دہلی پولیس کی چارج شیٹ کی گونج امریکہ میں بھی

عابد انور

Thumb

ہندوستان کو پوری دنیا میں کثیر المذاہب، کثیر الثقافت، رنگارنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے جانا جاتا ہے اور پوری دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ گوناگوں اختلافات کے باوجودمختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف نظریات کے حامل افراد ایک ساتھ رہتے ہیں۔اس طرح ہندوستان کی کثرت میں وحدت کے طور پر بھی شناخت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر ہندوستان میں تمام برادران کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یکساں سلوک، یکساں مواقع اورہر شعبہ میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں لیکن کسی چیزکا کا غذ پر درج ہونا اور عملی جامہ پہننا دونوں الگ الگ بات ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو آئینی طورپر تمام اختیارات دئے گئے ہیں اور کہیں بھی تفریق نہیں برتی گئی ہے سوائے دفعہ ۱۴۳ کے جس میں صدارتی نوٹی فیکشن کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ تفریق برتی گئی۔ ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئین میں سے ایک ہے لیکن عمل کے اعتبار سے اتنا ہی خراب ہے۔آج بھی یہاں اسی روایتی قانون کا بول بالا ہے ’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘۔ مسلمانوں کے پاس لاٹھی نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کی یہاں نہ تو جان محفوظ ہے، نہ ہی عزت و عفت اور نہ ہی مال و متاع۔ لاٹھی والے کاجب بھی دل کرتا ہے فسادات کے بہانے مسلمانوں کی تینوں چیزیں عزت، جان اور مال چھین لیتاہے اور ہندوستان کا سیکولر آئین اس لاٹھی والے کا بال بھی باکا نہیں کرپاتا۔ ہندوستان میں سیکولرزم پر بہت بات ہوتی ہے۔ اس کے سیکولر ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا رہاہے اور کہاجاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور فسادی عناصر مٹھیوں میں ہیں لیکن جب یہی مٹھی بھر فسادی عناصر سڑکوں پر کھلے عام مسلمانوں کی تینوں چیزیں لوٹ رہے ہوتے ہیں تو ہندوستان کا سیکولر طبقہ، سیکولر آئین اور سیکولر حکومت کنبھ کرن کی نیند سوجاتی ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں سانپ کی لکیر پیٹنے آجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد سے آج تک یہ معمول کا حصہ ہے۔ ہندوستان اگر سیکولر ملک ہے تو اسے ثابت کرنے یا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثابت اسے کیا جاتا ہے جس میں کوئی کھوٹ یا ہو اس میں کوئی شبہ ہو یا سب پر اظہر من الشمس نہ ہو۔ دوسرے جمہوری ملکوں خاص طور پرمغربی ممالک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں کا حکمراں سیکولر ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہاں کے عوام سیکولر ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی خاص بات یہ ہے کہ نہ تو یہاں کے عوام سیکولر ہیں اور نہ ہی حکومت۔ سیکولر حکومت کا دم بھرنے والے وزرائے میں بھی اکثریت خاکی نیکر والی ذہنیت کے حامل افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ افسران کی بات تو جانے دیں۔ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوتا ہے وہ یو پی ایس سی سے کامیاب ہونے کے بجائے ششو مندر سے راست طور پر یہاں آئے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اقلیتوں پر اسی ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جانے کے باوجود اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ وہ دلتوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سیکولر حکومت اور سیکولر حکومت کے افسران کا کمال فن نہیں تو کیا ہے؟

