کیا پاکستان کی طرح تریپورہ میں سرکاری خرچ پر مساجد کی تعمیر نو کرائی جائے گی!



 عابد انور 

کسی بھی ملک میں فسادات یا جرائم کا ہونا اتنی بری بات نہیں جتنی کہ فسادات اور جرائم کی حمایت کرنا۔کیوں کہ جرائم کا ہونا فطری ہے۔ جہاں انسان رہیں گے، سماج رہے گا،گاؤں ہوگایا شہر وہاں کئی طرح کے جرائم بھی ہوں گے لیکن کوئی بھی انصاف اور امن پسند ملک جرائم کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو بڑھاوا دیتا ہے بلکہ اس کی جڑ کاٹنے کی سعی کرتا ہے لیکن ہندوستان میں گزشتہ سات برسوں میں جرائم اور جرائم کو انجام کو دینے والوں کی جس طرح عوام سے لیکر حکومت کی سطح تک کی حمایت کی جارہی ہے وہ بہت ہی شرمناک ہے اور ملک کی شبیہ کو داغدار بنانے والا ہے۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد سے یہی ہوتا آرہا ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر اضافہ، دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی گزشتہ سات برسوں کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔ گویا کہ اقلیتوں کے قتل، ان کی عورتوں کی بے حرمتی، ان کی عبادت گاہوں کا انہدام، ان کے املاک کو تباہ کرنا اور ان پرغیر قانونی قبضہ کرنا قانونی شکل لے رہا ہے۔ رام سنیہی گھاٹ کی سو سالہ مسجد کو ایک ادنی سا ایس ڈی ایم منہدم کردیتا ہے لیکن کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا اور نہ ہی عدالت اورنہ ہی قانون کو ان کو کوئی سزا دے پاتا ہے۔ ایک طرح سے ہندوستان میں ایسے عمل کو جواز کا درجہ حاصل ہوتا جارہا ہے اور اس طرح کے گھناؤنا عمل کو انجام دینے والوں کو ملک کے عظیم ہیروکی حیثیت دی جارہی ہے۔ گروگرام میں سرکاری اجازت سے جمعہ کی نماز ادا کرنے والوں کے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے جس طرح کا واویلا مچایا اس سے ملک میں جنگل راج ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ قانون کے نفاذ میں اگر سخت کارروائی کرنی پڑتی ہے تو تمام مماملک میں کی جاتی ہے لیکن ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کے سامنے تمام حکومتیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ دبئی میں مندر بننے کے خلاف وہاں کوئی مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے اگر کسی نے مظاہرہ کیا تو انہیں سیدھے جیل میں ڈال دیا جائے گا اور ہندوستان میں اسے سیدھے پارلیمنٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ فرق ہے مسلم ممالک اور ہندوستان میں۔ ہندوستان میں ظلم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے، آواز اٹھانے والے، تفتیش کرنے والے اور لڑنے والے کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کرلئے جاتے ہیں کہ جب کہ فسادیوں کو نہ صرف کھلے عام چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جیسا کہ ہندوستان میں ہوتا آیا ہے اور آج کل تریپورہ میں جو کچھ ہورہاہے اور ہوا ہے۔ تریپورہ حکو مت اور پولیس تمام واضح ثبوتوں، آڈیو ویڈیو اور دیگر شواہد کے باوجودکسی فسادی کو گرفتار نہیں کیا ہے البتہ مظلومین کے زخم پر مرہم رکھنے والوں کو تریپورہ پولیس فوراَ گرفتار کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے وکلاء جنہوں نے تریپورہ میں جاکر فیکٹ فائنڈنگ کی تھی اور قومی دارالحکومت دہلی آکر تریپورہ میں ہونے والے وحشتناک، عبادت گاہوں کو جلائے جانے،مکانات اقتصادی اداروں کو تباہ کرنے کے واقعات سے آگاہ کیا تھا، ان کے خلاف تریپورہ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے، یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کا نوٹس بھیجا ہے اور تریپورہ میں طلب کیا ہے۔ حالانکہ اس پر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لیکر تریپورہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے جیسا کہ اس نے لکھیم پور کھیری کے معاملے میں ازخود نوٹس لیکیر اترپردیش حکومت کو لتاڑ لگائی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ انصاف کی آخری امید،مظلوم کا سہارا ہے۔ ورنہ عدالتوں سے بھی عام لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے لیکن سپریم کورٹ نے کچھ حد تک لوگوں کے انصاف پر اعتماد کو بحال کیا ہے۔ 



