کسی بھی ملک کے مستقبل کا انحصار ملک کے نوجوانوں پر ہوتا ہے جس ملک میں جتنے تعمیری صلاحیت کے حامل نوجوان ہوں گے وہ ملک اتنی ہی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مختلف سطح پر نوجوانوں کے لئے پروگرام مرتب کرتی ہے اور اس کو نافذکرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ آج اگر ہندوستان اطلاعاتی تکنالوجی اور اور کمپیوٹر کے میدان میں آًگے ہے تو اس کا سہرا ہندوستان کے سب سے کم عمروزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے سرجاتا ہے جنہوں نے نوجوان ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوستانی نوجوان ملک کا نام روشن کرنے میں پیش پیش ہیں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں نوجوانوں نے اپنی کم عمری میں نصرت و فتح کا جھنڈا بلند نہ کیا ہو۔ہندوستانی سیاست میں جہاں اب تک طویل عمر کے لوگوں کا قبضہ رہا ہے ان کی جگہ اب نوجوان لے رہے ہیں۔ حالات اس حد تک خراب ہیں کہ جس پارٹی میں دیکھیں بزرگ رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد موجودہے۔ ہندوستانی سیاست کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ یہاں سیاست سے ریٹائر ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں سیاست سے رخصت دو ہی صورتوں میں ہوتے ہیں یا تو ان کی موت ہوجاتی ہے یا وہ بستر مرگ پر ہوتے ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ ملک کے نوجوان سیاست سمیت تمام شعبہائے حیات میں آگے آرہے ہیں اور ملک کی کمان سنبھال رہے ہیں۔ پہلے کے بہ نسبت آج ہندوستانی سیاست میں نوجوانوں کی تعداد کچھ بڑھی ہے اور وہ اسے کیریر کے طورپر اپنانے لگے ہیں۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ کسی بھی ملک کا مستقبل ان کے نوجوانوں کی فکر، سوچ، کردار اور عمل پر منحصر کرتا ہے آج ہندوستان جیسے ملک میں نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے اور دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ یہ صرف ان نوجوانوں کی ذاتی کامیابی نہیں ہے بلکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ لے جانے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب جو صدیوں اپنے منفرد شناخت اور پہچان رکھتی ہے اس میں انہی نوجوانوں کا عمل دخل ہے۔
مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں نوجوانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ آج ملک کی ستر فیصد آبادی کی جو عمر ہے وہ 35 سال سے کم ہے، اس کو دوسرے لفظوں ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں ہندوستان نوجوانوں کا ملک بنتا جارہاہے یعنی نوجوان ہورہا ہے۔ اتر پردیش کے 12 کروڑ ووٹروں میں تقریبا 25 فیصد (چار کروڑ سے زائد) 18 سے 30 سال کے درمیان کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے تقریبا 53 لاکھ وہ ووٹر ہیں جو 18 سال کے ہیں اور پہلی بار ووٹنگ کریں گے۔35 سال سے کم عمر کی اس آبادی میں سے 38.8فیصد لوگ پندرہ سے 34 سال کے درمیان ہیں اور تقریباً 230 میلین آبادی ایسی ہے جو 10 سال سے 19 سال کے درمیان ہیں۔ اس طرح سے آج کے ہندوستان کا ہردوسرا شخص نوجوان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2020 تک ہندوستانی نوجوانوں کی اوسط عمر 29 سال ہوگی۔ جب کہ چین اور امریکہ میں 37، یوروپ میں 45 اور جاپان میں 48 ہوگی۔نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اس کا صحیح طریقے سے استعمال کریں۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کریں اور اتنی بڑی افرادی قوت کا ہم اگر صحیح جگہ استعمال کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔ اس کے برخلاف اگر ہم نے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا تو یہ ہمارے لئے ایک بوجھ بھی بن سکتا ہے۔
