کورونا کے اثرات اور ہندوستانی معاشرہ


 عابد انور 

عالمی وبا کورونا نے پوری دنیا میں جہاں انسانوں کی کھوکھلی انسانیت کی پول کھولی ہے وہیں انسانیت کا چہرہ بھی پیش کیا ہے، اس وبا کے دوران جہاں لوگوں نے انسانیت کی تمام حدوں کوپار کیا خاص طور پر ہندوستان میں جس طرح کورونا کو ایک خاص فرقے کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، انہیں بدنام کرنے کے لئے جمہوریت کے چاروں ستوتوں کو غلط طریقے سے بڑے پیمانے پراستعمال کیا گیا ہے اور مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لئے اس کو ایک موقع کے طور پر استعمال کیا گیا، مسلم لیڈر وں کو جیل ڈالنے، ان کے مکانات کو منہدم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا، مساجد شہید کی گئی، دنیا سے معدو م القاعدہ کے نام پر مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بناکر گرفتار کیاگیا، ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں میں دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، علاج و معالجہ میں ہندوستان میں بھگوان کہے جانے والے بہت سارے ڈاکٹروں نے اپنی اصلی رنگت دکھائی، نفرت پھیلانے کے لئے ٹی وی چینل کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ غریبوں کو بھوکا مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا، بیمار علاج کے لئے، مردے دفن اور شمشان کے لئے ترستے رہے۔ اس کے باوجود کامیابی و کامرانی کے لئے مبارکباد پیش کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے نام پر تمام غیر جمہوری کام ہوتے رہے اور جمہوریت کے محافظ تماش بین بنے رہے اور یہ لوگ تمام غلط کام کرکے ملک کو وشو گرو بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کورونا نے جہاں کھائیاں پیدا کی وہیں مسلمانوں نے ہندوؤں کے کریاکرم میں ساتھ دیا اور ان لوگوں کا کریا کرم کیا جن کو ان کے رشتے داروں نے چھوڑ دیا اور چھوڑ کر بھاگ گئے تھے لیکن وہیں ہندؤں کے بہت سارے لیڈروں، مذہبی لیڈروں اور اس سے سماج سے تعلق رکھنے والے دیگر نے جہاں کھلم کھلا مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کی، مسلم خواتین کی آبروریزی کی دھمکی دی، مسلمانوں کو قتل کرنے، پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرتے رہے اور درجنوں ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود کہیں سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔اس کے باوجود ملک میں قانون کے راج دعوی کیا جاتا ہے۔ یہ کورونا وبا کے دوران ہوا۔ اس دوران جہاں دنیا بھر کے ممالک نے اپنے شہریوں کے لئے علاج و معالجہ سمیت سہولت کے دیگر انتظامات کئے گئے وہیں ہندوستان میں یہاں کے بنیوں کو ملک لوٹنے کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی۔ ایسے وینٹی لیٹر خریدے گئے جو کام ہی نہیں کرتے تھے۔ جہاں لوگ غریبی، بھوک سے مر رہے تھے وہیں یہاں کے بنیوں کی تجوری لبالب بھررہی تھی اور غذائی اشیاء سمیت دوائی کی کالابازاری کرتے ہوئے بہت سے لیڈر پکڑے گئے۔موجودہ حکومت میں ہندوستان نے جہاں منفی چیزوں میں بلند و بالا مقام حاصل کیا وہیں مثبت پہلو میں تحت الثری میں پہنچ گیا۔ اس کے باوجود یہاں کے حکمرانوں، فرقہ پرست پارٹی عناصر اور لیڈروں کو ملک کی شبیہ کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ اس جگاڑ میں ہیں کہ کس طرح ملک کی شبیہ کو بدتر کیا جائے۔ 



