گجرات میں ترقی کی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت

عابد انور

Thumb

یہ مضمون 2015کا لکھا ہوا ہے۔گجرات ماڈل دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہے۔اب جب کہ گجرات کورونا کا دوسرا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے اور گجرات ہائی کورٹ حکومت کی ناکامی پر مسلسل لتاڑ لگارہی ہے اورکورونا نے گجرات کی ترقی کا ڈھول پھاڑ دیا ہے۔ مگر یہاں کے لوگوں (گجرات اور پورا ہندوستان) کی آنکھوں پر اب بھی پٹی بندھی ہوئی ہے اور حقیقت کو نہ دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی سننا چاہتے ہیں۔عابد انور
جس گجرات کی نام نہاد ترقی کا ڈھول پیٹ کر اور پورے ملک کو گمراہ کرکے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے نریندر مودی کی ترقی کی حقیقت پہلے بھی سامنے آچکی تھی اور اخبارات اور کالم نگاروں نے  بار ہاگجرات کی ترقی کی حقیقت کا کچا چٹھا پیش کیا تھا لیکن دیو مالائی عقیدے کے حامل لوگوں نے اس پر یقین نہیں کیا اورپورے ملک میں گجرات کی ترقی کا ماڈل نافذ کرنے کا خواب دیکھنے لگے اور سمجھنے لگے اور اس خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے کہ پورے ملک میں گجرات کی طرح ترقی ہوگی۔ پورے ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی۔ ہر طرف صنعت و حرفت کا دور دورہ ہوگا۔ ملک کے کونے کونے میں ہیرے کے کان  ہوں گے۔ ہر محلے میں امبانی، اڈانی ہوگا۔ کھیت فصلوں سے لہلہا رہے ہوں گے۔ گجرات کے کسان کی طرح پورے ملک کے کسان خوش حال ہوں گے۔ پورے ملک میں ڈالر کا دریابہے گا۔ طرح طرح افسانوی مجنوں لیلوی داستانوں سے عوام کو گمراہ کیا گیا۔اس طرح کا خواب دکھایا گیا تھا کہ 31فیصد عوام بے ہوش ہوگئے۔ یہ دن میں خواب دیکھنے جیسا تھا۔ گمراہ کرنے میں سب سے اہم رول ہندی میڈیا کا تھااس لئے اگر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے تووہ میڈیا ہے۔ مودی سے زیادہ ہندی میڈیا اور اس کے صحافیوں کے خلاف محاذ آرائی کی ضرورت ہے۔ ایک ایک صحافی سے حساب لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے ذریعہ پھیلائے گئے گمراہ کن جھوٹ کے بارے میں پوچھا جانا چاہئے۔ ان صحافیوں اور چینلوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے جمہوریت کا سہارا لیکر فسطائی طاقتوں کو فروغ دیا۔ ان کے کاز کو آگے بڑھایا۔ جس طرح ہٹلر سے نفرت کی جاتی ہے اسی طرح اس کے علمبردار اور فسطائیتکے علمبردار سے نفرت کی جانی چاہئے۔ان سے منسلک صحافیوں اور میڈیا پرسن کوسخت سزا دی جانی چاہئے۔ جس طرح گجرات کے سلسلے میں عوام کو گمراہ کے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچایا یہ کوئی چھوٹا موٹا گناہ نہیں ہے۔ ترقی کبھی چھپتی  نہیں ہے اور اس کا نظارہ دور سے ہی ہوتا ہے۔ اس کے لئے نہ تو اشتہار کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی بڑے بڑے ہورڈنگ کی اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل کو خریدنے کی۔ وہ سب کو خود بخود نظر آنے لگتی ہے۔ لیکن جو چیز ہو ہی نہیں اس کا کچا چٹھا عوام کے سامنے ضرور آتا ہے۔یہی کام ہردک پٹیل نے کیا ہے۔ 
