تریپورہ مسلم مخالف تشدد اور حکومت کی پردہ پوشی


 عابد انور

اقوام متحدہ میں ثقافتی تنظیم کا درجہ حاصل کرنے والی وشو ہندو پریشدکی شدت پسندی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ان کے لوگ گجرات میں اپنی سفاکی کا مظاہرہ کرچکے ہیں،اقوام متحدہ مسلم ممالک کی سرگرمیوں پر ہر طرح سے نظر رکھتی ہے، کہاں کیا ہوتا ہے، کہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کہاں عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، کہاں بچوں کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے، کہاں جنگ اور فساد ات کے دوران خواتین کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد وہاں کی ایک ایک خاتون اور بچہ کے حقوق کی فکر اقوام متحدہ کو ہے لیکن فلسطین اور دیگر ممالک کے بچوں اور عورتوں کی فکر نہیں۔ تعلیم، اسکول،کاروبار تمام طرح کی تشویش اقوام متحدہ ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے وشو ہندو پریشدکی گھناؤنی حرکت کی معلومات اس سے کوسوں دور ہے۔ اس تنظیم کی انتہا پسندی سے جب پورے ملک کے مسلمان، عیسائی اور دلت پریشان حال تھے اس وقت اس تنظیم نے اسے ثقافتی تنظیم کا درجہ دیا تھا۔ جس میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے،بابری مسجد کو شہید کئے جانے سے ایک دن پہلے زمین کو برابر کرنے کی اپیل کرنے والے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا بڑا ہاتھ تھا۔ 26اکتوبر سے تریپورہ جل رہا ہے اور تشدد کا یہ سلسلہ وشو ہندو پریشد کے جلوس نکالنے کے دوران شروع ہوا ہے۔ تریپورہ کی ویڈیوز میں تلواروں اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ہجوم ہندو مذہبی نعرے اور مسلم مخالف نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ وہ تریپورہ کی گلیوں میں بے خوف گھوم رہے ہیں۔وشو ہندو پریشدنے یہ جلوس بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے، درگا پوجا کے موقع پر توڑپھوڑ کے خلاف نکالا تھا حالانکہ بنگلہ دیش حکومت نے ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی اور تقریباً پانچ سو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ جلوس کے دوران وہاں کے مسلمانوں کے مکانات، دکانیں،مساجد اور دیگر کاروباری ادارے کو چن چن کر آگ کے حوالے کیا جارہاہے لیکن وہاں کی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ صرف ایک دو چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں۔ تریپورہ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ تریپورہ ہائی کورٹ نے میڈیا میں آنے والی رپورٹ کے حوالے سے نوٹس لیا ہے حالانکہ قومی میڈیا سے یہ خبر سرے غائب ہے اگر کہیں ہے بھی وہ قابل ذکر نہیں ہے بلکہ ظالموں کے موقف کو پیش کیا گیا ہے لیکن تریپورہ ہائی کورٹ کا یہ قدم قابل خیرمقدم اور لائق ستائش ہے کہ کچھ تو شروعات ہوئی ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 26 اکتوبر سے ہونے والے اندوہناک واقعہ کے بارے میں کسی بھی پارٹی قابل اثر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ٹوئٹ کرکے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی مذمت کی ہے لیکن اس کے علاوہ کسی اور بیان سامنے نہیں آرہا ہے۔ تریپورہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً دس فیصد کے قریب ہے۔مسلمان مخلوط آبادی میں رہتے ہیں۔ تریپورہ میں بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کی بڑی تعداد ہے۔ اس سے وہاں کے ماحول کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت یہی لوگ ہوتے ہیں۔ تریپورہ اور بنگلہ دیش میں فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے سخت کارروائی کی اور یہاں فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ سیاسی زینہ چڑھنے سب سے مجرب نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کے واقعات پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے آواز اٹھائی لیکن تریپورہ کے معاملے میں امریکہ اور اقوام متحدہ خاموش ہے کیوں کہ گھناؤنانی حرکت اس کی ثقافتی تنظیم کررہی ہے۔
