معذور افراد کو رحم نہیں، مساویانہ مواقع دیں

 

عابد انور

Thumb


کوئی بھی انسان یا بچہ معذور ہونا نہیں چاہتا اور نہ ہی معذور پیدا ہونا چاہتا ہے تو پھر انہیں کیوں معذور سمجھ کر امتیاز کا شکار بنایا جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان کسی بھی مرحلے میں معذور ہوسکتا ہے، کوئی پیدائشی معذور ہوتا ہے تو کوئی حادثاتی طور پر معذور ہوجاتا ہے جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے ماں پاب کا قصور ہوتا ہے کہ انہوں نے معذور بچہ کیوں پیداکیا۔ اس کے باوجود معاشرے میں معذور افراد کو کئی مرحلے میں سخت امتیاز کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی انہیں تعصب کا شکار بنایا جاتا ہے اور معاشرے میں ہر مرحلے میں ا ن کے ساتھ بھید بھاؤ اور امتیاز کے پیش آیا جاتا ہے خاص طور پر معذور اگر لڑکی ہے تو اسے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ والدین اسی فکر میں رہتے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہیں ان کا دیکھ بھال کریں گے اگر وہ نہیں رہے تو ان کا دیکھ بھال کون کرے گا۔ حالانکہ وہ ایک انسان ہے اور ان کے حقوق بھی مساوی ہیں بلکہ کئی مرحلوں میں انہیں خصوصی حقوق حاصل ہیں اس کے باوجود معذور افراد کے تئیں ہمارا رویہ تبدیل نہیں ہوتا بلکہ انہیں رحم کی نظروں سے دیکھتے ہیں جب کہ انہیں برابر مواقع دئے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں برابر کے مواقع دئے جائیں اور حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ بھی کسی سے کم کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ سیکڑوں ایسی مثالیں ہیں جب معذور افراد نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور نارمل انسان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں کئی سول سروس میں آئے اور کئی ڈاکٹر اور انجینئر بنے، کئی نے کھیلوں میں نام کمایا۔ بس ان کے حوصلوں کی پرواز کو پر عطا کرنے کی ضرورت ہے۔ 
دنیا بھر میں ایک ارب افرادکسی نہ کسی درجے میں معذوری کا شکار ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں، ہر 10 میں سے ایک فرد جسمانی یا دماغی طور پر معذور ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ حساس لوگ بھی ہیں۔ 'معذوری' ایک ایسی اصطلاح ہے جو کسی کی جسمانی، ذہنی اور فکری نشوونما کو روکتی ہے۔ ایسے افراد کو معاشرے میں ایک مختلف نظریہ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) یعنی عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ صرف ہندوستان میں، تقریبا   2626810557 افراد  جن میں 14.9 کروڑ مرد اور 11.8 کروڑ خواتین معذوری کا شکار ہیں۔ ان معذور افراد میں سے 70 فیصد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ سن 2011، ہندوستان کی مردم شماری کے مطابق معذوری کے شکار افراد میں سماعت، نظرکی کمی، یا نقل و حرکت سے متعلق معذوری عام طور پر پائی جاتی ہے۔
معذور افراد کے حقوق اور ان کو ہر میدان میں مساویانہ حقوق اور مواقع دینے کے لئے اقوام متحدہ نے ان کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا اس کا مقصد معذور افراد کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرنا تھا۔1981ء کو ادارہ اقوام متحدہ کی جانب سے ''معذور افراد کا بین الاقوامی سال'' قرار دیا گیا۔ اس بات کا اعلان 1976ء میں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد معذور افراد کو سماج میں بازآباد کرنا اور انہیں ایک باوقار درجہ دلانا بھی تھا۔ اقوام متحدہ ہر سال 3 دسمبر کو بین الاقوامی یوم معذورین کے طور پر مناتی ہے۔اس کے ساتھ ہی 1983-1992 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ''معذور افراد کا اقوام متحدہ کا عشرہ یعنی دہائی '' قرار دیا گیا تھا۔ بین الاقوامی، قومی اور علاقائی سطح پر، معذور افراد کی بازآبادکاری، روک تھام، تشہیر اور مساوات کے مواقع پر زور دینے کے منصوبے بنائے گئے تھے۔معاشرے میں عام شہریوں کی طرح ان کی مساوات کی ترقی کے لئے لوگوں کو معذور افراد کے حقوق سے آگاہ کرنا، ان کی صحت کا خیال رکھنا اور ان کی معاشرتی و اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانا، ''مکمل شراکت اور مساوات ''مرکزی خیال یعنی تھیم، موضوع معذور افراد کے بین الاقوامی سال کے جشن کے لئے مرتب کیا گیا تھا۔سال 2019 کا مرکزی خیال تھا ''معذور افراد کی قیادت اور شرکت کو فروغ دینا''تھا۔اقوام متحدہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، اس سال یوم معذور کا موضوع 'معذور افراد کی قیادت اور ان کی شرکت کو فروغ دینا: 2030 کے ترقیاتی ایجنڈے میں کارروائی کرنا' ہے۔ اس موضوع میں 2030 ایجنڈے میں جامع، مساوی اور پائیدار ترقی کے لئے معذور افراد کی بااختیار ی پر توجہ دی گئی ہے، جس کا حل یہ ہے کہ کسی کو بھی پیچھے نہیں چھوڑنا ہے اور معذور افراد کو متنازعہ مسائل کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔
ًحکومت ہند معذور افراد کے اعداد و شمار جمع کرنے، اس کے لئے منصوبے بنانے کے لئے متعدد اقدامات کرتی رہی ہے اور گاہے بگاہے معذور افراد کے زمرے میں اضافہ بھی کرتی رہی ہے تاکہ کوئی معذور افراد  چھوٹ نہ جائے اور ان تک معذورین کے فوائد پہنچ جائیں۔ 1981 کی مردم شماری میں معذوری کی 3 اقسام تھیں، 2001  کی مردم شماری میں اس میں اضافہ کرکے 5 اقسام کردی گئیں اور 2011 کی مردم شماری میں اس میں 8 قسم کی معذوری کی نشاندہی کی گئی تھی۔ معذور افراد کے حقوق (ترمیمی) قانون، 2016، نے معذور کی قسمیں بڑھا کر 21 کردی ہیں۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے تیزاب کے حملے کے متاثرین کو معذوری کے زمرے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ معذوری کی قسم کے لئے معذوریوں کی تعداد میں اضافے کا مقصد 'معذور افراد کے لئے قومی پالیسی' اور 'معذور افراد کے لئے قانون، 1995' کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔معذور کے آٹھ زمروں یہ ہیں۔نظر کی خرابی: بینائی / بینائی کے عیب میں جزوی اندھا پن یا اندھا پن۔ سماعت کی خرابی: سماعت کی صلاحیت نہ ہونا، بولنے  کی خرابی: بولنے میں دشواری۔ نقل وحرکت کے نقائص: چلنے میں دشواری۔ذہنی کمزوری: ذہنی معذوری اور ذہنی بیماری۔سیکھنے میں معذوری: سیکھنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر: ڈیسکلیسیا (الفاظ یا خطوں کی ترجمانی، پڑھنے میں دشواری) ڈیس گرافیا: ڈیسگرافیا (مستقل طور پر لکھنے میں نااہلی) اور ڈسکیلکولیا (ریاضی کے حساب کتاب کرنے میں عدم استحکام)۔ایک سے زیادہ معذوری: یہ معذوری جسم کے بہت سے حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پونے پن بھی ایک معذوری ہے اور ہندوستان میں پونے پن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے ساتھ بھی معاشرہ کا سلوک کوئی اچھا نہیں ہوتا، ان کا مذاق اڑانا عام بات ہے، اس کی وجہ سے انہیں سخت ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے متعدد اقدامات کے نتیجے میں اس میں گرواٹ آرہی ہے۔2006 میں 48 فیصد کے مقابلے میں، 2016 میں  35 فیصد بچے بونے پن کا شکار ہوئے اس میں 20 فیصد کی کمی درج کی گئی۔ اس زبردست گراوٹ کے باجود ہندوستان میں  4.06 کروڑ بچے بونے پن کے شکار ہیں۔ دینامیں بونے پن کا شکار بچوں میں سے ایک اتہائی بچے صرف ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد بونے پن کے شکار بچے چار ریاستوں، بہار، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور اترپردیش میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بونے پن کے شکار بچوں میں سے درج فہرست ذات کے  39  فیصد ہیں جب کہ ذات و قبائل کے 42فیصد بچے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ درج فہرست ذات و قبائل کے یہاں بونے بچے زیادہ پید اہوتے ہیں۔ اس کی وجہ اہم بنیادی طبی سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے اور ماں کو ایام حمل میں وہ ساری چیزیں نہیں مل پاتیں جو صحت مند بچے کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے یوم معذورین کو بین الاقوامی طور پر منانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کچھ اخبارات اور نیوز چینلوں اس کی خبر شائع ہوجائے بلکہ لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرنا ہے اور پوری دنیا کے لوگ اپنے حقوق اور اخلاقیات کو فعال طور پر فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معذور افراد کے مساوی حقوق کوبھی فعال طور پر فروغ دیں۔ اس یوم کا مقصد معذور افراد کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لئے بنائے گئے فن پاروں کو فروغ دینا ہے۔معاشرے میں معذور افراد کے اہم کردار کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لئے عام افرادکو معذور افراد کی مشکلات کی طرف راغب کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ اس تہوار کو منانے کا اہم مقصد معذوری کے مسئلے کی طرف معذور افراد کے بارے میں شعور اور فہم کوفروغ دینا ہے اور معاشرے میں معذور افراد کی عزت نفس، عوامی بہبود اور حفاظت کے حصول میں معاونت کرنا۔زندگی کے تمام پہلوؤں میں معذور افراد کے تمام مسائل حل کرنا شامل ہے۔
ہمیں معذور افراد کے تئیں اپنی سوچ، اپنا خیال، اپنا تصور اوراپنی روایت کو بدلنے کی ضرورت ہے، جب تک ہم اپنے رویے کو نہیں بدلیں گے اس وقت تک معذور افراد کے تئیں کچھ اچھا کرنے کے متحمل نہیں ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کے گھر کے آس پاس کتنے لوگ معذور ہیں۔ انہیں معاشرے میں مساوی حقوق مل رہے ہیں یا نہیں۔ اچھی صحت اور عزت اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے انہیں عام لوگوں سے کچھ مدد کی ضرورت ہے لیکن، عام طور پر معاشرے میں لوگ ان کی ساری ضروریات سے واقف نہیں ہیں۔پوری دنیا کی آبادی میں 15فیصد لوگ معذور ہیں۔ ان کو سہارا دینے کی ضرورت ہے، چاہے اسکول، یا کالج، یونیورسٹی ہو یا تعلیم گاہیں،کام کرنے کی جگہ ہو یا دیگر جگہیں ہر جگہ انہیں سہارا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہر میدان میں اپنا پرچم لہرا سکیں۔ کیوں کہ ہمارے امتیاز اور نظر انداز کرنے والے رویے سے ان کو سخت ذہنی تکلیف پہنچتی ہے۔ہم انہیں برابر کا موقع دیں اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں تو وہ بھی ایک انسان کی طرح زندگی کے ہر میدان میں نمایاں نظر آئیں گے اور اس سے ان کے تئیں لوگوں کا نظریہ بھی بدلے گا۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments