محکمہ آثار قدیمہ کی دلچسپی مسلم آثار و باقیات مٹانے میں زیادہ تحفظ میں کم


Thumb


مسلم آثار قدیمہ کی وہی حالت ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کو ایک گڑی پڑی چیز تصور کیا جاتاہے اسی طرح مسلم بادشاہوں کے بنائے ہوئے عمارتوں کو ہندوستان لائق تحفظ نہیں سمجھا جاتا۔ ملک کے عوام کے ایک طبقے کا نظریہ ہے کہ یہ غلامی کی نشانی ہے اسے جلد از جلد ختم تہ و بالا کردیا جانا چاہئے۔ اس طبقہ نے مسلم بادشاہوں کی تعمیر کردہ مساجدو مقابر، درگاہ، قلعے اور محلات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پورے ملک میں گھوم جائیں جتنے بھی مسلم بادشاہوں کی تعمیرات ہیں چاہے وہ گولکنڈہ ہو یا یا گلبرگہ، یا ویلور کا قلعہ ہو، یا اوگیری کا قلعہ، پرانا قلعہ ہویا تغلق آباد کا قلعہ، لودی گارڈن کے مقابر و مساجد ہوں یا قلعے ہوں، بیگم پور کی مسجد یا سری فورٹ کے احاطے میں قدیم عمارتیں ہر تاریخی عمارتوں کے بارے میں محکمہ آثار قدمہ کا یہی رویہ نظر آتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں کو اس لئے دھماکہ کرکے اڑا دیا کہ یہاں جنگ کی آزادی کی تحریک اٹھی تھی۔ اس کی مثال اکبری مسجد ہے جہاں مجاہدین آزادی قیام کرتے تھے اور انگریزوں کے خلاف لڑنے کیلئے حکمت عملی طے کرتے تھے۔ 1857کی جنگ آزای کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے ہر جگہ کو مسمار کردیا یا تالا لگادیا تھا جہاں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف منصوبہ بندی کی تھی۔ لال قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان کئی تاریخی عمارتیں تھیں جسے انگریزوں نے مسمار کردیا۔ آزادی کے بعد سیکولر ملک نے اسے خالص مسلمانوں کا سمجھ کر اسے نظرانداز کردیا۔ تاج محل اور لال قلعہ پر اس لئے توجہ دی گئی کیوں کہ لال قلعہ ہندوستان کی آزادی کی علامت ہے اور اس کے فصیل پر ہر سال 15 اگست کو ہندوستان کے وزیر اعظم ترنگا لہراتے ہیں۔ تاج محل میں سیاحوں کی کثیر تعداد میں آمد کی وجہ سے اسے نظر انداز نہ کرسکے اور ہزاروں کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی اور بیرونی زرمبادلہ کا سبب بھی ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا رویہ اس کے تئیں سخت رہا اس لئے اسے نظر انداز کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ آثارقدیمہ کے تئیں ہندوستانی حکومت کی بے حسی کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ 1857کے بعدسے لال قلعہ کے ایک بڑے حصے پر فوج کا قبضہ تھا ادھر چند سال قبل دہلی کے لال قلعہ کو فوج سے خالی کرایا گیا ہے۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر کے الہ آباد کے قلعہ میں اب بھی فوجیوں کا بسیرا ہے۔ یہ مسلم آثار قدیمہ کے تئیں ہندوستانی حکومت کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا متعصبانہ چہرہ ایک بار ہزاروں بار سامنے آیا ہے لیکن سیکولر حکومت کے سرپر جوں تک نہیں رینگتی۔ مسلم بادشاہوں کی تعمیر کردہ مساجد و مقابر اور تاریخی عمارتوں سے نفرت اسے مٹانے کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ محکہ آثارقدیمہ کو مسجدوں میں گائے باندھنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، غیر سماجی کام کرنا اور مقامی باشندوں کا قبضہ کرنا منظور ہے لیکن مسلمانوں کا نماز قطعی گوارہ نہیں ہے۔  ہندوستان میں شاید ہی کوئی مندر ہو جس میں پوجا کی اجازت نہ ہو لیکن مسلم بادشاہوں کی جتنی بھی تاریخی مساجد ہیں چند کو چھوڑ کر اس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔لال قلعہ، پرانا قلعہ، آگرہ کا قلعہ اور لودی گارڈن کی لودی خاندان کی تعمیر کردہ مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی مسجد کا احترام کیا جاتا ہے۔ سیاح،سیرو تفریح اور عاشق جوڑے مسجد کی حرمت کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ 



سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ آثارقدیمہ کے تئیں بہت بے حسی پائی جاتی ہے اور اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آثارقدیمہ کو ہندو مسلم کے خانے میں بانٹ دیا گیاہے۔ ہمارے یہاں آثار قدیمہ کے بارے میں آگہی کی بہت کمی ہے اس کے علاوہ بد امنی بھی اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پتھروں پرکندہ تحریریں، نقش و نگار یا دیگر نوادرات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، انہیں مٹانا یا ضائع کرنا اپنی تاریخ، تہذیب اور اپنی پہچان مٹانے کے مترادف ہے۔ جس طرح محکمہ آثار قدیمہ نے قطب مینارکی جدید کاری کے دوران اس کے آثار کو مٹانے کی پوری کوشش کی۔ اس سے پہلے پتھروں پر قرانی آیات کندہ تھے لیکن محکمہ اسے ہٹاکر ڈیزائن والا پتھر لگادیا۔ یہ صحیح معنوں مسلم آثار مٹانے کے برابر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کے تاریخی آثاریات کا دور صحیح معنوں میں تیسری صدی ق م سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل دو یا تین صدیوں کی بعض باقیات بھی دستیاب ہوئی ہیں۔ ٹکسیلا (پاکستان) اور راجگی میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے بعد جو آثار ملے ہیں ان سے تیسری صدی ق م کی تاریخ ہند پر روشنی پڑتی ہے۔ جن مقامات پر کھدائی کی گئی ہے ان میں منجملہ اور مقامات کے شمال مغرب کے علاقہ میں ٹکسیلا اور گاندھارا کے مقامات شمالی ہند میں صوبہ بہار میں نالندہ اور راجیگر، پاٹلی پترا (پٹنہ)، لوریہ، نندن گڑھ (چمپارن) اور بساڑھ، (ویشالی ضلع مظفر پور)، صوبہ اتر پردیش میں راج گھاٹ اور سارناتھ (بنارس، اہی چھترا(بریلی)، بھیٹہ اور کوسامبی (الٰہ آباد)، سابیٹھ ماہیٹھ (شراوستی ضلع بہرائچ)، کسیایا کشی نگر (دیوریا)، اور متھرا، صوبہ مغربی بنگال میں بانگڑھ، (دیناجپور)، بنگلہ دیش میں پہاڑ پور (راج شاہی)، اڑیسہ میں ششو پال گڑھ (پوری)، آندھرا پردیش میں ناگر جو ناکنڈا (گنٹور) اور کونڈاپور (میدک) پانڈیچیری میں اریکامیڈو، صوبہ کرناٹک میں برہمگیری (چتل درگ) وغیرہ مندروں اور خانقاہوں کے کھنڈر، بدھ کی مورتیاں، استوپوں کے آثار، مجسمے، زیورات، سکے اور دیگر مختلف اشیا شامل ہیں جن سے ملک کے مختلف ادوار کی سماجی، تہذیبی سیاسی اور معاشی تاریخ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
یہ بات صرف دہلی تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک گیر سطح پر محکمہ آثار قدیمہ کا رویہ کم و بیش یکساں ہے۔مہاراشٹر کے قلعہ "اودگیر" کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ یہ شہربہمنی سلطنت، مراٹھا حکومت اور نظام حکومت کے زیر اقتدار رہ چکا ہے۔ تین سلطنتوں کا گواہ یہ تاریخی قلعہ آج حکومت کی بے حسی کا شکار ہے۔مسلم بہمنی بادشاہ نے1493 میں اس قلعہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس قلعہ میں بہمنی سلطنت کے ساتھ ساتھ نظام کی بھی حکومت رہی اور ہر دور میں قلعہ کو تعمیری لحاظ سے سنوارا گیا۔قلعہ کی اہم عمارتوں میں دیوان عام، دیوان خاص،چینی محل،رانی محل۔ حمام خانہ اور مسجد شامل ہیں۔اس کے علاوہ قلعہ میں 15 سرنگیں بھی موجود ہیں جو دور دراز کے شہروں جیسے بیدار اور بھا لکی تک جڑی ہوئی ہیں۔ مالویہ نگر کے بیگم پور کی مسجد،ویلور کا قلعہ، جہاں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے البتہ مندر میں پوجا کی اجازت ہے۔ تاریخی مقامات کے نام پر مسلمانوں کی جائیدادوں پر محکمہ آثار قدیمہ نے جبری قبضہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حکومت اور دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے ذریعہ سماجی کاموں کے لئے وقف کی گئی جائیدادوں کی حفاظت کرنے کا کام دہلی میں دہلی وقف بورڈ کا ہے۔ لیکن وہ بھی مسلمانوں کی عبادتگاہوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بورڈ کی آمدنی کے نام پر غیر مسلموں کو کروڑوں کی زمین کوڑیوں کے قیمت میں دے کر نمک خواری کا حق ادا کیا جارہاہے۔مجموعی طور پر پورے ملک میں مسلم آثار قدیمہ کو مٹانے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ ہندوستان میں مسلم باقیات کا کوئی نام و نشان نہ رہے۔ 
