فرقہ پرستوں کے نفرت کاپودا بنگلہ دیش میں اگ آیا



 عابد انور

ہندوستان میں گزشتہ کچھ دہائیوں اور خاص طور پر گزشتہ سات برسوں میں یہاں کی فرقہ پرست قوم، حکومت، عدلیہ،مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا نے نفرت کا جو پودا لگایا ہے وہ تناور درخت بن چکا ہے اور اس کا بدترین سایہ پڑوسی ملک تک جا پہنچا ہے فرق یہ ہے کہ پڑوسی ملک کو اس کا احساس ہے اور وہ اس کے خلاف سخت کارروائی بھی کر رہا ہے لیکن تناور درخت والے ملک کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے بلکہ یہاں کی حکومت اس درخت کو پائیدار اور پورے ملک کو اپنے سایے کی زد میں لینے کے لئے دن رات کام کر رہی ہے۔ نفرت پھیلانے والوں کو سزا دینے کے بجائے انہیں بڑے بڑے آئینی عہدے پر بٹھایا جارہا ہے، ان کی شان میں اکثریتی قوم قصیدے پڑھ رہی ہے اور ان کا شاندار استقبال کیا جارہا ہے، انہیں مہامنڈلیشور بنایا جارہا ہے۔ کم از کم مسلمان اس برے دور میں بھی کسی مجرم، زانی، قاتل،نفرت پھیلانے والوں کو اپنا رہنما خاص طور پر مذہبی رہنما نہیں بناتالیکن اکثریتی طبقہ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ انہیں بڑے دھرم گرو کا درجہ دیکر ان کے سامنے اپنا سب کچھ نچھاور کردیتا ہے۔ گویا نفرت پھیلانے، قتل عام پر اکسانے، مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عزت لوٹنے اور ان کو ہر سطح پر دلدل میں دھکیلنے کے لئے انعام دیتا ہے۔ملک میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتاجب نشانہ بناکر مسجد پر حملے،مسلم عورتوں کے ساتھ بدتمیزی،مسلمانوں پر حملے یا مسلمانوں کے خلاف دیگر جرائم انجام نہ دئے جاتے ہوں۔ ابھی تریپورہ میں جس طرح مسلم کش فسادات پربا کئے گئے اور وہاں کم و بیش سات مسجدوں کو نشانہ بنایا گیالیکن بنگلہ دیش کے معاملے پر اپنی چڈی پھاڑنے والوں کی طرف سے اب تک فسادیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے اور ہوگی بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کے خلاف احتجاج کرنے جرم میں مسلمانوں کو ہی درجنوں دفعات کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا جیسا کہ بیشتر فسادات کے بعد ہوتا آیا ہے۔ ہندوستانی عدالتوں میں صرف فیصلے ہوتے ہیں انصاف نہیں ہوتا۔عدالت شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ حکومت اور اکثریتی طبقہ کی منشا پر فیصلے کرتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے شرجیل امام، عشرت جہاں، گلفشاں، صدیق کپن اور سیکٹروں مسلم نوجوان سلاخوں کے پیچھے نہیں ہوتے جب کہ سر عام ’ملے کاٹے جائیں گے‘،’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو’کی اپیل اور نعرے لگانے کھلے عام باہر نہیں گھوم ہورہے تھے۔ حیرانی بات یہ ہے کہ جو عدالت کہتی ہے کہ یہ طالبان نہیں ہے وہی عدالت کچھ دنوں کے بعد ایسے لوگوں کو ضمانت دے دے دیتی ہے۔ گویا کہ یہاں ہندو طالبان ہیں۔عدالت رام بھگت گوپال کو اقدام قتل کے جامعہ طلبہ پر گولی چلانے والے معاملے میں ضمانت دے دیتی ہے لیکن شرجیل امام کو اشتعال انگیز تقریر کے معاملے  میں ضمانت دینے سے گھبراتی ہے۔ ایک طرف پولیس کی تھیوری کو مسترد کرتی ہے تودوسری طرف ضمانت نہیں دیتی کیوں کہ عدالت کو حکومت کی منشا پر عمل کرنا ہے نہ کہ آئین پر۔ درگا پوجا کے موقع پر بنگلہ دیش میں مبینہ قرآن کی بے حرمتی کے بعد ہونے والے فسادات، مورتیوں کے توڑے جانے،لوگوں کے مارے جانے پر وہاں کی حکومت نے جس طرح ٹھوس کارروائی کی اس کا تصوربھی ہندوستان میں نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ برسوں میں ہندو پر ہونے والی زیادتی کے معاملے کی سماعت کرتے ہوے وہاں کے جج کہا تھا کہ یہ ہندوستان نہیں ہے اقلیتوں پر ظلم کرنے والے بچ جائیں گے۔کاش یہاں کی عدالت بنگلہ دیش کی عدالت سے کچھ سیکھ پاتی۔



بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر مبینہ قرآن کی بے حرمتی کے خلاف ہونے والے فساد میں بنگلہ دیش میں پولیس نے کہاکہ ملک کے مختلف حصوں میں ہندوؤں کے مندروں، گھروں اور کاروباری مراکز پر حملوں کے کم سے کم 71 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور تقریباً 450 افراد کو گرفتار کیا گیا۔پیر کی شب پولیس ہیڈکوارٹر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ دُرگا پوجا واقعے سے جڑے 71 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جبکہ کچھ مقدمات ابھی درج کیے جانے باقی ہیں۔ اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق‘بنگلہ دیش کے ضلع کومیلا میں گذشتہ بدھ کو ایک پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی اطلاعات کے بعد ملک بھر میں ہندوؤں کے خلاف کئی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پولیس نے اس کے ردعمل میں قانونی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت سزاؤں کا وعدہ کیا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ ہندو برداری کو سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ انڈین سیاستدانوں کی جانب سے ان واقعات کے بعد سخت ردعمل سامنے آیا تھا جس کے بعد شیخ حسینہ نے ہندوستان کو متنبہ کیا تھا۔کومیلا کے مضافات پر یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا جہاں ہندو خاندان آباد ہیں۔ وہ گذشتہ 20 برسوں سے وہاں عارضی پنڈال لگا کر دُرگا پوجا کا اہتمام کر رہے ہیں۔اس پوجا کے ایک منتظم اچنتیہ داس کہتے ہیں کہ پوجا ختم ہونے اور لوگوں کے جانے کے بعد مرکزی پنڈال کے سٹیج کے گرد پردہ لگا دیا گیا تھا۔ سٹیج سے کچھ فاصلے پر گنیش کا بت تھا۔ کسی نے وہاں قرآن رکھ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ نجی کمپنی کے سکیورٹی گارڈ وہاں صبح تک موجود تھے۔ جب وہاں قرآن رکھا گیا تو سکیورٹی گارڈ موجود نہیں تھا۔تاہم صبح ایک شخص نے ٹرپل نائن (999) پر فون کیا اور کہا کہ وہاں قرآن کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ ایک اور نوجوان شخص نے واقعے پر فیس بُک لائیو شروع کر دیا۔لیکن کوئی عینی شاہد ایسا نہیں جو تصدیق کر سکے کہ انھوں نے وہاں کسی کو قرآن رکھتے ہوئے دیکھا۔مگر ٹرپل نائن پر فون کال اور فیس بک لائیو کے دو واقعات سے معاملہ سب کی نظروں میں آگیا۔.''ان فسادات میں ہندوؤں کے 20 گھروں کو آگ لگا دی گئی اور 66 گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔



اس واقعہ کے خلاف پیر کو شاہ باغ چوک پر ایک ہزار سے زائد افراد جمع ہوئے اور پانچ گھنٹے تک سڑک بلاک کی۔ ان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس کے علاوہ اسکان اور رمنا کالی مندر سے وابستہ لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم اور احتجاج کے ترجمان جے جیت دتہ نے صحافیوں کو بتایا،بہت سے مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے احتجاج میں شرکت کی ہے یا اس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ یہ سیکولر بنگلہ دیش کا خاصہ ہے۔مظاہرین سیکورٹی حکام کے کہنے پر شاہ باغ چوک سے دوپہر کو روانہ ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ''اگر ان کے مطالبات 24 گھنٹے کے اندر پورے نہ کیے گئے تو وہ دوبارہ اس مقام پر جمع ہوں گے۔ ''شاہ باغ اسکوائر وہ جگہ ہے جہاں 2013 میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور اسلامی شدت پسندوں کے خلاف آواز بلند کی۔اس تحریک کے کنوینر عمران سرکار نے 'دی ٹیلی گراف' کو بتایا، ''یہ ہمارے پروگرام کا پہلا دن تھا، اگر ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ جمع ہوں گے۔ لیکن ہم کسی بھی صورت میں بنیاد پرستوں کو بنگلہ دیش پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

بنگلہ دیش کے مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندو برادری کے چھ افراد الگ الگ حملوں میں مارے گئے ہیں، حالانکہ ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے منگل کو وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ان لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کریں جنہوں نے حال ہی میں تشدد کو ہوا دینے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ حسینہ نے لوگوں سے کہا کہ وہ حقائق کی جانچ کیے بغیر سوشل میڈیا پر کسی بھی چیز پر یقین نہ کریں۔اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی مستقل نمائندہ رباب فاطمہ نے اپنے ملک میں اقلیتی ہندو برادری پر حالیہ ''گھناؤنے حملوں '' کی مذمت کی اور کہا کہ ملک کی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان واقعات کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کا کہنا ہے کہ یہ حملے ملک کا امیج خراب کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے کہا ہے کہ حکومت یہ گھر اپنے خرچ پر بنائے گی اور جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے ان کی تلافی کرے گی۔اقلیتی ہندوؤں پر ان حملوں سے سماج کے ہر طبقے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شمشیر مبین، سابق سیکرٹری خارجہ اور بنگلہ دیش جنگ میں ایوارڈ یافتہ، نے کہا، ''ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہونے والے فسادات میں ایسی کوئی آگ نہیں لگائی گئی۔ یہ بنگلہ دیش نہیں ہے، جس کے لیے ہم 1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ لڑی تھی۔



ستیہ ہندی ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ہندوتوا کی بات کر رہی ہیں، پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درگا پوجا کے دوران ہندوؤں پر حملے کے خلاف دارالحکومت ڈھاکہ کے شاہ باغ اسکوائر میں سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا ہے۔اس میں شرکت کرنے والوں میں مسلمان بڑی تعداد میں تھے۔ ان میں یونیورسٹی کے طلباء، سول سوسائٹی کے لوگ اور کئی سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ان لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ مظاہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں بنگلہ دیش میں شدت پسندوں کے اثر و رسوخ کو بڑھنے نہیں دیں گے۔بتا دیں کہ درگا پوجا کے دوران مذہب اسلام کی توہین کی افواہ پھیلنے کے بعد کومیلا، چاند پور، چٹوگرام، کاکسج بازار، بندربن، مولوی بازار، غازی پور، چپن واب گنج اور فینی اضلاع میں فسادات پھیل گئے۔بنگلہ دیش کی ہندو بدھسٹ کرسچن ایکتا پریشد نے کہا ہے کہ چاند پور اور نواکھلی میں ان فسادات میں کم از کم چار ہندو مارے گئے۔بنگلہ دیش کے عوام ان فسادات اور قتل و غارت کے خلاف ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔ستیہ ہندی ڈاٹ کام نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس کے برعکس بنگلہ دیش کا پڑوسی ہندوستان ہے جہاں اقلیتوں کو گائے کا گوشت رکھنے، گائے کا گوشت کھانے اور یہاں تک کہ ہندو لڑکیوں سے شادی کرنے پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات حکمران بی جے پی کے لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں۔اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی ایک مثال دہلی کے فسادات ہیں، جس میں مسلم دانشوروں، پروفیسروں، ماہرین اقتصادیات اور طلباء کو سی اے اے کی مخالفت کرتے ہوئے لپیٹ دیا گیا تھا۔اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی ایک مثال یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نے سی اے اے کے خلاف شاہین باغ تحریک پر کہا تھا کہ 'یہ کوئی اتفاق نہیں ہے، یہ ایک تجربہ ہے'۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 'فساد کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔'اس سے پہلے بھی 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی میٹنگ میں قبرستان - شمشان گھاٹ کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ہندوستان میں اس اقلیت مخالف بیان کے باوجود بی جے پی انتخابات جیت رہی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں اقلیت مخالف بیانیہ بنانے والی بی این پی بری طرح ہار گئی ہے اور طویل عرصے سے اقتدار سے باہر ہے۔

اس واقعہ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت نے کہا ہے کہ ہندو مندروں پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس معاملے میں کارروائی کی جا رہی ہے۔بنگلہ دیش پر تشدد پر امریکہ نے بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران ہندو مندروں اور تنصیبات پر حملوں کے واقعات کی مذمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حکام سے ان معاملات کی مکمل جانچ کرانے کی بھی اپیل کی ہے۔ امریکہ نے کہا کہ مذہب یا عقیدہ کے انتخاب کی آزادی انسانی حق ہے (ہندو مندروں پر حملہ)۔ درگا پوجا کے موقع پر سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر توہین مذہب پر مشتمل ایک پوسٹ منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ بدھ سے ہندو مندروں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کو کہا، 'ہم درگا پوجا کے موقع پر ہندو مندروں اور تنصیبات پر حالیہ پرتشدد حملوں کی مذمت کرتے ہیں (بنگلہ دیش تشدد یو ایس)۔ ہماری ہمدردیاں ہندو برادری کے لوگوں کے ساتھ ہیں اور ہم حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ کیسز کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مذہب یا عقیدہ کے انتخاب کی آزادی انسانی حق ہے۔

بنگلہ دیش نے فسادیوں کے َخلاف کارروائی کرکے نہ صرف اپنے ملک کے سر فخر سے بلند کیا ہے بلکہ ہندوستان کو آئینہ بھی دکھایا ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ ظلم عام بات ہے۔ ملک میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر کبھی خاموش کبھی کھل کر حمایت کرنے والی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی وہ اس بارے میں بہت کچھ لکھ رہے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر اس بارے میں صرف ناپاک ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایک بات توصاف ہوتی نظر آرہی ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں ہندوستانی حکومت جو بیج بویا اس کا پودا دوسری جگہ بھی اگنا شروع ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے ہندو اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک چاہیں گے کریں گے اوراس پر دوسری جگہ ردعمل نہیں ہوگا تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی فہمی ہے۔ یہ تو شروعات ہے اگر یہاں کے لوگوں نے ظلم کرنا، ظلم کی حمایت کا سلسلہ بند نہیں کیا تو اس کے نتائج تو برے ہی نکلیں گے۔ یہ اطلاعاتی تکنالوجی کا دور ہے منٹوں میں بات پوری دنیامیں پہنچ جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس کی طرف سخت لہجے میں اشارہ کیا ہے۔ ہندوستانی حکومت، ہندوستانی میڈیایا دیگر ذرائع ابلاغ یہ سوچتا ہے ان کے خبر نہ دینے سے بات کہیں نہیں پہنچے گی تو یہ شتر مرغ کے ریت میں گردن ڈالنے جیسا ہے۔نفرت کبھی محبت پیدا نہیں کرتی یہ یہاں کے اکثریتی طبقہ کو سمجھنا ہوگا۔ 

Comments