کسان تحریک اور میڈیا کا گھٹیاپن

 

Thumb


ملک میں میڈیا اس قدر گندگی کی ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ پورا ملک مختلف طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہے، روزگار نہیں ہے، لوگوں کے پاس کام نہیں ہے، اناج خریدنے کو پیسے نہیں ہیں، علاج کے لئے رقم دستیاب نہیں ہے، نفرت کی آندھی چل رہی ہے، محبت کا چراغ غل ہونے کے دہانے پر ہے، ہر ایک فرقہ ایک دوسرے کوشک کی نظر دیکھ رہا ہے، باہمی اعتماد ختم ہوچکی ہے، بدتمیزی، بدتہذدیبی، غیر انسانی رویہ عروج پر ہے اور انسان آج انسان کے علاوہ سب کچھ ہے اور یہ سب میڈیا کا ہی کیا دھرا اور بویا ہوا بیج ہے جو تناور درخت کی شکل لے چکا ہے۔ میڈیا نے اب مسلمانوں، دلتوں اور کمزوروں کے طبقوں کے خلاف ہی محاذ کھولا تھا لیکن اب ان کا بھی پیٹ بھرنے والے کسانوں کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ کسانوں کو آج میڈیا دہشت گرد، ٹکڑے ٹکڑے گینگ، خالصتانی اور دیگر منفی ناموں سے پکاررہا ہے۔ٹھیک اسی طرح کا رویہ اپنا رہا ہے جس طرح اس نے شاہین باغ تحریک میں اپنایا تھااور بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کی سطحی حرکت کی تھی لیکن شاہین باغ تحریک سب  سے اوپر اٹھ کر حکومت کی نیند حرام کرتی رہی جس طرح اس وقت کسان تحریک کر رہی ہے۔ حکومت کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں اور حکومت نے کسانوں کو بدنام کرنے اور ان کی تحریک کو سبوتاژ کرنے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنالئے ہیں اور اپنارہے ہیں۔ بجلی پانی اورانتہائی ضروری بیت الخلاء کی تک سہولت ختم کرکے کسانوں کو گھٹنے کے بل لانے میں لگی ہے لیکن کسان تحریک اور بھی مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔راکیش ٹکیٹ کے ایک آنسو ں نے کسان تحریک کو نئی زندگی دے دی۔


میڈیا کو ایک مقدس پیشہ سمجھا گیا ہے، اس کے حوالے سے جو بات یا جو خبر بھی نشر یا شائع کی جاتی رہی ہے اسے معتبر تسلیم کیا گیا ہے اور لوگ اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے رہے ہیں۔ اس لئے خبر کو دوشیزہ کی دوشیزگی سے تعبیر کیاگیاہے اور اسے یہ مقام دیا گیاہے لیکن جن لوگوں نے خبر کو صداقت کی بنیاد پر ہی شائع کرتے تھے انہوں نے آج کے دور کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ خبر کی دوشیزگی کو کوئی اور نہیں اس پیشہ سے وابستہ افراد ہی تار تار کردیں گے۔ خبر کی دوشیزگی کو تار تار کرنے والوں میں صرف مرد صحافی ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خاتون صحافی بھی کسی بھی طرح مرد صحافی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی خبر کی دوشیزگی کو برقرار رکھنا نہیں چاہتی۔ ابھی حال ہی میں ٹی وی خاتون اینکر نے انتہائی بے شرمی اور انسانیت کے تئیں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی وی ڈیبیٹ میں کہہ دیا کہ  ”وندے ماترم پر بحث کیجئے، گورکھپور کے بچوں پر نہیں“۔ گورکھپور میں حکومت اور اسپتال انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے 60سے زائد بچے آکسیجن کی کمی کی وجہ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس پر حکومت کی کھینچائی کرنے کے بجائے میڈیا نے اپناسارا زور حکومت کو بچانے اور کلین چٹ دینے میں صرف کردیا۔ اس وقت میڈیا کی ساری توجہ وندے ماترم گانے پرتھی۔ میڈیا کا سارا زور اس پر تھا کہ مسلمان وندے ماترم کیوں نہیں گائیں گے۔ جب کہ وندے ماترم قومی ترانہ نہیں ہے اور نہ ہی آئینی طور پر اس کو پڑھنا لازم ہے۔ یہ اختیاری فعل جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے۔ ابھی حال ہی سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک مشرا نے وندے ماترم سے متعلق ایک کیس میں میں آئینی طور پر اسے لازم نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ آئین میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کس طرح ترنگا اور قومی ترانہ کا ذکر ہے اور یہ آئینی طور پر لازم ہے اس کا احترام کیا جائے اور کسی ہندوستانی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ ہندوستانی میڈیا گورکھپور کے اندوہناک واقعہ پر حکومت اور اس کے ذمہ دار بی جے پی لیڈروں کو گھیرنے کے بجائے اس نے وندے ماترم کا شوشہ چھوڑ دیا۔ جس طرح اترپردیش اسمبلی سے قبل تین طلاق پر ہونے والا ڈیبیٹ اسمبلی الیکشن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ڈیبیٹ ختم ہوگیا۔ اسی طرح گورکھ پورسانحہ کے وقت پورے اترپردیش کے مدارس میں وندے ماترم کو لازمی کرنے کا فرمان جاری کردیا گیا۔ اس طرح بہت خوبصورتی سے گورکھپور سانحہ کو فراموش اور اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش میڈیا نے کی۔ اسی طرح ماب لنچنگ کے خلاف ’ناٹ ان مائی نیم’کی تحریک پورے ملک میں چلی اور حکومت کی منشا پر ملک میں ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر سوال اٹھنے لگے اور حکومت چاروں سے گھرگئی اور اسی کے ساتھ گجرات میں کپڑا تاجروں کا جی ایس ٹی کے خلاف  
عوامی تحریک چل رہی تھی، اسی وقت گجرات کے امرناتھ یاتریوں پر کشمیر میں حملہ ہوجاتا ہے اور میڈیا ساری توجہ اس طرف موڑ دیتا ہے اور ناٹ ان مائی نیم کی ہوا نکال دی جاتی ہے۔ ناٹ ان مائی نیم کی تحریک چلانے والے 80فیصد ہندو تھے۔ حکومت بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کی توجہ موڑ دی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب بھی معاشرے کے اندر کچھ اچھا کام ہونے والا ہوتا ہے اوریا کسی معاملے میں ہندوستانی معاشرہ متحد ہوتا ہے کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ہوجاتاہے جس سے حکومت کے خلاف تحریک کمزور پڑ جاتی ہے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔


میڈیا کا کام سچ کا ساتھ دینا ہے اور حکومت وقت کو آئینہ دکھانا ہے۔ عوام کی تکلیف سے حکومت کو آگاہ کرنا ہے، وہ نہ کسی کا دوست اور نہ ہی کسی کا دشمن ہوتا ہے۔ ان کی نظر میں چور بھی اس وقت تک چور نہیں ہوتا جب تک عدالت اسے سزا نہ سنادے۔ میڈیا صرف اور سچ اور حق کا ترجمان ہوتا ہے، بے آوازوں کی آواز بنتا ہے، کمزور اور بے سہارا  لوگوں کو سہارا دیتا ہے تاکہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھ سکے۔ میڈیا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو انصاف ملا ہے جس کی توقع نہیں کی جارہی تھی لیکن سردست ہندوستانی میڈیا حکومت کا دلال اور ترجمان بن گیا ہے، وہ پوری طرح حکومت کی گود میں لیٹ گیا ہے۔ ایک دو ٹی وی چینل اور اخبار کو چھوڑ دیں تو سارا اخبار حکومت کی مدح سرائی میں زمین  وآسمان کے قلابے ملاتا ہے۔وہ آج معاشرہ کو تقسیم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ میڈیا معاشرہ سے برائی ختم کرنے لئے آیا تھا لیکن آج ہندوستانی میڈیا کا کام معاشرہ میں برائی کو بڑھاوا دینا اور برائی پھیلنے کی بڑی وجہ بن گیا ہے۔ آج میڈیا کو بہت سی برائیوں کا سرچشمہ سمجھا جاتاہے اوراشتعال پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی۔اس کی وجہ ایک بڑی وجہ کارپوریٹ گھرانوں کا میڈیا پر قبضہ بھی ہے۔ کچھ صحافی تو مجبوری میں بھونپو بنے ہوئے ہیں، تو کچھ مشن کے طور پر، تو کچھ لالچ میں توکچھ لگزری زندگی گزارنے کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔ مگر یہ سچ ہے کہ حق اور سچ لکھنے والے صحافی بہت کم رہ گئے ہیں اور وہ جہاں بھی ہیں گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ اپنی مرضی کے حساب سے اور سچ رپورٹنگ نہیں کرسکتے۔ان سے فرضی نیوز بنوائی جاتی ہے اور’پلانٹیڈ اسٹوری‘ کروائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے صحافی آج نوکری ترک کرکے آزادانہ طور پر لکھ رہے ہیں۔ کچھ صحافی گھٹن کوکم کرنے کے لئے بلاگ لکھنے لگے ہیں جہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ یو ٹیوب پر ویڈیو اپلوڈ کرکے اپنے ضمیر کی بات لوگوں کو تک پہنچا رہے ہیں۔ کیوں کہ جہاں وہ کام کر رہے ہیں یا اینکرنگ کر رہے ہیں وہاں انہیں سوچ بولنے اور دکھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ این ڈی ٹی وی کے خلاف کارروائی اس کی زندہ مثال ہے جو لوگ بھی سچ بولیں گے  یا دکھائیں گے اس کا حشر یہی ہوگا۔ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ میڈیا کے لوگ ہی ان کی گودی میں بیٹھ چکے ہیں اور گودی اور مودی میڈیا کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر میڈیا سچ دکھانے پر اترآئے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ 
میڈیاصرف اپنی سہولت اور حکومت کے اشارے پر ہی کسی پروگرام کو کور کرتااوردکھاتاہے۔ورنہ میڈیا کے جتنے بھی لوگ آجائیں اس کی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ ٹی وی چینل پر بھی دکھایا جائے گا۔ خبر کے لئے رپورٹر مارے مارے پھرتے ہیں لیکن چینل میں بیٹھا ایڈیٹر جو حکومت کا پٹھو ہوتا ہے وہ ان رپورٹوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا ہمیشہ فرقہ پرست اور کارپوریٹ گھرانے اور ہندتوا کے علمبردار تنظیموں کا زرخرید غلام رہا ہے۔ وہ اسی کی ہدایت کے مطابق ہمیشہ کام کرتا ہے اور کبھی کسی واقعہ کے سچ کو اجاگر ہونے نہیں دیتا۔ابھی حال ہی میں دیوبند سے طلبہ کو اترپردیش اے ٹی ایس نے اٹھایا تھا اور اسے پوچھ گچھ کرکے چھوڑ دیا تھا لیکن ہندی کے تقریباً سارے اخبارات نے پہلے صفحہ پر نمایاں طور پر ان طالب علموں کو دہشت گرد لکھا تھا۔ جب کہ عدالت کا حکم ہے کہ جب کسی پر الزام ثابت نہ ہوجائے اس کو دہشت گرد نہیں لکھا جاسکتا لیکن یہاں کے اخبارات، صحافی، نیوز ایجنسیاں سب کسی بھی گرفتار مسلم شخص کو دہشت گرد لکھنے میں دیرے نہیں لگاتیں۔ ان طالب علموں کو فوراَ رہا کردیا گیا لیکن رہائی کی کوئی خبر اخبارات میں نظر نہیں آئی کہیں تھی بھی تو اندرونی صحفات کے کسی کونے میں تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے اورہندی کے قاری ان کو دہشت گردی سمجھتے رہیں۔ مثال کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تہلکہ کے ایڈیٹر ترون تیج پال کے ساتھ کیا حشر ہوا سب جانتے ہیں ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سنگھ پریوار کی سازش کو اجاگر کیا تھا۔ ان کے لیڈروں کی قلعی کھولی تھی۔ اس لئے ان پر شکنجہ کسا گیا
تہلکہ کے ایڈیٹر کے پریس کانفرنس کے بارے میں جو انہوں نے ناناوتی کمیشن کے جھوٹ کا پلندہ کا پول کھولنے کے لئے کیا تھالیکن دہلی کے اخبارات نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ہندی یا انگریزی کے کسی بھی اخبار میں اس سے متعلق خبریں نہیں تھیں۔ سارے اخبارات کو بالکل سانپ سونگھ گیا۔ تاکہ ہندوستانیوں کو حقیقت سے کوسوں دور رکھا جاسکے اور گودھرا کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ برقرار رہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین کے مطابق جب تک کسی بھی ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوجاتا وہ اس وقت تک مجرم نہیں کہلاتا۔ یہ بات ہر صحافی کو معلوم ہے لیکن یہاں کے اخبارات کے رپورٹر بے سر پیر اور من گھڑت باتوں کے سہارے پوری مسلم کمیونٹی کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خبر نویسی کا یہ اصول ہے کہ دونوں جانب کی بات دی جاتی ہے لیکن ہندی کے اخبارات اور نیوز چینل میں صرف پولیس کا بیان شائع ہوتا ہے۔ پولیس کے جھوٹے بیان کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا ہے اور اس طرح ایک بے گناہ جیتے جی موت کی زندگی گزارتا ہے۔ پولیس اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے ہمیشہ بے قصور لوگوں کو پکڑتی رہی ہے۔یہ بات پولیس کے بارے میں درجنوں رپورٹوں میں کہی گئی ہے۔ یہاں کے اخبارات نے بھی لکھا ہے لیکن یہا ں کے اخبارات یہ باتیں اس وقت لکھتے ہیں جب معاملہ ہندو کا ہو۔ بم دھماکے کے سارے ثبوت، قرائن اورآثار چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں کہ بم دھماکہ کس نے کیا ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔ لیکن کوئی بھی ہندی میڈیا اس جانب توجہ نہیں دیتا۔ بلکہ ہندی میڈیا کاکام ہندو دہشت گردوں کے کارناموں کو مسلمانوں کے سر تھوپ کرانہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانا ہوتا ہے۔ ہندی نیوز چینل این ڈی ٹی وی نے بہت حد تک اپنے آپ کو معتدل رکھنے کی کوشش کی اور وہ کسی حدتک کامیاب بھی ہوئے۔

Comments