 کورونا کے دوران لوگ کس قدر تباہ ہوئے اور کورونا نے پوری دنیا میں کس طرح تباہی مچائی ہے اس کا انکشاف متعدد رپورٹ میں ہوا ہے۔ اس وبا نے دنیا میں شدید عدم مساوات کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے ہی دنیا کے اربوں لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ 3 ارب سے زیادہ لوگوں کو صحت کی سہولیات اور تین چوتھائی مزدوروں کو کسی بھی قسم کے سماجی تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس صورتحال نے انہیں وائرس سے مزید غیر محفوظ بنادیا ہے۔ جوں جوں عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق انسداد غربت کی تنظیم (آکسفیم) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں بھوک سے 11 افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں گزشتہ برس 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔'ہنگر وائرس ملٹیپلائز' نامی رپورٹ میں آکسفیم نے کہا کہ قحط سے ہونے والی ہلاکتوں نے کورونا سے ہونے والی اموات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، کورونا کے باعث ہر ایک منٹ میں 7 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔امریکہ میں آکسفیم کے صدر اور چیف ایگزیکٹو افسر ابے میکسمین نے کہا کہ اعداد و شمار حیرت انگیز ہیں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے یہ اعداد و شمار ناقابل تصور مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد پر مشتمل ہیں حتیٰ کہ ایک شخص بھی بہت ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 50 لاکھ افراد قلت خوراک کا سامنا کررہے ہیں جو گزشتہ برس کی تعداد سے 2 کروڑ زائد ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی اور ساتھ ہی موسمیاتی بحران سے 5 لاکھ 20 ہزار افراد قحط کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے فریقین آپس میں لڑ رہے ہیں جبکہ موسیماتی اور معاشی صورتحال کے باعث وہ پہلے مشکلات کا شکار ہیں۔آکسفیم نے کہا کہ وبا کے دوران عالمی سطح پر عسکری اخراجات میں 51 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو اقوام متحدہ کی بھوک سے روکنے کے لیے مختص رقم سے 6 گنا زائد ہے۔تنظیم نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ تنازعات ختم کریں کیونکہ اس کی وجہ سے خوراک کی قلت کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں، تنازعات کا شکار زونز میں ریلیف ایجنسیوں کو بلا روک ٹوک اپنی خدمات انجام دینے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گلوبل وارمنگ اور کورونا سے معاشی بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ قیمتوں میں اضافے سے لاکھوں افراد مزید قلت خوراک کا سامنا کررہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، شام اور یمن سب ہی تنازعات کا شکار ہیں اور یہاں خوارک کا بحران ہے۔جنگوں میں عام شہریوں کو خوراک، پانی اور انسانی امداد سے محروم کر کے قحط کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ میکسمین نے کہا کہ جب مارکیٹوں پر بم برسائے جائیں اور فصلیں اور مویشی تباہ کردیے جائیں تو لوگ محفوظ نہیں رہ سکتے اور خوراک بھی تلاش نہیں کرسکتے۔

گزشتہ ماہ آکسفام نے ’دی ان ایکویلیٹی وائرس‘ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں وبا کے دوران معاشی عدم مساوات کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق جس دوران لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے تھے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اس دوران امیر ترین افراد اس وبا سے سب سے کم متاثر ہوئے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2020ء کے دوران دنیا میں غربت کے شکار افراد کی کل تعداد میں 20 سے 50 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف عالمی معیشت میں گراوٹ کے باوجود 18 مارچ سے 31 دسمبر 2020ء کے دوران دنیا کے ارب پتی افراد کی دولت میں تقریباً 4 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔عالمی معاشی فورم کی رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران دنیا کے 10 امیر ترین ارب پتی افراد کی دولت میں 540 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مشترکہ دولت تقریباً 12 کھرب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی 25 بڑی کمپنیوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت 2020ء میں 11 فیصد زیادہ منافع کمایا۔اس عرصے میں امریکہ کے معروف ارب پتی اور خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ایلن مسک کی دولت میں تقریباً 129 ارب ڈالر اور ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی دولت میں تقریباً 78 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن صرف امریکیوں کی دولت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مارچ سے اکتوبر 2020ء کے دوران ہندوستان کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی دولت میں بھی تقریباً 79 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔آکسفام کی رپورٹ کے مطابق ’اس عرصے کے دوران 4 روز بعد ہی امبانی خاندان کی دولت میں ہونے والا اضافہ ریلائنس انڈسٹریز کے ایک لاکھ 95 ہزار ملازمین کی کل سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ تھا‘۔ مکیش امبانی دنیا کے 21ویں امیر ترین شخص سے اب چھٹے امیر ترین شخص بن گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان کورونا سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور اسے آزادی کے بعد سے کبھی اتنے سنگین معاشی عدم استحکام کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔دنیا کے دیگر خطوں کی صورتحال بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آکسفام کے مطابق مارچ سے اگست 2020ء میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ارب پتی افراد کی دولت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ان خطوں کے لیے جاری ہونے والی عالمی مالیاتی ادارے کی مالی امداد کے مقابلے میں 2 گنا سے بھی زیادہ ہے۔ چونکہ اس عرصے میں کمرشل فلائٹس معطل تھیں اس وجہ سے نجی طیاروں کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس عرصے کے دوران دنیا کے 10 امیر ترین ارب پتی افراد کی دولت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ کسی کو بھی وائرس کی وجہ سے غربت کا شکار ہونے سے بچانے اور ہر شخص کے لیے کورونا کی ویکسین خریدنے کے لیے کافی تھا‘۔ بدقسمتی سے ہمارا موجودہ عالمی نظام امیروں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے اس لیے ایسا ہونا ناممکن تھا۔

