دھرم سنسد کی اشتعال انگیزی اور حکومت کی خاموشی




عابد انور 

ہندوستان میں لاقانونیت اور جنگل راج کی اس سے بدترین مثال کیا ہوسکتی ہے پولیس کے ’چھتر چھایہ‘ میں مذہبی غنڈے، بدمعاش،پاکھنڈ،قاتل اور زانیوں کی ٹیم کسی طبقہ کوکھلم کھلا قتل عام کی دھمکی دے اور پولیس خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے بلکہ پولیس ان غنڈوں کی حفاظت کے لئے مامور ہو۔تو پھر کیا کہا جائے گا۔ مسلمانوں کے خلاف ہر معاملے میں ازخود نوٹس لینے والی پولیس اور عدالت نے اپنی آنکھ، کان اور زبان سب بند کئے ہوئے ہے۔ 17سے 19دسمبر تک چلنے والے دھرم سنسد میں اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی پولیس نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پولیس ان خاطی کو نہیں جانتی، بلکہ پولیس اپنی اولاد سے زیادہ ان خاطیوں کو زیادہ جانتی ہے۔ اس کے باوجود پولیس پہنچاننے کی بات کررہی ہے۔ یہ لوگ ایسے عادی مجرم ہیں جن کے خلاف درجنوں ایف آئی آر درج ہے، ملک کے کئی حصوں میں معاملے درج ہیں لیکن پولیس نے شکایت کی بنیاد پر ؎کمزور دفعات درج کئے ہیں تاکہ آسانی سے ضمانت مل جائے اور پولیس کی کمزور پیروی کے سبب سب کے سب بری ہوجائیں گے۔ پولیس کے ڈائرکٹر جنرل پولیس اشوک کمار نے کہا ہے کہ ویڈیو کو فیس بک سے ہٹا دیا گیا ہے اوریو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا گیا کیونکہ کسی کی موت نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں مزید چیزیں سامنے آئیں گی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب مسلمان کا معاملہ ہوتا ہے تو موت نہیں دیکھی جاتی ہے ترمیم شدہ ویڈیو دیکھا جاتا ہے لیکن جب معاملہ غیر مسلم کا ہوتا ہے توپھر سارے ثبوت خورد بین سے دیکھے جاتے ہیں جب کہ بغیر دور بین سے بھی ثؤت دیکھا جاسکتا ہے لیکن جب جمہوریت کے چاروں ستون کی منشا انصاف کی نہ ہو تو پھر ثبوت کا اژدہا آجائے جمہوریت کے چاروں ستون نہیں دیکھتا ہے۔ یہی معاملہ گز۔شتہ ستر برسوں سے ہوتا آرہا ہے لیکن گزشتہ سات برسوں کو وہ سب کھلم کھلا ہورہا ہے جو پہلے پوشیدہ اور ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھا۔ ہاتھی اور جانوروں کے معاملے میں ٹوئٹ کرنے والے اعلی آئینی عہدے پر فائز رہنماؤں کی زبانیں کنگ ہوجاتی ہیں، ہاتھ کانپنے لکتے ہیں کیوں کہ معاملہ مسلمان کا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کسی معاملے میں شاید ہی عدالت نے از خود نوٹس لیا ہو جب کہ لکھیم پور کھیری اور دیگر درجنوں چھوٹے معاملات میں عدالت عالیہ سے عدالت عظمی تک نوٹس لیا ہے لیکن مسلمانوں کے معاملے سب کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ دہلی اور ہریدوار میں دو پروگراموں کے دوران مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور تشدد پر اکسانے کے بعد کئی مسلم شخصیات، لیڈروں اور تنظیموں نے اس کی سخت مذمت کی ہے۔واضح رہے اس مہینے کی 17 سے 19 تاریخ تک ہریدوار، اتراکھنڈ میں ایک 'دھرم سنسد' کا انعقاد کیا گیا۔وہاں موجود لوگوں کی 'متنازعہ تقریروں ' کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔پروگرام کے دوران مقررین 'مذہب کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانا، 2029 تک مسلمانوں کو وزیر اعظم نہ بننے دینا، مسلم آبادی کو بڑھنے نہ دینا اور ہندو سماج کو ہتھیار اٹھانے کی دعوت دینا' جیسی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح کا ایک پروگرام اتوار کو ملک کی راجدھانی دہلی میں 'ہندو یووا واہنی' نامی تنظیم نے منعقد کیا تھا۔اس پروگرام کا ویڈیو کلپ بھی وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں بھی ایک خاص برادری کے خلاف تشدد اور ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے کا حلف دیا جا رہا ہے۔

