عابد انور
اردو زبان عناصر سادسہ یعنی چھ زبانوں کا بہترین امتزاج ہے کیوں کہ اس میں چھ زبانوں عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت،ترکی اور انگریزی کے الفاظ پائے جاتے ہیں، جس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو سمونے کی اتنی صلاحیت ہو اور اس کی گھٹی میں ہی قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہو وہ اس کے خلاف کیسے کام کرتی ہے جیسا کہ ملک کی تقسیم کا الزام اردو پر لگایا جاتا ہے اگر یہ پیمانہ ہوگا توکوئی بھی زبان نہیں بچ پائے گی اور انگریز ی پر عالمی جنگ اور استعماریت کو فروغ دینے،عالمی دہشت گردی قائم کرنے اور پوری دنیا میں سامراجی طاقتوں کو فروغ دینے کا الزام آئے گا۔ہندی پر بھی معاشرے کو تقسیم کرنے، مذہبی منافرت پھیلانے،منوسمرتی کو فروغ دینے،ذات پات پر مبنی نظام کو قائم کرنے، نفرت کے مواد شائع کرنے، انگریزوں سے دوستی اور ان کے مشن کو بڑھاوا دینے، ان کی مخبری کرنے،ان کی حاشیہ برداری، ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے، فسادات برپا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا الزام آئے گا۔ جب کہ زبان صرف زبان ہوتی ہے اس کا کسی غلط چیزوں سے رشتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ساری زبانیں اپنی شیرینی اور لطافت سے عوام کی آبیای کرتی ہے۔ اردو زبان بھی اسی سے مشتق ہے اور وہ عوامی میل جول، روداری اور آپسی اتحاد سے پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ زبان ایک دوسرے سے رابطہ کی زبان بنی وہیں اس زبان نے ملک کو ایک کڑی میں پیرونے میں بنیادی اور مضبوط کردار ادا کیا۔ جب اردو زبان کا بولا بالا تھا تو کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک اردو زبان و صحافت کا ڈنکا بج رہا تھا اور یہ زبان اور صحافت جہاں ملک میں حب الوطنی پیدا کر رہی تھی وہیں قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھی۔ پوری آزادی تحریک کے دوران اگر اردو زبان کو نکال دیا جائے تو پھر آزادی کی ’گاتھا‘اور اس کو پروان چڑھانے کا میدان خالی نظر آتاہے۔ یہ اسی زبان اور صحافت کی برکت تھی کہ ہندوستان کی پہلی آزادی کی تحریک پورے ملک میں پھیل سکی اور انقلاب زندہ باد کے نعروں سے پورا ملک گونج اٹھا۔
اردو اور قومی یکجہتی کا چولی دامن کا رشتہ ہے۔ اس زبان کا وجود ہی مشترکہ تہذیب اور مختلف لوگوں کے میل ملاپ سے ہوا ہے جس کی وجہ سے اس زبان نے اس قوم کو ایک دھاگے میں پیرو کر رکھا لیکن جیسے ہی یہ زبان کمزور اور اس کا دبدبہ ختم ہوتا گیا اس کی وسعت سمٹتی گئی اور تعصب کا شکارہوکر اس کو اسی سرزمین میں دفن کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی قومی یکجہتی کو دیمک لگنا شروع ہوگیا اور اس وقت کے جو حالات ہیں وہ انتہائی خراب ہیں، شدت پسندی، انتہا پسندی عروج پر ہے جہاں مختلف ناموں پر لوگ ایک طبقہ کو قتل کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ مشاعروں، جلسے جلوس، سیمناروں میں اس کی شیرینی و لطافت کی بات کی جاتی ہے، اس زبان کے جاننے والے کو انسانیت سے سرابور کہا جاتا ہے، اس کے حسن و جمال، اس کے انداز، اس کے لہجے، اس کی نزاکت، اس کے مدوجزر اور تہذیب و ثقافت کے نغمے گائے جاتے ہیں لیکن جب وہی شخص اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اردو کے لئے کچھ نہیں کرتا بلکہ اس تاک میں رہتا ہے کہ اس زبان کو کیسے مٹایا جائے اور کہاں کہاں ضرب لگایا جائے تاکہ اس کا وجود ہی مٹ جائے لیکن اردو زبان اتنی سخت جان واقع ہوئی ہے کہ اس نے نئی بستیاں بسالی ہے اور اپنے سخت مخالفین کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ اردوزبان کی کشش کی علامت ہے کہ پوری دنیا میں اپنا ڈنکا بجوایا۔
اردو زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ جنگ آزادی کی لڑائی اسی زبان میں لڑی گئی اور اس زبان کے تمام اصناف خواہ وہ صحافت ہو، یا افسانہ، ناول ہو یا شاعری،انشائیہ ہو یا دیگر اصناف، تمام صنفوں نے جنگ آزادی میں اپنا اپنا اہم، بے لوث اور ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔اردو صحافت نے روز اول سے قومی یکجہتی کی چھاپ چھوڑی، اردو کا پہلا اخبار جیسا کہ کہا جاتا ہے ’جام جہاں نما‘ کے بانی ہری دت اور ایڈیٹر منشی سد ا سکھ تھے۔اس سے اس زبان کی یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ روایت اب بھی قائم ہے اور اس وقت اردو اخبارات کے مالکان اور مدیروں کی خاصی تعداد ہندو بھائیوں کی ہے۔یہ اس سوال کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور اس کو مذہب سے منسلک کرکے دیکھتے ہیں۔ کسی زبان میں مذہبی لٹریچر ہونے سے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ مذہبی زبان ہے۔ جب کہ اردو میں ہندو مذہب کے لٹریچر موجود ہیں، گیتا،رامائن، مہابھارت، رگ وید اور دیگرویدوں کے علاوہ ہندو مذہب کے بارے میں تمام طرح کے مواد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سکھ مت، جین مت، عیسائی، بدھ اور پارسی مذاہب کے لٹریچر کی اردو میں کمی نہیں ہے۔
اردو صحافت کا رول قومی یکجہتی کے فروغ میں ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے بلکہ اس کا وجود بھی قومی یکجہتی کے فروغ سے منسلک ہے۔ خاص طورپر اس قحط الرجال کے دور میں جب میڈیا ایک طبقے کا بچھونا بن گیا ہے اور وہ یکطرفہ خبریں شائع کرنا بددیانتی، بد اخلاقی اور بیہودگی کے بجائے قابل فخر سمجھتا ہے۔ اگرآپ ہندی کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ کبھی نہیں معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں اچھے مسلمان رہتے ہیں بلکہ یہ معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمان دہشت گرد ہیں، چور ہیں، زانی ہیں، جیب کترے ہیں اور ان کا وجود تمام برائیوں سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برادران وطن کا ایک بہت بڑا طبقہ میڈیا کی پھیلائی گئی غلط فہمی کا شکار ہوا ہے۔ جہاں تک اردو صحافت کی بات ہے یہاں بھی کچھ اشتعال انگیزی ضرور ہے لیکن وہ مجموعی طور پر قومی یکجہتی کا علمبردار ہے اور اردو کے اخبارات کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ وہ تمام طبقوں کی خبریں شائع کرتا ہے اور قومی یکجہتی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قومی یکجہتی، اتحاد و اتفاق، بین طبقات یکجہتی، گنگا جمنی تہذیب سے متعلق خبریں سب سے زیادہ اردو اخبارات میں ہی شائع ہوتی ہیں۔ اردو صحافت نے اس دور میں بھی قومی یکجہتی کے دامن کو چھوڑا نہیں ہے بلکہ وہ اس کو فروغ دینے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ جب کوئی مسلمان پکڑا جاتا ہے تو بغیر کسی تحقیق اور عدالتی فیصلے کے قومی اخبارات اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور خبروں اور مضامین اسے دہشت گرد ہی لکھا جاتاہے جب کہ قانوناً اسی کو دہشت گرد قرار دیا جانا چاہئے جسے عدالت نے خاطی قرار دیکر سزا سنا دیا ہو۔لیکن اردو کے اخبارات اسے دہشت گرد نہیں لکھتے یہاں تک جب کوئی ہندو دہشت گردی کے الزام میں پکڑا جاتا ہے اسے اردو اخبارات دہشت گرد نہیں لکھتے بلکہ الزام میں یا مبینہ دہشت گرد لکھتے ہیں۔
اردو صحافت اور اردو کے رسائل و جرائد میں جتنی جگہ ہندو قلمکاروں کو ملتی ہے اتنی جگہ مسلم قلمکاروں کو ہندی کے اخبارات اور رسائل و جرائد میں نہیں ملتی۔ ہندی کے اخبارات مسلمانوں سے متعلق خبریں اور یا مضامین اسی وقت شائع کرتے ہیں جب ان میں منفی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہو۔ اس کا اندازہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں یونیورسٹیوں میں ایک سے بڑھ ایک کام ہورہا ہے لیکن یہاں موضوع لڑکیوں کے کپڑے، لائبریری میں ہمہ وقت داخلے، چھیڑ خانی اور طلبہ کی آپسی لڑائی کو ہی بنایا جاتاہے اس کے لئے اسے صرف مسلمانوں کے ادارے کے طور پر شہرت دے دے گئی ہے جب کہ دونوں یونیورسٹیوں میں ہندوؤں کی تعداد نصف یا بعض شعبوں میں نصف سے زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے ہندی کے سارے رسائل و جرائد ایسا کرتے ہیں۔ بلکہ متعدد ہندی کے اساتذہ اور ہندی اخبارات سے جڑے ہوئے لوگ قومی یکجہتی کے فروغ میں نمایاں حصہ لے رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ کبھی کبھار اپنی کمیونٹی کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ اخبارات کا مقصد جہاں عوام تک خبروں کی رسائی ہے وہیں بین طبقاتی، بین مذاہب اور بین ذات پات دوریاں ختم کرنے کا بھی ہے۔بیشتر ہندی اخبارات اور چینل، ویب سائٹ اور پورٹل کا تو یہ حال ہے کہ وہ ایک نکاتی ایجنڈا پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قومی یکجتی میں کیا رول ادا کریں گے اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، فتنہ و فساد، سازش، فسادات، لو جہاد کے موضوع کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ ہندی میڈیا والے فسادات کے موقع پر یکطرفہ رپورٹنگ کرتے ہیں، فسادی کو معصوم اور معصوم کو فسادی قرار دینے میں تمام قوت صرف کرتے ہیں۔ ابھی حالیہ کاس گنج فسادات میں ہندی میڈیا نے یہی رول ادا کیا۔ بھگوا یاترا کو ترنگا یاترا میں بدل دیا۔ ہندی میڈیا کے نمبر ایک چینل کہے جانے والے ہندی نیوز کے ایک اینکر نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ کیا ملک میں ہندوؤں کو ملک میں ترنگا یاترانکالنے کی بھی اجازت نہیں ہے جب کہ اس اینکر کو معلوم تھا یہ بھگوا یاترا تھی اور بھگوا یاتریوں نے مسلمانوں کو ترنگا لہرانے سے روکا تھا۔ اس اینکر کا مقصدمسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت پھیلانا تھا، پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اشتعال دلانا تھا اور یہ بتانا تھا کہ مسلمان ترنگا کا احترام نہیں کرتے اور وہ محب وطن نہیں ہیں۔ جب کہ معاملہ برعکس تھا درحقیقت یہ ترنگا یاترا تھا ہی نہیں۔ مسلمان پہلے سے ہی ترنگا لہرانے کی تیاری کر رہے تھے اور مسلمانوں نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ترنگا لہرائیں لیکن بھگوا دھاریوں کا مقصد فساد پھیلانا تھا اس لئے ان لوگوں نے ہنگامہ شروع کردیا۔ پھر فساد ہوا اور یکطرفہ مسلمانوں کو گرفتاری ہوئی۔ ویڈیو میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے لیکن گرفتاری مسلم تاجر کی ہوئی۔ ہندی میڈیا نے اسے ’شارپ شوٹر‘ تک قرار دے دیا جب کہ محض ایک تاجر ہے اور وہ اس وقت موقع واردات پر بھی موجود نہیں تھا۔ ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جو تبلیغی جماعت میں شہر سے باہر تھے۔ ہندی میڈیا نے اس زیادتی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی بلکہ تقریباَ تمام ہندی نیوزی چینلوں نے مسلمانوں کو مجرم ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت ہندی میڈیا کی وجہ سے پورا ملک بارود کے ڈھیر پر ہے۔اس کی نفرت انگیز مہم کا شکار کبھی کبھار ہندو بھی بن جاتے ہیں۔
اردو اخباروں کی اشاعت کا سلسلہ ہی قومی یکجہتی کے فروغ، جنگ آزادی کی تحریک کوپروان چڑھانا اور سماج میں بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنے سے ہوا تھا۔ اردو صحافت نے بھائی چارے کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اردوصحافت نے سب سے زیادہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا تھا یہی وجہ ہے کہ اردو اخبارات کے مالکان، مدیران اور صحافیوں میں غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اردو کے دو بڑے روزنامے کے مالکان ہندو ہیں۔ روزنامہ انقلاب کے مالکان ہندو ہیں، روزنامہ راشٹریہ سہارا کے مالک ہندو ہیں، روزنامہ اردو لکھنو، روزنامہ عوامی نیوز کولکاتا، ہمارا مقصد اور اس طرح کے سیکڑوں اردو اخبارات کے مالکان ہندو ہیں اور ان میں بیشتر اردو نہیں جانتے لیکن اردو نے انہیں پناہ دے رکھی ہے اور ان کے اخبارات کے ۹۹ فیصد قارئین مسلمان ہیں۔
ہندی اخبارات کی اشاعت کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ہندو مسلم دونوں الگ الگ قوم ہیں۔ یہیں وندے ماترم اور دیگر متنازعہ موضوع کو ہوا ملی۔ جس کی وجہ سے نفرت کی کھیتی شروع ہوئی اور ہندی اخبارات سے ہی ہندوتو کے لیڈروں کی کھیپ تیار ہونی شروع ہوئی۔ گرچہ یہ مجاہدین آزادی بھی تھے لیکن ان میں سے بیشتر کا مقصد ہندوتو کا قیام تھا جو پورا ہوا۔ سوامی ویویکانند کو روحانی گرو کہا جاتا ہے لیکن ہندوتو ہندو راشٹر کا خواب انہوں نے ہی سب سے پہلے دیکھا تھا اور اس پر عمل بھی کیا۔گنگا دھر تلک، مدن موہن مالویہ اوراس طرح کے نظریہ کے سیکڑوں لوگ مل جائیں گے جنہوں نے ہندوتو کے قیام یا ہندو راشٹر کے قیام کے لئے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ ہندی کے اخبارات میں جنگ آزادی کے دوران اختلافی موضوع کو ہوا دی جانے لگی تھی۔مسلمانوں اور ان کے رسول کے خلاف لکھا جانے لگا تھا۔آر ایس ایس جہاں مجاہدین کو نقصان پہنچا نے اور انگریزوں کا کام آسان بنانے کے لئے مجاہدین کی انگریزوں سے کی مخبری کررہا ہے وہیں ہندو مسلم اتحاد کے دامن کو تار تار کر رہا تھا۔دوقومی نظریہ کی بنیاد رکھنے والے کوئی اور نہیں ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس والے ہی تھے۔ اس دورمیں بھی اردو صحافت نے ہندو مسلم اتحاد کے دامن کو تھامے رکھا تھا۔ جنگ آزادی کے بعد اردو صحافت سے لیکر اردو شاعری اور اردو کے تمام اصناف میں قومی یکجہتی کا تصور جتنا ملتا ہے وہ دیگر زبان میں نہیں۔
ہندوستان کی باضابطہ پہلی جنگ آزادی سے قبل بھی دہلی سے نکلنے والے اردو اخبارا ت بھی قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے مضامین لکھتے تھے۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ”اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو پہلا خالص اردو اخبار ’اخبار دہلی‘ تھا جسے مولوی باقر نے جاری کیا تھا۔ یہ ہندوستانی قوم پرستی کا زبردست حامی تھا اور ۷۵۸۱ء کی جنگ آزادی میں اس کا بڑا اہم کردار تھا اور اْس زمانے میں اِس اخبار نے سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا۔ انگریزی سرکار کے ہاں معتوب ٹھہرا لیکن کبھی بھی اپنی آزاد پالیسی پر آنچ نہ آنے دی اور یہی وجہ تھی مولوی باقر کو گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس طرح آزادی کی جدوجہد میں، اْردو صحافت کے پہلے قوم پرست اور محب الوطن شہید کا درجہ پایا“۔اس کمے علاوہ ”ہندوستان میں اردو کادوسرا اخبار ’سید الاخبار‘ تھا جسے سر سید کے بھائی سید محمد نے دہلی سے جاری کیا اور جس کے ذریعے خود سر سید عوام سے متعارف ہوئے۔ اِس کے بعد اردو صحافت کاجو دور شروع ہوا اْس میں مولانا ظفر علی خان، مولاناد ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبدالمجیدسالک جیسے محب وطن، بیباک و نڈر قلم کاروں نے اردو صحافت کو استعماریت سے آزادی کے لیے بطور ہتھیاراستعمال کیا اور لاہور، امرتسر، الہٰ آباد، لکھنو، آگرہ، جے پور، بمبئی، کانپور، حیدرآباد،کلکتہ اور کشمیرغرضیکہ پورے ملک میں اردو اخبارات کا بول بالا ہوا“۔لاہور کے پیسہ اخبار، زمیندار‘ پرتاپ اور کوہ نورامرتسر کا وکیل اور اْدھر نور الانوار، الہلال اورالبلاغ‘ریاست، آصفہ الاخبار اور دبدبہ سکندری کا طوطی بولنے لگا اور روزناموں اور ہفتہ وار اخبارات و رسائل نے اردو صحافت میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا جس نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی لہر دوڑا دی اور اردو صحافت نے ایک منفرد مقام اور لوگوں کا اعتماد حاصل کر لیا۔
اردو اخبارات کے ساتھ، بیسویں صدی کے اردو رسائل و جرائد نے بھی سیاست و علم و ادب کی خوب آبیاری کی۔ سر سید کا تہذیب الاخلاق،، مولانا آزاد کا لسان الصدق، حکیم محمد یوسف کا نیرنگ خیال، خواجہ حسن نظا می کا نظام المشائخ، راشد الخیری کا عصمت، سر عبدالقادر کا مخزن، ملک محمد الدین اعوان کا صوفی، شاہد دہلوی کا ساقی اور مولوی عبدالحق کا سہ ماہی جریدہ اردو وغیرہ وغیرہ۔ اس مختصر سے وقت میں کس کس کے نام لیے جائیں یہ سب رسائل و جرائد علم و ادب اور سیاست و ثقافت کی عظیم الشان تاریخ رقم کرتے رہے اور قوم کی راہبری میں پیش پیش رہے۔ اور قوم کے سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی معیار کی تعمیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
