ہندوستان کا بے حس معاشرہ اور عام لوگوں کی مشکلات

 

Thumb


ہندوستانی حکومت،ہندوستانی معاشرہ اور خاص طور پر سول سوسائٹی کس قدر بے حس ہے اس کا نظارہ آئے دن ہوتا رہتا ہے، دہلی میں گزشتہ دنوں اس طرح کا دل دہلا دینے والانظارہ دیکھنے کو ملا تھا جب ایک گارڈ کو ٹیمپو نے ٹکر مار دی تھی اور ٹیمپو کا ڈرائیور اتر کر دیکھا کہ گاڑی کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے چلا گیا‘ اس کے ایک رکشا والا رکا اورتڑپنے والے شخص کو دیکھا اور اس کا موبائل لیکر چلا گیا۔ اس طرح کئی لوگ گزر گئے مگر کسی نے پولیس کو فون نہیں کیا اور نہ ہی اس زخمی شخص کو اسپتال پہنچانے کی زحمت گوارہ کی۔ مغربی بنگال کا رہنے والا وہ شخص جو اپنے بچے کی پرورش کے لئے دہلی میں دو دو جگہ نوکری کرتا تھابروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ دیا۔ میڈیا میں سی سی ٹی وی فوٹیج کو بار بار دکھایا گیا اور دہلی کے بے رحم چہرہ کو پیش کیا گیا۔یہ ایسا روڈ تھا جس پر مستقبل گاڑیاں گزرتی ہیں۔لیکن کسی کو اسپتال پہنچانے یاطبی مدد لانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس طرح کے واقعات اس قدر تسلسل کے ساتھ سے پیش آرہے ہیں کہ اب اس پر بحث بھی نہیں کرتے۔ لوگ خود میں اس قدر مگن ہیں آس پاس،قریب و جوار اور دوسرے لوگوں کیا تکلیف ہے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ پڑوسی بھوک یا بیماری سے مر جاتا ہے لیکن دوسرے پڑوسی کو پتہ نہیں چلتایا پتہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ معاشرے میں اس قدر بے حسی کیوں آگئی ہے۔ کیا انسان کی ترقی، معاشرے کی ترقی،تعلیمی ترقی اور رہن سہن میں بلندی بے حس معاشرے کا غماز ہے؟ کیا انسان جتنی ترقی کرتا ہے اتنا ہی بے حس ہوجاتا ہے؟کیا اعلی تعلیم بھی بے حسی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے؟کیا انسان کو دولت اس قدر بے حس بنادیتی ہے کہ وہ آس پاس کی تکلیفوں کی پروا نہیں کرتا۔ صرف دور دراز علاقے میں ہی اس قدر بے حسی کا مظاہرہ نہیں ہورہا ہے بلکہ قومی راجدھانی، اقتصادی راجدھانی،میٹرو سٹی اورچھوٹے بڑے شہر میں اس طرح کے بے حسی کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔ بازار میں، ٹرین، میں، بسوں میں سڑکوں اور چوراہوں پر عورتوں پر،بچوں پر، لڑکیوں پر حملے ہوتے ہیں لیکن خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ان میں سے کسی کو ہمت نہیں ہوتی کوئی آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی کرنے والے کو روکے۔ظلم کرنے والے ایک دو ہوتے ہیں جب کہ تماشہ دیکھنے والے درجنوں ہوتے ہیں اس کے باوجود سر راہ ظلم کرنے والاوحشیانہ کام کرکے چلا جاتا ہے اور لوگ خاموش کھڑے رہ جاتے ہیں۔ کیا انسان اس قدر خودغرض ہوگیا ہے کہ محض مفروضہ خوف کی وجہ سے کسی کی مدد کے لئے سامنے نہیں آتا۔دو تین لوگ بھی آگے بڑھیں تو پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کسی پر ظلم و جبر کرے۔وہ کسی معاملے میں الجھنے سے اس قدر خوف کھاتا ہے کہ اپنے سامنے کسی کی جان جاتے، آبرو لٹتے اور عزت تار تار ہوتے دیکھتا ہے اور آرام سے سامنے سے نکل جاتا ہے۔ اسی کڑی میں اڑیسہ اور مدھیہ پردیش میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے دل دہلانے والے واقعات نے انسان کی بے حسی، نظام کی بے حسی، حکومت کی بے حسی،سرکاری ملازموں کی سوچ کو اجاگر کردیا ہے۔ 