ہریدوار کی 'دھرم سنسد' میں دیے گئے متنازعہ بیانات کو لے کر تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اتراکھنڈ کے ڈی جی پی اشوک کمار نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ایف آئی آر کمزور سیکشن کے تحت درج کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں مزید چیزیں سامنے آئیں گی۔یہ ایف آئی آر ایک شخص کی شکایت پر اتر پردیش کے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی، ایک اور شخص اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف بھی درج کی گئی ہے۔اس ایف آئی آر کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ریاستی حکومت نے کم سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے، جبکہ پروگرام میں نفرت انگیز تقریر کرنے والے کٹر ہندوتوا لیڈر یٹی نرسمہانند کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔پولیس پر یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ وہ ازخود نوٹس کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرسکتی ہے لیکن انہوں نے ایک شخص کی شکایت کے بعد اس معاملے میں رپورٹ درج کرائی۔دوسری جانب دہلی میں ہونے والے پروگرام کے حوالے سے ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔



دھرم سنسد ایسا خطرناک معاملہ ہے اس سے پوری دنیا میں ہندوستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے، یہاں کی جمہوریت دھجیاں اڑائی جارہی ہے، ہرمثبت معاملے میں ہندوستان کی رینکنگ گرتی جارہی ہے لیکن اس کی نہ تو حکومت کو اور نہ ہی یہاں کے عوام کو اس کی کوئی فکر ہے۔ کسی بھی ملک کی عزت اور وقار سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے اور عوام سب سے زیادہ اسی کی فکر کرتے ہیں لیکن افسوس یہاں کے عوام ملک کی عزت تار تار کرنے والوں کے ہاتھوں میں زمام اقتدار دے رکھا ہے۔ پھر ملک کے وقار کی فکر کسے ہوگی۔ دھرم سنسد کے وائرل ویڈیوپر تمام دنیا کے میڈیا خبریں شائع کر رہے ہیں لیکن ہندوستانی میڈیا اس سے بے فکر ہے کیوں کہ ہندوستانی میڈیا کو مودی کی فکر ہے ملک کی نہیں۔ اس لئے ملک کہیں بھی چلاجائے اسے کسی کو فکر نہیں ہے۔ ہندوستانی میڈیا اور ہندوستانی حکمت عملی شتر مرغ کی طرح ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریت میں گردن۔ڈالنے سے طوفان نہیں آئے گا۔ ہندوستانی میڈیا یہ سمجھتا ہے وہ اگر خبر نہیں دکھائے گا تو دنیا کو پتہ نہیں چلے گا۔ یہ اطلاعاتی تکنالوجی کا زمانہ ہے اور پل جھپکتے ہی یہاں کی خبریں پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں۔ درجنوں ممالک کے سیٹلائٹ گردش کر رہے ہیں جوہر لمحہ کا فوٹو لیتے رہتے ہیں اور اپنے ملک کو بھیجتے رہتے ہیں۔ اس سے پوری دنیا میں تمام چیزیں ثبوت کے ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کے پولیس ڈائریکٹر جنرل اشوک کمار نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے والے شخص نے صرف دو لوگوں کا نام لیا اور کہا کہ وہ باقی کے نام نہیں جانتے، اس لیے نامعلوم افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس پورے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ریاست میں اس طرح کی اشتعال انگیزی کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔پولیس نے اس معاملے میں دفعہ 153A کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جو مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی پھیلانے سے متعلق ہے۔ اس میں تین سال تک قید کی سزا ہے۔اس واقعہ پر ردعمل طاہر کرتے ہوئے دہلی پولیس کے سابق کمشنر ایم بی کوشل نے بی بی سی کے نامہ نگار سلمان روی سے کہا ہے کہ اس معاملے میں اب تک اتراکھنڈ پولیس کو خود اس پروگرام میں شامل لوگوں کو گرفتار کر لینا چاہیے تھا جنہوں نے اشتعال انگیز یا اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں۔ایم بی کوشل نے کہا، ''بیان دینے کے بجائے، اتراکھنڈ پولیس کو اب تک گرفتار کر لینا چاہیے تھا، اور کیس سے متعلق جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں مزید دفعات لگائی جانی چاہیے تھیں۔ ہر چیز کا فیصلہ پولیس کے رویے سے ہوتا ہے۔'' اگر سخت کارروائی کی جاتی تو یہ دوسروں کے لیے سبق ہوتا۔

