عابد انور
کشمیرکوسرکاری طور پر جیل میں تبدیل ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس عرصے میں کشمیریوں کی زندگی جہاں بدل گئی وہیں یہاں کے عوام کی گندی ذہنیت، فسطائی چہرہ، کشمیریوں سے نفرت،کشمیری لڑکی پر گندی نظر، کشمیریوں کو سزا دینے کا نظریہ، وہاں کی اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے،کشمیریوں کے سارے حقوق سلب کرنے، مختلف آپریشن کے نام پر کشمیریوں کا قتل، تعلیم کو برباد کرکے کشمیری بچوں کے مستقبل کو تاریک بنانے، کشمیر کے تمام محکموں کے اہم عہدوں سے کشمیریوں کا انخلاء، گورنر ہاؤس میں غیر کشمیری افسران کا جم گھٹا، مسلم اکثریتی صوبہ میں غیر مسلم افسران کا دبدبہ اور وہاں کی ہنڈلوم صنعت اور سیاحت صنعت کو برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔اسی کو ہندوستانی حکومت نے ترقی کا نام دیا ہے۔ یہاں کے وزرائے اعلی سے لیکر مرکزی وزراء تک کشمیرکی تصویر اور تقدیر بدل دینے کی بات کرتے نہیں تھکتے۔کشمیر کے بارے میں کشمیریوں کو بولنے کی اجازت نہیں ہے لیکن غیر کشمیری کا لن ترانی کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ وہاں کی اقتصادیات کو چالیس ہزار کروڑ سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ مسلسل ایک سال سے لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے کشمیریوں کی حالت، سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور صحت کے لحاظ سے بہت خراب ہوچکی ہے۔مرکزی حکومت کشمیریوں کی اس قدر ہمدرد ہے اور اس کے آرام و آسائش کا اس قدر ہے کہ خیال ہے کہ جموں و کشمیر میں جتنے ٹنڈر دئے گئے ہیں وہ ستر فیصد غیر کشمیریوں کو دئے گئے ہیں۔ کشمیریوں کی نفسیاتی صورت حال اس قدر بدل چکی ہے کہ بچے کیا، بوڑھے کیا، جوان کیا، بہت بڑی تعداد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔ پچاس ہزار سے زائد ہاف ویڈوز ہیں جن کی زندگی جہنم بن چکی ہے، وہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مرچکے ہیں انہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔صرف شہری علاقوں میں سو سے زائد مکانات کو سیکورٹی فورسیز جنگجوؤں کے چھپنے کے شبہ میں ڈائنامیٹ اڑا چکے ہیں۔دیہاتی علاقوں میں یہ تعداد سے زیادہ ہے۔ صرف ایک دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے دوران جب کہ یہاں ساری ضروری خدمات جاری تھیں،لوگوں کا برا حال ہوگیا، سیکڑوں لوگ بھوک سے مارے گئے، سیکڑوں لوگ پیدل چلتے ہلاک ہوگئے،درجنوں کو خواتین کو سڑکوں پر بچوں کو جنم دینا پڑا۔لاکھوں لوگ دانے دانے کو ترس گئے، سیکڑوں لوگوں نے خودکشی کی اور اب بھی روزانہ درجنوں افراد بھوک اور مالی تنگی کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں، کشمیریوں کے بارے تصور کیجئے کہ وہ گزشتہ ایک سال سے محصور ہیں، لاک ڈاؤن میں ہیں، بندوق کے سائے میں ہیں، ہر دروازے پر سیکورٹی فورسز کا پہرا ہے۔ انٹرنیٹ بند تھا بہت مشکل سے ٹو جی شروع ہوا ہے لیکن اس کی اسپیڈ اتنی کم ہے کہ کام کرنا، آن لائن کلاس کرنا بہت مشکل ہورہا ہے۔اسٹڈی میٹریل ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکتے۔ دوائی کے لئے گھرسے نکلیں تو گولی مارے جانے کا خوف، جیسا کہ کچھ روز بشیر احمد خاں کا ہوا جب وہ دوائی یا کھانالینے کے لئے گاڑی سے نکلا تھا، کنبہ کے مطابق سیکورٹی فورسیز نے گولی مار کر ہلاک کردیا اورجہاں اس کا ناتی اس سینے پر چڑھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دالخراش منظر کو پوری دنیا نے دیکھا تھا لیکن ہندوستانی حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا شایداسے طمانیت کا احسا ہوا ہوگا۔