 اڑیسہ کے پسماندہ ضلع کالا ہانڈی میں ایک قبائلی کو اپنی بیوی کے لاش کو اپنے کندھے پر لے کر تقریبا 10 کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑا۔ اسے ہسپتال سے لاش کو گھر تک لے جانے کے لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکی تھی۔اس شخص کے ساتھ اس کی 12 سالہ بیٹی بھی تھی۔ 24 اگست کی صبح مقامی لوگوں نے دانا ماجھی کو اپنی بیوی امگ دئی کی لاش کو کندھے پر لاد کر لے جاتے ہوئے دیکھا۔ 42 سالہ خاتون کی بھوانی پٹنا میں ضلع ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ٹی بی سے موت ہو گئی تھی۔ اس قسم کی صورت حال کے لئے نوین پٹنائک کی حکومت نے فروری میں 'مہاپراین' منصوبہ کی شروعات کی تھی جس کے تحت لاشوں کو سرکاری اسپتال سے میت کے گھر تک پہنچانے کے لئے مفت نقل و حمل کی سہولت دی جاتی ہے۔تاہم ماجھی نے بتایا کہ بہت کوشش کے باوجود بھی اسے ہسپتال کے حکام سے کسی طرح کی مدد نہیں ملی۔ اس لئے اس نے اپنی بیوی کے لاش کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اسے کندھے پر لاد کر بھوانی پٹنا سے تقریبا 60 کلو میٹر دور رام پور بلاک کے میلگھارا گاؤں کے لئے پیدل چلنا شروع کر دیا۔اس کے بعد کچھ مقامی نامہ نگاروں نے ان کو دیکھا۔ نامہ نگاروں نے ضلع کلکٹر کو فون کیا اور پھر باقی 50 کلومیٹر کے سفر کے لئے ایک ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔اڑیسہ میں بیوی کی لاش کندھے پر ڈالے دانا ماجھی کی تصویر ابھی دھندھلی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ریاست کے بالاسور سے ایک اور دردناک منظر سامنے آیا ہے۔ اس خوفناک ویڈیوز بالاسور کے سورر کی علاقے کا ہے جہاں کے ایک صحت مرکز میں ایک شخص ایک لاش کے اوپر کھڑا ہو کر اپنے پاؤں سے اس کی ہڈیاں توڑتا ہے تاکہ لاش کو چھوٹا کرکے اس کی گٹھری بنائی جا سکے۔ اس کے بعد دو ملازم اس سمٹی لاش کو کپڑے اور پلاسٹک سے ریپنگ کرکے بانس پر لٹکاتے اور اپنے کندھے پر اٹھا لیتے ہیں۔یہ لاش 76 سال کی بیوہ سالامنی باریک کی ہے جس کی بدھ کو بالاسور سے 30کلو میٹر دور سورکی میں ٹرین کی زد میں آکر موت ہو گئی۔اس کی لاش کو بالاسور تک لانے کے لئے کوئی ایمبولینس دستیاب نہیں تھی۔ دراصل سورکی میں کوئی ہسپتال نہیں ہے، صرف ایک سماجی صحت مرکز ہے اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے ٹرین سے بالاسور تک لانا تھا۔ لاش کو اسٹیشن تک لے جانے کے لئے ایک آٹو کرنے کے بارے میں سوچا گیا لیکن وہ بہت مہنگا ثابت ہورہا تھا اس سے کہا گیا کہ وہ پیدل ہی لاش کو اسٹیشن تک لے کر جائیں۔اس سے پہلے لاش کو پولیس کی طرف سے صحت مرکز لے جایا گیا تھا جہاں وہ گھنٹوں ا سٹریچر پر پڑی رہنے کی وجہ سے انتہائی سخت ہو گئی تھی۔ ایسے میں لاش کو آسانی سے باندھا جا سکے لہذا ایک ملازم نے اپنے پاؤں سے ہڈی کو توڑا اور پھر گٹھری بنا کر اس کی دو کلو میٹر دور ریلوے اسٹیشن تک لے جایا گیا۔ متوفیہ کے بیٹے رویندرباریک نے بتایا ”وہ میری ماں کو برے حال میں لے کر گئے۔ میں مجبور تھا۔ کچھ نہیں کر سکا۔ میں انصاف کی فریاد لگاتا ہوں“۔اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اڑیسہ انسانی حقوق کمیشن نے پولیس اور بالاسور ضلع اتھارٹی سے جواب مانگا ہے۔یہ صورت اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت کے ایسے دو منصوبے نافذ ہیں جس کے تحت لاشوں کو لے جانے میں مدد مہیا کروائی جاتی ہے۔ اڑیسہ کے 37 سرکاری ہسپتالوں میں 40 لاشیں گاڑی کے ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ کالا ہانڈی میں 25 لاکھ لوگوں پر ایک ہی لاش گاڑی مختص ہے۔
