ملک کی بگڑتی شبیہ اور عوا م کی خاموشی



 عابد انور

ہندوستان دنیامیں واحد ملک بن گیا ہے جس کے حکمرانوں کو ملک کی عزت و ناموس کی قطعی کوئی فکر نہیں ہے۔ہندوستان کے بارے میں بیرون ملک کیا باتیں کی جارہی ہیں،انسانی حقوق کی صورت حال کیا ہے، صحافت کتنی آزاد ہے، اظہار رائے کی کتنی آزادی ہے، آئین میں دئے گئے حقوق کا کتنا خیال رکھا جارہاہے، ہندوستان کی ہر سطح پر کیا رینکنگ ہے، اس کی حکمراں ٹولہ کو کوئی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو صرف اور صرف اس بات کی کہ سام، دام، ڈنڈ بھید کے ذریعہ کس طرح حکومت پر قبضہ کیا جائے اور اس قبضے کے لئے جوبھی غیر آئینی طریقہ اختیارکیاجائے اس سے قطعی دریغ نہ کیاجائے۔اقلیتوں کے حقوق کی جس قدر دھجیاں اڑائی جائیں اس کی بالکل فکر نہ کی جائے۔ اقلیتوں کو دھمکی دینے والے اور قتل عام کی بات کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہ کی جائے بلکہ اس کاآئینی عہدے پر بٹھاکر اس کا استقبال کیا جائے۔ آئین کی کاپیاں جلانے والے اور اس کی دھجیاں اڑانے والوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور اس کی حفاظت کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں سے حکومت یہی کرتی آرہی ہے۔ حکومت کے اقبال اور اس کے وقار کی فکر ہوتی تو حکومت ان سب چیزوں پر قدغن لگاتی لیکن حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف غیر ملکی تنظیمیں بلکہ غیر ملکی حکومتیں بھی حکومت کی خاموشی پر انگلیاں اٹھارہی ہیں لیکن ہندوتوا کے علمبردارحکومت کو کوئی فرق نہیں پڑرہا ہے بلکہ اس میں شدت آرہی ہے۔ ہریدوار دھرم سنسد ہو بلی بائی سلی ایپ کا معاملہ ہو حکومت ہر جگہ خاموش نظر آرہی ہے۔ حکومت کی خاموشی اس کی تائید سمجھی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو عدالت کی بھی خاموش حمایت حاصل ہوتی ہے اس کئے عدالتیں ان مجرموں کو فوراَ ضمانت دے دیتی ہیں اور ان ایک کو اور بھیانک جرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب ملک کے کسی حصے کوئی انتخاب ہو۔ اس وقت اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔اس وقت مذہبی منافرت کی تیز ہوا چلائی جارہی ہے۔ پورے انتخابات کو ہندو مسلم کے رنگ میں رنگ دیا گیاہے۔ اسی فیصد بمقابلہ بیس کی بات کہی جارہی ہے۔ انتخابات کو مذہبی رنگ دیناقانونی طور پر جرم ہے لیکن گزشتہ سات آٹھ برسوں سے جس طرح انتخابات کو مذہبی رنگ دیا جارہاہے اس کے لئے الیکشن کمیشن کے ساتھ جمہوریت کے چاروں ستون بھی ذمہ دار ہے۔ آج ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ نفرت اور جہالت اس قدر انڈیل دیا گیا ہے کہ کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہاہے اورواٹس اپ یونیورسٹی سے جو بھی پیغام پہنچ جاتا ہے اسے سچ مان لیا جاتا ہے۔ اس کے سامنے سچائی خؤاہ چیخ چیخ کر کیوں نہ پکار رہا ہو۔ اس طرح کے حالات ملک کے لئے کتنے نقصان دہ ہیں اس کا اندازہ یہاں کے عوام کو اس وقت ہوگا جب سب کچھ لٹ ہوچکا ہوگا۔ ہندوستان کی عزت و قار سے بڑھکر کچھ نہیں ہے یہ بات یہاں کے عوام کو سمجھنا ہوگا۔ یہا ں کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاسکتاہے لیکن پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور اسے نوٹ بھی کر رہی ہے۔

ہندوستان کی انسانی، جمہوری،آزادی، عورتوں کے حقوق پر وقتاً فوقتاً دنیا میں رپورٹ شائع ہوتی رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ اس ضمن میں مسلسل اپنی رپورٹ شائع کر رہی ہے۔ جس پر ہمیں غور کرنا چاہئے۔ ہیومن رائٹس واچ نے 13 جنوری 2022کو جاری اپنی عالمی رپورٹ 2022 میں کہا ہے کہ ہندوستانی حکومتی مشینری 2021 میں کارکنوں، صحافیوں اور حکومت کے دیگر ناقدین کے خلاف اپنے جابرانہ کریک ڈاؤن کو مزید تیز کرے گی جس میں سیاسی طور پر محرکات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں کووڈ۔19 کے معاملات میں اضافے کے دوران دسیوں ہزار افراد ہلاک ہوئے، جہاں حکومت ضرورت مندوں کو مناسب صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے میں ناکام رہی۔انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین، ٹیکس چھاپوں، غیر ملکی شراکت کے ضوابط اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کے ذریعے اختلاف رائے کو دبایا گیا۔ یہ حملے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت ہندو قوم پرست حکومت کے تحت مذہبی اقلیتوں کے خلاف بلا خوف و خطر کیے گئے۔ بی جے پی کے حامی ہجومی حملوں میں ملوث رہے یا تشدد کی دھمکیاں دیں، جبکہ بہت سی ریاستوں نے اقلیتی برادریوں، خاص طور پر عیسائیوں، مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین اور پالیسیاں نافذ کیں۔ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ ”ہندوستانی  حکومت کی مشینری بھی اختلاف رائے برداشت کا ڈرامہ اور خاموشی ناقدین کو ریاستی مشینری استعمال کر رہا ہے ترک کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کی حکومت ملک میں ایک کاٹنے کا نشان بنا دیا ہے ایسا ماحول بنایا گیا ہے جس میں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، ان پر حکمران جماعت کے حامیوں کے حملے کا خطرہ ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 752 صفحات پر مشتمل ورلڈ رپورٹ 2022، اس کے تیسرے اور دوسرے ایڈیشن میں تقریباً 100 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ اس عام خیال کو چیلنج کرتے ہیں کہ خود مختاری بڑھتی ہے۔ حال ہی میں کئی ممالک میں ایک کے بعد ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری اور جان کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں جمہوریت کی طرف شدید خواہش ہے۔ دریں اثنا، آمروں کے لیے انتخابات میں ہیرا پھیری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پھر بھی، وہ کہتے ہیں، جمہوری رہنماؤں کو قومی اور عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جمہوریت اپنے وعدے پر قائم رہے۔

