یوپی میں فرقہ پرستوں کا مسلمانوں پر دھاوا


 عابد انور 

ملک میں کورونا وبا نے عام لوگوں کے ذہن کو ماؤف کردیا ہے، لوگوں میں سوچنے سمجھنے ہوش سنبھالنے کی سکت نہیں ہے، ہر طرف لاشوں کا انبار ہے، گنگا جمنااپنے طاس میں ہزاروں لاشوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور سرکش ریت ہے کہ لاشوں کو برہنہ کردے رہا ہے۔اسی برہنگی کو ختم کرنے کے لئے گنگا کے کنارے مدفون لاشوں سے چنری اور کفن کھینچ لیا گیا، لاش کو آخری حق سے محروم کردیا گیا۔ یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہوا تھا اور اس کا ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا۔اس سے ملک کو کس قدر شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا ہوگا اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ گنگا اور جمنا کے کنارے تا حد نظر بھگوا چنری میں مدفون لاش ہی لاش نظر آرہی تھی۔ یہ ان لوگوں کی لاشیں تھیں جن کے خاندان کے پاس آخری رسم ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ لاش کو جلانے کے لئے لکڑیاں نہیں تھیں، مرگھٹ، شمشان تک پہنچانے کے لئے ایمبولینس کے پیسے نہیں تھے۔ اس لئے کسی نے سائیکل پر، تو کسی نے ٹھیلے پر، تو کسی نے کاندھے پر، تو کسی کو کوڑا گاڑی پر، تو کسی لاش کو جے سی پی مشین سے گڈھے پھینک دیا گیا۔ پوری زندگی ذلت و رسوائی جھیلنے والے کو مرنے کے بعد بھی عزت کی آخری رسم نہیں ملی۔ لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی رہی لیکن کوئی بھی ہندوتو کے ٹھیکدارسامنے نہیں آیا، نہ ہی لنچنگ کرنے والے آئے، نہ ہی گورکشک آئے، نہ ہی بجرنگ والے آئے، نہ ہی ہندو سینا، کرنی سینا اور ہندوتو کے نام پر قائم درجنوں سینائیں آئیں، نہ ہی درگا واہنی کے لوگ آئے، نہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ  (آر ایس ایس) کے لوگ آئے، نہ ہی مندر کے نام پر پورے ملک میں چندہ جمع کرنے والے، ہفتہ وصولی کرنے اور چندہ کے نام پر مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے والے آئے۔ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے،ان میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ہندوؤں کی حفاظت کی کمان سنبھالنے والے کوئی سامنے آئے۔ سب کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے زیادہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ہندوتو کے نام پر ووٹ دیا تھا۔ گائے کے تحفظ، مسلمانوں کو مارنے، ان کی بہو بیٹوں کی عزت نیلام کرنے کے نام پر لیڈروں کو منتخب کیا تھا۔ کچھ بھی ہوجائے مسلمانوں کا بھلا نہیں ہونا چاہئے اس کے نام پر ہیرو بنایا تھا اور ہندوستان میں ہر اس ہندو کو ہیرو بنایا گیاجس نے مسلمانوں کی دل آزاری، قتل، آبروریزی، اقتصادی نقصان، تعلیمی نقصان، ان کی جائداد کو تباہ و برباد، جائیداد پر قبضہ اور ہر طرح کے نقصان پہنچایا تھا۔ ہندوتو کے علمبردار جتنے بھی لیڈر ہیں سب کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے سنے ہوئے ہیں لیکن ہندوؤں میں سے اکثریت نے انہیں سر پر بٹھایا،تاج پہنچایا، اقتدار کی کرسی سونپی،اس امید کے ساتھ وہ مسلمانوں کو تخت و تاراج کرکے دم لیں گے۔ انہوں نے ایسا کیا بھی لیکن مسلمانوں کو برباد کرتے کرتے ہندوؤں کو بھی برباد کر بیٹھے اور اس قدر برباد کیا کہ ہندوؤں کو بے گور و کفن کردیا۔ ان کی  لاشوں کی اس قدر بے حرمتی کی گئی کہ لاشیں کتے کھاتے پائے گئے، چیل کوے اور درندے نوچ نوچ کر کھاتے نظر آئے۔ دنیا کے میڈیا نے اس دلدوز منظر کو دکھایا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی رسوائی ہوئی۔یہ اس کے دور میں ہوا جوملک میں رام راجیہ اور ہندو راشٹر عملاً لاچکے ہیں۔ اس وبائی دور میں بھی حکومت  ہندومسلم کرنے، مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کرنے، لنچنگ کرنے والوں کی پیٹھ تھپتھپانے، مسلم نوجوانوں اور بچوں پر حملے روکنے میں ناکام ہے۔کیوں کہ اسے احساس ہے کہ جس قدر مسلمانوں کے جذبات کو  ٹھیس پہنچائیں گے ہندو اس کے حق اتنا ہی زیادہ ووٹ دیں گے۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کو آٹھ مہینے رہ گئے ہیں اور حکومت اور ہندوتو کے کارندے مسلمانوں کے خلاف کھل میدان میں آچکے ہیں۔ 

گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران متعدد مسلم دشمن واقعات انجام دئے جاچکے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت اترپردیش انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے لئے ہندو ووٹوں کی صف بندی پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سب سے افسوسناک سانحہ اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجدکا ہے جسے انتظامیہ نے 15مئی 2021 کورات میں منہدم کردیا اور ثبوت مٹانے کے لئے اس کا ملبہ مختلف دریاؤں میں بہا دیا۔کیوں کہ یہ سب سے بڑا ثبوت تھااور اس مسجد میں استعمال کی گئی اینٹیں سو سال پرانی تھیں۔ انتظامیہ کی اس کاروائی کے بعد مذہبی علماء کرام نے تحصیل انتظامیہ کی شکایت ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ وزیراعلیٰ سے بھی کی ہے، مسجد کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مسجد کو منہدم کرتے وقت ہائی کورٹ کے احکامات کو بھی طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔مسجد کے پیروکاروں کے مطابق رام سنیہی گھاٹ تحصیل کے احاطے میں واقع مسجد خواجہ غریب نواز کو تحصیل انتظامیہ نے مارچ میں غیر قانونی بتاکر اس میں نماز پر پابندی عائد کر دی تھی۔اس کے لیے تحصیل انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیا تھا جس میں عوامی جگہوں پر واقع عبادت گاہوں کو ہٹانے کو کہا گیا تھا، اس کے لیے انتظامیہ نے مسجد کمیٹی کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا تھا۔مسجد کمیٹی نے اس کا جواب بھی دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ مسجد آزادی کے وقت سے قائم ہے، انتظامیہ کے دستاویز میں بھی اس کا اندراج ہے اور سنی سینٹرل وقف بورڈ میں بھی وہ رجسٹرڈ ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ نے وہاں نماز کی اجازت نہیں دی تھی۔اس کے بعد یہ معاملہ جب ہائی کورٹ پہنچا جہاں مسجد کے پیروکاروں نے مسجد کو منہدم کرائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے اپنے آبزرویشن میں یہ واضح کر دیا تھا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے کوئی اندیشہ نہیں ہے، مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔مسجد منہدم کی کاروائی کرنے سے قبل انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے اس حکم کی بھی پرواہ نہیں کی جس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ تمام جگہوں پر انہدام کی کارروائی کووڈ-19 کے باعث 31 مئی تک ملتوی کر دی جائے۔ ہائی کورٹ کا حکم 2011کے بعد عوامی مقامات پر بنے عبادت گاہوں کے متعلق تھا۔ مسجد غریب نواز سو سال پرانی تھی۔یہ اس وقت بنی تھی جب تحصیل بھی نہیں تھی۔ اس لئے منہدم کردی گئی کیوں کہ ہندوتو کے علمبرداروں کو خوش کرنااور ووٹوں کی صف بندی کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ مظفرنگر کے کھتولی میں وقف بورڈ بنی مسجد کو سرکاری زمین پر بتاکر انتظامیہ نے شہید کردیا تھا۔ اس کے علاوہ سہارنپور کے رامپور منیہاران میں روڈ چوڑا کرنے کے نام پر سو سالہ قدیم کو مسجد کو شہید کردیا گیا جب کہ روڈ میں تھوڑا سا حصہ آرہا تھا لیکن انتظامیہ نے پوری مسجد شہید کردی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران متعدد مساجد، مسلم نوجواوں، بچوں اور خواتین پر حملے ہوچکے ہوں۔ 