اڑیسہ کے بعد اب مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں انسانیت کو شرمسار کر دینے والا واقعہ سامنے آیاہے۔ یہاں بس میں جانے والی ایک خاتون کی موت کے بعد بس والوں نے عورت کے شوہر، بوڑھی ساس اور پانچ دن کی بچی کو بس سے اتار دیا۔، ضلع  چھتر پور کے گھوگھری گاؤں میں رہنے رام سنگھ کی بیوی ملی بائی نے پانچ روز قبل ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ درد زہ کے بعد ہی ملی بائی کی طبیعت بگڑتی گئی تو رام سنگھ اس علاج کے لئے بس سے دموہ لے جا رہا تھا۔رام سنگھ کے مطابق، سفر کے دوران بیوی کی سانسیں تھم گئیں. بیوی کی موت کے بعد بس کے ڈرائیور،کنڈکٹر اور کلینر نے اس کے، بوڑھی ماں اور پانچ دن کی بچی کو خواتین کی لاشیں کے ساتھ چینپرا اور پرسائی گاؤں کے درمیان جنگل میں اتار دیا۔اس کے بعد یہ خاندان 5 دن کی بچی اور لاش کو 8 گھنٹے تک مدد کی فریاد کرتا رہا، لیکن ان کی مدد کے لئے کوئی آگے نہیں آیا۔اس دوران وکیل ہزاری اور راجیش پٹیل موٹر سائیکل سے دموہ واپس آ رہے تھے تو انہوں نے رام سنگھ کو اپنی بیوی کی لاشیں، نوزائیدہ بیٹی اور بوڑھی ماں کے ساتھ روتے ہوئے دیکھا۔رام سنگھ سے بیتی سننے کے بعد وکیل نے ڈائل 100 سروس پر فون کیا، لیکن کافی دیر تک مدد کے لئے کوئی پولیس کا نوجوان نہیں پہنچا۔اس کے بعد دونوں وکلاء نے رام سنگھ کے خاندان کے لئے اپنی سطح پر گاڑی کا انتظام کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس دوران پولیس کے کچھ جوان پہنچے بھی تو انہوں نے اپنے علاقے کا معاملہ نہ ہونے کی بات کہہ ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ ہندوستان میں دلت کس قدر خوف و دہشت ’بے بس اور استحصال کا شکار ہیں اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں دلتوں جہاں وقار کے ساتھ جینے کا حق نہیں ہے وہیں مرنے کے بعد بھی وقار اور احترام کے ساتھ اپنی لاشوں کی آخری رسم ادا کرنے کا حق نہیں ہے۔ جبل پور کے علاقے میں اعلی ذات کے دبنگوں نے دلتوں کو آخری رسم ادا کرنے لئے زمین سے گزرنے نہیں دیا اور دلتوں کو کمر سے اوپرپانی سے لاش کی آخری رسم ادا کرنے کے لئے لے جانا پڑا۔ کیوں کہ دبنگوں نے شمشان گھاٹ کا راستہ بند کردیا تھا اور مجبوراً دلتوں کو تالاب سے گزرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں شمشان گھاٹ کے بجائے ذاتی زمین پر آخری رسم ادا کرنی پڑی۔ افسوسناک بات  یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس غیر انسانی اوربے رحمانہ واقعہ کو مصنوعی قرار دیا۔


دلتوں کے ساتھ پورے ملک میں کس قدر امتیازی سلوک اور غیر انسانی رویہ اپنایا جاتا ہے اس کااحساس اس رپورٹ سے ہوتا ہے۔وزیر اعظم کی آبائی ریاست گجرات میں اعلی ذات کے ہندو گورکشکوں کی دلت نوجوانوں کی وحشیانہ پٹائی کے معاملے پر پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک ہنگامہ اور بہت سے جگہ پر تشدد احتجاج جاری ہے۔ لیکن ایک ویب سائٹ 'انڈیا سپیڈ' کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں سزا کی شرح گجرات میں قومی اوسط سے چھ گنا کم ہے۔حالیہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، سال 2014 میں گجرات میں دلتوں کے خلاف ہوئے جرائم میں صرف 3.4 فیصد معاملے میں ہی سزا ملی تھی، جبکہ اس طرح کے معاملات میں سزا کی قومی شرح 28.8 فیصد تھی۔ اسی طرح قبائلیوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں سزا کی قومی اوسط شرح 37.9 فیصد تھی جبکہ گجرات میں یہ شرح صرف 1.8 فیصد تھی۔گزشتہ 11 جولائی کو بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب ایک مردہ گائے کی کھال اتارنے کو جرم مان کر گورکشکوں نے چار دلت نوجوانوں کو کار سے باندھ دیا اور کپڑے اتار کر ان کی پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دی۔ بعد میں اعلی ذات کے گورکشکوں نے دلتوں اور مسلمانوں کو انتباہ کرنے کے لئے پٹائی کا ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ مئی مہینے میں ہونے والے ایک اور حملے کا ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے۔قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2014 میں ختم ہونے والی دہائی میں گجرات میں دلتوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات میں سزا کی شرح 5 فیصد اور قبائلیوں کے خلاف اس طرح کے معاملات میں سزا کی شرح 4.3 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط شرح 29.2 فیصد اور 25.6 فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 100 مقدمات میں سے 95 مقدمات ملزم بری ہو جاتے ہیں۔ گجرات میں دلتوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں سب سے کم سزا کی شرح سال 2011 میں 2.1 فیصد تھی اور  قصور واروں کے خلاف فوجداری مقدمات میں سب سے کم سزا در سال 2005 میں 1.1 فیصد تھی۔تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت درج تمام فوجداری مقدمات میں سزا کی قومی اوسط شرح سال 2014 میں 45.1 فیصد تھی۔ کرناٹک اور مہاراشٹر میں بھی دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں سزا کی شرح گجرات جیسی ہی 5 فیصد ہے، جبکہ اس طرح کے معاملات میں اتراکھنڈ اور اتر پردیش میں سزا کی شرح 50 فیصد ہے۔دلت انسانی حقوق پر قومی مہم کے کنوینر پال دیواکر نے ناقص فرد جرم اور تحقیقات کا حوالے دیتے ہوئے کہا، "عدالتی نظام میں ہر سطح پر دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے“۔
وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2015 میں اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف زیادتیوں کے کل 8946 کیس درج کئے گئے۔ دوسرے نمبر پر راجستھان ہے جہاں اس دوران 7144 مقدمات درج ہوئے۔ اس کے بعد بہار کا نمبر ہے جہاں 7121 کیس پولیس نے درج کئے جبکہ چوتھے نمبر پر گجرات ہے جہاں 6655 کیس درج ہوئے۔قومی درج فہرست ذات کمیشن کے صدر پی ایل پنیا نے این ڈی ٹی وی سے کہا، ”اونچی ذات کے لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ دلت کمیونٹی آگے بڑھے۔ مشکل یہ ہے کہ دلتوں کے خلاف جرائم کے مقدمات میں پولیس قانون بھی صحیح طریقے سے نافذ نہیں کرتی اور طے وقت میں تحقیقات بھی پوری نہیں کی جاتی ہے۔پنیا کے مطابق دلتوں پر زیادتیوں کے معاملات سے نمٹنے کے لئے قانون میں گزشتہ سال ترمیم کرکے اور سخت بنایا گیا، لیکن پھر بھی جرم تھم نہیں رہے ہیں۔دراصل دلتوں کے خلاف مظالم کے بڑھتے معاملات سے سوال اہم ہوتا جا رہا ہے کہ انہیں روکنے کے لئے موجودہ قانونی پہل ناکافی ہے اور حکومتوں کو اس سے نمٹنے کے لئے نئے سرے سے پہل کرنی ہوگی۔
ان واقعات سے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ یہا ں حکومتوں نے ملک کو پوری دنیا میں بدنام کیا ہے۔یہ شرمناک واقعہ بلٹ ٹرین چلانے والے’اسمارٹ سٹی بنانے والے’ ڈجٹل انڈیا’اسمارٹ انڈیا’اسٹارٹ اپ اور دیگر پروگرام بنانے اور اسے نافذ کرنے کا خواب دیکھنے والوں پر بھی زبردست چوٹ ہے۔ہندوستان میں دنیا کے مالدار ترین شخص رہتے ہیں لیکن اس ملک کا یہ حال ہے۔ یہ سوچ کر ہی شرم آتی ہے۔اس طرح کے واقعات سے ہمارا ملک شرمسار نہیں ہورہا ہے؟’اس کا ذمہ دار کون ہیں۔ فرضی دیش بھکتی ملک کو کہاں لے جارہا ہے اور یہ لوگ اپنی حرکت سے ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن اقدار کی تعلیم صفر کے برابر ہے۔ یہاں انسان نہیں انسانی مشین پیدا ہورہے ہیں۔
abidanwaruni@gmail.com
9810372335

Comments