صفورہ زرگر کو مشروط ضمانت دیگر مسلم نوجوان کے لئے جنگ لڑنے کی ضرورت

عابد انور

Thumb

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسر اسکالر اور قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے)، این آر سی، این پی آر کے خلاف تحریک چلانے والی 27سالہ صفورہ زر کو انسانی بنیاد پردس ہزار روپے ذاتی مچلکہ پردہلی ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو شکدھر کی بیینچ نے ضمانت منظور کرلی ہے۔ محترمہ صفورہ زرگر کو گزشتہ 10اپریل کو سی اے اے، این آر سی، این پی آر میں شامل ہونے اور فروری میں ہونے والے فسادا کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ نچلی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن دہلی پولیس نے اپنے آقا کے اشارے پر ان پر دلی فساد میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیااور یو اے پی اے کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیا۔ ان پر یو اے پی اے لگانے کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہورہی تھی اور پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے انہیں رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کی گرفتاری کا مقصد  قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے)، این آر سی، این پی آر کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنااور ان میں خوف و ہشت پیدا کرنا تھا۔اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہی ہے اور اس کے نام پر درجنوں مسلم نوجوانوں، مسلم لڑکیوں، مسلم مرد، عورتوں کو گرفتار کیا گیاہے۔ گرفتار شدگاہ میں طول فہرست ہے۔ ان لوگوں پر دہلی میں فساد بھڑکانے کا الزام عائد کردیا جن لوگوں کو دہلی میں فساد شروع ہونے سے پہلے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
جموں کشمیر   کے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی صفورہ زر کے شوہر، ان کے خاندان کے افراد صفورہ کی گرفتاری پر کچھ کہنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صفورہ کے والد اور ان کے خاندان کے لوگ سرکاری ملازم ہیں اس لئے وہ لوگ سامنے آنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ آج بھی جب صفورہ کو ضمانت مل گئی تو سری نگر کے نامہ نگار نے بذریعہ فون جب ان کے والد سے اس ردعمل جاننا چاہا تو ان کے والد نے بات چیت کرنے سے منع کردیا۔ پوری دنیا میں جب صفورہ کے لئے آواز اٹھ رہی تھی تو ان کے خاندان والے عموماً خاموش ہی رہے۔ سرکاری ملازمت ان لوگوں کی مجبوری ہوسکتی ہے۔ البتہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر لیڈر ایڈوکیٹ فردوس احمد ٹاک نے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ صفورہ زرگر کی دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور کئے جانے کے اقدام پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'بہن صفورہ پھر سے گھر لوٹ رہی ہیں '۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'بہن صفورہ زرگر پھر سے گھر لوٹ رہی ہیں۔ ان کی جرات اور بہادری کو سلام۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ملک، جہاں فاشسٹ حکومت میں کوئی انسانیت اور ہمت نہیں بچی ہے، میں اب بھی قانون کی بالادستی قائم ہے'۔ عدالت کی جانب سے ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ کنبے کے لئے ایک اچھی خبر ہے جو انہیں جیل سے باہر نکالنے کے لئے بہت جدوجہد کررہے تھے۔تاہم ان کا کہنا تھا: 'انہیں عدالت نے انسانی بنیادوں پر ضمانت دی ہے۔ یہ اپروچ حکومت کو اختیار کرنا چاہیے تھا کیونکہ جہاں صفورہ حاملہ تھیں وہیں ان کی ماں کورونا وائرس سے متاثر تھیں۔ یہ اب عیاں ہوچکا ہے کہ اس حکومت میں انسانیت نہیں ہے'۔فردوس ٹاک نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی مانگ کرتے ہوئے کہا: 'ہمارا قانون پر پورا بھروسہ تھا۔ میرا ماننا ہے کہ قانون کی بالادستی اب بھی قائم ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سبھی سیاسی قیدیوں جنہیں اختلاف رائے کے جرم میں جیلوں میں بند کیا گیا ہے، کو بھی جلد رہا کیا جائے گا'۔
صفورہ کی رہائی کے لئے پوری دنیا میں مہم چل رہی تھی اور اہم سماجی کارکنوں نے ان کی رہائی کے لئے اپیل کی تھی۔ اس لئے نہیں کہ وہ حاملہ تھی اس لئے کہ وہ بے قصور تھی اور ر قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے)، این آر سی، این پی آر کے خلاف تحریک میں حصہ لے کر کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی کام نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی وزرائے لیکر ادنی کارکنوں روزانہ قانون اور آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ یا گرفتاری تو دور کی بات ان کے خلاف شکایت درج کرنے سے بھی پولیس کس بل نکل جاتے ہیں۔ آئی پی ایس افسران کانپنے لگتے ہیں۔ 

