میں کمی آئی ہے. بچوں کے لئے کام کرنے والی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اسے نسل کشی کی حالت بتایا ہے. یونیسیف کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں  رحم مادر میں  قتل اور نوزائیدہ لڑکیوں کو مار دیے جانے کی وجہ سے ہر سال 50 لاکھ عورتیں گم ہو جاتی ہیں. اگرچہ حکومت ہند ان اعداد و شمار سے انکار کرتی ہے لیکن ہریانہ کا حقیقت دلائل کرنے کی کم ہی گنجائش چھوڑتا ہے۔

۱۰۰۲ کے سرکاری سروے کے مطابق تقریباً تین لاکھ لڑکیوں نے ۵۱ سال سے کم عمر میں بچوں کو جنم دیا تھا۔ ان میں سے کچھ لڑکیاں نے دو دوبار بچوں کے پیدا کرنے کے مرحلے سے گزریں۔ایسا اس وقت ہورہا ہے جب ہندوستان میں بچہ شادی ۹۲۹۱ سے ممنوع ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق راجستھان میں ۲۸ فیصد لڑکیوں کی شادی ۸۱ سال کی عمر سے قبل کردی جاتی ہے۔ پورے ملک کے دیہی علاقوں میں  ۵۱ فیصد لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے جب ان کی عمر صرف ۳۱ سال ہوتی ہے۔  ۲۵  فیصد لڑکیاں ۵۱ سے ۹۱ کے درمیان حاملہ ہوجاتی ہیں۔



بچہ شادی انساد ایکٹ ۹۲۹۱ ء کے ہوتے ہوئے بھی بچوں کی شادی کے بارے میں اخبارات میں وقتاً فوقتاً جو خبریں چھپتی رہتی ہیں، وہ ہمارے معاشرے کی بے راہ روی غفلت و لاپرواہی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں جو ایک مہذب معاشرہ کے لئے بے حد حشویش کا باعث ہے۔ اس سلسے میں قومی خواتین کمیشن اور انسانی حقوق کمیشن نے اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے یہ معاملہ حکومت ہند کے سامنے رکھا ہے۔ دونوں کمیشنوں نے اس موضوع پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ہے اور ہندوستان میں بچہ شادی کے بڑھتے ہوئے رواج کو روکنے کی کئی سفارشات پیش کی ہیں۔ راجستھان میں تو تقریباً ۰۸ فیصد گاؤں میں اس ایکٹ کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور بچپن کی شادی کُھلے عام طورپر ہوتی ہے۔ یہ شادیاں ہر سال ”آکھاتیج“ کے موقع پر دھوم دھام اور وسیع پیمانے پر رچائی جاتی ہیں۔

بچہ شادی کے نتیجے میں لڑکیاں بہت ہی کم عمر میں ماں بن جاتی ہیں اور گھریلو ذمہ داری کا گراں بار ان کے کاندھوں پر آجاتا ہے۔ تعلیم چھوڑنی پرجاتی ہے، بچے کی ذمہ داری اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے وہ اپنی صحت کی دیکھ بھا ل نہیں کر پاتیں اوروہ اس لائق نہیں رہ جاتیں کہ صحیح طریقہ سے اپنی گھریلو ذمہ داری پوری کر سکیں اور نہ ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ دے پاتی ہیں۔

بہت ہی کم عمری میں استقرار حمل کے باعث بچے کی پیدائش کے وقت بہت سی دشواریاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایام حمل کے دوران خون کی کمی اور دوسری سنگین بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جن سے ماں کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اکثر صحت مند بچے بھی پیدانہیں ہوتے اور نوزائیدہ بچوں میں بھی کئی بیماریاں پیداہوتی ہیں۔ ایک تازہ سروے کے مطابق  ۵۱ سے ۹۱ سال کی نوعمر لڑکی۶۵ فیصد لڑکیوں میں خون کی کمی  پارئی گئی ہے۔