تریپورہ میں جمعےۃ علمائے ہند اور دیگر کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق 12مساجد کو جلایا گیا ہے اور اس کے علاوہ دکانوں، مکانوں اور گوداموں کو آگے کے حوالے کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کی ہے اور یہ سب پولیس کے سامنے کیا ہے۔ جس طرح مذہبی جذبات کو ٹھیس پہچانے کے لئے نعرے لگائے جارہے تھے اس وقت پولیس ساتھ تھی لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ بعض پولیس والے مسلم مخالف نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے۔ اس پر نہ تو مرکزی حکومت اور نہ ہی تریپورہ حکومت کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے۔ کتے بلی، ہاتھی وغیرہ جیسے جانوروں پر ٹوئٹ کرکے آنسوں بہانے والے بڑے آئینی عہدوں متمکن لیڈروں کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔  مجرموں کے خلاف کارروائی تو دور کی بات اس طرح کے ہولناک واقعے کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود ہم بڑے جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ قانون کا راج ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندومخالف واقعات ہوئے تو وہاں کی وزیر اعظم خود ہندوؤں کے درمیان پہنچ گئیں اور پانچ سو سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ پاکستان میں مندر میں توڑپھوڑ کا واقعہ پیش آیا تو وہاں کی حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کوٹ ہندؤں کے حق میں میدان آگیا ہے اور شرپسندوں کے خلاف دہشت گردی جیسے سخت دفعات کے تحًت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے رحیم یارخان میں مندر پر حملے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کے علاوہ شر پسندی پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاتھا۔ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی ہدایت کی تھی مندر کی بحالی پر آنے والے اخراجات کی رقم ہر صورت ملزمان سے وصول کی جائے۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے رحیم یار خان میں مندر پر ہونے والے حملے کے واقعے پر لیے گئے از خود نوٹس پر سماعت کی۔سماعت میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) انعام غنی، چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت مندر پر حملہ ہوا تو انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی۔آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر، اے سی اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس موقع پر موجود تھے، انتظامیہ کی ترجیح مندر کے اطراف میں واقع ہندوؤں کے 70 گھروں کا تحفظ تھی۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو انہیں ہٹا دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک 9 سال کے بچے کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، پولیس نے ماسوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔جسٹس قاضی امین نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی؟ جس پر آئی جی نے بتایا کہ ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم نے بھی معاملہ کا نوٹس لے لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم اپنا کام جاری رکھیں، لیگل کیس عدالت دیکھے گی۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی، پھر پولیس ملزمان کی ضمانت، صلح کروائے گی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سرکاری پیسے سے مندر تعمیر ہو گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واقعے کو 3 دن ہو گئے ایک بندہ پکڑا نہیں گیا، واقعے پر پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش ولولہ نہیں، پولیس کے لوگ پروفیشنل ہوتے تو اب تک معاملات حل ہو چکے ہوتے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہندوؤں کا مندر گرادیا، ان کے دل پر کیا گزری ہوگی، سوچیں مسجد شہید کردی جاتی تو مسلمانوں کا ردعمل کیا ہوتا۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کمشنر رحیم یار خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب بالخصوص متاثرہ علاقے میں قیام امن کے لیے ویلج کمیٹی بنانے کی ہدایت کی۔