ہندوستان میں ہر روز پیش آنے والے واقعات سے مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہاں کا قانون ان کا تحفظ کرنے سے لاچار ہے، تھانہ سے لیکر عدالت تک ان کے ساتھ امتیاز کیا جاتا ہے، جس پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا ان کو بھی برسوں تک جیل رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے صرف عدالت ہی ذمہ دار ہے۔ تریپورہ ہائی کورٹ نے ایک مثال قائم کی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آٹھ نومبر کو ہونے والی اگلی سماعت پر تریپورہ پولیس کی تھیوری کو تسلیم کرتی ہے یا سخت پھٹکار لگاکر کارروائی کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اب تک کسی فسادیوں کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہاں کی حکومت اور ہندوستانی روایات کے مطابق ہندو فسادیوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کرے گی۔ اس لئے بھی اس کا امکان نہیں ہے کہ کیوں کہ تریپورہ پولیس مساجد، دکانیں، مکانات اور دیگر مسلم اداروں میں تھوڑ پھوڑ،تباہ کرنے، آگ کے حوالے کرنے سے انکار کرتی ہے۔ نیوز کلک کی ایک رپورٹ کے مطابق ”شمالی تریپورہ ضلع کے پانی ساگر سب ڈویژن میں 26 اکتوبر کو وشو ہندو پریشد کی ریلی کے دوران ایک مسجد میں توڑ پھوڑ اور دو دکانوں کو نذر آتش کرنے کے دو دن بعد، تریپورہ پولیس نے جمعرات کو کہا کہ ریاست میں امن و امان کی صورتحال معمول پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹی خبریں ذاتی مفادات کے لیے پھیلائی گئیں۔ لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں افواہیں اور جعلی تصویریں نہ پھیلائیں۔پولیس نے یہ بھی کہا کہ کسی مسجد کو آگ نہیں لگائی گئی کیونکہ سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔تریپورہ پولیس فورس نے ٹویٹ کیا کہ افواہیں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر فرضی آئی ڈیز کا استعمال کیا جا رہا ہے اور واضح کیا کہ ریاست میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر نارمل ہے۔تریپورہ پولیس نے ٹویٹ کیا، ''پانی ساگر میں احتجاج کے دوران کسی مسجد کو نہیں جلایا گیا اور مسجد کو جلانے یا نقصان پہنچانے کی تصاویر جعلی ہیں۔''تریپورہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس وی ایس یادو نے کہا، ”کچھ مفاد پرست تریپورہ میں پرامن فرقہ وارانہ صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ہر شہری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے میں مدد کریں“۔جب کچھ ہوا ہی نہیں توپولیس کارروئی کیوں کرے گی؟نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔


بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ مشرقی بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق ہندوستانی ریاست تریپورہ ایک ہفتے سے تشدد کی زد میں ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کے گھروں، کاروبار اور مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ یا آگ لگا دی گئی ہے اور کئی مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار پر حملے کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ لکھے جانے تک کسی گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔تریپورہ میں مسلمان اقلیت ہیں اور آبادی کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ ان میں بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں ہندوؤں پر کئی حملے ہوئے ہیں۔ تریپورہ میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کو لوگ اپنے ردعمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تری پورہ کے نکوٹی ضلع کے سرحدی قصبے کیل میں رہنے والے ایک تاجر عبدالمنان نے کہا کہ منگل کی دوپہر 12.30 بجے ایک ہجوم نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور ان کے گھر میں توڑ پھوڑ کی۔ اس کے گھر والوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ حملے کے وقت وہ گھر پر نہیں تھے۔ وہ تریپورہ کے دارالحکومت اگرتلہ میں تھے۔تریپورہ میں تشدد کا نشانہ بننے والے عبدالمنان نے تفتیش کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے حوالے کر دی ہے تاہم وہ اپنی حفاظت کے لیے پریشان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 'میری عمر 44 سال ہے، لیکن میں نے یہاں کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا، اب جینا مشکل ہو گیا ہے؟'حملے سے ایک رات قبل وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ارکان نے مبینہ طور پر ان کے گھر پر بھگوا جھنڈا لہرایا تھا۔عبدالمنان ایک معروف تاجر ہیں اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے رکن کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے گھر پر حملے کو نہ روک سکے۔''جہاں ہم رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کے لیے صرف 5-10 گھر ہیں،'' وہ کہتے ہیں۔ اگر حملے بند نہ ہوئے تو ہمیں ایسی جگہ جانا پڑے گا جہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی ہو۔تریپورہ میں مسلمانوں کی آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں مسلمان کسی ایک جگہ نہیں رہتے بلکہ پورے صوبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
جماعت علمائے ہند کی طرف سے تریپورہ کے وزیر اعلیٰ کو دی گئی درخواست کے مطابق،’وشوا ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) اور ہندو جاگرن منچ جیسی قدامت پسند ہندو تنظیموں نے گزشتہ دنوں دارالحکومت تریپورہ پر حملہ کیا ہے اور ریاست کے دیگر شہروں اور قصبوں میں مظاہرے ہوئے جو مبینہ طور پر مقامی مسلمانوں کے خلاف غم و غصے میں بدل گئے۔ جماعت نے مظاہرین پر مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کا الزام بھی لگایا ہے۔نیوز کلک نے اپنی رپورٹ مزید کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے اقلیتوں پر بڑے پیمانے پر حملوں کے خلاف بہت تیزی سے کارروائی کی ہے اور سینکڑوں مجرموں /حملہ آوروں کو قید کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے فوری طور پر حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ قصورواروں کا ”شکار اور سزا دی جائے گی“۔ ایک واضح تبصرہ میں، انہوں نے کہا کہ سرحد کے دوسری طرف جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ان کے ملک پر بھی پڑتا ہے۔ ''ہمیں امید ہے کہ(ہندوستان میں) ایسا کچھ نہیں ہوگا جس کا اثر بنگلہ دیش میں ہماری ہندو برادری کو متاثر کرنے والے کسی بھی واقعے پر پڑے۔'' شیخ حسینہ کی حکومت نے نقصان اٹھانے والوں کو مناسب معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے گروپس اپنے ہندو بھائیوں اور بہنوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ملکی میڈیا نے اقلیتوں کے تحفظ کی حکومت کی ذمہ داری کی وکالت کی اور تشدد کی مذمت میں مضامین اور اداریے لکھے۔ تریپورہ میں تشدد پر ہندوستان میں رد عمل اتنا قابل مذمت یا سخت نہیں تھا جتنا بنگلہ دیش میں تھا۔اس کے علاووہ پی ایم او اور وزارت داخلہ کے انڈیا ٹویٹر ہینڈل نے تریپورہ میں تشدد کے بارے میں ایک بھی ٹویٹ نہیں کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ پچھلے ایک ہفتے میں کئی بار عوامی تقریبات میں نظر آئے ہیں، لیکن تریپورہ نے ابھی تک ان کے بیانات سامنے نہیں آئے ہیں۔ شاہ کی ان کی ریلیوں میں شرکت، سالگرہ کی مبارکباد بھیجنے اور شاہ کے کشمیر کے دورے کی فضائی تصاویر گزشتہ ہفتے تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب دیب کے ٹوئٹر فیڈ پر شیئر کی گئی ہیں، لیکن ان کی ریاست میں مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد کی کوئی جھلک یا مذمت نہیں ہے۔