اس طرح کے دلخراش منظر گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد بار دیکھنے کو ملے لیکن یہاں کے لوگوں (کشمیر کے باہر کے لوگوں کا) دل نہیں پسیجا۔ہندوستانی عوام نے کشمیر کے 370کے بیشتر دفعات ختم کرنے اور 35اے ختم کرنے کو کشمیر کو فتح کرنے کی مانند تصور کیا۔ جس طرح کوئی بادشاہ حملہ کرکے کوئی ریاست کو فتح کرتا ہے اسی طرح مرکزی حکومت نے بھی کشمیریوں کے ساتھ کیا۔ سارے اختیارات کو چھین کر انہیں عملاً غلام بنالیا۔یہاں کے اکثریتی عوام نے اسی نظریے سے دیکھا اور جشن منایا۔ گزشتہ پانچ اگست کو رام مندر کی تعمیر کا شیلا نیاس اسی جشن کا حصہ تھا۔ کشمیر کو غلام بنانے کے لئے پانچ اگست کی تاریخ مقرر کی گئی تاکہ دہرا جشن منایا جاسکے۔ کشمیر کو بے دست و پا کرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چار اگست کو رپورٹیں جاری کی ہیں۔ دنیا کی دو بڑی انسانی حقوق کی تنظمیں امریکہ نشیں ہیومن رائٹ واچ اور برطانیہ نشیں ایمنسٹی انٹرنیسنل کی رپورٹ کاکچھ حصہ ذ یل میں پیش کر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی کے ایک سال بعد 5 اگست 2019 کو، حکومت ہند نے ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سختی اور امتیازی پابندیاں جاری رکھی ہیں۔ کووڈ۔19 کے وبا نے حکومت کے اظہار رائے کی آزادی، اور معلومات تک پہنچنے، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک کی غیر منصفانہ پابندیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔ 3 اگست 2020 کو حکومت نے آئینی خودمختاری کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ’پرتشدد مظاہروں‘ کو روکنے کے لئے دو دن کی پابندی کا حکم جاری کیا۔جموں و کشمیر کی خودمختار آئینی حیثیت کو کالعدم قرار دینے اور اسے دو مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد بدامنی کی پیش گوئی کرتے ہوئے، ہندوستانی حکومت نے تحریک آزادی، عوامی جلسوں، ٹیلی مواصلات کی خدمات اور تعلیمی اداروں پرمحدود پابندی عائد کردی اور ہزاروں افراد کو حراست میں لیا۔ تاہم، اگلے مہینوں میں، حکومت نے پابندیوں میں قدرے نرمی کردی، لیکن پھر بھی سیکڑوں افراد کو بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا، حکومت کے ناقدین نے دھمکی دی ہے کہ وہ گرفتاری اور انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کردے گی۔
”ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا،”جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی کے ایک سال بعد، ہندوستانی حکومت کا یہ دعوی کھوکھلا ثابت ہوا ہے کہ وہ کشمیریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ اس کے بجائے حکومت نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان پر سخت پابندیاں برقرار رکھی ہیں۔احتجاج کو روکنے کے لئے حراست میں لئے گئے ہزاروں افراد میں تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت تمام اہم سیاسی رہنما شامل تھے۔ پولیس نے عدالتوں کو بتایا کہ 144 بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ اگرچہ بیشتر گرفتار افراد کو رہا کیا گیا ہے، لیکن جموں وکشمیر اتحاد کی سول سوسائٹی نے حبس بے جا (کارپس)درخواستوں کی بنیاد پر کہا ہے کہ اب بھی 400 سے زائد افراد سخت حفاظتی ایکٹ کے تحت زیر حراست ہیں۔ یہ قانون بغیر سماعت کے لوگوں کو دو سال تک نظربند رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نئی گرفتاریوں، تشدد اور بدعنوانی کے متعدد الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ حکومت نے پرامن تنقیدوں کو دبانے کے لئے انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے سخت قوانین کا بھی استعمال کیا ہے۔ 29 جون، 2020 کو، حکومت نے تاجر مبین شاہ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا کیونکہ انہوں نے رہائشی اجازت نامے پر پابندی کو ختم کرکے جموں وکشمیر کے مسلم اکثریتی آبادی کو تبدیل کرنے کی حکومتی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اپریل میں، پولیس نے صحافیوں گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق اور فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف فوجداری تحقیقات کا آغاز کیا، اور یہ دعوی کیا کہ ان کی سوشل میڈیا پوسٹس یا رپورٹنگ ''ملک دشمن'' ہیں۔ 31 جولائی کو، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سابق ایڈیٹر قاضی شبلی سے پوچھ گچھ کی گئی اور انھیں تحویل میں لیا گیا۔“
اسی طرح”ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت فوری طور پر تمام سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور کارکنوں کو انتظامی تحویل سے رہا کرے، 4 جی موبائل انٹرنیٹ بحال کرے، جیلوں میں جموں و کشمیر میں صحافیوں پر حملوں کی بھیڑ کو کم کرنے اور فوری اور آزادانہ تحقیقات کا آغاز کرنے کے لئے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔“گذشتہ ایک سال کے دوران، حکومت ہند جموں و کشمیر کے عوام کے لئے انصاف کے حصول کے لئے منظم طریقے سے تمام راستے مسدود کررہی ہے۔ نمائندگی کا فقدان، انٹرنیٹ پر پابندیاں، ہندوستان کے سخت ترین قوانین کا من مانا استعمال، زبانی احکامات کی بنیاد پر نظربندی اور خاص طور پر کشمیر میں جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک سال کے دوران مقامی میڈیا کی روک تھام۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے کہا، لوگوں کی آوازوں کو ہم تک پہنچنے سے روکا گیا۔ایک درجن صحافیوں کے ساتھ انٹرویو اور نیوز رپورٹس - پرنٹ اور ڈیجیٹل اور انفارمیشن رائٹس پٹیشنز - کے ذریعے حقائق کی تصدیق کرنے کے ثبوت جمع کرنے کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے 5 اگست 2019 سے خطے میں ہندوستانی حکومت کی جابرانہ حکمت عملی پر دباؤ ڈالا ہے۔ اس نے اپنی 'صورتحال اپ ڈیٹ' سیریز کے ذریعے دستاویزات تیار کیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت ہند کو سلامتی سے متعلق قانونی طور پر تشویش ہوسکتی ہے، جس سے نمٹنے کے لئے، کچھ خاص حالات میں، اظہار رائے کی آزادی کے حق پر مناسب پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ لیکن یہ پابندیاں ہمیشہ ایک محدود مدت اور معمول کے تناسب کے مطابق ہونی چاہئیں، جیسا کہ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہد نامہ (آئی سی سی آر پی آر) کے آرٹیکل 19 میں کہا گیا ہے، اور اس معاہدے پر ہندوستان نے دستخط بھی کیے ہیں لیکن، بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ہندوستان نے گذشتہ ایک سال سے جاری مواصلاتی پابندیوں کی وجہ سے، کشمیر کی پوری آبادی کو آزادی رائے اور رائے کے حق سے محروم کردیا ہے۔ میڈیا کی سنسرنگ، سیاسی رہنماؤں کی لگاتار نظربندی اور وبا کے دوران بغیر کسی سماعت کے من مانی پابندیوں نے ان خلاف ورزیوں کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔سن 2020 میں پابندیوں میں کچھ ڈھیلی پڑ جانے کے باوجود، خطے سے باہر آنے والی اطلاعات پر حکومت کا تقریبا مکمل کنٹرول، جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) جیسے جابرانہ قوانین کے استعمال سے مضبوط بنایا گیا ہے۔