پولیس حراست میں قتل کا واقعہ اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے بانگرمؤ کوتوالی علاقے کا ہے۔ سبزی فروش فیصل حسین کو پولیس نے کورونا کرفیو کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا۔ فیصل کو ان کے لواحقین اور انچارج انسپکٹر کے سامنے پیٹاگیا۔ سبزی بیچنے والے نوجوان کے پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہوا ہے کہ سر میں چوٹ لگنے سے موت ہوئی۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، تھانہ بنگرماؤ کے سی سی ٹی وی میں دیکھا گیا ہے کہ فیصل حسین (18) کو کچھ نامعلوم افراد گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے ہیں۔ وہ بار بار گر رہے ہیں۔اس معاملے میں ملزمان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 302 (قتل) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں کانسٹیبل وجئے چودھری اور سیماوت اور ہوم گارڈ ستی پرکاش ملزم ہیں۔ ایف آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انچارج انسپکٹر کے سامنے متوفی کے لواحقین کو پیٹا گیا۔کنبے نے بتایا تھا کہ 18 سالہ سبزی بیچنے والا فیصل حسین کو پولیس نے مبینہ طور پر جمعہ کے روز سہ پہر کو حراست میں لیا تھا اور اس نے اس قدر بے رحمی سے پیٹا تھا کہ اس کی موت ہوگئی۔مسٹر کلکرنی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، 'ویڈیو میں یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ جب وہ تھانے آتے ہیں تو وہ گر جاتے ہیں۔ وہ پھر اٹھایا جاتا ہے، لیکن وہ پھر گر جاتے ہیں۔ اس کے بعد، کچھ پولیس اہلکار انہیں پانی دیتے ہیں۔ یہ سارا واقعہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں درج ہے۔ اسی دوران کچھ کنبے والے آتے ہیں۔ایس پی نے مزید کہا، 'میں نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا ہے کہ پولیس والے انھیں دکان پر تھپڑ مار رہے ہیں۔ انہوں نے انہیں ڈنڈے یا کسی اور چیز سے نہیں مارا۔تاہم، لواحقین نے بتایا ہے کہ عینی شاہدین نے واضح طور پر بتایا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے بلا وجہ حسین کو پکڑ لیا، انہیں بے دردی سے مارا پیٹا گیا اور موٹرسائیکل کے ذریعہ تھانے لے جایا گیا۔شکایت میں کہا گیا ہے، 'جب کنبہ کے افراد پولیس اسٹیشن پہنچے تو انہیں اسپتال لے جایا گیا۔ پولیس اہلکار وہاں سے فرار ہوگئے تھے۔جاگرن کی رپورٹ کے مطابق اناؤ: پولیس تحویل میں سبزی بیچنے والے کی ہلاکت کے معاملے میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سنسنی میں اضافہ ہوگیا۔ اس نوجوان کی سر میں شدید چوٹ کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی جب اسے بے دردی سے مارا پیٹا۔ اس نوجوان کی کمر پر زخمی ہونے کے مزید 13 نشانات بھی ملے ہیں۔شاید اسے لاٹھیوں یا ڈنڈوں سے پیٹا گیا ہے۔ کل تک پولیس پٹائی سے انکار کر رہی تھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد وہ کٹہرے میں کھڑی نظر آرہی ہے اور اس کا گناہ چیخ چیخ کر بول رہا ہے۔ مقتول فیصل کو پولیس نے اپنے بوٹ سے سر کو کچل دیاتھافیصل چیخ چلا رہا ہوگا لیکن سپاہی کے دل میں ذرا بھی رحم نہیں آئی ہوگی۔ صرف تصور کرسکتے ہیں کہ سپاہی کے دل میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر نفرت تھی۔ سپاہی کوئی پکا عمر والا نہیں بلکہ نوجوان ہے۔ اس کی نفرت نے فیصل کی جان لے لی۔ سپاہی وجئے چودھری بھی ایک ہندوؤں کا ہیرو بن جائے گا۔ اس کے علاوہ اترپردیش حالیہ د نوں مسلم بچوں کے ماب لنچنگ کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ 