جبکہ بنگلہ دیش کی حکو مت کی کارروائی کے علاوہ بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے دو ماہ کے اندر تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کہا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی بنگلہ دیش سمواد سنستھا کے مطابق 29اکتوبر کو اپنے حکم میں عدالت نے رنگ پور، کومیلا، چٹوگرام، فینی، چاند پور اور نواکھلی کے جوڈیشل مجسٹریٹس کو  فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی تحقیقات کرنے اور  60 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا ہے۔ہائی کورٹ نے متعلقہ افسران سے یہ واضح کرنے کے لئے بھی کہا کہ متاثرین کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے مقامی انتظامیہ کی غیر فعالیت کو غیر قانونی کیوں نہیں اعلان کیا گیا۔وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حال ہی میں ہوئے فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات میں چھ لوگوں کی موت ہوئی ہے، جن میں پولیس کی گولی باری میں چار مسلمان بھی مارے گئے ہیں۔ مذہبی اقلیتیوں کی اموات اور عصمت دری کی فرضی کہانیوں کی تشہیر کرنے کے لئے مومن نے کچھ میڈیا آؤٹ لیٹ اور افراد کی تنقید کی ہے اور کہا کہ سبھی قصورواروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ہندوستان میں تریپورہ فساد زدہ علاقہ کا دورہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اوروکیلوں پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کئے جارہے ہیں اور عدالت خاموش ہے۔


جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی جو تریپورہ میں جمعیۃ تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے، بتایا کہ ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی گئی ہے اور پولیس کے دعوی کو جھوٹا قرار دیا۔ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تریپورہ پولیس مکمل طور پر جھوٹ بول رہی ہے اوراپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پر ہندوستان میں مکمل طور پر خاموشی ہے مین اسٹریم میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف نفرت و جہالت پھیلانے سے فرصت نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں بھی خاموش ہیں۔ پورے ہندوستان کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والی ممتا بنرجی بھی خاموش ہیں،اگر مغربی بنگال کے مسلمانوں نے ممتا کو یکطرفہ طور پر ووٹ نہیں دیا ہوتا تو وہ اقتدار سے باہر ہوتیں۔ وہ تریپورہ میں توسیع چاہ رہی ہیں لیکن تریپورہ فسادپر وہ اور ان کی نئی رکن پارلیمنٹ ششمتا دیو بھی خاموش ہیں۔وہاں کی مضبوط اپوزیشن بائیں بازو کی بھی کوئی مؤثر آواز سننے کو نہیں مل رہی ہے۔ تری پورہ فساد کا ایک مقصد یہ بھی لگ رہا ہے کہ اس کے ردعمل کے طور پر بنگلہ دیش یا کسی ملک میں ہندوؤں کے خلاف فساد ہو اور اس کا بہانہ بناکر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کیا جاسکے۔ ویسے بھی بی جے پی کو مسلم مخالف بیان بازی کرنے کا شوق ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان مہاجرین کو ’دیمک‘ قرار دیا، سی اے اے مخالف تحریک کو پرتشدد مظاہرین کہا اور کہا کہ ان مظاہرین کو ’ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے‘'۔مسلمانوں کے قتل عام کو دیمک مارنے سے تشبیہ دیکر حکومت خود کو بے داغ ثابت کرسکتی ہے۔ بنگلہ دیش نے تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔ تشدد کے فوراً بعد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ملک کی ہندو برادری سے ملاقات کی۔ حکومت نے کئی گرفتاریاں بھی کیں اور حکومت کے وزراء نے متاثرہ ہندوؤں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن ہندوستان میں مسلمانوں سے حکومت کے وزراء کی ملاقات تو دور کی بات ٹوئٹ کرکے بھی اس فساد کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں کا اکثریتی طبقہ اگر چاہے تو ہندو انتہا پسند جماعت کے لوگ فساد کرنے کی ہمت نہیں کریں گے لیکن وہ کبھی دفاع میں نہیں آتے بلکہ وہ مجرموں کا دفاع کرتے ہیں۔
9810372335

Comments