دہلی پولیس نے زرگر کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت میں کہا تھا کہ کسی کے حاملہ ہونے سے اس کے جرم کی شدت کو کسی بھی طرح سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ زرگر پر ایک واضح اور سنجیدہ مقدمے میں سنگین نوعیت کے جرائم کا الزام لگایا ہے جس کا انہوں نے منصوبہ بند ارتکاب کیا تھا۔سرکاری وکیل نے مزید کہا کہ انہیں ایک علیحدہ سیل میں رکھا گیا تھا لہذا کسی دوسرے شخص سے ان کے کورونا وائرس ہونے کا امکان کم تھا۔اس معاملے میں ٹرائل کورٹ نے محترمہ زرگر کی درخواست ضمانت خارج کردی تھی اور اس کے بعد انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کے سامنے ضمانت کی درخواست دائر کی۔اس سے قبل عدالت نے محترمہ زرگر کی ضمانت منظور کی تھی لیکن بعد میں انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور دہلی میں لوگوں کو بھڑکانے اور خواتین اور بچوں کو سڑکوں پر لانے کے لئے سنگین الزامات عائد کردیئے گئے۔جسٹس راجیو شکدھر نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد زرگر کی دس ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پیش کرنے کی شرط کے ساتھ ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے زرگر کو ہدایت کی کہ وہ 15 دن میں کم از کم ایک بار فون پر کسی تفتیشی افسر کے ساتھ رابطے میں رہیں اور اس کیس کی تفتیش میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔ عدالت نے انہیں مزید ہدایت کی کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر دہلی سے باہر نہ جائیں۔ گزشتہ روز بھی صفورہ گزر کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔ گزشتہ کل 12بجے جسٹس راجیو شکدھر کی بینچ میں صفورہ کی عرضی پر سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔ جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ایک دن کے لئے سماعت ملتوی کردی تھی۔ یہ صفورہ کی ضمانت کی چوتھی کوشش تھی۔ پولیس نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں  39حاملہ خاتون نے جیل کے اسپتال میں بچے کو جنم دیا ہے۔ صرف حاملہ ہونے کی وجہ سے کسی کو ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ 
 مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے ادارے’یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کووڈ۔ 19 کی وبا کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اسی لیے اسے ’انتہائی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ”کووڈ۔ 19 کے بحران کے دوران ایسی اطلاعات ہیں کہ ہندوستانی حکومت ان مسلم کارکنان کو گرفتار کر رہی ہے جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اس میں صفورہ زرگر بھی شامل ہیں جو اس وقت حاملہ  ہیں۔ یہ وقت بھارت کو ایسے ضمیر کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے رہا کرنے کا ہے، جو احتجاج کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے ہیں۔“ یو ایس سی آئی آر ایف نے ایک دیگر ٹوئیٹ میں کہا، ”ہندسوستان  میں 2019 کے دوران مذہبی آزادی میں زبردست گرواٹ آئی، بدقسمتی سے کووڈ۔ 19 کے بحران کے دوران بھی مسلمانوں کو قربانی کا بکرابنا کر اسی رجحان کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس نے  ہندوستان کو ”انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی ہے۔“
ڈویچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ”امریکی ادارے نے اپنی ٹوئیٹ کے ساتھ وہ تفصیلات بھی شائع کی ہیں جن کی بناپر ہندوستان کو انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس میں شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو حکومت کی طرف سے دبانے، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ، بی جے پی رہنماؤں اور بعض وزراء  کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات اور بڑے پیمانے پر ہجومی تشدد کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ  2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ”اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔“

لاک ڈاؤن کے دوران سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں تقریباً پچاس سے زائد مسلم نوجوانوں کو دہلی میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ اس میں مسلم لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے بی جے پی اور حکمراں کے پھیلائے گئے تصورات کے قلعے کو منہدم کردیا تھا۔ ان مسلم لڑکے اور لڑکیوں کی وجہ سے ملک کو جمہوریت کو نئے نظریے سے دیکھا جانے لگاتھا۔ بیرون ملک ان شاہنیوں کی دھوم تھی۔ سپریم کورٹ کے مذاکرات کار سنجے ہیکڑے اور سادھنا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے اور کہا تھا کہ جب یہ ایسی لڑکیاں ملک میں موجود ہیں اس وقت تک ملک کی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا اور جس کو جمہوریت کی نشانی اور نمائندہ کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا اسی کو حکومت نے مسلنے اور کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کی زور لگادی ہے۔ ہمیں ان شاہینوں اور جانبازوں کو بچانا ہے اور ان کے لئے لڑائی لڑنی ہے اگر ہم نے ان کے خلاف لڑائی نہیں لڑی تو پھر کوئی میدان میں نہیں اترے گا۔اس لئے ہر حال گرفتارشدگان کی حمایت میں میدان میں اترنا ہی ہوگا۔ 

آصف اقبال تنہا،، میران حیدر، سلیم، ایڈووکیٹ عشرت جہاں، اگل افشاں سمیت پچاس سے زائد مسلم طلبہ و طالبات و دیگر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ شرجیل کو جس وقت گرفتار کیا گیا تھا اس وقت مسلمانوں نے بھی ان کو قصوروار ٹھہرانا شروع کردیا تھا۔ مسلمانوں کو اب یہ سبق سیکھ ہی لینا چاہئے کہ انہیں کوئی بچانے کے لئے نہیں آئے گا۔ دوسروں میں کنہیا کمار پیدا کرنے کے بجائے اپنوں میں کنہیا کمار اور دیگر لیڈروں کو پیداکریں، سماجی کارکن بنائیں۔ ان کو طاقت ور بنائیں اور خود ان کی طاقت بنیں۔ کسی بھی مسلمان کی گرفتاری ہوتی ہو ان کی حمایت میں سامنے آئیں۔ فرقہ، ذات پات، مسلک، علاقہ اور صوبہ نہ دیکھیں۔عام طور پر مسلم نوجوانوں کو پولیس گرفتار غلط طریقے سے ہی گرفتار کرتی ہے اور پندرہ بیس سال جیل میں سڑاکر ان کو رہا کردیتی ہے۔کپل مشرا، پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر اس طرح کے لاکھوں لوگ ان کے یہاں مجرم نہیں ہیں۔سچ بولنے والے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں مجرم ہیں؟ حکومت، پولیس، عدالت، مقننہ، میڈیا اور دیگر آئینی اداروں کی منشا کو سمجھیں۔ ساری چیزیں لکھنے کی نہیں ہوتیں۔اپنے دماغ کا استعمال کریں اور کم از کم سکھوں سے ہی سبق حاصل کریں۔
9819372335

Comments