نریندر مودی کا یہ دعوی تھا کہ انہوں نے گجرات کی بہت خدمت کرلی ہے اور اس کے صلے میں انہیں وزارت اعظمی کے تخت پر بٹھایا جانا چاہئے اور عوام نے بٹھا دیا۔جہاں تک گجرات کی ترقی بات سوال ہے وہ گیارہویں بارہویں صدی سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور اس وقت بھی مرکز ہے۔ اگر گجرات میں گدھے کو بھی وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھادیاجائے تو گجرات ترقی کرے گا کیوں کہ تمام بنیادی ڈھانچے وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ دوسری ریاستوں کی شرح ترقی سے موازانہ کیا جائے گا تو بات سمجھ میں آئے گی کہ گجرات میں کیا ترقی ہورہی ہے ۔ وہاں کی ترقی کی بات کی جائے گی تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ دس سال پہلے گجرات کہاں تھااور اس کے مقابلے میں اس وقت کہاں ہے اور دوسری ریاستیں دس سال پہلے کہاں کھڑی تھیں اور اس وقت کہاں کھڑی ہیں۔ یہ وقت اعداد و شمار پیش کرنے کا نہیں ہے اور اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اس لئے صرف گجرات میں قرض کی صورت حال ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔ مودی نے گزشتہ 11 برسوں کے دوران گجرات کو بھاری قرض میں ڈبو دیا ہے۔ مودی نے 2001 میں جب پہلی بار وزیر اعلی کی کرسی سنبھالی تھی، اس وقت سے اب تک تک گجرات پر قرض کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔گجرات پر قرض 2001-02 میں 45,301 کروڑ سے کئی گنا بڑھ کر 2013-14 میں 1.76 لاکھ کروڑ تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔31 مارچ 2012 تک گجرات پر کل قرض 1,38,978 کروڑ تھا۔ اگرچہ گجرات کے مقابلے مغربی بنگال اور اترپردیش قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال پر 1,92,100 کروڑ، تو یوپی پر 1,58,400 کروڑ کا قرض ہے۔لیکن یہاں خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں ریاستیں خود کو 'مثالی ریاست' کی طرح پیش نہیں کرتی ہیں۔ گجرات کی مکمل آبادی اگر 6کروڑ مان لی جائے، تو ہر شخص کے سر پر تقریبا ً23،163 ہزار کا قرض ہوگا۔گجرات حکومت قرض پر 34.50 کروڑ یومیہ کے حساب سے بھاری   بھرکم سود چکا رہی ہے۔ گجرات حکومت کے بجٹ کے تخمینوں کے مطابق اس حساب سے 2015-16 تک ریاست پر قرض بڑھ کر 2,07,695 کروڑ ہو جائے گا۔خاص بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ہے جب گجرات میں پیٹرول پر زیادہ ویٹ ہے اور گجرات ان چند گنے چنے ان ریاستوں میں سے ہے جو کھاد پر بھی ویٹ وصولتا ہے۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ مودی کتنے عوامی اور فلاحی وزیر اعلی تھے۔ صنعت کاروں کو ساری سہولتیں مہیا کردینے سے ریاست کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ عوام کی ترقی سے ریاست کی ترقی ہوتی ہے۔ جہاں پیٹرول اور یہاں تک کھاد پر ویٹ ہو وہ ریاست فلاحی ریاست کیسے ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ لوک آیکت (محتسب) کی تقرری پر گزشتہ برسوں نریندر مودی کا جو رویہ سامنے آیا وہ آمریت والا ہے۔ نئے قانون کے تحت گورنر سے زیادہ طاقت وزیر اعلی کو حاصل ہے۔گجرات اسمبلی نے اس نئے احتسابی قانون کو منظوری دی ہے جس کے تحت اگر کوئی شخص اس کے تحت ہونے والی تفتیش کی خبر عام کرے گا تو اسے دو برس قید کی سزا ہوگی۔