پانچ ریاستی انتخابات: جمہوریت کو بچانے کا آخری موقع

   

Thumb


جن لوگوں نے ہندوستان کو کثیر جمہوری ملک گردانا ہے ان لوگوں نے تکثیری اور کثیری کے فرق کو نظر انداز کیا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ تکثیری جمہوری ملک رہا ہے جہاں صرف اپنے لوگوں کو انتخابات میں منتخب کرتے ہیں، کچھ لوگوں کا کبھی انتخاب ہوا بھی ہے تو اسے شاذ و نادر کے درجے میں رکھا جائے گا کیوں کہ اگر ایسا نہیں ہوتا آئین کے خالق باباصاحب امبیڈکر کو مجلس آئین ساز میں شامل ہونے کے لئے کسی مسلم علاقے کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کوپارلیمنٹ میں پہنچنے کے لئے کسی مسلم اکثریتی علاقے سے انتخاب نہیں لڑنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک میں اس قدر نفرت، تعصب،انتقامی جذبہ،  اخلاقی قدریں اور اخوت و مساوت کا فقدان اور بحران نہیں تھا۔ اس دور میں ہندو مسلم کے درمیان اس قدر کھائی نہیں تھی۔ گاؤں دیہات سے اس سے کوسوں دور تھا لیکن اس وقت جب کہ یہ وبا اور نفرت کا کاروربار ملک کے گوشے گوشے اور گاؤں دیہات میں پھیل چکا ہے، اس سے شفاف اور حقیقی جمہوریت کی بات کرنا عبث ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جس پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے اس پارٹی کے ووٹر بھی اگر مسلم امیدوار ہے تو ووٹ نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا تناسب کبھی ان کی آبادی کے لحاظ سے اسمبلی سے پارلیمنٹ میں نہیں ہوسکا بلکہ زیادہ تر آدھے کے قریب رہا یا اس سے کم۔ کسی بھی جمہوریت ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ کہیں بھی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں لیکن یہاں تو ذات پات، علاقائیت اور مذہب کے نام پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ مذہبی جذبات برانگیختہ کرکے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں جوآئین کے خلاف ہے لیکن کبھی بھی ایسے امیدوار وں کو نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی خاصیت رہی ہے اس میں جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے، جھوٹے وعدے کرے، لوگوں کو ورغلائے، گالی گلوج کرے، قتل کرنے کی دھمکی دے، بھگانے دینے کی وارننگ دے، مذہبی جذبات سے کھیلے اور مذہبی تفریق پیدا کرکے کامیاب ہوجائے اس کی اتنی ہی زیادہ پذیرائی ہوتی ہے۔ ہندوستانی انتخابات کی تاریخ کھنگال لیں ان سب باتوں سے انتخابات کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ مذہبی جذبات لوگوں پر اس قدر حاوی ہوتے ہیں جس ڈی ایم کے اشارے میں بابری مسجد میں مورتی رکھوائی گئی تھی نہ صرف اس ڈی ایم کو لوگوں نے بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ بھیجا تھا بلکہ اس کے ڈرائیور کو بھی ایوان کی سیر کرادیا تھا۔ یہاں انتخاب کے لئے صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ نفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کون کتنا نفرت پھیلا سکتا ہے، کون کتنا کمزور اور اقلیتی طبقوں کو ذلیل کرسکتا ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بنتا ہے۔ مثال کی ضرورت نہیں ہے حکمراں طبقہ کے جس لیڈر پر انگلی رکھیں ان سب باتوں کی تصدیق ہوجائے گی۔
گزشتہ چھ برسوں میں جمہوریت کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلی ہے، جمہوریت کے نام پر سارے غیر جمہوری کام کئے گئے ہیں۔تین طلاق بل،  دفعہ 370کاخاتمہ، یو اے پی اے قانون، قومی شہری (ترمیمی)قانون، این آر سی، این پی آر، تین زرعی قوانین اس کے زندہ جاوید مثال ہیں۔ ہندوستان میں انتخاب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہے۔ جس طرح صدام کے دور میں انتخابات ہوتے تھے وہ اب ہندوستان میں ہونے لگے ہیں، خاص طور پر الیکشن کمیشن جب بی جے پی کمیشن میں تبدیل ہوجائے توالیکشن صرف خانہ پری رہ جاتا ہے، خاص طور پر الیکشن کا مطلب ہی ختم ہوگیا ہے، امیدارورں کی کامیابی میں لوگوں رائے سے زیادہ ای وی ایم کا کمال ہوتا ہے۔ اگر کہیں زیادہ دھاندلی نہیں ہوئی تو ایم ایل اے خرید کر حکومت بنالی جاتی ہے۔ دنیا میں جس طرح بھیڑ بکریوں کی تجارت ہوتی ہے اسی طرح یہاں اراکین اسمبلی و ممبران پارلیمنٹ کی تجارت ہوتی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں اس میں شدت میں آئی ہے، یہ کام پہلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کہ ایم ایل ایز کو خرید کر حکومت گرادی جائے،۔ اراکین اسمبلی کو حکمراں ٹولہ خریدتا تھا لیکن اب اپوزیشن اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کرکے حکمراں ٹولہ بن رہا ہے۔ بہار کے اسمبلی انتخابات نے تو الیکشن سے لوگوں کا بھروسہ ہی ختم کردیا۔ جس طرح جیتے ہوئے امیدواروں کو شکست خوردہ قرار دیا گیا وہ ہندوستان کے طرز جمہوریت کا عکاس ہے۔ بہار میں حکمراں طبقہ کے خلاف ناراضگی یا غصہ نہیں تھا بلکہ نفرت تھی اور نفرت کبھی ووٹ میں نہیں بدلتی ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت کے نام پر سارے تماشے ہوئے۔ اب مغربی بنگال میں اس طرح کے کھیل کی تیاری زوروں پر ہے، کوئی خود کو کوبرا کہتا ہے اور شمشان میں پہنچانے کی بات کرتا ہے۔ جمہوری الیکشن کے نام پر سارے غیر جمہوری اور غیرقانونی طریقے اپنائے جارہے ہیں اور الیکشن کمیشن صرف ایک پارٹی کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں سویڈن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کہ ہندوستان میں انتخابی آمریت ہے کوئی غلط تجزیہ نہیں ہے۔ گزشتہ چھ برسوں ہر کام کیا گیا ہے جس سے ملک پر بدنما داغ لگے، یہاں کے شہریوں پر اعتبار کم ہوجائے، انہیں وحشی کے طور پر پیش کیا جائے۔ایسے فریڈم ہاؤس اور وی ڈیم کی رپورٹ پر اب لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئے۔
 دی وائر میں شائع رپورٹ کے مطابق سویڈن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، 2014 میں بی جے پی اور نریندر مودی کی فتح کے بعد سے، ملک کی جمہوری نوعیت کافی کمزور ہوچکی ہے اور اب یہ 'آمریت' کی حالت میں آچکی ہے۔ سویڈن میں مقیم ایک انسٹی ٹیوٹ نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ ہندوستان اب انتخابی جمہوریت نہیں بلکہ ایک انتخابی آمریت ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں بی جے پی اور نریندر مودی کی فتح کے بعد سے ملک کی جمہوری شکل بہت کمزور ہوچکی ہے اور اب یہ 'آمریت' کی حالت میں آچکی ہے۔گوٹنبرگ یونیورسٹی کے ایک آزاد تحقیقی ادارہ وی ڈیم نے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ شائع کی ہے۔اس نے اپنی سابقہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان اپنی جمہوریت کی حیثیت کھونے کے راستے پر ہے۔ اس سال کی رپورٹ نے اس خدشے کی تصدیق کردی ہے۔ یہ سال 2020 کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا کہ کافی تعداد کے اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے گذشتہ سال ہندوستان کی تصویر زیادہ واضح نہیں ہوسکتی ہے، لیکن نئی اعدادوشمار کی وجہ سے اب یہ پورے دعوے کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان ایک 'انتخابی آمریت' میں تبدیل ہوگیا ہے۔اس کی وجہ سے، وی ڈیم کی رپورٹ میں، 180 ممالک میں سے، ہندوستان کو کم 50 فیصد ممالک کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سال یہ 97 ویں پوزیشن پر ہے۔
سنہ 2010 میں ہندوستان ایک جمہوری ملک تھا، جو اب انتخابی آمریت میں بدل گیا ہے۔سویڈش کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان 'آمریت کی تیسری لہر' کی قیادت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس وقت دنیا کی 68 فیصد عوام آمریت کی زندگی گزار رہی ہے۔وی ڈیم نے کہا کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی آبادی والے 2.6 اربآبادی والے  25 ممالک مطلق العنانیت  کے دور میں ہیں۔ یہاں تک کہ جی 20 ممالک جیسے برازیل، ہندوستان، ترکی اور امریکہ بھی اس لہر کے زمرے میں ہیں۔وی ڈیم نے کہا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ آمریت مختلف حالات کے باوجود اسی طرز پر عمل پیرا ہے۔ یہ وہیں سے شروع ہوتی ہے، جب اقتدار میڈیا اور سول سوسائٹی پر حملہ کرنا شروع کرتا ہے، معاشرے میں منقسم ہوجاتا ہے اور مزاحمت کا احترام کیے بغیر غلط معلومات پھیل جاتی ہیں۔اس رپورٹ کا پورا باب ہندوستان پر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب انتخابی آمریت میں بدل چکی ہے'۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بتدریج میڈیا، اکیڈمیا اور سول سوسائٹی کی آزادی چھین لی جارہی ہے۔سویڈش کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، 'نریندر مودی کی سربراہی میں اور ہندو-قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے 2014 میں بی جے پی کی جیت کے بعد بہت کچھ رد ہوا ہے۔ سال 2020 کے اختتام تک، ہندوستان کی لبرل جمہوریت کی تعداد 0.34 تھی، جبکہ 2013 میں یہ اپنے عروج پر 0.57 تھی۔ اس طرح سے، لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ہندوستان میں لبرل جمہوریت کی متعدد جہتوں میں کمی واقع ہوئی۔وی ڈیم نے کہا کہ ہندوستان کی یہ صورتحال میڈیا پر سرکاری سنسرشپ، سول سوسائٹی کو دبانے اور الیکشن کمیشن کی خود مختاری کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیش آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں بہت زیادہ تعصب پایا جاتا ہے اور غیر تعلیمی اور مذہبی آزادی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں ہندوستانی حکومت پر غداری، بدنامی اور یو اے پی اے کے سخت قوانین کے بار بار استعمال پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، 'مثال کے طور پر، جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے، 7000 افراد پر ملک بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا ہے۔'اس کے ساتھ ہی، وی ڈیم نے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری احتجاج پر حکومت کی دباؤ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم، فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں، کچھ دن پہلے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں شہری آزادیوں کا تسلسل کٹ رہا ہے۔اس نے ہندوستان کی حیثیت آزاد سے جزوی آزاد تک کم کردی ہے۔ ایسا میڈیا، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی اور مظاہرین پر اظہار رائے کے اظہار کے لئے کیا گیا ہے۔
پانچ ریاستی انتخابات ملک کے عوام کے لئے سنہری موقع ہیں، وہ اپنے اوپر سے اندھ بھکتی، گومتر پینے، گوبر کھانے جیسے توہین آمیز داغ بھی دھو سکتے ہیں اور ہندوستانی جمہویت کی ارتھی شمشان جانے سے روک سکتے ہیں۔ حکومت کی چھ سال کی کارکردگی کو یاد رکھیں، لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی بے بسی کو یاد رکھیں، پٹریوں پر سونے کی وجہ سے کٹ جانے والے تارکین وطن کو دیکھیں، حکومت کے بے حس اقدامات پر نظر ڈالیں، پیدل چلنے والے مزدوروں پر مظالم کویاد کریں اور اچانک لاک ڈاؤن دیکھیں جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی نوکری چلی گئی اور کروڑوں مزدور سڑکوں پر آگئے، نوٹ بندی کو بھی یاد کریں جو اپنے پیسے نکالنے کے لئے لائن میں لگے اور ان میں ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں نے دم توڑ دیا۔ ملک کی دنیا میں ہر سطح پر بدنامی ہورہی ہے اور تمام رینکوں میں ہندوستان بہت نیچے گرچکا ہے۔ووٹ دینے سے پہلے ان تمام چیزوں کو یاد کریں اور پھر ووٹ کریں۔ اس کے باوجود نفرت کے کاروباری فتحیاب ہوتے ہیں تو پھر ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔اس کے لئے ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ ہمارا پیارا ملک ہے اسے پیارا ہی رہنے دیں اسے نفرت کے سوداگروں کے حوالے نہ کریں۔

Comments