لیکن آئینے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگلے دہائی تک اگر نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت نہ کی گئی تو تابناک مستقبل کی بجائے ناکامی کے تاریک دل دل میں پہنچ جائے گی۔ آج ہندوستانی سماج میں نوجوانوں کے مسائل اور مفادات پر شاید ہی کوئی مستحکم اور مثبت قدم اٹھایاگیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کی ایک لمبی فوج کھڑی ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ 2000 سے 2005 تک تعلیم یافتہ باروزگار نوجوانوں کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے۔ اس دوران سکینڈری اسکول سے ڈگری تک چھ سے سات فیصد نوجوان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں کی تعداد حالات اور بھی خستہ ہے۔ دیہی خواتین گریجویٹ کی تعداد میں 34فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ شہری علاقے میں ہائی اسکول سے گریجویشن تک 20 فیصد یا اس سے زیادہ۔ آج کل کال سنٹروں، بی پی او، کے پی او وغیرہ کا کافی شہرہ ہے لیکن اس کے اندر جھانک کر دیکھیں تو صورت حال مختلف نظر آئے گی۔ اس میں نوجوانوں کا ایک خاص طبقہ ہی نظر آتا ہے۔ دنیا میں اس وقت نوجوان کی تعداد آبادی کے لحاظ ہے نصف ہے۔ یعنی تقریباً تین بلین۔ اس میں پچاس کروڑ نوجواوں کی آمدنی یومیہ صرف دو ڈالر ہے۔ ان میں سے تیس کروڑ اسی لاکھ نوجوان وہ ہیں جن کی آمدنی صرف ایک ڈالر یومیہ ہے۔ 500 میلین میں سے 70 فیصد نوجوان کی تعداد ایشیا میں رہتے ہیں۔جو لوگ ملازمت میں ہیں ان کے بھی مسائل بہت اہم ہیں جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ ان میں سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں ان کے کام کے حساب سے اجرت نہیں ملتی۔ ان،میں بہت سے نوجوان وہ ہیں جو اپنی صلاحیت اور قابلیت سے نچلے درجے میں کام کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں صلاحیت کے مطابق کام نہیں مل پاتا۔ اس سے ان کے اندر احساس محرومی اور کمتری پیدا ہوتی ہے جو ان کی شخصیت کے نشو و نما میں منفی رول ادا کرتا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو ملک کی پالیسی سازی اور ملک کے مستقبل کے لئے فیصلہ کرنے میں ان کو جمہوری انداز میں شامل کیا جائے۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی فلاح بہبود میں ترو تازہ دماغ کا اہم رول ہوگا۔ ملک ترقی کے نئے منازل طے کرے گااور ساتھ ہی ساتھ ان نوجوانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ ملک کی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہوں گے۔ ہر دور میں نئی نسلوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے خاص کر 21 ویں صدی میں نوجوانوں کا رول کئی معنوں میں اہم ہے۔ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعدادنے اپنی محنت و مشقت کے بل پر کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جنہوں نے نام اور شہرت بھی حاصل کی ہے اور دولت بھی اور وہ اپنے میدان میں مسلسل کامیابی و کامرانی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اس ملک کے نوجوانوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے، نوٹ منسوخی کے غیر منطقی فیصلے، جی ایس ٹی اورکورونا وبا کے دوران اچانک لاک ڈاؤن جیسے بے تکے فیصلے نے نوجوانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اس وقت نوجوان گزشتہ برسوں میں بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔
ہندوستان میں ہر منصوبہ اس لئے ناکام ہوجاتا ہے کہ منصوبہ سازی میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی نظر صرف اردگرد اور موجودہ حالات اور ڈیمانڈ پرہوتی ہے لیکن اگر اس میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے گا تو دوررس اثرات کے حامل منصوبہ بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ نوجوانوں نے ہندوستان میں اپنی طاقت دکھادی ہے۔ یہ بتادیا ہے کہ اگر انہیں نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو کسی بھی حکومت کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے انا تحریک کے دوران بھی کیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف دیگر فرقے کے نوجوانوں کو تمام مواقع اور سہولتیں پیش کی جارہی ہیں وہیں مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو خصوصا وہ نوجوان آئی ٹی سیکٹر یا انجنئرنگ میں ہیں انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔گجرات قتل عام کے بعد جب پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی تھی اس کے بعد حکومت میں بیٹھے بعض وزراء اور اعلی خفیہ افسران نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ وہ راستہ جس میں بدنامی کا کوئی خوف نہیں۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے میں ہندوستان میں بھی بڑے پیمانے پر مسلم نوجوان کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کا بھرپور ساتھ ہندوستان کا ہندوتوا میڈیا نے۔ اس بار اس کا نشانہ وہ نوجوانوں تھے جو آئی ٹی سیکٹر یا پروفیشنل سیکٹر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے یا اس سے فارغ تھے یا اس میں ملازمت کر رہے تھے۔ ان دس سالوں میں گرفتار شدگان مسلم نوجوانوں کی تعدادکو دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی۔اسی کے ساتھ مدارس کے فارغین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہاں بھی ہدف نوجوان طبقہ ہی تھا۔خفیہ ایجنسیاں مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کرنے لئے مختلف بہانے تراش رہی ہیں اورجس کو اور جب بھی چاہتی ہیں اٹھالیتی ہیں۔حیدرآباد کے مکہ مسجد بم دھماکے کے بے قصور نوجوانوں کی رہائی اور معاوضہ کی ادائیگی کے باوجود بھی اس ایجنسی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس منصوبہ کو عملی شکل دینی شروع کردی ہے کہ اگر دس کو رہا کیا جائے گا تو دوسرے 20کو اٹھا لیاجائے گا جیسا کہ چند برس دنوں میں بہار میں ہوا ہے اور مغربی اترپردیش امروہہ نشانے پر ہے اور وہاں سے درجنوں مسلم نوجوانوں کو قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے اٹھالیا ہے اور اس کا لنک داعش تلاش کرلیا ہے جب کہ داعش کا وجود ہندوستان میں نہیں ہے۔ این آئی اے لوہے کے برادہ کو بارود اور ٹریکٹر میں استعمال ہونے والا آلہ کو راکٹ لانچر بناکر پیش کیا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ عام پارلیمانی انتخابات اورریاستوں میں انتخابات کے پیش نظر کیا جارہا ہے اس کا مقصد اکثریتی طبقہ کو خوش کرنا ہے۔ اگر مسلم نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوگا تو ہندوستان کا بھی ہوگا کیوں کہ یہ نوجوان ہندوستان کا جز لاینفک ہیں۔
یہ ہندوستانی نوجوانوں کی تصویر 2014 سے قبل کی ہے اس وقت کا نوجوان دودھ سے زیادہ گوموتر مہنگے داموں میں خریدتا ہے، انہیں سائنس سے زیادہ توہمات، موتر اور گوبر سے زیادہ پیار ہے۔ ایک ڈھونگی یوگی بابا ان کا ہیرو ہے اور آج کا نوجوان ان کے سڑے گلے، ملاوٹی ناپاک اشیاء بڑی چاؤ سے خریدتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے۔دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا انسان ان کا لیڈر ہے، جہاں بھی جاتا ہے جھوٹوں کی بارش برساتا ہے اور یہاں کے اکثریتی بہت شوق وذوق سے اس میں بھیگتے ہیں۔ ہر ظلم کو دیش بھکتی کی نظر سے دیکھتا ہے اور ملک کے مفاد میں گردانتا ہے، ایک اشارے پر اپنا کچھ اور خاندان کو بی جے پی کے غنڈوں کے حوالے کرسکتا ہے۔ان کے ہر جرائم کو ملک کی ترقی کے لئے ضرور قرار دیتا ہے۔ جہاں سے ملک کی ترقی کے نظریات نکلنے چاہئے تھے اس دماغ سے نفرت کی نئی نئی شکلیں نکل رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک تمام رینکوں میں غوطہ لگاچکا ہے اورجمہوریت،رواداری، برداشت اور اظہار آزادی اور اختلاف رائے کے معاملے میں بدنام زمانہ ملک سے بھی نیچے جاچکا ہے۔ اگر آج کے نوجوان چاہیں تو یہ ملک تمام شعبوں اور رینکوں میں اوپر اٹھ سکتا ہے۔ بس انصاف کے لئے لڑنا ہوگا اور ملک کے تمام ناکارہ نظام کو بدلنا ہوگا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے والوں کے ملک اٹھ کھڑا ہونا اور ایک ایماندار اور انصاف پسند حکومت قائم کرنی ہوگی۔ اگر ملک کے نوجوانوں کی صحیح سوچ ہوتی تو ملک کے کسان گزشتہ چھ ماہ سڑکوں پر نہیں ہوتے۔ تقریباَ تین ماہ سے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن نوجوانوں کی وہ شمولیت نظر نہیں آرہی ہے جس سے حکومت کی چولیں ہل جائیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کو قیمتیں اقتصادی طور پر انتہائی کمزور ممالک سے دوگنی کے قریب ہیں، غذائی اشیاء اور روز مرہ کی چیزوں کی قیمتیں عام آدمی کے بس کی باہر کی چیز ہوکی ہیں لیکن ان تمام چیزوں کے خلاف نوجوا ن سڑکوں نظر نہیں آرہے ہیں۔ روزگار اور روزگار کے ذرائع ختم ہورہے ہیں لیکن نوجوانوں میں کوئی جنبش نہیں ہے۔ مذہبی نفرت کے نشے میں اس قدرمدہوش کردیاگیا ہے کہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے ہر جرائم کو جائز اور ضروری قرار دیتا ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں کیا سے کیا ہوگا دیکھتے دیکھتے۔ نوجوانوں نے ہوش نہیں سنبھالا اور سچ اور حق کے لئے آواز نہیں اٹھائی تو آنے والی نسل ان نوجوانوں کو معاف نہیں کرے گی۔ملک کے نوجوان ہوش کے ناخون لیں اور ظلم و ناانصافی کے میدان میں آئیں خواہ ظلم کسی کے بھی ساتھ ہورہا ہو۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment