حکومت بہار کا مسلم دشمن چہرہ ایک بارپھر سامنے آگیا۔ مسلمانوں کی اپنی کوئی پسند نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ان کے پاس بدترین دشمن میں سے بدتر دشمن اور صرف ظالم کو منتخب کرنے کا متبادل ہے۔ یہاں کا انتخابی، نظام،عدالت، انتظامیہ، مقننہ اور میڈیا کامسلم دشمن چہرہ بار بار سامنے آتا رہتا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو دس سے پندرہ سال جیل میں سڑاکر عدالت بری کرتی ہے لیکن یہ نہیں کہتی اس کے لئے جو ذمہ دار ہے ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ پولیس اور خفیہ ایجنسی سے رویہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملہ فرضی ہے لیکن عدالت معاملے کو طول دیتی ہے اور جب مقصد پورا ہوجاتا ہے تو بری کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اصل خاطی کون تھا اس کی گرفتاری اور تفتیش کے بار ے میں کوئی ہدایت نہیں دی جاتی ہے۔اس رویہ کی وجہ سے فرقہ پرست اور متعصب افسران کو مسلم نوجوانوں کو برباد کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔شہاب الدین کے معاملے میں سپریم کورٹ کا حالیہ جو فیصلہ آیا ہے اس کے بارے کوئی کمنٹً نہیں کرنا ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی رخ عدالت کا ہوتا تو کیا مودی اور امت شاہ جیل میں نہیں ہوتے۔ کورٹ نے ہی مودی کو ’نیرو‘کہا تھا لیکن سخت موقف اختیار نہیں کیاگیا۔ صرف۔آشا رنجن، چندہ بابو کو لاحق خوف کی وجہ سے شہاب الدین کو بہار سے تہاڑ جیل منتقل کیا جاسکتا ہے تو اس وقت پوری مسلم کیمونٹی خوف و دہشت کے سائے میں جی رہی ہے اس کے لئے عدالت کے پاس کیا متبادل ہے۔ آر ایس ایس، بجرنگ دل، گورکشک دل، درگا واہنی، وشو ہندو پریشد اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیم یہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈران مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے اشتعال انگیز، توہین آمیز اور دھمکی آمیز بیانات دیتے رہتے ہیں، شدت ہندو آنحضور صلی اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور وہ کارروئی سے بچ جاتے ہیں۔ کیا سپریم کورٹ مسلمانوں کو ان لوگو ں کے خوف سے نجات دلائے گی۔ شہاب الدین کا معاملہ صرف دو لوگوں کا تھا۔پولیس افسران، خفیہ ایجنسی اور حکومت بہار کی مسلم دشمنی کی وجہ سے شہاب الدین کو سب لوگوں نے سب سے بڑا مجرم ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جیل میں رہتے ہوئے ان کے خلاف 30سے زائد مقٖدمات درج کئے گئے اس سے حکومت کی دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔شہاب الدین کے خلاف 45 مجرمانہ معاملے زیر التوا ہیں۔ عدالت نے یہ کبھی نہیں پوچھا اور پولیس افسران کے بیانات اور جانچ کو گیتا کا درجہ دے دیا۔ شہاب الدین اگر مجرم ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے لیکن یہ کہیں سے بھی محسوس نہیں ہونا چاہیئے کہ اسے مسلم ہونے کی وجہ سے سزا دی جارہی ہے۔
صحافی راج دیو رنجن کے قتل اور مشہور تیزاب معاملے سمیت کئی فوجداری مقدمات میں محمد شہاب الدین کو سپریم کورٹ کے حکم پر سخت سیکورٹی انتظامات کے درمیان دہلی کے تہاڑ جیل لے جایا گیا۔علی الصبح سخت سیکورٹی انتظامات کے درمیان سیوان جیل سے بیور سنٹرل جیل پٹنہ لایا گیا تھا۔ اسٹیشن پہنچنے کی بھنک لگتے ہی بڑی تعداد میں ان کے حامی جمع ہو گئے اور وقفے وقفے سے زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے۔سابق ممبر پارلیمنٹ کے راجندر نگر ٹرمینل آنے کی اطلاع کے بعد سے سیکورٹی کے نظام اتنی سخت کر دی گئی تھی کہ ان کے حامی چاہ کر بھی قریب نہیں آ سکے۔ شہاب الدین کے اسٹیشن پر پہنچتے ہی سکیورٹی اہلکار نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور براہ راست سمپورن کرانتی کے ایس -2 کوچ میں لے کر چلے گئے۔ سابق ممبر پارلیمنٹ کی حفاظت کے لئے بہار پولیس کے ایک افسر کے ساتھ ہی 16 جوانوں کو لگایا گیا ہے۔ دہلی کے تہاڑ جیل لے جائے جانے کی اطلاع سیوان ضلع انتظامیہ نے احتیاط کے طور پر کافی خفیہ رکھی تھی اور کسی کو بھی یہ اطلاع نہیں تھی کہ شہاب الدین کو کب لے جایا جائے گا۔ سابق ممبر پارلیمنٹ کے حامی ان کے دہلی لے جانے کے معاملے میں مسئلہ پیدا نہ کر دیں، اس کے لئے رازداری برتی گئی۔قابل ذکر ہے کہ 24 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے سیوان کے تاجر چندا بابو اور صحافی راج دیو رنجن کی بیوہ آشا رنجن کی درخواستوں کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت، بہار حکومت اور سابق ممبر پارلیمنٹ کو نوٹس دے کر پوچھا تھا کہ ملزم کو آخر تہاڑ جیل میں کیوں نہیں بھیجا جائے۔ صحافی راج دیو رنجن کی بیوہآشا رنجن نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ سابق رکن پارلیمنٹ کے سیوان میں رہنے سے انہیں جان کا خطرہ ہے اور یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں ان کے شوہر کے قتل کے معاملے میں جاری سماعت متاثر نہ ہو۔ سابق ممبر پارلیمنٹ کے سیوان میں رہتے ہمیشہ ڈر قائم رہے گا کہ وہ کہیں ثبوتوں کو متاثر نہ کر دیں۔ان درخواستوں کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے محمد شہاب الدین کو سیوان جیل سے تہاڑ جیل بھیجے جانے کا حکم دیا تھا۔جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس امیتابھ رائے کی بنچ نے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے دبنگ لیڈر کو ایک ہفتے کے اندر تہاڑ بھیجنے کا حکم دیا۔جسٹس مشرا نے آشا رنجن اور چندرکیشور پرساد عرف چندا بابو کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شہاب الدین کے خلاف نچلی عدالت میں سماعت تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کی جائے گی۔کورٹ نے اپنے 87 صفحات کے فیصلے میں کہا، ”ہم مدعا علیہ نمبر تین (شہاب الدین) کو ایک ہفتے کے اندر سیوان جیل سے دہلی کی تہاڑ جیل لے جانے اور وہاں قابل افسر کو سونپنے کا بہار حکومت کو ہدایات دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں تہاڑ جیل کو پہلے ہی مطلع کرنا ضروری ہوگا“۔بنچ نے کہا، ”بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مدعا علیہ نمبر تین کو تہاڑ جیل لے جاتے وقت ان کے ساتھ جانے والے افسر ٹرانزٹ قیدیوں پر لاگو ہونے والے قوانین پر سختی سے عمل کریں گے اور اس دوران کسی طرح کی خصوصی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔ منتقلی ایک ہفتے کے اندر کی جائے گی“۔
سیوان کے سابق رکن پارلیمنٹ محمد شہاب الدین صاحب کے جیل چلے جانے کے بعد ان کے حامیوں کی طرف سے نکالے جانے والے موم بتی مارچوں کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہاتھا اورر ہندوستان سے باہر بھی شہاب الدین کی حمایت میں موم بتی مارچ بھی پہنچ گیا۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، کویت اور بھی دوسرے ممالک میں شہاب الدین حامی مسلسل موم بتی مارچ نکال کر بہار حکومت کو شہاب الدین کے ساتھ اپنی محبت ظاہر کرکے انصاف کی مانگ کررہے تھے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کو شہاب الدین کے جیل سے باہر آنے کو لے کر سیوان اور بہار میں خوف کا ماحول بتا کر ضمانت خارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔جسے سپریم کورٹ نے منظور کر لیا تھا اور ضمانت منسوخ کر دی تھی۔ حامیوں کا کہنا تھا کہ ہے ”موم بتی مارچ کر کے ہم حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت کے اٹھائے قدم غلط ہیں۔ہم شہاب الدین صاحب کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے“ جلد ہی شہاب الدین حامی’جیل بھرو‘تحریک شروع کر کے شہاب الدین کے ساتھ انصاف ہو اس آواز کو صدر تک پہنچانے کی بات کہہ رہے تھے۔بہار سے نکلی شہاب الدین کی حمایت کی مہم آج ملک بیرون ملک شہاب الدین کی حمایت میں موم بتی مارچ نکال رہے تھے، امریکہ اس سے اچھوتا نہیں تھا۔ وہاں بڑی تعداد میں شہاب الدین حامیوں نے لالو نتیش کی حکومت کے خلاف اور شہاب الدین کی حمایت میں موم بتی مارچ کا انعقاد کیا تھا۔ جیل جانے پورا سیوان شہا ب الدین کے ساتھ کھڑا تھا اور پورا سیوان شہاب الدین کی حمایت میں نعروں سے گونج رہا تھا۔ ہزاروں طالب علموں اور لوگوں نے اپنے ساتھ میں پوسٹر لے کر نتیش کمار کے خلاف مورچہ کھول دیاتھا۔ آر جے ڈی یونٹ کے ساتھ لاکھوں لوگ سیوان کے جے پی چوک پر اکٹھا ہوکر نتیش کمار کے خلاف جم کر نعرے بازی کی تھی۔ ’شہاب الدین نہیں یہ آندھی ہے سیوان کا دوسرا گاندھی ہے، حالات کے وزیر اعلی ہوش میں آؤ،۔ وہیں سعودی عرب کے مکہ شہر میں لوگوں نے شہاب الدین صاحب کی حمایت میں میں موم بتی مارچ نکالا۔وہیں سیوان کے لوگوں میں نتیش اور لالو دونوں کے خلاف غم و غصہ دیکھنے کو ملاتھا۔ اس معاملے میں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ممتاز وکیل رام جیٹھ ملانی نے جان بوجہ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی۔ اس وقت وہیں شہاب الدین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر سیوان کے لوگوں میں شہاب الدین کا ڈر ہوتا تو آج لوگ ان کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں آتے۔
شہاب الدین کے جیل جانے کے بعد اب ان کی بیوی حنا شہاب نے بہار حکومت پر الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ نتیش کمار نے میرے شوہر سے بدلہ لیا ہے۔حنا کا کہنا ہے کہ سال 2000 کے انتخاب کے بعد نتیش کمار صرف سات دن کے وزیر اعلی بنے تھے، تب میرے شوہر نے آر جے ڈی کو حمایت دے کر رابڑی دیوی کو وزیر اعلی بنایا تھا. اب وزیر اعلی نتیش نے اس بات کا بدلہ لیا ہے. نتیش کمار اور انتظامیہ کو میرے شوہر کے 11 سال بعد گھر واپس آنے پر خوف کا ماحول دیکھیے اور اب پرامن کا ماحول بتا رہے ہیں“۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں نتیش کمار اور انتظامیہ سے کہ اگر لوگ خوفزدہ ہوتے تو اتنی بڑی تعداد میں دھرنا مظاہرہ میں کس طرح آتے۔ کیا یہ لوگ ڈر سے آئے تھے۔ اس کا جواب عوام کو دینا ہوگا۔ کیا سیوان کے عوام کو میں نے مدعو کیا تھا“۔ میں چپ بیٹھنے والی نہیں ہوں۔میں عوامی تحریک کروں گی اور میرا تحریک اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مجھے انصاف نہیں مل جاتا۔شہاب الدین کے جیل سے باہر آنے کے بعد میڈیا، حکومت اور افسران کا معاندانہ رویہ سامنے آنے لگاتھا۔شہاب الدین کے اتنے بڑے پیمانے پر استقبال نتیش اور ان کے افسران کو ہضم نہیں ہورہا تھا۔ سیوان ضلع انتظامیہ نے ضلع کی حالات پر نتیش حکومت کو 13 ستمبر کو ایک رپورٹ بھیجی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ شہاب الدین کے بعد سے سیوان میں گھبراہٹ ہے۔ امن و قانون کی صورت خراب ہو چکی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد پٹنہ سے ایس ٹی ایف کی اسپیشل ٹیم چیتا کو بھیجا گیا ہے۔ انتظامیہ نے حکومت کو بتایا ہے کہ خراب حالات کو دیکھتے ہوئے چندا بابو اور راجدیو رنجن کے خاندان کو بھی سیکورٹی مہیا کرایا گیا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے نظام کا رویہ کیا ہوتا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ گزشتہ سال 18 مارچ، 2016 کو جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع میں ہوئی دو جانوروں تاجروں (32 سالہ مظلوم انصاری اور 12 سالہ امتیاز خان) کا قتل واقعہ ضلع لاتیہارجھاور گاؤں میں ہوا تھا جہاں دونوں تاجروں کے قتل کر ان کی لاش درخت سے لٹکا دیا گیا تھا۔اس معاملے سے منسلک تمام آٹھ ملزمان (منوج کمار ساہو، متھلیش پرساد ساہو، پرمود کمار ساہو، منوج ساو، اودھیش ساو، ارون ساو، سہدیو ساو اور وشال تیواری) کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے 8 ستمبر 2016 کو مشروط ضمانت مل گئی تھی۔ فی الحال تمام ملزم جیل سے باہر آ چکے ہیں۔ضمانت سے متاثرہ خاندان ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ملزمان کو ملنے والی ضمانت سے متاثرہ خاندان خوف زدہ ہیں متوفی مظلوم انصاری کے بھائی منور انصاری بتاتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان اس خبر سے حیران ہے۔ وہ کہتے ہیں، 'تمام لوگ چھوٹ گئے ہیں۔مجھے یا ہماری طرف سے کسی اور کو پہلے سے کوئی معلومات نہیں تھی۔ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ ضمانت سے پہلے گواہی کے لئے تو بلایا ہی جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہفتہ کو سب کے سب باہر بھی آ گئے۔ میں اور میرا پورا خاندان ڈرا ہوا ہے۔ میں اس معاملے میں اہم گواہ بھی ہوں۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح سے مجھے بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ گھر میں جیسے ہی معلوم ہوا ہے کہ ملزمان کو ضمانت مل گئی ہے، سب ڈرے ہوئے ہیں“۔منور کی ہی طرح مقامی باشندے محمد جناب انصاری بھی اس فیصلے سے حیران ہیں۔ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں اتنی جلدی ضمانت مل کس طرح گئی؟ کس بنیاد پر ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا؟ 'وہیں اس معاملے میں ملزمان کے وکیل اروند ناتھ شہدیو کا خیال ہے کہ پولیس کوئی ٹھوس ثبوت یا گواہ عدالت کے سامنے پیش نہیں کر پائی اور اس بنیاد پر ان موکلوں کو ضمانت ملی ہے۔ اروند ناتھ شہدیو بتاتے ہیں، 'اس کیس میں شروع سے ہی کوئی دم نہیں تھا۔موازنہ کرنے کا مقَصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے تئیں عدالت، پولیس، وکلاء، حکومت، میڈیا، مقننہ اور انتظامیہ کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ شہاب الدین کے معاملے میں جس طرح عدالت سے سختی دکھائی ہے اسی شدت سے مظلوم انصاری اور امتیاز کے معاملے میں عدالت نے نرمی دکھائی ہے۔ اس کے علاوہ جھارکھنڈ میں ہی منہاج انصاری کو تھانے میں قتل کردیا گیا اور قاتل پرقتل کا مقدمہ تک درج نہیں ہوا۔
مسلمانوں کو آج تک انصاف نہ ملنے کی وجہ جہاں حکومت،عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کا متعصب ہوجانا ہوتا ہے وہیں متاثرین کو اس قدر خوف میں مبتلا کردیا جاتا ہے وہ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔ ہندوستان میں ہونے والے ہزاروں فسادات میں مسلمانوں کو انصاف اس لئے نہیں مل پایا کیوں کہ مرنے والا مسلمان اور مارنے اکثریتی فرقہ کا تھا۔ جب ظالم اکثریتی فرقہ کا ہوتا ہے اور مظلوم مسلمان تو ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستونوں کی ہمدردی ظالم کے ساتھ ہوتی ہے اوراسے بچانے کے ایڑی چوٹی کی زور لگادیتے ہیں۔ جیسا کہ سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت کو بچاینے کے لئے ملک کی تمام خفیہ سرگرم ہیں۔ اس بات میں اگر کوئی شک ہے تو فسادات کے متاثرین اور مظلومین کی آب پتی سن لیجئے۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ مسلمانوں کو انصاف نہ ملنے کی وجہ آخر کیا ہے اور وہ اپنے بات پر قائم کییں نہیں رہتے۔ اس کے یہی خوف و دہشت ہے جس کا بہانہ بناکر شہاب الدین کو تہاڑ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ہندوستان میں پہلے مسلمانوں کو مارتے ہیں اورجب دباؤ پڑتا ہے ظالم کو حکومت گرفتار کرتی ہے لیکن ایسے دفعات لگاتی ہے جسے وہ آسانی سے چھوٹ جائے اور اس کے بعد کیس کو َختم کرنے لئے متاثرین ڈرانے دھمکانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔ اس بات پر پھر اعادہ کرتا ہوں شہاب الدین مجرم ہے تو اسے ہر حال میں سزا ملنی چاہئے لیکن محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔ شہاب الدین کو 11سال جیل میں گزارنے کے بعدپٹنہ ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی لیکن یہ مسلم دشمن نتیش حکومت کو ہضم نہیں ہوئی۔ ہندوستان کا نظام اور خاص طور پر یہاں کے انتخابی نظام نے مسلمانوں کے لئے ملک کو ایک بند گلی بنادیا ہے۔ ان کے سامنے ظالم کو منتخب کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔
یہ مضمون 2016میں سپریم کورٹ کے بہار سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کرنے کے فیصلہ کے موقع پر لکھا گیا تھا۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment