مغربی بنگال میں جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا قتل

 

عابد انور

Thumb


جمہوریت کے نام پر ملک میں جتنے غیر جمہوری کام کئے جاتے ہیں اگر اس پر کارروائی کی جاتی تو اعلی آئینی عہدے دار لیکر ادنی عہدے دار تک اور اعلی پارٹی ذمہ دار لیکر ادنی ورکر تک جیل کی زینت میں بڑھا رہے ہوتے لیکن یہ ملک اور یہاں کے سیاست داں چانکیہ نیتی (پالیسی) پر چلتے ہیں جس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ، کمزوری سے فائدہ اٹھانا، مکاری و عیاری اورسام، دام، ڈنڈ، بھید وغیرہ سب کچھ جائز ہے وہاں کسی اخلاقیات کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ہندوستان کی آزادی کے وقت جتنے بھی غیر ملکی دانشور، سیاست داں اور مفکر نے ہندوستان کے بارے میں جو شبہات ظاہر کئے تھے وہ گزشتہ 60،65برسوں میں سچ تو نہیں ہوئے تھے لیکن چھ سات برسوں میں ان کی وہ بات سچ ضرور ہوگئی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ حرکتیں گزشتہ ستر برسوں میں نہیں ہوتی تھیں لیکن تہذیب کے دائرے میں سارے برے کام کئے جاتے تھے، قتل کے بعد مرہم بھی لگادیا جاتا تھا، تھوڑی بہت کارروائی بھی کردی جاتی تھی، بدتمیزی،گالی گلوج اور قاتل کو عدالت میں پیش کیا جاتا تھا خواہ وہ بری ہوجائے لیکن جمہوری ڈرامے کئے جاتے تھے اور کچھ میں کبھی کبھی انصاف بھی مل جاتا تھا لیکن اب انصاف کا حصول، ظالم کو سزا دینا، قاتل کو قاتل کہنا، سچ کوسچ کہنااور حق کا حصول گولر کے پھول کی مانند ہے۔ انصاف تو عنقا ہے، جمہوریت کا روز جنازہ  بڑے دھوم سے نکلتا ہے، جمہوریت کو جمورا بناکر رکھ دیا گیاہے۔ ووٹ کوئی کسی کو دے لیکن فتحیاب ایک ہی پارٹی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال بہار کے اسمبلی انتخابات کے بعد تو کسی عوامی انتخاب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ اس انتخاب کی کیا ضرورت ہے جب الیکشن کمیشن، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ایس پی، پولیس، پیراملٹری فورسز اور افسران ایک پارٹی ورکر کی طرح کسی پارٹی کے لئے کام کرتے ہوں۔ جہاں ای وی ایم شک کے دائرے میں ہو، لوگوں کا کسی پارٹی کے خلاف سخت غصہ اور نفرت ہو اور وہ پارٹی جیت جائے ایساحقیقی جمہوریت میں ممکن نہیں۔ صرف مصنوعی جمہوریت، دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے کئے گئے جمہوریت کے ڈرامے میں ہی ممکن ہے۔ جہاں الیکشن کمیشن کھلم کھلا کسی پارٹی کو بدتمیزی، دھاندلی، ہندو مسلم کرنے اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی کھلی چھوٹ دے دے جب دوسری پارٹی پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر سخت کارروائی کرے اس کمیشن پر اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت میں کہیں ایسا نہیں ہوتا ہے الیکشن کے دوران کسی پارٹی، کسی رہنما اور پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے کسی شخص پر انکم ٹیکس، ای ڈی اور دیگر ایجنسیاں چھاپے مارتی ہوں۔ یہ ایک طرح سے کسی کا الیکشن متاثر کرنا اورکسی کے حق میں راو ہموار کرنا ہوتاہے لیکن الیکشن کمیشن اس پر کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ جب کہ انتظامی امور ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن  ٹی این سیشن اور لنگدو ہ وغیرہ نے جتنی محنت سے الیکشن کمیشن کو صاف ستھرا اور دانت والا بنایا تھا گزشتہ چھ برسوں میں الیکشن کمیشن نے اپنی نیک نامی کو مٹی میں ملادیا ہے اور اس کو اس پر کوئی ملال بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ حکومت کے خاص ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس کو اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ جمہوریت کو ناکام بنانے میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ جمہوریت کے چاروں ستون زنگ آلود ہوچکے ہیں اور اس سے آمریت کی بدبو آنے لگی ہے بلکہ آمریت کو بڑھاوا دینے میں ان کا اہم کردار ہے۔عدالت اپنے فیصلے سے فسطائی طاقتوں میں روح پھونکتی ہے، ان کے مجرمانہ کردار کو نظر انداز کرکے ان کو سایہ فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت کی بقاء کا دارو مدار عدلیہ اور میڈیا پر ہوتا ہے جو آخرتک جمہوریت کے لئے جنگ لڑتے ہیں لیکن دونوں ہی فسطائی طاقتوں کی گود میں پناہ گزیں ہیں۔ مغربی بنگال کا الیکشن جمہوریت کے قلعے میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ الیکشن یہ ثابت کردے گا کون ہندوستان سے محبت کرتا ہے، کس کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے اور کون گوموتر پر ایقان رکھتا ہے۔ کون جمہوریت کو بچانے کے لئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتا ہے۔ کون ملک کو بدنام کرنے اور ملک کو فروخت کرنے والوں کو ووٹ دیتا ہے۔ اگر ملک برباد ہوتا ہے یا پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا یہ الیکشن طے کردے گا لیکن مسلمان قطعی نہیں ہوں گے۔
بنگال الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنی تمام طاقتیں جھونک دی ہیں۔ کورونا رہنما ہدایات کاکوئی خیال رکھا نہیں جارہا ہے۔ خاص طور پر خلاف قانون مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والے جس کے کسی امیدوار یا پارٹی کو نااہل قراردیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن اور عدلیہ جیب میں ہو تو پھرکسی خوف کی ضرورت کیا ہے۔ بی جے پی کی روایت رہی ہے ہر الیکشن کو ہندو مسلم کردیتی ہے اور مذہب کے نام پر لوگوں کو مشتعل کرکے ووٹ مانگتی ہے اور اپنی حریف پارٹیوں پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگاتی ہے۔ کسی پارٹی اورامیدوار کی کردار کشی تو اس کے شرشت میں شامل ہے۔ بی بی سی ہند ی نے مذہبی نعروں، مسلمانوں کی منہ بھرائی اورووٹوں کی صف بندی ایک مفصل رپورٹ تیار کی ہے جس میں لوگوں کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ بی بی سی ہند کی رپورٹ کے مطابق ”انتخابی پوسٹروں اور پارٹی پرچموں سے بھرا ہوا مغربی بنگال کے موجودہ اسمبلی انتخابات میں مذہبی نعروں کی سیاست کچھ نئی ہے۔ریاست کی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ کہیں بھی اس جارحانہ انداز میں جہاں سے بی جے پی انتخاب میں ابھری ہے، یہ انتخاب 'جئے شری رام'، ہندو صف بندی اور مسلمانوں کی منہ بھرائی جیسے نعرے جیسے معاملات تک ہی محدود رہا ہے۔ایک طرف، جب بی جے پی ریاست کے ہر جلسے اور ہر اجتماع میں 'جئے شری رام' کے نعرے کومتنازعہ پیش کررہی ہے، ٹی ایم سی بھی اس سے باز نہیں آرہا ہے - پہلے چندی پاٹھ، پھر عوامی فورم سے گوتر۔گزشتہ ہفتہ کے دن پرسورا میں ہرے کرشنا - ہرے ہرے کا نعرہ لگانا۔فرق صرف اتنا ہے کہ بی جے پی کے ہر رہنما اپنی انتخابی ریلی میں یہ کام کر رہے ہیں، دوسری طرف، ٹی ایم سی کی طرف سے 'مذہبی نعرے' یا 'شناخت سے متعلق' سے متعلق زیادہ تر بیانات وزیر اعلی ممتا بنرجی کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔خضر پور کے علاقے میں سوتلی کی کیتلی لگانے والے عمران کا کہنا ہے، ''ہمیں بہت دکھ ہوا ہے کہ یہ دیدی کیلئے ہو رہا ہے۔ دیدی تو ماں، ماٹی منش والی ہیں۔ اسے یہاں تک بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ باہر والے بنگال میں ہندو مسلم کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیدی بتا رہی ہیں کہ وہ سب کی ہیں۔ ''نیو ٹاؤن کے علاقے میں رہنے والے پلو دا کہتے ہیں، ''دیکھو دیدی کو بولنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ہندو ہیں۔ بنگال کے لوگ جانتے ہیں کہ کتنی بڑی درگا بھکت ہیں لیکن بی جے پی کی وجہ سے دیدی کو یہ کرنا پڑے گا۔ اگر نہیں، تو بی جے پی کے لوگ اسے مسلمان - مسلمان کہنا شروع کردیں گے، جبکہ دیدی سب کے ساتھ لے جانے والی ہیں۔مغربی بنگال کا ایک بہت بڑا طبقہ کا خیال ہے کہ ریاست میں سیاست کی جو نئی شکل دیکھی جارہی ہے اس کی وجہ صرف بی جے پی ہے۔تاہم، وہ لوگ بھی ہیں جو اس کے علاوہ اور بھی نظریات رکھتے ہیں۔کولکتہ کے علاقے بنیا پو کور میں چائے کی دکان چلانے والے باپی کا کہنا ہے کہ، ''انتخابات میں سب کچھ صاف ہے۔ ممتا  بندوپادھیائے کی طرح کررہی ہیں  وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ بی جے پی کولانے والی ہیں اور اب وہ بہت خوفزدہ ہیں۔'' وہ وہی کررہی ہے جسے اس نے پہلے سنا تھا۔ ''عالیہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ کا کہنا ہے، ''ممتا اس سرزمین میں پھنس گئی ہے جس کی بی جے پی نے تیاری کی تھی۔ ورنہ، ریاست جس نے اسے دو بار منتخب کیا تھا، بائیں طرف کو نظر انداز کرتے ہوئے، اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔'' بی جے پی نے مجبور کیا ہے انہیں یہ کام سیاسی طور پر کرنا ہے۔ لیکن یہ ہو رہا ہے، وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں“۔
