بدعنوان اور مجرم،بدعنوانی کے خلاف میدان کارزار میں

 

Thumb


ملک میں بدعنوانی اور جرائم پر کافی بات کی جاتی ہے اور سب سے زیادہ بات کرنے والے ہمارے پردھان سیوک اور ان کی پارٹی کے لوگ ہیں جب کہ اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ مجرم ان کی پارٹی میں ہیں۔سب سے زیادہ رکن اسمبلی سے لیکر رکن پارلیمنٹ تک بی جے پی کے ہی ہیں۔ یوپی سے جتنے رکن پارلیمنٹ بی جے پی کے مجرم ہیں ان پر منصفانہ مقدمہ چلایا جائے تو مودی حکومت گرجائے گی۔سو سے زائد بی جے پی رکن پارلیمنٹ نااہل قرار دئے جائیں گے۔ اگر منصفانہ طورپر ایف آئی آر درج کرائی جائے تو بی جے پی کے 9 9 فیصد بی جے پی کے لیڈر مجرم پائے جائیں گے۔اولاً توبی جے پی کے خلاف پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، اگر کرتی بھی ہے تو نہایت ہلکے دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتی ہے۔بی جے پی میں کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جس نے اشتعال انگیزی نہ کی اور لوگوں کے جذبات مجروح نہ کئے ہوں۔ مذہبی جذبات سے نہ کھیلا ہو، چوری، غنڈہ گردی نہ کی ہو،ان کی جتنی بھی ذیلی تنظیمیں ہیں ان میں وہی لوگ جاتے ہیں جو مجرمانہ ذہنیت کے حامل نوجوان ہوتے ہیں۔ اے بی وی پی، بجرنگ، وشو ہندو پریشد، ہندو یووا واہنی،اس طرح کے درجنوں سنیائیں سب کے سب مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور بڑے ہوکر بی جے پی کے لیڈر بنتے ہیں اور یہی لوگ رکن اسمبلی سے لیکر رکن پارلیمنٹ اور وزیر اعلی سے لیکر وزیر اعظم تک بنتے ہیں۔ یہی وجہ سے آج بی جے پی وزراء اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے، کیوں کہ ان کا ماضی جرائم سے عبارت ہے اس لئے ہمیشہ اسی طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اشتعال انگیزی، مذہبی جذبات بھڑکانے، دھمکیاں دینے اور دیگر مغلظات بکنے والوں میں بی جے پی کے لیڈر سرفہرست ہیں۔ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے، پچاس ہزار کروڑ کا گھپلہ کرنے اور درجنوں بدعنوانی کرنے کے بعدبھی وہ صاف شفاف ہوکر نکل جاتے ہیں۔ ان پر قتل کی کوئی چھینٹ، نہ بدعنوانی کا کوئی داغ اور نہ ہی گھپلے کاکوئی اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی سول سوسائٹی بھی ان کو بھگوان کی طرح پوجتی ہے۔ مجرموں کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔اس وقت لالو پرساد یادو اور ان کے خاندان کو ہندوستان کا سب سے زیادہ بدعنوان کنبہ قرار دینے کی کوشش میں یہاں کی عدلیہ، میڈیا، انتظامیہ، سیاست داں اور یہاں کے عوام لگے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب قطعی نہیں کہ لالو یاد کو کلین چٹ دے رہا ہوں، وہ بدعنوان ہوسکتے ہیں، ان کے بیٹے بھی اس میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن لالو یادو کے لئے سی  بی آئی نے جو پیمانہ مقرر کیا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو کوئی بھی بی جے پی کا لیڈر جیل جانے سے نہیں بچ سکے گا۔ لیکن ان کو سیکولر ہونے کی سزا دی جارہی ہے اور نتیش کمار بی جے پی کے اس گیم پلان میں ہم پلہ اور برابر کے شریک ہیں۔ 