ہریانہ میں ماب لنچنگ کے واقعات پھر سے شروع ہوگئے ہیں۔کیوں کہ اب تک ماب لنچنگ میں ماخوذ کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے اس لئے ہندوتو کے علمبرداروں کے حوصلے پسند ہیں۔ ہو بھی کیوں کہ اس کے پیچھے پارٹی، انتظامیہ کھڑی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق، 16 مئی کی رات کو جم ٹرینر آصف اپنے دو کزنز کے ساتھ دوپہر سوہنا دوا لینے جارہا تھا۔ رات کو نو بجے کے لگ بھگ تین ایس یو وی گاڑیوں میں موجود افراد نے آصف اور اس کے بھائیوں کو گھیر لیا۔ موٹر سائیکل سے ٹکرانے کے بعد، تینوں زمین پر گر پڑے اور پھر تینوں پر لاٹھیوں سے حملہ کردیا۔ آصف موقع پر ہی دم توڑ گیا، جبکہ 2 دیگر شدید زخمی ہوگئے۔ آصف کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ ماب لنچنگ کا واقعہ تھا۔ ان کے بیٹے کو بھی گولی لگی ہے۔ اس معاملے میں ملزم کی شناخت کا دعوی کیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ جن لوگوں نے یہ واقعہ کیا ہے وہ آڈوانی، کالو، رشی، کلدیپ، سندیپ، مہندر تھے۔ اس کے علاوہ کچھ ملزمان کا تعلق عطا بارونڈھا اور کھیڑا خلیل پور سے تھا۔آصف خاں کے قاتلوں میں بچانے کے لئے ہریانہ کے اندری گاؤں میں کرنی سینا نے مہاپنچایت کا انعقاد کیاجس میں پچاس ہزار سے زائد لوگ کورونا پروٹوکول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اکٹھے ہوئے۔ کرنی سینا کے سربراہ سورج پال امونے کھلم کھلا چیلنج کیا اور آصف کے قتل کو جائز ٹھہرایا۔ انہوں نے آصف کے قاتلوں کے حوصلے بڑھاتے ہوئے ان کے حق میں کھڑے ہونے کی اپیل کی۔کرنی سینا کی مہاپنچایت نے کٹھوعہ کی آصفہ اجتماعی آبروریزی کی یاد تازہ کردی جس میں ملزمین کے حق میں بی جے پی کے منتری سنتری اور بڑے بڑے لیڈر ریلی نکال رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بھیڑ کیسے اکٹھی ہوگئی، پولیس کیا کر رہی تھی، انتظامیہ کیوں سوئی تھی اور جان بوجھ کر نفرت پھیلانے کی چھوٹ دی گئی تھی؟ اگر کوئی مسلمان کسی اس طرح کی بھیڑ جمع کرتا تو پولیس اور انتظامیہ کیا کارروائی کرتی، عدالت کا رویہ کیا ہوتا، پورا میڈیاکس َقدر مسلمانوں کے خلاف مہم چلاتا۔ کتنے سنگین دفعات کے تحت مقدمے درج کئے جاتے۔ مسلمانوں کواپنا دفاع خود کرنا ہوگا، کوئی ان کو بچانے کے لئے نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے اور نہ پولیس، نہ مقننہ، نہ انتظامیہ، نہ عدالت اور نہ میڈیا اس کے حق میں آواز اٹھائے گا۔

9810372335


Comments