ڈان کی  ایک دیگر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے آسانی کے ساتھ بچا جاسکتا تھا۔عدم مساوات کا مطلب ہے کہ زیادہ لوگ بیمار پڑیں گے، کم لوگ تعلیم حاصل کریں گے اور بہت کم لوگ خوشحال زندگی گزاریں گے۔ آمدن میں موجود عدم مساوات سیاست کو آلودہ کرسکتا ہے اور شدت پسندی اور نسلی تعصب کو ہوا دے سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ افراد ناامیدی اور خوف کا شکار ہوجائیں گے۔اس صورتحال سے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور ان ممالک میں عدم مساوات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’عالمی بینک کے مطابق اگر حکومتوں نے عدم مساوات کو سالانہ 2 فیصد کی شرح سے بھی بڑھنے دیا تو 2030ء تک تقریباً 50 کروڑ افراد روزانہ ساڑھے 5 ڈالر سے کم کی آمدن پر گزارا کر رہے ہوں گے اور غربت کے شکار افراد کی تعداد وائرس سے پہلے والی تعداد سے بڑھ جائے گی‘۔جنوبی ایشیا میں دنیا کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ رہتا ہے اور یہی خطہ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ’عالمی بینک کی رپورٹ اس خطے کے حوالے تشویشناک پیش گوئی کر رہی ہے جس کے مطابق وائرس کے اثرات کی وجہ سے معاشی کارکردگی 40 سال کی پست ترین سطح پر آسکتی ہے۔ سب سے بُرا یہ ہوگا کہ اس پورے خطے کی جی ڈی پی میں خاطر خواہ کمی آئے گی‘۔اگر ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو کئی دہائیوں میں حاصل ہونے والی ترقی ضائع ہوجائے گی اور کروڑوں لوگ دوبارہ غربت کا شکار ہوجائیں گے۔ یو این ڈی پی نے پاکستان سمیت 70 ممالک کا جائزہ لیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اس وائرس کی وجہ سے 40 کروڑ سے زائد افراد غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

کورونا وائرس اور حکومت کی بدانتظامی نے امیر اور غریب کے درمیان وہ کھائی پیدا کی ہے جس سے کئی دہائیوں تک ملک ابر نہیں سکے گا البتہ اس دوران فرقہ پرست پارٹی، لیڈر، ورکر، اس پارٹی کے حامی اور اس پارٹی کے صنعت کار، تاجر وغیرہ کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو اہے۔ اس لئے ان لوگوں کو پیٹرول سوکیا دو سو روپے لیٹر پہنچ جائے کوئی فرق نہیں پڑتا، خوردنی تیل 60  روپے لیٹر سے 200 روپے پہنچ  گیا ہے حکمراں، اس کی پارٹی اور اس سے وابستہ افراد کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندوستانی عوام اس قدر بے حس ہوگئے ہیں ان کی کھال ادھیڑ کر زندہ چھوڑ دیا جائے تو وہ زندہ چھوڑ دینے کو ہی غنیمت اور حکومت کا احسان سمجھیں گے۔ یہ بات یہاں کے عوام نے ثابت کردیا ہے۔ 


Comments