صورت حال یہ ہے کہ صدر جمہوریہ کے آئینی عہدہ کے لئے مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں نے بھی  ووٹ دیا تھا۔ جس کو ووٹ دیا تھا انہوں نے اپنے حالیہ ٹوئٹ سے اپنی ذہنیت کا اظہار کردیا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے اعلی ترین آئینی عہدے کے لئے 17 جولائی کو ہونے والے انتخاب کے ووٹروں میں 1581 رکن پارلیمنٹ  اور رکن اسمبلی ایسے تھے یا ہیں، جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ ایک رپورٹ کی مطابق  ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) اور نیشنل الیکشن واچ نے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے 4896 حلف ناموں میں سے 4852 کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 776 میں سے 774 اور پورے ملک کے 4120 میں سے 4078 ممبران اسمبلی کے حلف ناموں  کا تعین کیا گیا ہے۔ نئے صدر کے انتخاب میں یہ 4852 رکن پارلیمنٹ  اور رکن اسمبلی ووٹ ڈالیں گے۔اے ڈی آر کے مطابق تجزیہ میں شامل 4852 ووٹروں میں سے 33 فیصد یعنی 1581 کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ اسے ان ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ نے اپنے آخری انتخاب کے وقت الیکشن کمیشن کے سامنے داخل حلف نامے میں خود اعتراف کیا ہے۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 34 فیصد یعنی 184 ایم پی اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 19 فیصد یعنی 44 ایم پی ایسے ہیں، جن پر مجرمانہ معاملے ہیں جبکہ 4078 ممبران اسمبلی میں سے 33 فیصد یعنی 1353 کی مجرمانہ شبیہ کے  ہیں۔تجزیہ میں شامل 4852 ممبران اسمبلی میں سے 993 یعنی 20 فیصد ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے حلف ناموں میں سنگین فوجداری مقدمات کی تفصیل  دی ہے۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 22 فیصد یعنی 117 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 7 فیصد یعنی 16 ایم پی ایسے ہیں، جن کے خلاف سنگین فوجداری مقدمہ ہے۔ ممبران اسمبلی میں 860 یعنی 21 فیصد کے خلاف سنگین قسم کے کیس ہیں۔  اے ڈی آر کے مطابق 4852 ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی میں سے 71 فیصد یعنی 3460  کروڑپتی  ہیں۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 82 فیصد یعنی 445 اور راجیہ سبھا کے 231 میں سے 194 یعنی 84 فیصد رکن پارلیمنٹ  کروڑ پتی ہیں۔ ممبران اسمبلی میں 4078 میں سے 68 فیصد یعنی 2721 کروڑ پتی ہیں۔ کرناٹک میں سب سے زیادہ ایم پی-ایم ایل اے کروڑ پتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صدارتی انتخاب کے ووٹروں میں 451 یعنی 9 فیصد خواتین ہیں۔ لوک سبھا سے 65 اور راجیہ سبھا سے 23 خواتین ایم پی ہیں۔ ممبران اسمبلی میں 363 خواتین ہیں۔  نئے صدر کا انتخاب 17 جولائی ہوگا اور ووٹوں کی گنتی 20 جولائی کو ہوگی۔ صدر پرنب مکھرجی کی مدت 24 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی درخواست پرجاری مقدمہ میں انتخابی کمیشن کو پھٹکار ٹ لگائی تھی۔ دراصل مجرمانہ کیس  میں مجرموں کے انتخاب لڑنے پر تازندگی پابند ی کے معاملے پر  واضح رخ اختیار نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے انتخاب کمیشن کو پھکار لگائی تھی۔سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نوین سنہا کی بینچ نے وکیل اشونی کمار  اپادھیائے کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران کہا کہ اس معاملے پر کمیشن کو اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، خاموشی کا رہنا کوئی متبادل نہیں ہے۔ بتائیں کہ موجودہ التزام کے مطابق، کسی سزایافتہ شخص کی چھ سال تک ہی انتخاب لڑنے پر پابندی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر انتخاب کمیشن آزاد آئینی اتھارٹی ہے تو اپنے آزاد نقطہ نظر کیوں نہیں رکھ سکتا۔ کیا وہ اپنی موقف رکھنے کے لئے قانون ساز کی ہدایت پرمنحصر کرتا ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر کو ئی نوکر شاہ  برخاست قصوروار  ٹھہرایا جاتا ہے تو وہ تاحیات نوکری سے برخاست ہوجاتا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کو چھ سال کی پابندی کیوں؟ ان پر کیوں نہیں تاحیات پابند ی ہونی چاہئے۔مارچ میں اختتام پذیر اترپردیش کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں 36 فیصدرکن اسمبلی پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ایسوسی ایشن برائے جمہوری حقیں (اے ڈی آر) کے مطابق، 2017 میں اترپردیش  کے اسمبلی کے انتخاب میں منتخب کردہ 403 میں سے فیصد  143 یعنی یعنی 36 فی صدرکن اسمبلی کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔جن کی بر وقت سماعت ہوئی تو  یہ لوگ  جیل جا سکتے ویں۔143میں سے  83 ممبران  بی جے پی ہیں۔ 11 ممبران اسی پی کے 4 ممبران  بی ایس پی کے اور 1 ممبران کانگریس کے اور تین آزاد  ایم ایل اے ہیں۔یہی نہیں اترپردیش سرکار میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ دونوں پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ جس میں انہوں نے 2014 میں لوک سبھا انتخابات میں داخل کئے گئے حلف نامے بتاگئے ہیں۔ جس میں قتل جیسے سنگین جرم شامل ہیں۔ ان میں 302 (قتل)، 153 (دنگھ بھڑکانا) اور 420 (دھوکہ) شامل تھے۔اگر سپریم کورٹ داغی  لوگوں کے انتخاب لڑنے پر پابندی  لگاتی ہے  تو یگی آدیتہ ناتھ  اور کیشو پرساد موریا کو اپنے عہدوں سے  استعفی دینا پڑے گا اور یہ تاحیات انتخاب نہیں لڑ سکیں گے۔بی جے پی میں سنگین جرائم کرنے والے سیاستدان سب سے زیادہ ہیں۔ 
اسی طرح نریندر مودی حکومت نے جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے نوساری ایگریکلچر یونیورسٹی کی پرائم لوکیشن کی زمین بغیر نیلامی کے عمل کے ایک 7 سٹار ہوٹل بنانے کے لئے دے دی گئی۔ سورت شہر کی یہ زمین وہاں کے کسانوں نے ایک بیج فارم کے قیام کے لیے 108 سال پہلے عطیہ کی تھی۔ اس زمین کوسورت میونسپل کارپوریشن بھی حاصل کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے واٹر ٹریٹمنٹ پروجیکٹ کیلئے ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود اسے نہ دے کر چھترالا گروپ کو یہ زمین دی گئی۔ وہ بازار کی قیمت انتہائی کم پر۔ چھترا لاگروپ نے 224کروڑ ادا کیا جب کہ بازارکی قیمت 650 کروڑ روپے تھی۔ اسی طرح ایسسار گروپ اور دیگر گروپوں کو زمین اور دیگر رعایتیں من مانے طریقے سے دی گئی ہیں۔ایسسار کو گجرات حکومت نے20,760,000مربع میٹر زمین الاٹ کر دی جس سے کافی زمین کا حصہ (کوسٹل ریگلیشن زون) (سی آر زیڈ) اور فاریسٹ کے علاقے میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ضابطے کے مطابق کوئی بھی ترقیاتی کام یا تعمیر (سی آر زیڈ) اور جنگلاتی زمین کے اوپر نہیں ہو سکتی اور حکومت گجرات نے یہ زمین کوڑیوں کی قیمت پر ایسسار گروپ کودے دی۔جو زمین ایسسار گروپ کو الاٹ کی گئی ہے وہ جنگلاتی زمین ہے اور اسی وجہ سے فاریسٹ آفیسر کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ انڈین فاریسٹ ایکٹ 1927 کے تحت چار الگ  الگ طرح کے معاملات بھی درج کئے گئے اور 20 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا اور اس جنگلاتی زمین پر جو غیر قانونی تعمیر کرایا گیا تھااسے فوری طور پر توڑنے اور وہ زمین فوری محکمہ جنگلات کو واپس کرنے کے لئے کہاگیا تھا۔ مودی نے ایسسار گروپ پر کوئی کارروائی نہیں ہونے دی۔