اردو کے عظیم صحافی اور صحافت کی داغ بیل ڈالنے والے اور قومی یکجہتی کے عظیم علمبردار، ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور وہ ملک کی تقسیم کسی حالت میں نہیں چاہتے تھے۔ اخیر تک انہوں نے ملک کی تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ گاندھی جی سے بھی ناراض تھے۔وہ کسی قیمت پر ہندو مسلم انتشار کے نام پر ملک کی آزادی نہیں چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس فارمولے پر نہ صرف عمل پیرا رہے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و تحریک دی۔ ”انہوں نے 15 دسمبر 1923 کو کانگریس کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا ”آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اترآئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کردے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تومیں اس آزادی سے دستبردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا۔ کیونکہ اگر آزادی ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن ہمارا اتحاد جاتا رہے تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔“(مولانا ابوالکلام آزاداور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست)۔ اسی طرح مولانا آزادیہ بھی چاہتے تھے کہ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے نہ جائیں کیوں کہ اس سے قومی یکجہتی کو خطرہ پیدا ہوگا اور ہندو ؤں اور مسلمانوں کے دراڑ پیدا ہوگا۔ انہوں نے اس حوالے سے جو خطرات اورخدشات کا اظہار کیاتھا وہ آج کل حقیقی شکل میں نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے کہا تھا ”ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کنارے تمہارے قافلوں نے وضوکیا تھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا، اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بیجا ہے۔ مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔“
اس طرح کی چیزیں دوسرے زبانوں خاص کر ہندی میں نہیں ملتیں جہاں سب سے زیادہ زور قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد پر دیا گیا ہو۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندی کے اخبارات ہندی نیوز چینل ہندو مسلم اتحاد کے دشمن ہیں۔ ان کا سارا وقت مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں گزرتا ہے۔ ٹی آر پی بڑھانے کے لئے رات دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔ یہاں کے عوام بھی اسی طرح کے موضوع کو دلچسپی سے سنتے ہیں اگر اکثریتی طبقہ اس طرح کے زہرے مواد کو نہ دیکھتے اور نہ سنتے توٹی وی اینکروں کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح کی منافرت پھیلانے کی وجہ چیزوں کو دکھائیں۔ ہندی میڈیا نے یہاں کے عوام کو نفرت کا عادی بنادیا ہے اور یہاں کا اکثریتی طبقہ نفرت کے علاوہ کوئی اور دوسری چیز دیکھنا اور سننا پسند نہیں کرتا۔ ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے ابھی بھی اردو صحافت نے اپنا موقف برقرار رکھا ہے اور اس کے حوالے سے نہ صرف مضامین شائع کرتے ہیں بلکہ اردو اخبارات خبروں میں بھی بھرپور جگہ دیتے ہیں۔ ہندی اخبارات کی ذہنی قلاشی کا یہ حال ہے کہ ہندی کے ان ادیبوں اورشاعروں کی ان باتوں کو جگہ نہیں ملتی جس میں وہ محبت، امن چین، ہندو مسلم اتحاد کی بات ہوتی ہے۔ ہندی کے مشہور ادیب اور نقاداشوک واجپائی کی بہت سی خبروں کو ہندی کے اخبارات شائع نہیں کرتے جس میں وہ ہندو مسلم اتحاد، فرقہ پرستی پر تنقید، شدت پسندوں کی مذمت اور قومی یکجہتی پر زور دیتے ہیں لیکن اردو کے اخبارات اہمیت کے ساتھ اس طرح کی خبروں کو شائع کرتے ہیں۔ صورت حال تو یہ ہوگئی ہے کہ ہندی کے بڑے بڑے شاعر پر ہونے والے پروگرام بھی اگر ان کا تعلق ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار سے رہا ہے تو ان کی خبر شائع کرنے میں کنجوسی کی جاتی ہے۔ ہندی والے کو اس طرح کی خبریں شائع کرانے کے لئے اردواخبارات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اردو اخبارات اس طرح کی خبریں شائع کرنے میں کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ آج بھی جس قدر ہندی والوں کی سرگرمیاں اردو کے اخبارات میں جگہ پاتی ہیں اس طرح اردو پروگراموں کی سرگرمیاں ہندی کے اخبارات میں جگہ نہیں پاتیں۔ اگر پروگرام کے دوران کوئی منفی بات ہوگئی ہو تو اس کو جگہ ضرور ملتی ہے۔
اردو صحافت ہی نہیں اردو شاعری اور اردو ادب میں ہندوستانیت، وطن پرستی، میلوں ٹھیلوں سے پیار، رسم و رواج سے محبت، قدروں کا احترام اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا جائزہ لیں جس میں ہندوستان کے تمام رنگ نظر آئیں گے۔ ہولی دیوالی اور میلوں ٹھیلوں کی جس طرح سے خوبصورتی کے ساتھ تصویر کشی کی ہے یہ صرف اردو زبان میں کی جاسکتی ہے۔جنوبی ہند کے قلی قطب شاہ کو کون نہیں جانتا۔ جنہوں نے اپنی شاعری کا آغاز ہی ہندوستانیت سے کیا اور ہندوستان کے رنگ کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔جس میں مشترکہ قدریں، گنگا جمنی تہذیب کا جیتاجاگتامنظر،ہندوستانی رسم و رواج، گیت، تہواروں، موسم اور تمام چیزوں کو اپنی شاعری میں پیرو دیا۔علامہ اقبال جنہوں نے رام چندر کو امام الہند کہا۔ مسلم شعراء نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اردو شعراء نے بھی اپنی شاعری سے قومی یکجہتی کے فلسفہ اور اور تصور کوعام کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اردو صحافت کا مقصد ہی قومی یکجہتی کو فروغ دینا تھا اس کا وجود ہی قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے ہوا تھایہ سفر اب جاری ہے۔
ہندی اخبارات کی اشاعت کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ہندو مسلم دونوں الگ الگ قوم ہیں۔ یہیں وندے ماترم اور دیگر متنازعہ موضوع کو ہوا ملی۔ جس کی وجہ سے نفرت کی کھیتی شروع ہوئی اور ہندی اخبارات سے ہی ہندوتو کے لیڈروں کی کھیپ تیار ہونی شروع ہوئی۔ گرچہ یہ مجاہدین آزادی بھی تھے لیکن ان میں سے بیشتر کا مقصد ہندوتو کا قیام تھا جو پورا ہوا۔ سوامی ویویکانند کو روحانی گرو کہا جاتا ہے لیکن ہندوتو ہندو راشٹر کا خواب انہوں نے ہی سب سے پہلے دیکھا تھا اور اس پر عمل بھی کیا۔گنگا دھر تلک، مدن موہن مالویہ اوراس طرح کے نظریہ کے سیکڑوں لوگ مل جائیں گے جنہوں نے ہندوتو کے قیام یا ہندو راشٹر کے قیام کے لئے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ ہندی کے اخبارات میں جنگ آزادی کے دوران اختلافی موضوع کو ہوا دی جانے لگی تھی۔مسلمانوں اور ان کے رسول کے خلاف لکھا جانے لگا تھا۔آر ایس ایس جہاں مجاہدین کو نقصان پہنچا نے اور انگریزوں کا کام آسان بنانے کے لئے مجاہدین کی انگریزوں سے کی مخبری کررہا ہے وہیں ہندو مسلم اتحاد کے دامن کو تار تار کر رہا تھا۔دوقومی نظریہ کی بنیاد رکھنے والے کوئی اور نہیں ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس والے ہی تھے۔ اس دورمیں بھی اردو صحافت نے ہندو مسلم اتحاد کے دامن کو تھامے رکھا تھا۔ جنگ آزادی کے بعد اردو صحافت سے لیکر اردو شاعری اور اردو کے تمام اصناف میں قومی یکجہتی کا تصور جتنا ملتا ہے وہ دیگر زبان میں نہیں۔
ہندوستان کی باضابطہ پہلی جنگ آزادی سے قبل بھی دہلی سے نکلنے والے اردو اخبارا ت بھی قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے مضامین لکھتے تھے۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ”اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو پہلا خالص اردو اخبار ’اخبار دہلی‘ تھا جسے مولوی باقر نے جاری کیا تھا۔ یہ ہندوستانی قوم پرستی کا زبردست حامی تھا اور ۷۵۸۱ء کی جنگ آزادی میں اس کا بڑا اہم کردار تھا اور اْس زمانے میں اِس اخبار نے سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا۔ انگریزی سرکار کے ہاں معتوب ٹھہرا لیکن کبھی بھی اپنی آزاد پالیسی پر آنچ نہ آنے دی اور یہی وجہ تھی مولوی باقر کو گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس طرح آزادی کی جدوجہد میں، اْردو صحافت کے پہلے قوم پرست اور محب الوطن شہید کا درجہ پایا“۔اس کمے علاوہ ”ہندوستان میں اردو کادوسرا اخبار ’سید الاخبار‘ تھا جسے سر سید کے بھائی سید محمد نے دہلی سے جاری کیا اور جس کے ذریعے خود سر سید عوام سے متعارف ہوئے۔ اِس کے بعد اردو صحافت کاجو دور شروع ہوا اْس میں مولانا ظفر علی خان، مولاناد ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبدالمجیدسالک جیسے محب وطن، بیباک و نڈر قلم کاروں نے اردو صحافت کو استعماریت سے آزادی کے لیے بطور ہتھیاراستعمال کیا اور لاہور، امرتسر، الہٰ آباد، لکھنو، آگرہ، جے پور، بمبئی، کانپور، حیدرآباد،کلکتہ اور کشمیرغرضیکہ پورے ملک میں اردو اخبارات کا بول بالا ہوا“۔لاہور کے پیسہ اخبار، زمیندار‘ پرتاپ اور کوہ نورامرتسر کا وکیل اور اْدھر نور الانوار، الہلال اورالبلاغ‘ریاست، آصفہ الاخبار اور دبدبہ سکندری کا طوطی بولنے لگا اور روزناموں اور ہفتہ وار اخبارات و رسائل نے اردو صحافت میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا جس نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی لہر دوڑا دی اور اردو صحافت نے ایک منفرد مقام اور لوگوں کا اعتماد حاصل کر لیا۔
اردو اخبارات کے ساتھ، بیسویں صدی کے اردو رسائل و جرائد نے بھی سیاست و علم و ادب کی خوب آبیاری کی۔ سر سید کا تہذیب الاخلاق،، مولانا آزاد کا لسان الصدق، حکیم محمد یوسف کا نیرنگ خیال، خواجہ حسن نظا می کا نظام المشائخ، راشد الخیری کا عصمت، سر عبدالقادر کا مخزن، ملک محمد الدین اعوان کا صوفی، شاہد دہلوی کا ساقی اور مولوی عبدالحق کا سہ ماہی جریدہ اردو وغیرہ وغیرہ۔ اس مختصر سے وقت میں کس کس کے نام لیے جائیں یہ سب رسائل و جرائد علم و ادب اور سیاست و ثقافت کی عظیم الشان تاریخ رقم کرتے رہے اور قوم کی راہبری میں پیش پیش رہے۔ اور قوم کے سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی معیار کی تعمیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
اردو کے عظیم صحافی اور صحافت کی داغ بیل ڈالنے والے اور قومی یکجہتی کے عظیم علمبردار، ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور وہ ملک کی تقسیم کسی حالت میں نہیں چاہتے تھے۔ اخیر تک انہوں نے ملک کی تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ گاندھی جی سے بھی ناراض تھے۔وہ کسی قیمت پر ہندو مسلم انتشار کے نام پر ملک کی آزادی نہیں چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس فارمولے پر نہ صرف عمل پیرا رہے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و تحریک دی۔ ”انہوں نے 15 دسمبر 1923 کو کانگریس کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا ”آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اترآئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کردے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تومیں اس آزادی سے دستبردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا۔ کیونکہ اگر آزادی ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن ہمارا اتحاد جاتا رہے تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔“(مولانا ابوالکلام آزاداور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست)۔ اسی طرح مولانا آزادیہ بھی چاہتے تھے کہ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے نہ جائیں کیوں کہ اس سے قومی یکجہتی کو خطرہ پیدا ہوگا اور ہندو ؤں اور مسلمانوں کے دراڑ پیدا ہوگا۔ انہوں نے اس حوالے سے جو خطرات اورخدشات کا اظہار کیاتھا وہ آج کل حقیقی شکل میں نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے کہا تھا ”ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کنارے تمہارے قافلوں نے وضوکیا تھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا، اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بیجا ہے۔ مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔“
