بہار میں جوں جوں الیکشن قریب اپنے مرحلے کی جانب بڑھ رہا ہے لیڈروں کی زبان خراب ہوتی جارہی ہے۔ پہلے مرحلہ کا الیکشن سیکولر محاذ کے لئے حوصلہ افزا رہا ہے کیوں کہ گزشتہ انتخابات میں سیکولر محاذ کو ستر سیٹوں میں سے پچاس سے زائد سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور بی جے پی کو محض 16نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اس بار بھی اسی طرح کے نتائج آنے کی امید ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں جنتا دل متحدہ، آر جے ڈی اور کانگریس ایک ساتھ مل کر انتخاب لڑی تھی لیکن اس بات جنتا دل بی جے پی کے ساتھ ہے لیکن معاملہ اس بار یہ ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو میں تال میل کا فقدان ہے بلکہ معاملہ یہاں تک نظر آرہا ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہیں اور ایک دوسرے کو ہرانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ غیر معلنہ طور پر بی جے پی نے نتیش کمار کے ایک کنارے لگانے کا اشارہ دے دیا ہے اور چراغ پاسوان کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نتیش کمار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چراغ پاسوان نے جے ڈی یو کے مقابلے میں بیشتر مقامات پر اپنے امیدوار اتارے ہیں اور بہت سے امیدوار بی جے پی چھوڑ کر ایل جے پی میں لائے گئے ہیں یا بھیجے گئے ہیں۔جو لوگ بی جے پی چھوڑ کر ایل جے پی کو جوائن کیا ہے اس کا مقصد صاف ہے وہ بی جے پی کا سہارا بننا چاہتے ہیں اور ان کی کوشش بی جے پی بہار میں وزیر اعلی کی کرسی بی جے پی کے حوالے کرنا ہے۔ یہ بات اب نتیش کمار کو بھی سمجھ آگئی ہے۔ بی جے پی اپنے اشتہارات میں صرف نریندر مودی کا چہرہ استعمال کر رہی ہے اور ان کے اشتہارات میں جے ڈی یو کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ہے جب کہ جے ڈی یو کے اشتہارات میں نریندر مودی سمیت بی جے پی کے لیڈران کا چہرہ ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے عملاً نتیش کمار کو کنارے لگادیا ہے۔ بہار کے لیڈروں میں نتیش کمار کے تئیں کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔ بی جے پی کے لیڈران علی الاعلان کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے اور یہ بات جے ڈی یو کے لیڈران بھی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد ریلیوں میں نتیش کمار بوکھلائے ہوئے نظر آئے اور کئی ریلیوں میں اپنی انتخابی تقریر کے دوران تمام حدود کو پار کرتے نظر آئے۔ ورنہ وہ کبھی اس طرح کی زبان کا استعمال نتیش کمار نے نہیں کیا تھا۔ گالی گلوج، بدتمیزی، غلط بیانی، غلط تاریخ پیش کرنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا،کردارکشی کرنا، ذاتی رکیک حملے کرنا اور خاندان تک کو بدتمیزی کا نشانہ بنانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پی ایچ ڈی ہے۔ پوری انتخابی تاریخ اس کی بین مثال اور جیتا جاگتا مثال ہے۔ اس کے ادنی لیڈر سے لیکر وزارت عظمی جیسے باوقار عہدے پر بیٹھے شخص تک انتخابی قانونی شکنی اور کردارکشی کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹی کی لاکھ کوششوں کے باوجود بہار میں جذباتی موضوع کام نہیں کر رہا ہے یہ ایک اچھی بات ہے اور اگر یہ آخر تک قائم رہا تو بہار کی قسمت بدل سکتی ہے۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں ترقی کے نام پر کچھ سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ وہ بھی زیادہ تر سڑکیں متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دوران بنی ہیں۔ نتیش کمار حکومت نے قومی شاہراہوں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال کر دکھا دیا۔ وہاں نہ تو کوئی فیکٹری لگائی اور نہ ہی بند چینی ملوں کو چالو کیا گیا اورنہ ہی رفوڈ پروسیسنگ کی کوئی یونٹ لگائی گئی ہے۔ نتیش کمار نے آسانی یہ بنادیا کہ کیوں کہ یہاں سمندر نہیں ہے اس لئے یہاں کارخانے نہیں لگائے گئے۔ ہندوستان میں متعدد ریاستیں ہیں جہاں سمندر نہیں ہیں لیکن وہ ترقی یافتہ ریاست ہے۔ بہار میں کسانوں، مزدورں کا استحصال عام بات ہے۔ منڈی سسٹم ختم کئے جانے کی وجہ سے کسانوں کو آدھے دام میں اپنے اناج کو فروخت کرنا پڑتا ہے لیکن سرکاری طور پر ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ بہار آبپاشی کا نظام بربادکردیا گیا۔ پانی کے بہاءؤ کو روک دیا گیا جس کی وجہ سے بیشتر شہر اب ڈوبنے لگے ہیں۔ ندیوں اور نہروں کو برباد کردیاگیا ہے اور وہ سب گاد سے پٹ گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے تھوڑا بھی پانی آتا ہے ندیاں اور نہریں ابلنے لگتی ہیں۔