آج اس زمین کی قیمت 3000 روپے فی مربع میٹر سے زائد ہے۔اس کی قیمت کے حساب سے زمین کی متوقع قیمت  6228 کروڑ روپے ہے۔اسی طرح لارسن اینڈ ٹربرو (ایل اینڈ ٹی) کمپنی پر نریندر مودی نے خاص مہربانی کی۔  800000 مربع میٹر اس کمپنی کو  1 روپے فی مربع میٹر کے حساب سے زمین دے دی گئی جبکہ صرف 850600 مربع میٹر زمین کسی اور کمپنی کو 700 روپے فی مربع میٹر کی شرح سے الاٹ کی گئی۔ اس طرح نریندر مودی نے 76 کروڑ کی زمین لارسن اینڈ ٹربرو کو صرف 80 لاکھ روپے میں الاٹ کردی۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو بغیر نیلامی کے سرکھیج گاندھی نگر شاہراہ پر زمین کی الاٹمنٹ کر دیا گیا۔ یہ زمین ریاست میں سب سے قیمتی جگہوں میں سے ایک ہے۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو 21300 مربع میٹر زمین صرف 4424 روپے میں دی گئی۔ جب کہ اس کا موجودہ مارکیٹ کی قیمت 1 لاکھ روپے فی مربع میٹر ہے۔ اس الاٹمنٹ سے گجرات کے فنڈ کو 203 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔گجرات ا سٹیٹ پیٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کے پیپا پاواو پاور پلانٹ کے 49 فیصد حصص سوان انرجی کو بغیر ٹیینڈر جاری کئے فروخت کردئے گئے۔ اس گھپلے میں سوان انرجی کو 12 ہزار کروڑ کا فائدہ ہوا جبکہ اس نے صرف 380 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔گجرات حکومت نے سن 2003، 2005، 2007، 2009 اور 2011 میں سرمایہ کاری کانفرنس کی تھی۔ زیادہ تر کمپنیوں نے بڑے شہروں کے پاس زمین طلب کی جو کہ بہت زیادہ مہنگی تھی۔ ریاستی حکومت نے ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اونے پونے دام پر یہ زمینیں الاٹ کر دی جبکہ اس کی نیلامی کی جانی چاہئے تھی۔
ستی ساوتری پارٹی ہونے اور مدھیہ پردیش میں ماموں بنے کا دعوی کرنے شیوراج سنگھ چوہان نے سنگھ ہستھ میلے میں سرکاری خزانے کوجم کر لٹایا۔ ایک مٹکا 800 روپے میں اور مجموعی طور مٹکا خریدنے کے مد میں پورے 16کروڑ خرچ کئے گئے، یہ،مٹکے کمہار کی دکان سے نہیں بلکہ موٹر پارٹس کی دکان سے خریدے گئے تھے۔اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت ایک تھرمس خریدنے کے لئے 1400روپے خرچ کئے۔ناشتہ کی ایک پلیٹ پر 1625روپے خرچ کئے۔یہ الزام کھوکھلے نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ اس دستاویزات ہیں۔ اسمبلی میں باقاعدہ اس سے منسلک کاغذات پیش کئے گئے۔اسی کے ساتھ بلیک لسٹیڈ کمپنی کو117کروڑ روپے کے ٹھیکے بھی دئے اور 35 ہزار ٹوائلٹ میں سے 40فیصد تو بنے ہی نہیں تھے لیکن ادایگی پوری ہوگئی۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیوندر فڑنویس 22مقدمات کے ساتھ وزیر اعلی ہیں۔ پارلیمنٹ میں  بی جے پی کے 97ممبران پارلیمنٹ داغی ہیں۔ کئی وزراء پر چارجز ہیں۔ ایک مرکزی وزیر پر راجستھان میں آبروریزی کا کیس ہے۔اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور اس کے نائب کیشو پرساد موریہ پر نصف درجن سے زائد سنگین مقدمات ہیں جس میں انہیں عمرقید تک ہوسکتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی ویاپم گھپلے میں ملوث ہونے کا الزام ہے، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی رمن پر چاول گھپلے میں ہزاروں روپے کی ہیرا پھیری کا الزام ہے، راجستھان کی وزیراعلی وسندھرا راجے پر للت مودی معاملے کے علاوہ کئی دیگر معاملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔اس کے علاوہ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلی اور اراکین اسمبلی میں بدعنوانی، جرائم اور دیگر مقدمات ہیں۔ بی جے پی پرنوٹ کی منسوخی سے قبل کروڑ روپے کی زمین کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے کا الزام ہے۔
 انٹرنیشنل ٹرانسپرینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۸۴۹۱سے ۸۰۰۲ت سیاست دانوں نے ۰۲ لاکھ کروڑ روپے بطوررشوت لی تھی۔ یہ رقم ہندوستان مجموعی پیداوار کا ۰۴ فیصد ہے۔۰۲ لاکھ کروڑ روپے کی اتنی خطیررقم ہے اگراس رقم کو ہندوستانی عوام پرخرچ کردی جاتی تو پورے ملک سے بھکمری، غریبی ختم  اور صحت  کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ انٹرنیشنل ٹرانسپرینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۵۷ فیصدعوام کسی نہ کسی صورت میں رشوت دیتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہندوستانی عوام کو اپنے کام کروانے کے عوض پانچ بلین ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بدعنوان ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کی خاصی ترقی ہوئی ہے۔گزشتہ برس ہندوستان کا مقام ۸۷ واں تھا جب کہ ۰۱۰۲ میں اس میں اضافہ ہوکر ۷۸ویں مقام پرپہنچ گیا۔ ہندوستان کو بدعنوانی میں نمایاں مقام دلانے میں گزشتہ سال منعقدہ دولت مشترکہ کھیل کا بھی بڑااہم کردار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کھیل کے  تیاریوں دوران ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کئے گئے جس میں ۵۷ ہزار کروڑروپے سیاست داں، افسر شاہی اور دیگر نے مل جل کرہضم کرلیا صرف ۵۲ ہزار کروڑ روپے کا کام ہوا تھا۔ آزاد ہندوستان کی عمرجو ں جوں بڑھتی جارہی ہے بدعنوانی اوررشوت خوری میں بھی ترقی ہورہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جہاں ۵۰۰۲ میں ۰۵ فیصد لوگوں نے اپنے کام کروانے کے بدلے رشوت دئے تھے وہیں ۰۱۰۲ میں رشوت دینے والے ہندوستانیوں کی تعدادبڑھ کر ۵۷ فیصد تک پہنچ گئی۔ اسی طرح ۵۰۰۲ میں پبلک سیکٹر کے آفس میں ملازمت  حاصل کرنے والے ۰۵ فیصد امیدوارکو رشوت دینی پڑی تھی۔ ہندوستان میں مال برداری اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے میں ٹرک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ٹرک مالکان کو ایک ٹرک پرمختلف جگہوں پر سالانہ اوسطاً اسی ہزارروپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں ٹرک مالکان کو سالانہ بطوررشوت پانچ بلین ڈالر ادا کرنی پڑتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی ادارے بھی اس وباسے پاک نہیں ہیں۔مذہبی ادارے میں سالانہ  ۸۶۰۱۲ کروڑ روپے رشوت لئے جاتے ہیں اور یہ رشوت خوری میں تیرہویں مقام پر ہیں پولیس سے صرف ایک مقام پیچھے۔ 
اس کے باوجود سی بی آئی نے بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نشانہ صرف لالو پرساد یادو کو بنایا۔سشیل کمار مودی نے بہار کو پانچ سو کروڑ روپے کا چونا لگایا تھا لیکن وہ بھی پاک صاف بچ نکلے، نتیش کمار نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ لالو کو صرف سیکولر ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ تمام سیکولر طاقتوں کے اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے ورنہ اگلا نمبر ان کا ہی ہوگا۔سیکولر طاقتیں بی جے پی کے اس کھیل کو سمجھیں،اس کا نشانہ صرف لالو پرساد یادو کا کنبہ ہی نہیں ملک کے سیکولر جماعت، سیکولر سوچ رکھنے والے، امن پسند اور یکجہتی کے علمبردار لوگ ہیں۔ 
abidanwaruni@gmail.com
9891596593, 9810372335

Comments