غیر ملکی میڈیا میں ہندوستان کی بے عزتی اتنی کبھی نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہورہی ہے۔غیر ملکی میڈیا یہاں کے عوام اور حکومت پر انگلی اٹھارہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے اس واقعے کی خبر اپنے صفحہ پر دی ہے، جس کا عنوان ہے 'ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل کا مطالبہ، بھارت کے رہنما خاموش'۔خبر میں لکھا گیا ہے کہ 'اس ہفتے سیکڑوں دائیں بازو کے ہندو کارکنوں اور سنتوں نے ایک کانفرنس میں ایک آواز میں حلف لیا۔ وہ آئینی طور پر ایک سیکولر ملک کو ہندو قوم میں تبدیل کر دیں گے، چاہے اسے مرنا اور مارا جانا ہی کیوں نہ پڑے۔''''ہندو مہاسبھا کی رہنما پوجا شکون پانڈے نے کہا، 'اگر ہم میں سے 100 لوگ ان 20 لاکھ لوگوں کو مارنے کے لیے تیار ہیں تو ہم جیت جائیں گے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائیں گے۔' اس کا اشارہ ملک کے مسلمانوں کی طرف تھا، اس نے کہا کہ 'مارنے اور جیل جانے کے لیے تیار رہو'۔''ایک کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں، دائیں بازو کے ہندو سنتوں نے باقی ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو مارنے کی اپیل کی۔ ان میں ایسے بااثر مذہبی رہنما بھی تھے جن کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت کے ساتھ قریبی روابط ہیں، اور ان میں سے کچھ پارٹی کے رہنما بھی تھے۔ ممبرز بھی تھے۔''''اس ہفتے سوشل میڈیا پر اس تقریب کے ویڈیوز تیزی سے پھیلنے لگے۔ ابھی کے لیے، مسٹر مودی نے ایک خاص خاموشی برقرار رکھی ہے، جو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے سب سے بڑے حامیوں کے لیے سیکورٹی کی خاموش علامت ہے۔''مزید برآں نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے کہہندوستانی پولیس جو انسانی حقوق کے کارکنوں اور مزاح نگاروں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بھی جیل بھیجنے کے لیے تیار ہے، اس معاملے میں کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اخبار نے پولیس کے بعد اپوزیشن سیاست دانوں کی خاموشی پر بھی لکھا ہے کہ 'اس معاملے میں مخالف سیاسی گروپوں کی خاموشی بھی برقرار ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں نے اپنے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ مسٹر مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ پکڑے گئے۔'



نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے، ''اشتعال انگیز تبصرے آ رہے ہیں جب مسٹر مودی کی بی جے پی کچھ ریاستی حکومتوں میں برسراقتدار ہے اور اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مسٹر مودی اس ہفتے اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جو ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں اور کئی بار مسلم مخالف نفرت کو ہوا دے چکے ہیں۔''انتخابات کے موسم میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں مسلمانوں کے کاروبار کو نشانہ بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔''نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ 'دائیں بازو کے ہندو قوم پرست برسوں سے آن لائن تشدد کو فروغ دے رہے

 ہیں، لیکن حال ہی میں تشدد سڑکوں پر پہنچا ہے۔ مسلمان پھل فروشوں کو سڑکوں پر مارا پیٹا گیا اور ہندو خواتین کو پھنسانے کا الزام لگا کر ان سے ان کی کمائی چھین لی گئی۔ مسلم کارکنوں کو انسداد دہشت گردی قانون کے ذریعے دھمکیاں دی گئی ہیں۔امریکی میڈیا گروپ بلومبرگ نے بھی اس خبر کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے اور اس کا عنوان دیا ہے کہ 'مذہبی تقریب میں مسلم مخالف تقریر پر پولیس کی تحقیقات'۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے نیویارک ٹائمز کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ''ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت بھر میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات کی ایک زندہ مثال۔ بھارت کے رہنما۔ چپ رہو۔''واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریذیڈنٹ اسکالر اسکالر حسین ابیش نے ٹویٹ کیا: ''مودی کی بنیاد کا اہم حصہ: ایک بھرے آڈیٹوریم میں جہاں دائیں بازو کے ہندو سنتوں نے دوسرے ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے کہا، بشمول بااثر مذہبی رہنما۔ جن کے مودی کی حکمراں پارٹی سے قریبی تعلقات ہیں اور بہت سے لوگ پارٹی کے ممبر ہیں۔

ملک کو فرقہ پرست طاقت اور حکمرانوں نے ’ری پبلک بنانا‘ اور ریڈیو روانڈا بنا دیا ہے۔ ملک کے حالات مسلمانوں کے قتل عام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کی خاموشی یہ بتارہی ہے کہ یہ عادی مجرم حکومت کے اشارے پر اس طرح کی گھناؤنی حرکت کررہے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور فرقہ پرست قوتوں کی طویل حکمت عملی کا حصہ ہے اور یہ لوگ اپنے ناپاک منصوبے کو انجام تک پہنچانے کے لئے یہ ناپاک کھیل کھیل رہے ہیں۔ مسلمانوں کو مصلحت کی دبیز چادر سے باہر آکر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اپنے مذہبی اور انسانی حقوق کے لئے لڑنا ہوگا۔ مسلم بھائی کم از کم سکھ بھائی سے ہی کچھ نہ کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر اس زہریلی ہوا کو نہ روکا گیا تو یہ بدترین اور بھیانک طوفان میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ابھی صر ف قتل عام کی دھمکی دے رہے ہیں کل یہ لوگ اسے عملی جامہ بھی پہنا سکتے ہیں۔ ماضی کے واقعات شاہد ہیں کہ قتل عام انجام دینے والوں میں سے کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ کیوں کہ یہاں کے جمہوریت کے چاروں ستون نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو۔

Comments