مختلف ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا سے معلومات اکھٹا کرنے کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے پایا کہ متنوع سیاسی نظریات سے آنے والے کم از کم 70 سیاسی رہنماؤں کو انتظامی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ تاہم، مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں موجودہ حکمران جماعت سے وابستہ کسی بھی سیاسی رکن کی نظربندی کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ گرفتار افراد میں سے بیشتر کو رہا کردیا گیا ہے، لیکن ابھی بھی زبانی احکامات یا PSA جیسے جابرانہ قوانین کے تحت بہت سے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ آئی سی سی آر اور ہندوستانی آئین کے تحت منصفانہ تحقیقات اور عدالتی کارروائی کے ان کے حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ان کی رہائی کی شرائط کے تحت، کسی ایسے معاہدے پر دستخط کرنا جس سے انہیں سیاسی تقریریں کرنے سمیت ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کیا جائے، اتنا ہی سنجیدہ ہے جتنا اس کی حراست۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، سیاسی تقریر صرف اس صورت میں ممنوع قرار دی جاسکتی ہے جب وہ عوامی نظم کو براہ راست خطرہ بناتا ہے، جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے موصولہ احکامات میں حکومت ہند کی جانب سے مناسب طور پر ثابت نہیں کیا گیا ہے۔“
گزشتہ دنوں دی وائر کے ایک پینل مباحثے میں را کے سابق سربراہ اے ایس دولت، سابق ایر مارشل کپل کاک (دونوں کا تعلق کشمیر سے) اور محترمہ رادھا کمار (سابق مذاکرات کار کشمیر) نے گزشتہ ایک سال کے بارے میں سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے قدم کو یکسر غلط قرار دیااور کشمیر کے حالات کو انتہائی خراب قرار دیتے ہوئے کہاکہ جس چیز کو بہانہ بناکر مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کے بیشتر دفعات اور 35اے کو ختم کردیا تھا وہ مقاصد پورے نہیں ہوئے بلکہ ان سب چیزوں میں اضافہ ہوا ہے۔افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ کشمیر اس وقت میٹنل ہیلتھ کا شکار ہے اور کوئی بھی انہیں اس مصیبت سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کو کشمیر چاہئے، کشمیر کی زمین چاہئے، کشمیری مسلمان نہیں چاہئے۔اس حکومت نے کشمیر میں کشمیری لوگوں کے لئے تمام دروازے بند کرنے کے لئے کوشاں ہیں، ان کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے لئے طرح طرح کے کھیل کھیل رہی ہے۔ سیاسی حقوق اور سیاسی حیثیت ختم کرنے کے لئے نئی حدبندی کروائی جارہی ہے۔جب کہ نئی حد بندی 2021کی مردم شماری کی بنیاد پر ہونی ہے لیکن بی جے پی حکومت 2011کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حد بندی کرنا چاہتی ہے تاکہ جموں کا دبدبہ قائم کرواکر کشمیری مسلمان سے سیاسی حقوق سلب کئے جاسکیں۔
کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں کشمیریوں کے مکانات کی نیلامی کا خطرہ منڈلانے لگاہے کیوں کہ وہ بنیک کی قسط نہیں چکا پارہے ہیں اور بینک مرکزی حکومت کے تحت ہوتے ہیں اس لئے یہ سارے مکانات نیلامی میں غیر کشمیریوں کے حصے میں جائیں گے۔اس طرح حکومت نے کشمیر کی آبادی کا جغفرافیہ بگاڑنے کا تہیہ کرلیا ہے۔
Comments
Post a Comment