یو اے پی اے:راہ چلتے کوئی بھی مسلمان دہشت گرد ہوسکتا ہے؟



عابد انور 

کسی بھی ملک کے انصاف پسند، جمہوری،امتیاز سے پاک اور آئین کا پاسداری کرنے کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ ملک اپنے یہاں رہنے والے اقلیتی طبقہ کے ساتھ کتنا انصاف کرتا ہے، اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک تو نہیں کرتا، وہ وہاں کتنا خوش حال ہے، اس کی شرح ترقی کیا ہے، ا س کا تعلیمی اور شرح خواندگی کیا ہے، ان کے محلے اور گلیاں کتنی صاف ہیں،اس کو کس طرح کا ماحول میسر ہے اور سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اس کو دہشت اور خوف زدہ ماحول سے پاک معاشرہ حاصل ہے یا نہیں۔ اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو اس ملک کو اچھا اور انصاف پسند ملک نہیں گردانا جاتا۔پوری دنیا میں اقلیتی آبادی پرخاص توجہ دی جاتی ہے اور اس کی تکلیفوں کا خیال رکھا جاتا ہے، اس کے باوجود بھی اس کے ساتھ ناانصافی ہوجاتی ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ اس ناانصافی میں کہیں حکومت تو براہ راست شامل تو نہیں۔ عوام کے کچھ طبقوں کا شامل ہونا اتنا برا نہیں ہوتا جتنا کہ حکومت کا اس اس میں ملوث ہونا ہوتا ہے۔ بیشتر ممالک میں حکومت انصاف کرنا چاہتی ہے لیکن وہاں کے عوام کا کچھ طبقہ اس کے خلاف ہوتا ہے اور وہ وہاں اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے لیکن حکومت اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ کتنا کرپاتی ہے یہ الگ موضوع ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں جسے دوسری بڑی اکثریت بھی کہا جاتا ہے، مسلمان کے علاوہ یہاں سکھ، عیسائی، پارسی، بودھ اور جین کو اقلیتی درجہ حاصل ہے مگر ناانصافی کے معاملے میں مسلمان سرفہرست ہوتے ہیں اور اس کے بعد عیسائی کا نمبر آتا ہے۔ سکھ، بودھ اور جین کو وہ ہندؤں کا حصہ ہی ماناجاہے۔ خاص طور پر جین کو کچھ سال قبل ہی اقلیتی فرقہ کا درجہ ملا ہے ورنہ وہ ہندوؤں میں بھی شامل تھے اور مسلمانوں کے معاملے میں وہ ہندوؤں سے بھی سخت گیر واقع ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے۔ سرکاری طور پر 20کروڑ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی آبادی ہے کہ اسے نہ تو ملک بدر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی صفایا کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو بھگانے، ڈرانے، دھمکانے، صفایا کرنے اور خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کھیل آزادی کے بعد سے جاری ہے لیکن آزادی کے بعد اور اس وقت میں نمایاں فرق ہے، اس وقت کچھ قدریں باقی تھیں، ہندو ہندوستان پر مسلمانوں کے احسانات سے واقف تھے، حکومت اعلی پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف سازش میں مصروف نہیں تھی لیکن اس وقت نہ صرف یہاں کے ہندوؤں کا  45 فیصد (جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے) مسلمانوں کوہر صورت حال میں پریشان دیکھنا چاہتا ہے بلکہ جو حکومت منتخب ہوکر آئی ہے اس کے خفیہ ایجنڈے میں مسلمانوں کو تباہ کرنا، ذلیل کرنا، مسلم معاشرہ کو تباہ کرنا اور حکومت ایسے حالات پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمان حراستی کیمپ میں رہنے پر مجبور ہوجائیں جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ انتخابات کے دوران اشارہ دیا تھا۔ اب جب کہ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں اور انہوں نے اپنا ایجنڈا پرعمل شروع کردیا ہے۔ سب سے پہلے تین طلاق بل پاس کرواکر انہوں نے واضح اشارہ دے دیا ہے وہ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے لئے انہوں نے این آئی اے ترمیمی بل پاس کروایا اور پھر یو اے پی اے ترمیمی بل پاس کروایاجس میں سیکورٹی ایجنسی کو بے پناہ اختیارات دئے گئے ہیں اور حکومت اب کسی بھی راہ چلتے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔ حکومت اور سیکورٹی ایجنسی ہندوؤں کو تو راہ چلتے دہشت گرد قٖرار دینے سے رہی اس کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہیں جیسا کہ ٹاڈا اور پوٹا کے معاملے میں ہوچکا ہے۔ ٹاڈا کانگریسی حکومت نے بنایا تھا اور اس سے بھی سخت قانون پوٹا سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کی پسند تھا جسے کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے 2004میں ختم کردیا تھا کیوں کہ پوری دنیا میں ہندوستان کیبدنام ہورہی ہے اور 99فیصد مسلمان گرفتار کئے گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ 