”مغربی بنگال میں کچھ مقامی صحافیوں سے گفتگو کے بعد، انھوں نے زیادہ تر یہ کہا کہ کہیں، بی جے پی نے ممتا کو ان کی چوٹی پر بیٹنگ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہندو پولرائزیشن کا معاملہ بی جے پی کے لئے ہمیشہ کارآمد ثابت ہوا ہے اور جب وہ یہاں انتخاب کے لئے آئے تھے تو وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔وہ کہتے ہیں، ''ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی گذشتہ سال کے آخری مہینوں سے ہی بنگال میں سرگرم عمل ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بائیں بازو کی رخصتی کے ساتھ ہی، بی جے پی نے بنگال کے لئے داخلی طور پر تیاری شروع کردی۔ اس کا نتیجہ بھی انہوں نے  دیکھا۔ 
جس کا نتیجہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی دیکھنے میں آیا جب بی جے پی نے 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایسی ہی ایک پارٹی جو ریاست میں پسماندہ رہی، غالب پارٹی کے ساتھ مقابلہ میں آگئی۔ اس کے ساتھ ہی ممتا نے بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی دیکھے تھے۔ ممتا کا اثر یہاں بھی متاثر ہوا۔ ''شرمیلیندو مترا کے مطابق، سوال یہ ہے کہ جب ممتا کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے ترقیاتی وعدوں کا 99 فیصد پورا کیا ہے، تو انہیں ان امور پر الیکشن لڑنا چاہئے تھا۔ ہندو مسلم کا سوال نہیں آنا چاہئے تھا۔ان کا کہنا ہے کہ، ''ہندوستانی سیکولر حب ممتا بنرجی کو خوش کرنے کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔'' خدشہ یہ ہے کہ 30 فیصد ووٹ کا حصہ تقسیم ہوسکتا ہے، لہذا اب ممتا انتخاب کے وقت مسلمانوں کی منہ بھرائی کے سوا ہندو کی منہ بھرائی کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ''اروندھتی مکھرجی، جو مغربی بنگال کی سیاست پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں، کہتے ہیں، ''جو پارٹی تقریبا 10  سال قبل ماں ماٹی منش کے بیان سے اقتدار میں آئی تھی، وہ اب اس سے بھٹک گئی ہے۔''وہ کہتی ہیں کہ جس سال ممتا بنرجی پہلی بار اقتدار میں آئیں، اسی سال ان کا مقابلہ کمیونسٹ پارٹی سے تھا، لیکن اس بار یہ بی جے پی کے خلاف ہے۔ ایسی صورتحال میں جلسوں میں ممتا کے بیانات کو اس کی عکاسی سمجھا جاسکتا ہے۔ جے پی کھلے عام ہندو راشٹر اور ہندو کے بارے میں بات کرتی ہے، ممتا نے حالیہ مہینوں میں بہت سارے کام کیے جن کا تعلق مسلم برادری سے ہے۔ مثال کے طور پر،  چادرپہننا، افطاری وغیرہ۔
بنگال الیکشن اور ممتا بنرجی کے بارے میں بی جے پی کا رویہ تمام پارٹی کے لئے ایک سبق ہے۔بی جے پی پہلے دم پکڑ کر جاتی ہے اور پھر سر پر سوار ہوجاتی ہے. جس کے سہارے جاتی ہے پہلے اسے ہی ختم کرتی ہے۔ مثال کے لئے نتیش کمار، ہریانہ، مہاراشٹر، دیگر ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن وہ علاقائی پارٹی کے سہارے وہاں پر قدم رکھی اور پھر اسی پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اڈیشہ کے وزیر اعلی نوین پٹنائک نے سب سے پہلے بی جے پی کے اس کھیل کو سمجھا اور بی جے پی سے کنارہ کرلیا۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے والے لالو پرساد یادو ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بی جے پی کی تشریح ’بھارت جلاؤ پارٹی‘ کے نام سے کی تھی جو سچ ثابت ہوئی۔ آج پورا ملک جل رہا ہے اور بی جے پی ناجائز طور پر اقتدار کے حصول میں مگن ہے۔ اب بھی وقت ہے یہاں کے عوام سنبھل جائیں اور ملک کو تباہی سے پچالیں ورنہ یہ پارٹی مسلمانوں کو تباہ تباہ کرتے کرتے ہوئے پورے ملک اور ہندوؤں کو تباہ کردے گی۔ملک آج کہاں کھڑا ہے۔ آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔

9810372335

Comments