ملک کے میڈیا کو افغان طالبان کے بجائے ملک کے طالبان پر توجہ دینی چاہئے


 عابد انور 

طالبان کے بارے میں جتنا جاننے کا دعوی کیا جارہا ہے ہندوستانی عوام بالخصوص اکثریتی طبقہ کے لوگ اتنا ہی کم جانتے ہیں۔ گزشتہ کم و بیش  30برس میں بین الاقوامی میڈیا سمیت ہندوستانی میڈیا نے  صحافت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جو شبیہ بنائی ہے یہاں کے عوام اسی پر یقین رکھتے ہیں یہاں تک اعلی دماغ کے حامل سول سروسز کے افسران بھی واٹسپ یونیورسٹی کی جھوٹی اطلاع پر یقین کرتے ہیں اور ان کا  گوبر اور گومتر پر ایقان بھی ہے۔ کبھی بھی خود سے اس سلسلے میں جاننے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ کسی نے جاننے کی کوشش کی بھی تو اسی بین الاقوامی میڈیا کا سہارا لیا جو امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں کا پٹھو تھے۔ اس میڈیا کا کام ہی طالبان کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنا تھا، اسلام پر حملہ کرنا تھا۔ جیسے ہی طالبان کا افغانستان پر کنٹرول حاصل ہوا ہندوتو میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا طالبان کے بہانے مسلمانوں کی کردارکشی پر اترآیا اور اپنی کرتوت بھول گئے۔ بین الاقوامی اور ہندوستانی میڈیا کو کبھی بھی امریکہ کی غیر انسانی سرگرمیوں، امریکہ کا افغانستان میں قتل عام، طلبہ، شادی کی تقریبات اور جنازہ پر بمباری نظر نہیں آئی۔ اس میڈیا کو آج افغانستان میں بچوں اور عورتوں کی پریشانی نظر آتی ہے لیکن فلسطین، عراق، شام، بوسینیا ہزرے گوینا، کوسووکی خواتین اور بچوں پر مظالم نظر نہیں آتے کیوں کہ وہ ظلم کرنے والا یہودی ہوتا ہے یا عیسائی ُیا ہندو۔ اسی طرح ہندوستانی میڈیا کو ملک میں دلتوں، مسلمانوں اور طبقوں پر،مظالم نظر نہیں آتے کیوں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اس کا مقصد ہی نہیں ہے۔ وہ تو ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے والے حکومت ساتھ دینے کے لئے ہے۔ پولیس، میڈیا، عدلیہ اور حکومت کے ’گٹھ جوڑ‘ (اتحا) نے مسلمانوں کی زندگی کوجہنم بنادیا ہے۔ یہاں کسی کو کوئی ظلم نظر نہیں آتا، پولیس کا کام ہی بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنا ہے اور عدلیہ کا کام اس ناجائز گرفتاری کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اور حکومت مظالم برپا کرنے والے ظالموں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے جیسے کہ بہت فلاح کا کام کیا جارہا ہے۔ اگر عدالت انصاف پسند اور غیر جانبدار بن جائے تو مسلمانوں کو مہینے دو مہینے میں ضمانت یا براٌت مل جائے۔ مگر جمہوریت کے چاروں ستون حکومت کی منشا کے آگے رقص کرتے نظر آتے ہیں اس لئے انصاف نہ صرف مشکل ہوگیا ہے بلکہ عام لوگوں کے حصول سے باہر بھی ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جن کی نمائندگی زندگی کے ہر شعبے تین چار فیصد سے زیادہ نہیں ہے لیکن جیل میں 35فیصد سے زائد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کی ضمانت تھانے سے ہوسکتی تھی ان کو ضمانت کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ رہا ہے۔ ہندوستانی پولیس کسی بھی مسلمان کو کہیں بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال سکتی ہے اور عدالت پولیس کی گرفتاری پر مہر ثبت کردیتی ہے۔ یہ لوگ آج افغانستان میں طالبان کے مظالم کی بات کر رہے ہیں، افغان خواتین اور بچوں کے غم میں گھلے جارہے ہیں۔ وہاں کے آنے والے طالبان کی تعریف کر رہے ہیں، ان کے سلوک کی ستائش کر رہے ہیں لیکن یہاں کا میڈیا اسے خونخوار اور دہشت گرد قرار دینے کی جدوجہد میں سرگرداں ہے۔ ہندوستانی میڈیا بالکل طالبان کو دہشت گرد اور خونخوار کہے لیکن مدھیہ پردیش میں ٹرک سے گھسیٹنے والے، چوڑی بیچنے ولے کو مارنے والے، کانپورمیں پولیس کے سامنے پٹائی کرنے والے اور ماب لنچنگ کرنے والے کو بھی دہشت گرد کہنے کی ہمت دکھائے لیکن میڈیا اور یہاں کی سول سوسائٹی کو اس معاملے میں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہندوستانی بیشتر آبادی یاتو مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرنے والوں کی کھلم کھلا حوصلہ افزائی کرتی ہے یا خاموش حمایت کرتی ہے یا خاموش رہتی ہے۔ اکثریتی طبقہ کبھی بھی ماب لنچنگ کرنے والوں کے خلاف سامنے نہیں آیا البتہ ان کے استقبال، ا ن کی حمایت اور ان کو ہیرو بنانے کے درجنوں واقعات سامنے آئے ہیں لیکن کوس طالبان کو رہے ہیں جب کہ طالبان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔ 

طالبان کے بارے میں حکومت کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان سے بات کرنے کا اعتراف حکومت کرچکی ہے۔ اس وقت جب کہ طالبان سے چین، روس، امریکہ، یوروپی یونین اور دیگر ممالک بات کر رہے ہیں توحکومت ہند کا تجاہل عارفانہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ برطانوی فوج کے سربراہ نک کارٹر نے کہا ہے کہ دنیا کو طالبان کو ایک نئی حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ جن باغیوں کو مغرب دہائیوں سے عسکریت پسند قرار دیتا آرہا ہے ان کا رویہ مناسب ہوگیا ہو۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 'ہمیں صبر کرنا ہوگا، اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنا ہوگا اور انہیں ان کی صلاحیت دکھانے کا موقع دینا ہوگا۔ساتھ ہی انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ہوسکتا ہے یہ طالبان نوے کی دہائی والے طالبان سے مختلف ہوں۔'اگر ہم انہیں موقع دیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ طالبان زیادہ معقول ثابت ہوں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ طالبان ایک جیسے افراد پر مشمل تنظیم نہیں بلکہ یہ دیہی افغانستان سے تعلق رکھنے والی مختلف قبائلی شخصیات کا ایک گروپ ہے۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر نے بتایا کہ حکومت اب توقع کررہی ہے کہ وہ افغانستان کے لیے نئی آباد کاری اسکیم کے منصوبے مرتب کرے گی جو کہ برطانیہ کے پناہ گزین کے نظام سے الگ ہوں گے، یہ ممکنہ طور پر اس پروگرام جیسا ہوگا جو شامی پناہ گزین کیمپوں سے برطانیہ لائے گئے افراد کے لیے شروع کیا گیا۔ روس کے وزیرے خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت کی تشکیل میں معاونت کے لئے قومی ڈائیلاگ شروع کیا جانا ضروری ہے، ہم ماسکو فارمیٹ کو فعال کرنے کے لئے تیار ہیں۔یورپی یونین نے کہا ہے کہ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اس لیے ان سے بات کرنا ہوگی لیکن یورپی یونین کے تعاون کے حصول کے لیے طالبان کو بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم طالبان کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں بلکہ ہم خواتین اور لڑکیوں کا تحفط یقینی بنانے کے لیے ان سے ہر مسئلے پر بات کریں گے کیونکہ اس کے لیے ہمیں ان سے بات کرنی پڑے گی۔یورپی یونین کے مطابق وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے صرف اسی صورت میں تعاون کریں گے اگر وہ بنیادی حقوق کا احترام اور اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔چین نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ‘دوستانہ اور تعاون’کے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران چین نے طالبان کے ساتھ غیر سرکاری طور پر تعلقات استوار کر لیے تھے اور اب طالبان، کابل پر قبضہ کر چکے ہیں۔چین اور افغانستان کے درمیان 76 کلومیٹر طویل سرحد بھی ملتی ہے اور چین کو سرحدی خطے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے حوالے سے افغانستان کے خطرہ بننے کا خدشہ بھی رہا ہے۔ طالبان کے وفد نے گزشتہ ماہ چین کا دورہ کیا تھا اور وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی تھی اور واضح کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین انتہاپسندوں کے استعمال کے لیے مرکز نہیں ہوگی۔چین نے اس کے جواب میں معاشی اور افغانستان میں ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی پیش کش کی تھی۔ چین نے طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد آج اپنے بیان میں کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع کا‘خیر مقدم’کرتے ہیں، ایک ایسا ملک جو نسلوں سے بڑے سپر پاورز کے لیے جیو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مستقبل کی حکومت کو صرف اس صورت میں تسلیم کرے گا جب وہ اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور دہشت گردوں کو ملک سے دور رکھے۔

 طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قیاس رائیوں پر لگام لگاتے ہوئے اپنے وعدے کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں تمام غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کی ضمانت دی جاتی ہے اور شریعت کے مطابق خواتین کو تمام حقوق دیے جائیں گے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ نے کہا کہ کابل میں مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، جہاں سفارت خانے ہیں اور ہم ضمانت دیتے ہیں کہ وہاں مکمل سیکیورٹی دی جائے گی۔ تمام سفارت خانوں اور اداروں کو مکمل یقین دہانی کرواتا ہوں کہ آپ کے عہدیداروں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور کسی کو امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔بدقسمتی سے گزشتہ حکومت نے امارات اسلامی کو بدنام کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر ہمارے نام پر ڈکیتوں اور چوروں کو بھیجا جس کی وجہ سے طالبان کے جنگجووں کو کابل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا۔ ہمسائیوں اور خطے سمیت دیگر عالمی برادری کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری سرزمین ان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ہم اپنے مذہب اور روایات پر عمل کریں گے۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تعلقات استوار کریں گے۔ خواتین کو شریعت کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے اور اسلام کی حدود اور ہماری روایات کے مطابق حقوق کی ضمانت دیتے ہیں اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہوگی اور میڈیا کو آزادنہ کام کرنے کی اجازت ہوگی تاہم درخواست ہے کہ افغانستان کے اقدار اور روایات کی مکمل پاسداری کی جائے اور تمام قواعد اور اصولوں کی پابندی کرے۔

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2 ہزار 252 کلومیٹر طویل سرحد ہے جبکہ چین کی واخان راہداری کے ساتھ ایک چھوٹی لیکن حساس سرحد افغانستان کے ساتھ منسلک ہے۔روس اور افغانستان کے درمیان سرحد نہیں تاہم 1989 میں جنگ زدہ ملک سے اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد سے افغان باغیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر چکا ہے۔ترکی نے بھی روایتی طور پر افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور برطانیہ کا بھی وہاں کچھ اثر و رسوخ ہے۔اس کے علاوہ یورپی یونین نے افغانستان کے ساتھ اقتصادی امداد فراہم کرنے میں امریکہ کے ساتھ شراکت داری کی اور وہاں امریکی فوجی کی موجودگی کی حمایت کرتا رہا ہے۔ان سب کے عزم و ارادے اور افغان طالبان کے ساتھ رشتے قائم کرنے کی کوشش کے درمیان ہندوستان کہیں چھوٹ گیا ہے۔ کئی اہم سیاست دانوں، پالیسی سازوں، بین الاقوامی امور کے ماہرین نے ہندوستان کی توجہ اس جانب دلائی ہے۔ اب ہندوستان کو فیصلہ کرنا ہے وہ ملک کے حق میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ 

طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس خطے میں سب سے زیادہ اہمیت پاکستان کی ہوگئی ہے۔ اس نے نہ طالبان کے ساتھ دوسرے ملکوں کے رابطے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ دوحہ مذاکرات کے لئے طالبان کو میز تک لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔پاکستان سب سے زیادہ افغان پناہ گزیں ہیں جس کی تعداد 30لاکھ کے قریب ہے جو پاکستان کے حق میں بھی جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں افغانستانی پاکستان آنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اس کے علاوہ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی پوری دنیا میں اس کی اہمیت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا افغانستان کے ساتھ گہرے تعلقات  ہندوستان کے لئے اچھی چیز نہیں ہے۔ مگر ہندوستان اگر چاہے تو وہ افغانستان اور پاکستان دونوں سے تعلقات استوار کرکے بری چیز کو اچھی چیز میں بدل سکتا ہے۔ اس کے لئے اسے ملکی سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا اور صرف ملک کے لئے سوچنا ہوگا۔ 


Comments