کھڑکی گاؤں کی مسجد بیگم پور،مسجد یوسف قتال، بیگم پور کی مسجد شیخ فرید بخاری، ان مسجدوں سے متصل مقبروں، مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص،مسجد قاضی والی پہاڑ گنج، مسجد نواب شرف الدولہ دریبہ اور دیگر کئی مسجدیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کئی مسجدوں کو رہائشی مکانات میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کئی مسجدوں کی عمارتوں سے متصل رہائشی مکانات اور تجارتی ادارے بن گئے ہیں۔ مسجد یوسف قتال، مقبرہ شیخ فرید بخاری،مسجد محمدی سیری فو رٹ آڈیٹوریم، قلعہ علاو الدین وغیرہ کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اول الذکر دو مسجدوں اور مقبروں کے صحن میں لوگ رفع حاجت کے لئے جاتے ہیں اور کئی دوسری مسجدوں میں گائے بیل کے گوبر اور اپلے تھاپے جاتے ہیں۔سیری فورٹ آڈیٹوریم سے متصل مسجد محمدی کی چھت، جو اپنے زمانے میں انتہائی شاندار رہی ہوگی،گرنے والی ہے اور اس کا فرش تباہ ہو گیا ہے۔کئی مسجدیں ایسی ہیں جن میں غلط کار لوگوں کا ہجوم رہتا ہے جو مسجد کے تقدس کو نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے پامال کرتے ہیں۔اسی طرح شری اربندو مارگ پر واقع فیروز شاہی مسجد میں بھینسیں باندھی جاتی ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کے تحت آنے والی بیشتر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ صرف چند ہی ہیں جن میں نماز ہوتی ہے۔ ان میں مسجد شاہ جہانی (جامع مسجد)، مسجد خیر المنازل، مسجد صفدر جنگ، مسجد عبد النبی اور مسجد فیروز شاہ کوٹلہ قابل ذکر ہیں۔سینکڑوں سال پرانی مسجد جمالی کمالی مہرولی میں وہاں کے مسلمان بہت دنوں سے نماز کی ادائیگی کی کوشش کر رہے تھے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے وہاں نماز کی شروعات کی تو محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے ان کو نہ صرف روک دیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو گئی تھی۔


ویلور قلعہ کی تعمیر 16 ویں صدی میں وجیا نگر سلطنت کے بادشاہوں چننا بمی ریڈی اور تمما ریڈی کے دور حکومت میں سن 1566 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعہ کی ملکیت وجیا نگرہ سلطنت کے بادشاہوں سے ہوتے ہوئے، بیچابور سلطان، مراٹھا اور بعد میں آرکاٹ نوابوں اور آخرکار برٹش حکمرانوں کے ہاتھ چلا گیااور یہ قلعہ ہندوستان آزاد ہونے تک برٹش حکمرانوں کے قبضہ میں رہا۔ اس کے علاوہ اس قلعہ کی خصوصیت اس سے بڑھ جاتی ہے کہ برٹش دور حکومت میں ٹیپو سلطان کے خاندان کو شاہی قیدیوں کے طور پر اسی ویلور قلعہ میں بند کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ برٹش حکومت نے اسی ویلور قلعہ میں سری لنکا کے آخری بادشاہ سری وکرما راجا سنگھا کوبھی قید میں رکھا گیا تھا۔ جب 1799 کی جنگ، جس میں ٹیپو سلطان انگریز وں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، اور سری رنگا پٹنم برٹش حکمرانوں کے قبضہ میں چلا گیا، اس کے بعد شہید ٹیپو سلطان کے خاندان جن میں ان کے بیٹے، بیٹیاں اور شہید ٹیپو سلطان کی بیوی اور سلطان حیدر علی کی بیوہ کو اسی ویلور قلعہ میں مقید رکھا گیا۔ ویلورمیں موجود مذکورہ عظیم الشان قلعہ کے اندر موجود مسجد کی تعمیر  1750 سے قبل نواب آف آرکاٹ کے آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی، مسجد کے دیورایں گرانائیٹ پتھر اور چونے اور اینٹوں کے مرکب سے تعمیر کی گئی ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس قلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا، اس وقت مسجد میں نماز نہیں ادا کی جاتی تھی۔ لہذا آثار قدیمہ کی جانب سے آج بھی اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے پر پابندی بر قرار ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضرور ی ہے کہ جب آثار قدیمہ نے 1921 میں ویلورقلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا، اس وقت اس قلعہ میں موجود جلا گنڈیسور مندر میں بھی پوجا نہیں ہور ہی تھی۔