 امت شاہ نے ایوان میں دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے عہد کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے مجرم کو بخشا نہیں جائے گا، بھلے ہی وہ کسی بھی ذات، مذہب، فرقہ یا خطے کا کیوں نہ ہو۔ حکومت نے پاکستان جیسے ملک کے باز نہ آنے پر سرجیکل اسٹرائک اور بالاکوٹ کی طرح فضائی حملوں کے راستے بھی اپنانے کے عہد کا اعادہ کیا۔ قانون بننے کے بعد اس کے غلط استعمال کے ارکان کے خدشات کو عبث قرار دیتے ہوئے ایوان کو یقین دلایا کہ قانون کا غلط استعمال ان کی حکومت قطعی نہیں ہونے دے گی۔مسٹر شاہ نے کہا کہ کانگریس کی قیادت والی اس وقت کی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت نے ووٹ بینک کی خاطر پوٹا کو منسوخ کیا تھا۔ پوٹا ایسا قانون تھا جس سے دہشت گردوں کے دماغ میں خوف پیدا ہوتا تھا  لیکن 2004 میں یوپی اے اقتدار میں آتے ہی یو پی اے حکومت نے اسے کابینہ کی پہلی میٹنگ میں رد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔مسٹر شاہ نے کہا کہ پوٹا کو ختم کرمناسب قدم نہیں تھا۔ مختلف تحقیقات اور استغاثہ ایجنسیوں سے  منسلک افسران کا بھی خیال تھا کہ پوٹا کو منسوخ نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔اب قانون بن جانے کی صورت میں قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کو دہشت گردی، ملک مخالف سرگرمیاں، انسانی اسمگلنگ، اور سائبر جرائم کی بیرون ملک جاکر تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔اس قانون کے تحت دہشت گردی کے واقعات کو نمٹانے کے لئے خصوصی عدالت اور علیحدہ ججوں کی تقرری کا التزام ہے اور اس کے لئے ججوں کی تقرری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کی جائے گی۔عام عدالتوں میں معاملات طویل عرصہ تک زیر التوا رہتے ہیں اس لئے ملک کی سیکورٹی اور قانون مخالف سرگرمیوں سے منسلک مستعد طریقے سے  نمٹنے میں یہ قانون مفید ثابت ہوگا۔ 



اسی طرح کوامت  شاہ نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی بل 2019 (یو اے پی اے) پاس کروالیا اور دلیل دی کہ دہشت گرد ی صرف بندوق سے پیدا نہیں ہوتی۔ جو اس کی تبلیغ کرتا ہے وہ بھی دہشت گرد ہے۔ اس ترمیم کے ذریعہ دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے والے‘ دہشت گردوں کی تیاری میں مدد کرنے والے‘ انہیں اقتصادی تعاون دینے والے اور ادبی اور نظریاتی توسیع و اشاعت کے ذریعہ دہشت گردی کے اصولوں کی تشہیر کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے کا التزام کیا گیا ہے۔ قانون بن جانے کے بعد قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ایجنسی کے ذریعہ کسی دہشت گرد یا ادارہ کی جائیداد ضبط یا قرق کرسکے۔ اس سے مرکزی حکومت کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو بھی ممنوعہ فہرست میں شامل کرسکے۔ ابھی صرف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں کے نام ہی ممنوعہ فہرست میں ڈالے جاسکتے ہیں۔ بل کے ذریعہ این آئی اے کے انسپکٹر درجہ کے افسرکو بھی تفتیش کا اختیار حاصل ہوگا۔مسٹر شاہ نے اس قانون کو سخت بنانے کا سہرا سابقہ یو پی اے حکومتوں کو دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے سخت سے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔”1967 میں جب یہ قانون بنا تھا تب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی۔ سال 2004 میں قانون میں پہلی ترمیم کی گئی۔ سال 2008میں دوسری اور 2013میں تیسری ترمیم کی گئی۔ تینوں مواقع پر یو پی اے حکومت تھی۔“’شہری ماونوازی‘ کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر شاہ نے کہا کہ جو لوگ نظریاتی تحریک کا لبادہ اوڑھ کر بائیں بازو کی انتہاپسندی کو بڑھاوا دیتے ہیں ان کے لئے ذرا سا بھی رحم نہیں دکھانا چاہئے۔اس سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ جس کو چاہے دہشت گرد قرار دیکر جیل میں ڈال دے۔اسی کے ساتھ حکومت حق اطلاعات قانون میں ترمیم کرکے عوام کے معلومات حاصل کرنے کا اختیار سلب کرلیا ہے۔ 

 سابقہ حکومتوں نے ٹاڈا اور پوٹا کے تحت مسلم نوجوانوں پر اتنے مقدمے تھوپ دئے تھے کہ جتنی ان کی عمر نہیں تھی۔ مثال کے طور پر محمد عامر خاں جب انہیں گرفتار (اغوا) کیا گیا تھا ان کی عمر 18 برس تھی اور ان پر 19 فرضی مقدمات تھے۔ یہ مقدمات اعلی افسران کی ملی بھگت کے بغیر قائم نہیں کئے جاسکتے تھے اور اس میں سیاسی لیڈروں کی شمولیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ پولیس کے اعلی افسران ان سیاسی لیڈروں کے اشارے پر ہی رقص کرتے ہیں۔پولیس افسران خصوصاً انسداد دہشت گردی سے متعلق دستہ اور خصوصی سیل ک8ا انسداد مسلم کا کارنامہ انجام دیتی ہے۔ یہ تبصرہ میرا نہیں ہے بلکہ کچھ انصاف پسند ججوں کا ہے۔ جنہوں نے اپنے فیصلے میں کئے ہیں۔ محمد عامر خاں سمیت  16 کیسوں میں مسلم نوجوانوں کو رہا کرتے ہوئے ججوں نے نہ صرف پولیس کے رول پر سخت تبصرے کئے ہیں ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کے لئے بھی کہا ہے لیکن ابھی تک کسی پولیس والے کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے۔



سپریم کورٹ کا 2001میں ایک فیصلہ آیا تھا جس میں ٹاڈا کورٹ سے سزا یافتہ 11 مسلمانوں کوسپریم کورٹ نے بری کیا تھا۔ ان 11 مسلمانوں کو ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ یہ لوگ بھگوان جگن ناتھ پوری یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ یہ واقعہ9جون1994 کا تھا۔ سپریم کورٹ نے 11مسلمانوں کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ خاص طبقہ یا مذہب کے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا بیجا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سینیئر پولیس افسران اور حکام جن پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے وہ قانون کو خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے قانون کا غلط استعمال نہ ہونے دیں۔ جسٹس ایچ ایل وتو اور جسٹس چندر مولی کمار پرساد پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نے کہا تھا کہ حکام کو ’اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی معصوم شخص کو محض اس لیے مصیبت میں مبتلا محسوس نہ کرے کہ ’مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ“۔شاہ رخ کی ادکاری والی اس فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ نام اگر مسلمان ہے وہ دہشت گرد نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جس میں تمام لوگوں کو مساویانہ طریقہ سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ بینچ نے پولیس افسران پر واضح کردیا تھا کہ محض کسی کو اس بنیاد پر گرفتار نہ کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے۔ مسلمان ہونے کی بنیاد پر سیکورٹی ایجنسیاں کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے قانون کا کسی مذہب یا فرقہ کے لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ ٹاڈا قانون نرسہما راؤ دور حکومت میں مضبوط بنایا گیا تھا اور پوٹا قانون بی جے پی سینئر لیڈر اور وزیر اعظم کا سہانا خواب دیکھنے والے مسٹرایل کے اڈوانی کا پسندیدہ تھا۔ پوٹا کے تحت پولیس کے سامنے دیا گیا اقبالیہ بیان ثبوت مانا جاتا تھا۔ یہی نہیں، اس میں گواہوں کی شناخت بھی ظاہر نہ کرنے کا انتظام تھا۔ 30 جون 1994 تک صرف ٹاڈا قانون کے تحت 76 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔ یہ قانون کتنا سیاہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جتنے بھی افراد اس  قانون کے تحت گرفتار کئے گئے تھے ان میں سے صرف دو (2) فیصد ملزموں کو سزا ہوئی باقی 98 فیصد چھوٹ گئے تھے۔ اسی قانون کو جاری رکھنے کے لئے قومی جمہوری اتحاد حکومت نے اس کی جگہ پوٹا قانون نافذ کیا تھا جسے یو پی اے حکومت نے منسوخ کردیا تھا۔یہ دونوں قانون کو مجموعی طور پر مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کا شکار 99 فیصد مسلمان ہی ہوئے تھے۔ اس کی زد میں نہ صرف بچے آئے تھے بلکہ ضعیف کو بھی دبوچا گیا تھا۔ گجرات کے اس فرضی منصوبہ میں 52 افراد کو گرفتار کیا گیا تھاجس میں گجرات ٹاڈا عدالت نے 41 افراد کو بری کرتے ہوئے 11 افراد کو سزا کا مستحق قرار دیا تھا جس کے خلاف مسلمانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔31 جنوری2002 کو سپریم کورٹ میں ان لوگوں نے اپیل کی جس کا فیصلہ  26 ستمبر 2012کو آیاتھا۔ سپریم کورٹ میں اتنے طویل عرصہ تک یہ مقدمات چلے۔یہ طویل عرصہ خود انصاف کی نفی کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کو  16برس کا عرصہ بے گناہی ثابت کرنے میں گزر جائے تو اسے انصاف کیوں کر کہا جاسکتاہے اور اس طویل عرصہ کے دوران جتنے لوگوں کا خاندان تباہ ہوا اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟۔ عدالت، پولیس، حکومت۔