ایچ آئی وی(ایڈز)، جنسی تشدد، بیماریوں کا بچوں کی صحت پر مضر اثر پڑتا ہے اور غیر محفوظ اور وقت سے پہلے جنسی اختلاط کے نیتیجے میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں۔اکثرلڑکیوں سے جنسی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لئے زبردستی کی جاتی ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے، ایسے حقائق جیسے غنفوان شباب،معاشرتی دباؤ کے لئے بنے قانون کی کمی، قانون کے نفاذ میں کو تاہی وغیرہ کی وجہ سے بھی کئی طرح کے تشدد کی زد میں لڑکیاں زیادہ آتی ہیں، خاص کر جنسی تشدد کے ساتھ عصمت دری اور جنسی بد سلوکی وغیرہ سے سامنا ہوتا ہے۔

قومی خواتین کمیشن نے بچپن کی شادی کی روک تھام کے لئے حکومت  ہند کو مندرجہ ذیل سفارشات پیش کی تھیں۔

٭ حکومت فوراً بچہ شادی ایکٹ انسدادافسر مقرر کرےَ۔

٭ دفعہ ۳۲ کو مزید سخت بنایاجائے۔

٭ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے اور بچپن کی شادی کو منسوخ قرار دیا جائے۔

٭ بچپن کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والے ہر شخص پر ذمہ داری عائد ہو کہ وہ اس طرح کی شادی کو روکے اور اس کی خبر متعلقہ  افسران کو دے۔

٭ مذکورہ ایکٹ کے تیئں بیداری لانے کیلئے رائے عامہ ہموار کی جائے۔

کچھ عرصہ سے ملک میں عصمت دری کے واقعات میں افسوسناکاور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں سب سے زیادہ تشویش کا موضوع یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے آبروریزی کے واقعات نابالغ بچیوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب اخبارات میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے واقعات کی خبریں سرخی نہ بنتی ہوں۔ بہت سے معامالات ایسے ہیں جن کی خبر اخبارات اور عوام تک نہیں پہنچتی اورنہ اس طرح کے سارے معاملات عدالت تک چلنے والے مقدمے، پولیس کی کوتاہی اور تظر انداز کرنے کامعاملہ، عدالت میں عصمت دری کے واقعہ پر تفصیلی جرح، تمام جانچ پڑتال اور ڈاکٹری معائنہ کے بعد جو معاملہ عدالت کے سامنے لائے بھی جاتے ہیں،ان میں عام طور پر اس بات کا دھیان نہیں رکھا جاتا کہ متاثرہ افراد کو جرم سرزد ہوتے وقت اور عدالت میں مقدمہ چلتے وقت کتنی ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ لڑکی کو زندگی بھر سماجی ذلت اور کلنک کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا۔ کمیشن ”بچوں کے جنسی استحصال“ کے موضوع پر وقتاً فوقتاً اس سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کی سفارشات پیش کرتا رہتا ہے، جس پر عمل کرنے پر بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔

اکثر لڑکیوں کو بہت ہی کم اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ بر ُا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے لڑکیوں کو بہت سی دشواریوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ زندگی بھر احساس محرومی میں مُبتلا رہتی ہیں۔ سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی قیادت کے سبھی حلقوں میں لڑکیوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ احساس کم تری کا شکاررہتی ہیں، جس سے ان کی جسمانی و ذہنی تشوونما پر بہت ہی بُرا اثر پڑتا ہے۔ ذہنی و دماغی صلاحیت کند ہو جاتی ہے۔بچپن میں غذائیت بخش خوراک نہ ملنے کی وجہ سے لڑکیوں کی لڑکوں کے مقابلے جسمانی اور ذہنی اور دماغی نسوو نما رُک جاتی ہے۔معاشرتی، اقتصادی اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں حصّہ لینے اور اُن کے بارے میں سیکھنے کے مقابلے لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ نتیجتاً لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح آگے بڑھنے کے اچھے مواقع نہیں مل پاتے ہیں۔

بیجنگ اعلانیہ کے مطابق ۰۹۹۱ء میں پوری دنیا میں ۰۳۱ کروڑ بچے اسکول کی سہولت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم تھے۔ ان میں سے ۱۸ کروڑ لڑکیاں تھیں۔ اس کی وجہیں سماجی، بچہ مزدوری، قبل از وقت چھوٹی عمر میں شادی، مالی بد حالی اور اسکول کی عدم دستیابی، نو عمری میں حمل ٹھہرنا، خاندان میں جنسی امتیاز ہو سکتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں  ۵۱۱ میلن بچوں میں ۲۶ میلین بچیاں اسکول کا منہ نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔ پانچ لاکھ سے  ۰۲ لاکھ کے درمیان ہر سال انسانوں کی تجارت ہوتی ہے جس میں اکثریت خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔

بچوں کے حقوق

۱۔ بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہوئے معاہدے کی شق ۷ کے مطابق پیدائش کے فوراً بعد بچوں کا رجسٹریشن کرانا، پیدائش سے ہی ایک نام پانے کا حق، قومیت پانے کا حق اور جہاں تک ممکن ہو، اپنے ماں باپ کو ناننے کا حق اور ان کے ذریعہ بچوں کو اپنی دیکھ بھال کا حق مہیا کرنا۔

۲۔ بچوں کے حقوق کے محافظ قانون نافذکرنے کے دوسرے طریقوں کے تحت بچوں کو ماں باپ سے پوری طرح معاشی امداد حاصل کرنے کاحق۔

۳۔ لڑکیوں کی جانشینی سے متعلق  برداشت کی جانے والی ناانصافی اور رکاوٹوں کو دور کرناتاکہ امتیاز کے بغیر سبھی بچوں کو ان کے حقوق حاصل ہو سکیں۔ اس کے لئے جیسا مناسب ہو، قانون بنانا اور نافذکرنا، جو جانشینی کے تیئں مساویانہ حقوق کی ضمانت دے اور جنسی امتیاز کے بغیر مساوی حقوق کو یقینی بنائے۔

۴۔ بچوں کے حقوق کے لئے قانون بنانا اور سختی سے نافذ کرنا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ شادی باہمی رضامدی سے ہو اور شادی کی قانونی عمر کی خلاف ورزی نہ ہو۔

۵۔ بچوں کے حقوق کے معاہدے کی شق ۸۲ کے مطابق لڑکیوں اور لڑکوں کے مابین موجود فرق کو دور کرنااور سبھی بچوں کے لئے ابتدائی تعلیم پوری کرنا لازم ہے۔

۶۔ بچوں کے حقوق پر معاہدے کی شق ۲۳ کے مطابق جوکھم بھر ا خطرناک، یا بچوں کی تعلیم میں رُکاوٹ یا بچوں کی صحت کے لئے نقصان دہ یاان کے جسمانی، ذہنی، روحانی، اخلاقی یا معاشرتی ترقی کے لئے نقصان دہ کوئی بھی کام کرنے سے بچوں کو روکنا، سرپرستی کرنا، معاشرتی استحصال سے محفوظ رکھنا۔

۷۔ لڑکیوں کو تربیت، اطلاعات مہیاکرنا، سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کے لئے وسائل فراہم کرانااور اپنے خیالات کے اظہار کے موقع دینا۔

۸۔ معاشرتی سرگرمیوں میں لڑکیوں کی شراکت اور ان کے تئیں مساویانہ رویہّ کے فروغ میں غیر سرکاری تنظیموں کی مدد کرنا۔

حرف آخر

اس مشکل مسئلہ کے حل میں صرف حکومتی سطح پر کوششوں سے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے استحصال کی لعنت اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی ختم نہیں ہوگی بلکہ غیر سرکاری تنظیموں کو بہت ہی سرگرمی اور فعلیت کے ساتھ اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ معاشرہ میں موجودہ صاحب ثروت افراد کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے، اس کے سد باب کے لئے کچھ کریں اور وہ ایسے اسکولوں کو قائم کریں جہاں مفت تعلیم کے ساتھ ان کی دیگر تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہوں۔اگر ہمارا معاشرہ اس حساس مسئلہ کے تیئں بیدار مغز ہو جائے تو ہندوستان سے اس لعنت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔   

Comments

  1. tienen auf aluminum frame hammer, aluminum frame, iron frame
    Tienen auf aluminum titanium paint color frame hammer, aluminum frame, iron frame, thaitanium aluminum frame, iron frame, aluminum titanium white rocket league frame. trekz titanium headphones Tienen auf aluminum frame hammer, aluminum frame, titanium chords iron frame,

    ReplyDelete

Post a Comment