بہار میں اگر تھوڑی بہت ترقی یا لوگوں میں خوش حالی نظر آرہی ہے تو ان کا سہرہ ان بہاری مزدورں کے سر جاتا ہے جو بیرون ریاست مزدوری کرکے اور نہایت خستہ حالت میں اپنی زندگی گزار کر اپنے خاندان کے لئے آمدنی کا بیشتر حصہ روانہ کرتے ہیں جس کی وجہ ان کے خاندان کی قوت خرید بڑھی ہے۔لوگوں کے معیار میں بھی تبدیلی آئی ہے اور کچھ بہتر پہن اور اوڑھ پارہے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس سے پختہ کا مکان بھی بنوایا ہے۔ مسٹر نتیش کمار کو بہار کو ترقی کی پٹری پر ڈالنے کے لئے پورے پندرہ سال وقت ملا۔ وہ اپنے منصبوبے کوپوری قوت کے ساتھ نافذ کرسکتے تھے۔ صحیح معنوں میں کوئی اپوزیشن بھی نہیں ہے جو روڑے اٹکائے گی اور اب بہار حکومت ہر طرح کے قوانین وضع کرنے، اقلیتوں کے فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے کے لئے آزاد ہے۔بہار میں بی جے پی کی حمایت سے نتیش کی حکومت بننے کے بعد حالات بدترین ہوں گے، جو کچھ ہریانہ، جھارکھنڈ اور راجستھان کی سابقہ بی جے پی حکومت میں میں ہورہا تھاوہ بہار میں دہرایا گیا۔ نتیش حکومت نے آر ایس ایس کے زمین تیار کردیتھی اور بی جے پی کی نفرت انگیز مہم لوگوں کے گھروں اور گاؤں دیہات تک پہنچ گئی ہے۔ اب اس پر عمل ہونا شروع ہوا اور اس پر بہار حکومت، میڈیا، عدلیہ اور مقننہ خاموشی اختیار کررکھی تھی۔ عوام پستے رہے اور بی جے پی والے تالیاں بجاتے۔سب سے بڑا امتحان مسلمانوں کا ہواہے اور آزمائش میں مبتلا بھی مسلمان ہی ہوئے ہیں۔ خفیہ ایجنسی سیمانچل خطے کے بارے میں پہلے ہی اپنی من گھڑت رپورٹ پیش کرچکی ہے۔وہاں کے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے اسکرپٹ تیار کی جاچکی ہے اب اس پر عمل کرنا باقی ہے۔ جو کچھ بھی ہو لیکن یہ ہندوستان کے لئے اچھا نہیں ہے اور ملک تباہی کے دہانے پرپہنچے گا اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے کوئی مسلمان، سکھ یا عیسائی نہیں ہوں گے بلکہ اکثریتی طبقہ ہوگا۔
بی جے پی ہمیشہ ووٹوں کی تقسیم سے ہی فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ خواہ اس کے لئے انہیں جذبات بھڑکانا پڑے یا قتل عام کرناپڑے یا قاتلوں کی حمایت کرنی پڑی۔ بہار میں جب برہمیشور مکھیا کا قتل ہوا تھا تو اس وقت برہمیشورمکھیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظر میں گاندھی نظریہ کے حامل شخص تھایہی وجہ تھی کہ بی جے پی کے لیڈران ان کی شان میں رطب اللسان تھے۔ بہار کے مویشی پروری کے سابق وزیر اور اس وقت مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے انہیں گاندھی نظریہ کا حامل قرار دیا جس کی وجہ سے مذکورہ وزیر کے خلاف بھاگلپور میں مقدمہ درج ہوگیا تھا۔ وہیں بی جے پی کے رہنما راجیو پرتاپ روڈی نے برہمیشورکو عظیم انقلابی اور ترقی کا سفیر بتاتے ہوئے صحیح معنوں میں انہیں کسانوں اور مزدوروں کے خیر خواہ قراردیا اور دلیل پیش کی کہ مکھیا کتنے مقبول تھے اس کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس میں امڈآئے عوامی سیلاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برہمیشور کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی گئی تھی۔ برہمیشور مکھیا کی یاد میں برہمن فیڈریشن کی طرف سے جلسہ تعزیت کا انعقاد کیا گیا تھا برہمن فیڈریشن کے اس وقت کے صوبائی صدر راج ناتھ مشرا نے اس موقع پر صدر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہار نے ایک ہنرمند کسان لیڈر کھو دیا ہے۔برہمن سماج نے مکھیا کو انسانیت کے کام کرنے والے قراردیا۔ بہار میں اعلی اورادنی ذات کے درمیان کس قدر کھائی ہے۔ بی جے پی اور برہمنوں کے ان جملوں سے سمجھا جاسکتاہے۔انسانیت کے اتنے بڑے قاتل کی حمایت میں اتنے لوگوں کاسڑکوں پراترنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہار میں اب انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ جنگل راج اپنا آہنی پنجہ گاڑچکا ہے اور یہاں کمزور طبقوں کو انصاف نہیں ملتا ہے۔ اس وقت نتیش کمار نے ان لوگوں کے خلاف
کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ کیوں کہ نتیش کمار اس وقت بی جے پی سے شیروشکر کی طرح ملے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ہندوستانی جمہوریت میں ”جس کی لاٹھی اسی کی بھینس“ کی کہاوت کو ثابت کرتا ہے۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں جرائم پیشہ افراد نے جرائم کی دنیا ترک کرکے سیاست میں قدم رکھا ہے کیوں کہ یہاں باعزت طریقہ سے ڈکیٹی کی جاسکتی ہے، دھوکہ دیا جاسکتا ہے، سرکاری فنڈ کا خرد برد کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بہار کے حالیہ انتخاب میں جرائم پیشہ افراد کی میگا تعداد بتارہی ہے۔بی جے پی اور نتیش کمار کے دوران حکومت میں بہار اسمبلی کے243ارکان میں سے 141 ارکان ایسے تھے جن پر مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں کیوں کہ ان ممبران نے اپنے حلف نامے میں یہ سب باتیں درج کی ہیں۔ اس بار مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ممبران کا اسمبلی میں جلوہ رہے گا۔60فیصد ممبران داغی ہیں۔ 141میں سے85ممبران ایسے تھے جن پر سنگین الزامات جیسے قتل اورغیر ارادتاً قتل یا قتل کی کوشش کا مقدمہ درج تھے۔141 ممبران میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 85 اور جنتا دل متحدہ کے بھی 85 ہیں یعنی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے ایسے ممبران کی تعداد 116 ہے۔ گزشتہ اسمبلی ایسے ارکان کی تعداد 117 تھی۔ 116 میں سے نو ممبران اسمبلی ایسے ہیں جن پر سب سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ اس کے علاوہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کی فہرست میں سبھی پارٹیوں کے ممبران اسمبلی شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں امن و قانون کی صورت حال کتنی بہتر ہوئی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں بھی تقریباَ 141ممبران اسمبلی داغی ہیں جن میں کوئی نہ کوئی کیس چل رہا ہے۔بی جے پی کی مرکزی کابینہ میں ایک تہائی وزیر پر مجرمانہ مقدمات درج ہیں لیکن ان میں سے کسی سے استعفی طلب نہیں کیا گیا ہے۔
اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کی بہت اہمیت ہے۔ مسلمان جس پارٹی کو بھی یکطرفہ طور پر ووٹ دیں گے حکومت اسی کی بنے گی۔اسی لئے تمام سیاسی پارٹیوں اس نظریہ سے سوچ رہی ہیں اور بی جے پی اس فکر میں غلطاں ہے کہ مسلم ووٹوں کو کیسے تقسیم کیا جائے۔اس کے لئے اس نے مختلف سیاسی پارٹیوں سے ساز باز کرکے امیدوار کھڑے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔مردم شماری کے مذہب کی بنیاد پر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار میں مسلمان آبادی قریب 17 فیصد سے زائدہے اور ریاست کے آئندہ اسمبلی انتخابات کو لے کر اس طبقے پر خاص طور سے نظریں ٹکی ہیں۔ بہار میں مسلمان آبادی کسی ایک خاص علاقے میں نہیں، بلکہ تقریبا پورے ریاست میں منتشر ہے۔ اس آبادی خاصیت انہیں انتخابات کی بساط پر بہت اہم بنا دیتی ہے۔ ریاست کی 243 اسمبلی حلقوں میں سے تقریباً 50 اسمبلی سیٹوں پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن مانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 18 سے 74 فیصد تک ہے۔ بہار میں انتخابی سرگرمی ہر دن تیز ہو رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم از کم اسمبلی میں 40 مسلمان نمائندہ ہونے چاہئے۔ لیکن انتشار کی وجہ سے اس سے نصف مسلمان نمائندے ہی اسمبلی تک پہنچ پاتے ہیں۔اس بار بہار اسمبلی انتخاب سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں اس روزگار، نوکری، ترقی اور تعلیم اہم موضوع ہے اور اگر اسی پر ووٹنگ ہوئی تھی بی جے پی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ صرف لاک ڈاؤن کے دوران مشکلات کو ہی عوام یاد رکھ لیں تو بہار کے عوام بی جے پی وہیں پہنچادیں گے جہاں سے آئی تھی۔
Comments
Post a Comment