جولائی میں، جیل میں بند قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی، 84، کی موت، حقوق کے کارکنوں کے مسلسل جبر کی نشاندہی کرتی ہے۔ سوامی ان 16 ممتاز انسانی حقوق کے محافظوں میں شامل تھے جنہیں 2017 میں مہاراشٹر میں بھیما کوریگاؤں ذات پات کے تشدد کے معاملے میں سیاسی طور پر محرک دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔تریپورہ پولیس نے اکتوبر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کے بعد نومبر میں چار وکلاء کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جس میں ہندو ہجوم نے مساجد اور مسلمانوں کی ملکیتی املاک پر حملہ کیا۔ پولیس نے 102 سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج کیے اور دو صحافیوں کو حراست میں لیا جنہوں نے ''فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے'' کے الزام میں تشدد کی رپورٹنگ کی۔حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے قوانین سمیت دیگر قوانین کے تحت بہت سے طلبہ اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

بی جے پی رہنماؤں نے کسانوں پر الزام لگایا، جن میں سے ایک بڑی اقلیت سکھ برادری سے تعلق رکھتی ہے، زرعی قوانین میں ترمیم کی مخالفت کی آڑ میں علیحدگی پسند ایجنڈا رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مختلف پرامن مظاہروں میں حصہ لینے والے لوگوں کو ''طفیلی'' کہا جب کہ ایک وزیر کے بیٹے اور پارٹی کے حامیوں نے مبینہ طور پر کسانوں کو روند دیا جب وہ ایک سرکاری قافلے سے گزر رہے تھے۔ حکومتی مشینری نے ایک ماحولیاتی کارکن کو گرفتار کیا اور دو دیگر کے خلاف مظاہروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی دستاویز میں مبینہ طور پر ترمیم کرنے کے الزام میں وارنٹ جاری کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متعدد ماہرین نے حکومت کے احتجاج کو محدود کرنے کے طریقے پر تشویش کا اظہار کیا۔ نومبر میں، ایک سال کے احتجاج کے بعد، بی جے پی حکومت نے آخر کار زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہندوستانی نیوز ویب سائٹ دی وائر، جو کہ بین الاقوامی تعاون پر مبنی پیگاسس پروجیکٹ کا حصہ ہے، نے رپورٹس شائع کی ہیں کہ ہندوستانی انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو پیگاسس اسپائی ویئر نے نشانہ بنایا ہے۔ یہ اسپائی ویئر ہے جسے اسرائیلی کمپنی NSO گروپ نے تیار اور فروخت کیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف '' مجاز سرکاری اداروں '' کو اسپائی ویئر فروخت کرتی ہے۔ حکومت نے نئے قوانین بھی متعارف کرائے ہیں جو آن لائن مواد پر زیادہ کنٹرول کی اجازت دیں گے، خفیہ کاری کو کمزور کرنے کا خطرہ پیش کریں گے، اور بالآخر رازداری اور آزادی اظہار کے حقوق کو سنجیدگی سے مجروح کریں گے۔فروری میں جموں و کشمیر پر حکومت نے 18 ماہ کی پابندیاں ہٹانے کے لیے جاری کیا تھا۔ یہ پابندیاں اگست 2019 میں ریاست کی آئینی خود مختاری کو منسوخ کرنے اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد لگائی گئی تھیں۔ کشمیر میں صحافیوں کو مزید ہراساں کیا گیا اور کچھ کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے کشمیر میں جاری ظلم و ستم پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ”صحافیوں کی من مانی حراست، مبینہ حراست میں قتل اور مقامی آبادی کے بنیادی حقوق کی منظم خلاف ورزی“ پر تشویش کا اظہار کیا۔

ہیومن رائٹس واچ نے کارکنوں، ناقدین کو نشانہ بنانے،مسلمانوں اور پریشان حال گروہوں پر بڑھتے ہوئے حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا اس طرح کی رپورٹوں کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کی رپورٹس ہندوستانی میڈیا میں شائع نہ ہو لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔کہیں بھی کچھ ہوتا ہے پوری دنیا کو اس کی خبر ہوجاتی ہے۔اس لئے میڈیا کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اور حکومت اپنی اقتدار کی ہوس کو چھوڑ کر ملک کی عزت و آبرو پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیوں کہ حکوتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ملک قائم رہتا ہے، عوام موجود رہتے ہیں۔ اس لئے ملک کی عزت و وقار سے بڑھکر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بات یہاں کے عوام جتنی جلد سمجھ جائیں ملک کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ 


Comments