اس طرح کی چیزیں دوسرے زبانوں خاص کر ہندی میں نہیں ملتیں جہاں سب سے زیادہ زور قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد پر دیا گیا ہو۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندی کے اخبارات ہندی نیوز چینل ہندو مسلم اتحاد کے دشمن ہیں۔ ان کا سارا وقت مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں گزرتا ہے۔ ٹی آر پی بڑھانے کے لئے رات دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔ یہاں کے عوام بھی اسی طرح کے موضوع کو دلچسپی سے سنتے ہیں اگر اکثریتی طبقہ اس طرح کے زہرے مواد کو نہ دیکھتے اور نہ سنتے توٹی وی اینکروں کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح کی منافرت پھیلانے کی وجہ چیزوں کو دکھائیں۔ ہندی میڈیا نے یہاں کے عوام کو نفرت کا عادی بنادیا ہے اور یہاں کا اکثریتی طبقہ نفرت کے علاوہ کوئی اور دوسری چیز دیکھنا اور سننا پسند نہیں کرتا۔ ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے ابھی بھی اردو صحافت نے اپنا موقف برقرار رکھا ہے اور اس کے حوالے سے نہ صرف مضامین شائع کرتے ہیں بلکہ اردو اخبارات خبروں میں بھی بھرپور جگہ دیتے ہیں۔ ہندی اخبارات کی ذہنی قلاشی کا یہ حال ہے کہ ہندی کے ان ادیبوں اورشاعروں کی ان باتوں کو جگہ نہیں ملتی جس میں وہ محبت، امن چین، ہندو مسلم اتحاد کی بات ہوتی ہے۔ ہندی کے مشہور ادیب اور نقاداشوک واجپائی کی بہت سی خبروں کو ہندی کے اخبارات شائع نہیں کرتے جس میں وہ ہندو مسلم اتحاد، فرقہ پرستی پر تنقید، شدت پسندوں کی مذمت اور قومی یکجہتی پر زور دیتے ہیں لیکن اردو کے اخبارات اہمیت کے ساتھ اس طرح کی خبروں کو شائع کرتے ہیں۔ صورت حال تو یہ ہوگئی ہے کہ ہندی کے بڑے بڑے شاعر پر ہونے والے پروگرام بھی اگر ان کا تعلق ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار سے رہا ہے تو ان کی خبر شائع کرنے میں کنجوسی کی جاتی ہے۔ ہندی والے کو اس طرح کی خبریں شائع کرانے کے لئے اردواخبارات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اردو اخبارات اس طرح کی خبریں شائع کرنے میں کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ آج بھی جس قدر ہندی والوں کی سرگرمیاں اردو کے اخبارات میں جگہ پاتی ہیں اس طرح اردو پروگراموں کی سرگرمیاں ہندی کے اخبارات میں جگہ نہیں پاتیں۔ اگر پروگرام کے دوران کوئی منفی بات ہوگئی ہو تو اس کو جگہ ضرور ملتی ہے۔
اردو صحافت ہی نہیں اردو شاعری اور اردو ادب میں ہندوستانیت، وطن پرستی، میلوں ٹھیلوں سے پیار، رسم و رواج سے محبت، قدروں کا احترام اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا جائزہ لیں جس میں ہندوستان کے تمام رنگ نظر آئیں گے۔ ہولی دیوالی اور میلوں ٹھیلوں کی جس طرح سے خوبصورتی کے ساتھ تصویر کشی کی ہے یہ صرف اردو زبان میں کی جاسکتی ہے۔جنوبی ہند کے قلی قطب شاہ کو کون نہیں جانتا۔ جنہوں نے اپنی شاعری کا آغاز ہی ہندوستانیت سے کیا اور ہندوستان کے رنگ کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔جس میں مشترکہ قدریں، گنگا جمنی تہذیب کا جیتاجاگتامنظر،ہندوستانی رسم و رواج، گیت، تہواروں، موسم اور تمام چیزوں کو اپنی شاعری میں پیرو دیا۔علامہ اقبال جنہوں نے رام چندر کو امام الہند کہا۔ مسلم شعراء نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اردو شعراء نے بھی اپنی شاعری سے قومی یکجہتی کے فلسفہ اور اور تصور کوعام کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اردو صحافت کا مقصد ہی قومی یکجہتی کو فروغ دینا تھا اس کا وجود ہی قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے ہوا تھایہ سفر اب جاری ہے۔
Comments
Post a Comment