ہندوستان میں مسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے۔ خواہ اس کی حقیقت کچھ ہو یا نہ ہو۔ بعض مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ گرفتار کیا گیا ہے توکچھ نہ کچھ ضرور ہوگا، ہمیں کیوں نہیں گرفتار کیا گیا ہے، یا فلاں کو کیوں نہیں پکڑا گیا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سوچ لیجئے کہ کل آپ کی، ہماری یا کسی اور کی باری آسکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب آپ کو پکڑا جائے تو بچانے والا کوئی نہ رہے۔ خفیہ ایجنسی سب کو ایک ساتھ نہیں پکڑ سکتی ورنہ وہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوجائے گی وہ پہلے اپنے مخبروں کو پکڑتی ہے اور پھر اس کے شناسا کو اور پھر اس کے موبائل میں کسی کا نمبر موجود ہے تو پھر اس کو حراست میں لیتی ہے۔ پہلے طے کرتی ہے کہ کس کو نشانہ بنایا جائے۔ پھر اس کے بعد گرفتاری کرتی ہے،الزام گڑھتی ہے اور الزام کے حساب سے ثبوت تیار کرتی ہے۔ ہندوستان کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ نہ صرف جھوٹے گواہ تیار کئے جاتے ہیں بلکہ فرضی ِثبوت بنانے کے بہت سارے اڈے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف کس قدر گہری سازش کی جاتی ہے اس کا اندازہ حیدرآباد کے مکہ مسجد، مالیگاؤں، سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر، نانڈیڑ اور دیگر مقامات پر ہونے والے بم دھماکے سے انداز ہ ہوتا ہے۔ حکومت، پولیس، انتظامیہ کے متعصب اورامتیازی سلوک روا ررکھنے کا اس سے کھلم کھلم اور واضح ثبوت اور کیا ہوسکتاہے کہ ابتداء میں تمام جگہوں پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور طویل عرصہ تک مسلم نوجوان ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیل میں رہے ہیں۔ ایک بار نہیں درجنوں بار غیر مسلموں کو ٹنوں باردو اور دھماکہ خیز اسلحہ کے ساتھ گرفتار کیاگیا لیکن ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جہاں تک امت شاہ یہ کہنا ہے کہ کسی بھی دہشت گرد کو بخشا نہیں جائے گا اس میں کوئی دم نہیں ہے کیوں کہ وہ ہندوؤں کو دہشت گرد مانتے ہی نہیں ہیں۔ جیسا کہ حیدرآباد بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزموں کے خلاف اپیل نہ کرنا یہ صاف ظاہرکرتا ہے کہ وہ صرف ہندوؤں کو بچانا چاہتے ہیں۔

یہ مضمون 2019  میں لکھا گیا تھا۔


Comments