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کی تازہ مثال دہلی پولیس کی چارج شیٹ ہے جہاں اس نے یکطرفہ طور پر مسلمانوں کے خلاف مقدمہ کرکے جیل میں ٹھونس دیا ہے ہندوؤں فسادی کو آزاد چھوڑ دیا۔ کونسلر طاہر حسین پر پولیس درجنوں مقدمات لادھ دیتی ہے لیکن موہن نرسنگھ جو فسادیوں کا اڈہ تھا، وہاں سے فائرنگ ہوئی تھی، کئی لوگوں کو لگی بھی تھی،اس کے مالک کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ درجنوں ویڈیوز ہیں جس میں ہندو فسادی فائرنگ کرتے، حملہ کرتے دیکھائی دے رہے ہیں لیکن پولیس کو وہ نظر نہیں آتی۔ اس لئے پہلے سے مائنڈ سیٹ ہے صرف مسلمانوں کو گرفتار کرنا ہے۔ ایک ہندی روزنامہ میں شائع اودھیش کمار کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 2650لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان میں ہندو صرف 550 باقی  2100 مسلمان ہیں۔یہ سب اس وقت جیل میں ہیں۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے CAA کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں نمایاں طورپرحصہ لیا تھالیکن انہیں بھی فسادات سے جوڑ دیا گیا ہے۔فسادات میں 53افراد مارے گئے جن میں 38مسلمان ہیں۔مسلمانوں نے نامزد رپورٹ لکھوانے کی کوشش کی تھی توپولیس نے نامزد رپورٹ لکھنے کے بجائے نامعلوم رپورٹ درج کی۔ یہ ہے حکومت کا کھیل، پولیس نے ایک مہرہ ہے۔ اس سے جو کہا جاتا ہے وہ کرتی ہے۔ امریکہ نشیں ہیومن رائٹ واچ نے اس ضمن میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے حصے کچھ پیش کئے جارہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا، ”ہندوستانی حکومت نے کارکنوں کی گرفتاری، اختلاف رائے دبانے اور امتیازی پالیسیوں کے خلاف ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لئے ملک گیر کووڈ 19 لاک ڈاؤن کا استعمال کیا ہے۔”پولیس ہراساں کرنے کے پچھلے مقدمات پر توجہ دینے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنا سارا زور مزید ہراساں کرنے پر ڈال رہی ہے۔دسمبر 2019 میں، بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے شہریت ترمیم قانون لاگو کیا، جو ہندوستان میں پہلی بار مذہب کو شہریت کی بنیاد بناتا ہے۔اس کے جواب میں، اس خوف کے درمیان ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے کہ قانون سازی سے ’غیر قانونی تارکین وطن’کی شناخت کے لئے ملک بھر میں تصدیق شدہ مجوزہ عمل کے ساتھ ساتھ، لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کے شہریت کے حقوق کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔24 فروری 2020 کو دہلی میں مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ پولیس مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہی اور متعدد مواقع پر ان حملوں میں ملوث رہی۔ حکومت تشدد کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہی ہے۔اگرچہ پر امن احتجاج کا سلسلہ مارچ 2020 میں کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے حکومتی لاک ڈاؤن اعلان کے بعد تھم گیا، لیکن حکومت نے اس کے بعد طلباء اور کارکنوں سمیت مظاہرین کو گرفتار کرنا شروع کیا ہے، اور؛ملک کو بدنام کیا ہے’۔ کرنے ’کا’سازش‘رچنے کا الزام لگاتے ہوئے ان پر غداری، قتل اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یواے پی اے) کے تحت دہشت گردی کے مقدمے درج کئے ہیں۔گرفتار ہونے والوں میں طلباء رہنما میران حیدر، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا اور گل افشاں فاطمہ شامل ہیں۔ کارکن شفاء الرحمن (اب ضمانت پر) اور خالد سیفی۔ حقوق نسواں گروپ پنجرا ٹوڈ کے طلبا رہنماؤں میں دیوانگنا کالیٹھہ اور نتاشا ناروال، عام آدمی پارٹی کے مقامی رہنما طاہر حسین اور اپوزیشن کانگریس پارٹی کے مقامی رہنما عشرت جہاں شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 10 اپریل کو فسادات کے الزام میں گرفتار زرگر کو تین دن کے بعد ضمانت مل گئی۔ لیکن اسی دن، پولیس نے اسے یو اے پی اے کے تحت، اور قتل اور غداری کا مقدمہ درج کیا۔ حمل کی دوسری سہ ماہی اور ایک خاص طبی حالت میں ہونے کے باوجود، ان الزامات کی بناء پر انہیں ضمانت نہیں دی گئی (اب ضمانت پر ہے)، جبکہ اگر وہ کوویڈ 19 سے متاثر ہیں تو ان دونوں عوامل سے اس کی حالت پیچیدہ ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتاری کے بعد کلیتا اور نارووال کو ضمانت مل گئی۔ کالیتا کے معاملے میں، مجسٹریٹ نے کہا کہ پولیس تشدد میں ان کے کردار کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن دہلی پولیس نے فوراً ہی ان کے خلاف غداری، قتل اور یو اے پی اے کے الزامات میں دوسرے الزامات کے علاوہ ایک مقدمہ درج کیا اور وہ اس وقت جیل میں ہے۔24 فروری کو، بی جے پی کے مقامی رہنما کپل مشرا کی طرف سے پولیس سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر مظاہرین کو سڑک سے ہٹا دیں، اس کے فورا بعد ہی دہلی میں تشدد پھیل گیا۔ ہفتوں سے، بی جے پی قائدین مظاہرین کے خلاف کھلم کھلا تشدد کی حمایت کرتے ہوئے تناؤ کا باعث بنے ہوئے تھے، اور حکومت پر تنقید کرنے والے ہر شخص کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔مظاہرین کے خلاف بی جے پی کے حامیوں اور شہریت کے قانون کے درمیان جھڑپوں کو جلد ہی شمال مشرقی دہلی میں پرتشدد ہندو ہجوم میں تبدیل کردیا گیا، اس نے مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ان کے گھروں، دکانوں، مساجد اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ اگرچہ ایک پولیس اہلکار اور ایک سرکاری عہدیدار سمیت بہت سے ہندوؤں کو بھی قتل کیا گیا تھا، لیکن مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔بہت سے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ پولیس نے شمال مشرقی دہلی کے مسلمان رہائشیوں کو ان علاقوں میں گرفتار کیا ہے جہاں فروری میں تشدد ہوا تھا، گرفتار افراد میں سے کچھ بھی حملوں کا نشانہ بنے ہیں جبکہ پولیس بھیڑ حملوں کا ذمہ دار ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام دہلی پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں برادریوں سے ''تقریبا ایک ہی تعداد میں '' لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن انہوں نے گرفتاریوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔ حتی کہ حکومت نے متضاد معلومات بھی دی ہیں۔ مارچ میں، وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ تشدد ایک '' منصوبہ بند سازش '' تھا اور پولیس نے 700 سے زیادہ مقدمات درج کرکے 2647 افراد کو حراست میں لیا۔ ایک دن بعد، دہلی پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ 200 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک ماہ بعد، معلومات کے حق کے ایکٹ کے تحت دائر درخواست کے جواب میں، دہلی پولیس نے دعوی کیا کہ 48 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مئی میں،  پولیس ترجمان نے بتایا کہ 750 سے زیادہ مقدمات میں 1300 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ملک بھر میں سرگرم کارکنوں اور طلبہ کو، خاص طور پر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں، شہریوں کے خلاف قانون کے مظاہروں میں حصہ لینے کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اتر پردیش میں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم، فرحان زبیری کو غداری، فسادات اور قتل کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کفیل خان کو پہلے احتجاج کے دوران گروپوں کے مابین تقاریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن 11 فروری کو ضمانت ملنے کے بعد ان پر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا اور انھیں تحویل میں رکھا گیا۔آسام میں، پولیس نے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا، جن میں سے کچھ پر غداری کے ساتھ ساتھ یو اے پی اے کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جنوری میں، دہلی پولیس نے یونیورسٹی کے ایک طالب علم شرجیل امام پر غداری کا الزام لگایا تھا اور وہ اس وقت جیل میں ہے۔ فروری میں، امولیا لیونا نورونہ کو کرناٹک میں ایک مظاہرے کے دوران پاکستان اور ہندوستان کے اتحاد کا نعرہ لگانے کے الزام میں غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن تین ماہ سے زیادہ قید رکھنے کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہوا تھا۔ کیونکہ پولیس انچارج شیٹ کو 90 دن کی مقررہ مدت کے اندر داخل نہیں کرسکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حکومت نے عام طور پر پرامن احتجاج پر جانبدارانہ کارروائی کی۔ بہت سے معاملات میں، جب مظاہرین پر بی جے پی سے وابستہ گروہوں نے حملہ کیا، پولیس نے مداخلت نہیں کی۔حکومت نے ان بی جے پی رہنماؤں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے مظاہرین کے خلاف تشدد کو اکسایا اور انہیں؛ع’گولی مار‘ قرار دیا۔ فروری میں تشدد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران، دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہا کہ وہ تشدد پر اکسانے والے بی جے پی قائدین کے خلاف مقدمہ درج نہ کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے غلط پیغام بھیجا ہے اور انہیں بلا خوف و خطر کام کرنے کی اجازت ہے۔ تب سرکاری وکیل نے استدلال کیا کہ بی جے پی رہنماؤں کے خلاف پولیس شکایات درج کرنے کے لئے صورتحال ابھی ’سازگار‘ نہیں ہے۔
یہ رپورٹ مسلمانوں کے خلاف تعصب، امتیاز،عدلیہ کی لاپروائی، انتظامیہ کی یکطرفہ کارروائی اور فسادات میں ہندو لیڈروں کی شمولیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پوری دنیا میں ہندوستانی حکومت ننگی ہوچکی ہے۔ اب  ملک کو یہ حکومت کتنا بدنام کرے گی۔ 
جاری

Comments