پاکستان کے صرف سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور وزیر اعظم پاکستان نے بھی خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد خان کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ 'یہ ایوان مندر واقعہ کی مذمت کرتا ہے اور اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ مندر واقعہ پر پوری قوم اقلیتوں کے ساتھ ہیں '۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے بلکہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا، انسانی حقوق میں مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں '۔ان کا کہنا تھا کہ مندر کی بیحرمتی کا بحیثیت انسان اور مسلمان دکھ ہے، وزیر اعظم نے بھی واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 'پورا ملک ہندو برادری سے اظہار ہمدردی کرتی ہے، ہمارے پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے'۔علی محمد خان نے کہا کہ 'پاکستان میں مندر یا گردوارہ پر حملہ ہو تو حکومت، سپریم کورٹ اور علما واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔پاکستان میں مندر پر ہونے والے حملے کے معاملے میں 70  زائد افراد گرفتار کئے گئے اور سرکاری خرچ پر مندر کی تعمیر او رتئزئین کاری کی گئی اور تزئین کاری کے بعد وہاں کے چیف جسٹس نے مندر کا افتتاح کیا۔وہاں ایک سر میں اراکین پارلیمنٹ نے اس واقعے کی مذمت کی اور ہندو اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ کیوں کہ وہاں تیجسوی سوریہ، اننت ہیگڑے، سادھوی پرگیہ اور ان جیسے لوگوں کو وہاں کے عوام ہیرو نہیں بناتے۔ 

 راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مسلم انتہاپسندوں کے پرتشدد حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے وہاں کی حکومت سے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپیل کی اور بنگلہ دیشی ہندو سماج کو یقین دلایا کہ آر ایس ایس سمیت پورا ہندو سماج  اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔کرناٹک کے دھارواڑ میں منعقد ہونے والی آرایس ایس  کے آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ کی تین روزہ میٹنگ میں بنگلہ دیش کی پیش رفت پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کی صدارت میں منظور قرارداد میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت پر سفارتی ذرائع سے ان واقعات کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالے۔قرارداد میں کہا گیا کہ آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے پرتشدد حملوں اور وہاں کی ہندو اقلیتوں کے خلاف جاری وحشیانہ تشدد پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور بنگلہ دیش میں وسیع پیمانے پر اسلامائزیشن کے لیے جہادی تنظیموں کی سازش کی شدید مذمت کرتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش کے اقلیتی ہندو سماج اور ہندو مندروں پر پرتشدد حملوں کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ماضی میں درگا پوجا کے تہوار کے دوران شروع ہونے والے اس فرقہ وارانہ تشدد میں کئی بے گناہ ہندو مارے گئے، سینکڑوں لوگ زخمی اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے۔ پچھلے دو ہفتوں کے اندر ہندو سماج کی کئی مائیں اور بہنیں ظلم کا شکار ہوئیں اور مندروں اور درگا پوجا کے پنڈال کو تباہ کیا گیا۔

تریپورہ فساداور وہاں کی ہندو انتہا پسند تنظیوں کے خلاف آر ایس ایس کا کوئی بیان نہیں آیا ہے کیوں کہ یہ انتہا پسندہندو تنظیمیں آر ایس ایس کی ؎ذیلی تنظیمیں ہیں۔ ایک طرف آر ایس ایس بنگلہ دیش ہندو کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسری طرف اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ مسلمانوں کاناطقہ تریپورہ میں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سارے ہندو شدت پسند اور فسادی نہیں ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیشتر ہندو فسادیوں کے خلاف خاموش رہتے ہیں جس سے فسادیوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ معاملہ یہاں صرف مسلمان کا نہیں ہے بلکہ ملک کا ہے، ملک کی عزت، وقار، شبیہ اور جمہوریت کا ہے۔ یہ فسادی مسلمانوں کا نقصان کم اور ملک کا نقصان زیادہ کر رہے ہیں اور آئندہ نسل کے لئے کھائی کھود رہے ہیں۔ اس بات کو یہاں کے انصاف پسند ہندو جتنا جلد سمجھ جائیں گے ملک کا وقار اتنا ہی بچے گا۔


Comments