لیکن اب ہورہی ہے۔ مہاراشٹر کا شہر اودگیر، علاقہ دکن کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ یہ شہربہمنی سلطنت، مراٹھا حکومت اور نظام حکومت کے زیر اقتدار رہ چکا ہے۔ ۳ سلطنتوں کے زیر اقتدار رہنے والا یہ تاریخی قلعہ آج حکومت کی بے توجہی کا شکارہے۔مسلم بہمنی بادشاہ نے1439   میں اس قلعہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس قلعہ میں بہمنی سلطنت کے ساتھ ساتھ نظام کی بھی حکومت رہی اور ہر دور میں قلعہ کو تعمیری لحاظ سے سنوارا گیا۔قلعہ کی اہم عمارتوں میں دیوان عام، دیوان خاص،چینی محل،رانی محل، حمام خانہ اور مسجد شامل ہیں۔اس کے علاوہ قلعہ میں 15سرنگیں بھی موجود ہیں جو دور دراز کے شہروں جیسے بیدار اور بھا لکی تک جڑی ہوئی ہیں۔قلعہ میں دو گہری خند قیں بھی تھیں جنہیں بند کر دیا گیا ہے۔ 
ساڑھے پانچ سو سال قبل زرعی اصلاحات کرنے والے شیر شاہ نے سہسرام سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جرنیلی سڑک کی تعمیر کروائی تھی اور اس کے کنارے کنارے سایہ دار اور پھل دار اشجر لگوائے، سرائیں تعمیر کروائیں اور سب سے پہلا ڈاک کا نظام نافذ کیا تھا۔مقبرہ سے متصل بھی کئی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا، پٹنہ سرکل کی سپرینٹینڈنگ آرکیولوجسٹ ڈاکٹر ارمیلا سنت کے مطابق حالت یہ ہے کہ اس تاریخی عمارت کے لئے سانس لینے کی جگہ بھی نہیں بچی۔محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ضلع انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مقبرہ کی حالت بد تر ہوئی ہے۔وہاں مورتیاں ڈبونے کی وجہ سے کافی گندگی پھیلی رہتی ہے۔ مقبرے کے احاطے میں مندر بنادیا گیا ہے۔دہلی کی وراثت کہے جانے والا پرانا قلعہ واقع قلعہ کہنہ مسجد کی تعمیر 1541 میں شاہ شیر شاہ سوری نے کروائی تھی۔ اس مسجد کے نام کا مطلب ہے ’پرانے قلعے کی مسجد‘ اس کا استعمال بھی اس وقت کے لوگ نماز پڑھنے کے لئے کیا کرتے تھے۔ جدید ترین سجاوٹ والی اس مسجد میں خوبصورتی کے لئے سفید اور کالے سنگ مر مر کا استعمال، لال اور پیلے بلا بلوا پتھر میں جڑاؤ کام کے لئے کیا گیا۔ اس مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ہی اس دور کے بادشاہوں نے اس کی خوبصورتی کے لئے پتھر کی نقاشی اور ٹائیل کا استعمال کیا۔ کافی تعداد میں جھروکوں، سجاوٹی کھڑکیوں اور پچھلی دیوار کے کونوں پر بنے گنبد اس کی خوبی ہے۔ عبادت گاہ کی لمبائی 51 میٹر اور چوڑائی 15 میٹر ہے، اگلے حصے کا مرکزی حصہ 16.5 میٹر ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے حال ہی میں اپنا 150 واں یوم تاسیس منایا ہے۔ یوم تاسیس کے موقع پر پرانا قلعہ کے باہری حصوں اور مہارانی کنتی کے مندر میں بھی شاندار روشنی اور خاص صفائی کی گئی تھی۔ لیکن قلعہ کہنہ مسجد میں نہ تو روشنی کی گئی اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی صفائی وغیرہ کرائی گئی۔ 
ہندوستانی آئین نے ہر شہری کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق دیا ہے۔ آئین میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی کا بھی حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ پرانا قلعہ مسجد‘ میں نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ لیکن وہیں چند قدم کی دوری پر پانڈوؤں کی ماں مہارانی کنتی کا مندر ہے جس میں روزانہ پوجا ہوتی ہے۔ تاریخی مقامات کے نام پر مسلمانوں کی جائیدادوں پر محکمہ آثار قدیمہ نے جبری قبضہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حکومت اور دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے ذریعہ سماجی کاموں کے لئے وقف کی گئی جائیدادوں کی حفاظت کرنے کا کام دہلی میں دہلی وقف بورڈ کا ہے۔ لیکن وہ بھی مسلمانوں کی عبادتگاہوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بورڈ کی آمدنی کے نام پر غیر مسلموں کو کروڑوں کی زمین کوڑیوں کی قیمت پر دے کر ذاتی مفاد حاصل کرنے میں لگا ہے۔ 
abidanwaruni@gmail.com
9810372335

Comments