کورونا پر مودی کے خلاف ہائے توبہ مچانا غلط!

    

Thumb

 

 

عالمی وبا کورونااور اس سے نمٹنے کے معاملے میں مودی حکومت اور اس کی پارٹی خواہ مرکز کی ہو یا ریاستوں کی، کے بارے میں جو لوگ اناپ شناپ باتیں کہہ رہے ہیں، ان پر نکما پن کا الزام لگارہے ہیں، ان پر کام نہ کرنے کا ٹھیکرا پھوڑ رہے ہیں یا ان پر اسپتال نہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں یا نوکری نہ دینے کی دہائی دے رہے ہیں یا روزگار ختم کرنے، فیکٹریاں بند کرنے یا ملک کے ڈھانچے کو برباد کرنے، ملک کے اثاپہ جات فروخت کرنے اور منافرت کا کاروبار کرنے کا الزام لگارہے ہیں وہ غلط ہیں، وہ احسان فراموش ہیں، ان کی آنکھ کا پانی مرچکا ہے اور وہ بے غیرتی کے اعلی مدارج  تک پہنچ چکے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہاں کی اکثریتی قوم نے مودی کو ترقی کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا، اسپتال بنانے کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا، صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا اور نہ ہی تعلیم و تعلم کے لئے ووٹ دیا تھا۔ یہاں کے اکثریتی طبقہ نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کرنے، مسلمانوں کو مارنے، ان کی زندگی اجیرن کرنے، ان کی جائداد کو چھیننے، ان کی عورتوں کی بے حرمتی کرنے، ان کی عبادت گاہوں کو توڑنے، ماب لنچنگ کے بہانے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے،وقف جائداد پر قبضہ کرنے اور تمام شعبوں میں مسلمانوں کو تحت الثری میں پہنچانے کے لئے ووٹ دیاتھا۔ جسے مودی حکومت نے بخوبی انجام دیا ہے اور سو فیصد نتائج دئے ہیں، مسلمانوں کو آج اچھوت بناکر رکھ دیا گیا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کاکاروبار بڑے پیمانے پر چل رہا ہے اور اس کوروناوبا کے دوران بھی جاری ہے (جب کہ پورا ملک شمشان میں تبدیل ہوچکا ہے)، ان کی بہو بیٹیوں کی عزت سرے بازار نیلام کی جارہی ہے،  وقف کی بیشتر جائداد پر قبضہ ہوچکا ہے اورجو نہیں ہوسکا ہے اس پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  انصاف کے تمام دروازے مسلمانوں پر بند ہیں، حکومت جب جس کو چاہتی ہے یو اے پی اے کے تحت جیل میں ڈال دیتی ہے اورعدالت فرماں بردار بچے کی طرح چوں تک نہیں کرتی، مسلمانوں کے لئے کوئی کام شروع کرنا اور اسے فروغ دینا مشکل ہوگیا ہے،  مسلمانوں کے گوشت کے کاروبار کو پوری طرح تباہ کردیا گیا ہے جب کہ ہندوؤں حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔روزگار، نوکری کا حصول مشکل تر کردیا گیا ہے۔یہ سارے مودی حکومت کے کارنامے ہیں اور اس سے زیادہ اکثریتی طبقہ کو اور کیا چاہئے۔مودی نے شمشان دینے کا وعدہ کیا تھا آج ہر گاؤں اور شہر شمشان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آج شمشان میں چتاجلانے کی جگہ نہیں ہے، دس دس بارہ بارہ گھنٹے آخری رسم ادا کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک کوئی شہر ایک ریاست کا حال نہیں ہے یہ پورے ملک کا حال ہے۔ ہر طرف چتا کی شعائیں اٹھ رہی ہیں  اور دور سے کسی شہر کے جگمگانے کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن یہ کتنا افسوسناک، خوفناک، دردناک اور وحشتناک منظر ہے جسے دیکھ دل دہل جاتا ہے۔سب سے زیادہ خراب صورت حال بی جے پی حکمرانی والی رام راجیہ کی ہے جہاں نہ علاج کے لئے بستر ہے، نہ آکسیجن ہے، نہ دوا ہے، نہ آئی سی یو ہے اور نہ ہی وینٹی لیٹر ہے۔ کورونا کے مریض اسپتال کے چوکھٹ پر دم توڑ رہے ہیں۔ ہر طرف بے بسی، بے کسی اور کسمپرسی کا عالم ہے، قیامت صغری کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ چار سو کی موت ہوتی ہے تو 25 بتائی جاتی ہے۔ جتنی موت ہوتی ہے اس سے دس گنا کم بتائی جاتو ہے۔ لاشیں اس طرح رکھی جارہی ہیں جیسے چارہ رکھے جاتے ہیں۔ انسانیت دم توڑ چکی ہے، ہر انسان انسان کی کھال اھیڑنے میں لگا ہوا ہے، میڈیکل آلات کی کالا بازاری عروج پر ہے۔وشو گرو بھارت کی راجدھانی دہلی کا حال بھی بہت اچھا نہیں ہے، کورونا مریض کے لئے کہیں بھی اور کسی بھی بڑے اسپتال میں بستر مہیا نہیں ہے۔کورونا مریض کو ان کے رشتہ دار پاگلوں کی طرح اس اسپتال سے اس اسپتال تک بھاک رہے ہیں اور بستر نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے موتیں بڑی تعداد میں ہورہی ہیں، کورونا سے زیادہ لوگ آکسیجن کی کمی سے مر رہے ہیں۔ آکسیجن کی کالابازار عروج ہے لیکن پردھاون سیوک اور اس ملک کے وزیر داخلہ انتخابی ریلیوں مصروف رہے ہیں۔ 
جسمانی فاصلہ اور ماسک پہنے کی اپیل کرنے والے پردھان سیوک اور وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتخابی مہم کے دوران قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اس کے بعد تو لوگوں کاکسی بھی قانون سے اعتماد اٹھ جانا لازمی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ریلی اکٹھا ہونے والی بھیڑ کے اثرات آئندہ کچھ دنوں کے نظر آئیں گے۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر یہ سوال ڈنکے کی چوٹ پر اٹھتا ہے کہ کیا انہوں نے وباکی روک تھام قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کتنے مقدمے درج کئے ہیں۔ کیا قانون کا نفاذ صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے یا صرف تبلیغی جماعت پر ہوتا ہے۔ بی جے پی اور اس کے لیڈران اور وزراء  قانون سے بالاتر ہیں۔ اگر قانون کا نفاذ بی جے پی اور ان کے ورکروں پر ہوتا تو کروڑوں افراد جیل میں ہوتے یا کھربوں روپے جرمانے کی مد میں آتے جو وبا کے خلاف لڑنے میں کام آتے۔ وزیر اعظم سے لیکر وزیر داخلہ اور وزراء، ایم ایل اے اور پارٹی کے ادنی کارکن تک قانون کی دھجیاں اڑاتے نظر آئے مگر اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ ہندوستان میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قانون تو صرف کچھ لوگوں کے لئے ہے باقی قانون کی دھیجاں اڑائیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قانون کی دھیجاں اڑانے والوں میں صرف سیاسی پارٹی، لیڈران، وزراء، عوامی نمائندے ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اعلی افسران سے لیکر ادنی ملازم تک قانون سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ جس ملک میں ایسی صورت حال ہو وہاں کے لوگ کم از کم مہذب تو نہیں ہوسکتے۔
مسلمانوں کا یہاں کے سارے نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے کیوں کہ ان لوگو ں کے رویے کی وجہ سے اعتماد اٹھا ہے۔ ان لوگوں کا رویہ کبھی بھی منصفانہ، عادلانہ، مشفقانہ اور انسانیت والا رویہ نہیں رہا ہے۔ان کا مقصدمسلمانوں کو نقصان پہنچانے تک محدود رہا ہے۔ پولیس سے لیکر عدالت تک اور اسپتال سے لیکر ڈاکٹر کا رویہ مسلمانوں کے تئیں کیا ہے وہ کسی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا کورنٹنائن پر شکوک و شبہات کا اظہار بلاسبب نہیں ہے۔انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کا اعتماد بحال کرتے،ان کے شکوک و شبہات دور کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور سیدھے ان پر درجنوں مقدمات لاد دئے گئے۔ ایسی صورت میں مسلمان کسی پر بھروسہ کیسے کریں گے۔ اب یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کورنٹائن کیا مسلمانوں کے لئے قتل گاہ بننے جارہا ہے؟ سلطان پوری میں کورنٹائن کے دوران علاج نہ ہونے کی وجہ تبلیغی جماعت کے ایک شخص کی موت ہوگئی تھی۔ تبلیغی جماعت والے ڈاکٹروں کو بلاتے رہے، ان کے سامنے گڑگڑاتے رہے لیکن ڈاکٹروں نے ان کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ تو تبلیغی والے یا مسلمان ڈاکٹروں پر بھروسہ کیسے کریں گے۔نفرت کا جو ماحول اس وقت ملک میں ہے وہ ہمارے پردھان سیوک کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کے اشارے تالی، تھالی، موم بتی، دیا پٹاکے پھوڑ سکتے ہیں۔ اگر وہ امن کا پیغام دیتے اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا پیغام دیتے تو ملک سے نفرت ختم نہیں تو کم ضرور ہوجاتی لیکن وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں کیوں کہ نفرت ہی ان کی خوراک ہے،ان کی پارٹی نفرت کی بنیاد پر ہی برسراقتدار آئی ہے۔نفرت نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ پوری دنیا میں ناک کٹ رہی ہے لیکن فسطائی طاقتوں کو صرف اقتدار چاہئے خواہ وہ ملک کو بیچ کر ہی کیوں حاصل ہو۔ عوام کو ملک کو بچانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔
دنیا کے ہر ملک میں کسی بھی چیک کی روک تھام کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں لیلن ہندوستان ایسا ملک ہے جو یکطرفہ قانون بناتاہے۔ اس کے نفاذ کرنے والوں کو غیر معلنہ طور پر بتادیا جاتا ہے کہ قانون کا کس پر نفاذ کرنا ہے۔ خواہ ٹاڈا ہو، یا پوٹا، یا ٹاڈا پوٹا کے طرز پر بننے والے ریاستی قانون ہو، سب کا آسان شکار مسلمان ہوتے ہیں۔ کوئی ان قانون کے خلاف مضبوط انداز میں اٹھانے والا نہیں ہوتا ہے۔ عدالت نے اپنی معتبریت حکومت وقت کے ہاتھوں گروی رکھ دی ہے۔ اب عدالت کے سامنے اہم مسائل اور سلگتے معاملات اہم نہیں ہوتے اہم یہ ہوتے ہیں کہ عرضی دائر کرنے والا کون ہے۔عدالت زہر پھیلانے والوں کو راحت دیتی ہے اور زہر کے خلاف عدالت کا درواوزہ کھٹکھٹانے والوں کو ذلت  اور پھٹکارلگاتی ہے۔ کورونا کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم پر عدالت کی خاموشی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ  آنے والے دنوں میں انصاف مسلمانوں کے لئے مشکل ترین ا ور گولر کے پھول کی مانند ہوگا۔
جن لوگوں نے لائن میں لگ کر بی جے پی اور مودی کو ووٹ دیا تھاوہی لوگ آج شمشان گھاٹ میں لائن لگاکر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ لائن کا سلسلہ یہی ختم ہونہیں ہورہا ہے بلکہ ٹسٹ میں لائن لگنا پڑرہا ہے، ویکسن لینے میں لائن لگانی پڑ رہی ہے اور دوائی کے لئے بھی لائن کے تکلیف مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ پردھان سیوک نے  2017کے اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دوران کہا تھا گاؤں گاؤں میں شمشان ہونا چاہئے کہ نہیں۔ اترپردیش میں اسپتال نہ بنا ہو، صنعتیں نہ لگی ہوں، روزگار کے مواقع مہیا نہ ہوئے ہوں لیکن شمشان میں تو گاؤں گاؤں میں بن گیا ہے۔ یہ مودی جی کی مہر بانی ہے اور کتنی مہربانی چاہئے۔ اگر یہاں کے عوام نوٹ کی منسوخی کے وقت لائن میں جان دینے کے بجائے اور روپے کے لئے لائن میں لگنے کے بجائے حکومت کو لائن سے اتار دی ہوتی تو ملک کو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ ملک کورونا کی تکلیف سے کراہ رہا ہے لیکن ملک کے سربراہ انتخابی ریلیوں میں مست رہے ہیں۔ کیوں کہ یہاں کے لوگوں نے جس کے لئے ووٹ دیا وہ اسے مل گیا ہے اور اب کورونا پر ہائے توبہ مچانے کا حق اس قوم کو نہیں ہے۔ اکثریتی قوم اپنے تمام اخلاقی جواز کھوچکی ہے۔ تین طلاق، دفعہ 370کا خاتمہ، قومی شہریت (ترمیمی) قانون جیسے غیر آئینی اور غیر انسانی قانون پر جشن منانے سے قبل اس کے بارے میں سوچا ہوتا تو وہ حکومت کی لاپروائی اور نکما پن پر بھی سوچتے لیکن جب کوئی قوم نفرت کے دوش میں سوار ہوجائے تو صحیح و غلط کا پتہ نہیں چلتا۔
9810372335

Comments