ریاست میں منظوری کئے جانے والے احتسابی کمیشن (لوک آیکت) کی تفتیش کے دوران اس سے متعلق کسی قسم کی معلومات میڈیا کو نہیں دی جائیں گی اور اگر کسی صحافی نے اس سے متعلق کوئی خبر شائع کی تو اسے دو برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔اس کمیٹی کے ذریعے منتخب کیے گئے افسران کے ناموں کو منظوری ریاستی گورنر دیں گے۔جو شخص لوک آیکت میں شکایت درج کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کے لیے دو ہزار روپے فیس ادا کرنی ہوگی۔ اگر کسی شخص نے غلط شکایت کی تو اسے چھ ماہ قید اور پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔اس صورت میں کون شکایت کرنے کی ہمت کرے گا۔ 
گجرات کی اقتصادی ترقی، خوش حالی اور بہتر حکمرانی کا ملک بھر میں ڈنکاپیٹا جارہاہے۔ لیکن۔زندگی کے دو اہم پہلو جس کاراست تعلق انسانی زندگی اور انسانی ترقی سے ہے،تعلیم اور صحت کے میدان جب گجرات کا باریک بینی سے جائزہ لیاگیا تو انتہائی مایوس کن کاردگی سامنے آئی ہے۔حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اسکولی تعلیم ترک کرنے والوں کی گجرات میں شرح 58 فیصدہے جبکہ قومی اوسط 49 فیصد ہے۔گجرات میں دلتوں کی فیصد 65ہیے جب قبائلی لئے 78 فیصد ہے۔ جہاں تک طلبہ کے حساب سے اساتذہ کی شرح کا تعلق ہے۔ گجرات میں 52طلبا پر ایک استاذ ہے جبکہ اس کی قومی شر ح 34 ہے۔ تکلیف دوہ صورت حال یہ ہے کہ لڑکیوں کا داخلہ گزشتہ دس برسوں میں 24فیصد سے کم ہوگیا ہے جب کہ لڑکیوں میں تھوڑا بہتر ہوکر 11فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔گجرات میں دلتوں طلبہ داخلہ 27فیصد سے کم ہوگیا ہے یہ قومی اوسط سے صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔  جب کہ قبائیلوں کے داخلہ میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اعلی تعلیم کے معاملے میں گجرات قومی اوسط سے پچھڑا ہوا ہے۔ اعلی تعلیم میں داخلے کی شرح گجرات میں 17.6 ہے جب کہ قومی اوسط 20.4ہے۔ کچھ ریاستوں سے گجرات بہت ہی پیچھے ہے۔ مثلاً تمل ناڈو میں 38.2ہے اور مہاراشٹر میں 27.4ہے۔ 

گجرات میں صحت خدمات کی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔ پرائمری ہیلتھ کیئر میں گجرات میں ڈاکٹروں کی34 فیصدکمی ہے جبکہ، بچہ اور خواتین ماہر امرا ض ڈاکٹر کی کمی حیرت انگیز طور پر  94 ہے۔ بنیادی سہولت کا فقدان ہے۔ 21فیصد ذیلی مراکز اور 19 فیصد پرائمری ہیلتھ سنٹر اور گیارہ فیصد کمیونٹی ہیلتھ سینٹرموجود نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں 70 فیصد ایکسرے ٹیکنیشین اور 63فارماسسٹ تعینات نہیں ہے۔ جبکہ سو فیصد ماہرین ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ صحت کی بدانتظامی کا نتیجہ سامنے ہے۔ گجرات میں بچہ اموات جہاں 2012میں 38 تھا وہیں مہاراشٹر میں 25اور تمل ناڈو میں 21بچے فی ہزار کی شرح اموات ہے۔ دیہی علاقوں میں بچوں کی شرح اموات 45 فیصد تک ہے اور مغربی گجرات کے اضلاع میں یہ شرح 55تک پہنچ گئی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شرح اموات37ہے جب کہ قومی اوسط 34 ہے۔ یہ صرف صحت خدمات کی ہی کمی نہیں ہے بلکہ لڑکیوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیاز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گجرات میں ہر تیسرا بچہ انڈر ویٹ ہے۔ گجرات میں کیگ نے یہ انکشاف کیا ہے۔کیگ نے ریاست کی مربوط بہبود اطفال منصوبہ (آئی سی ڈی ایس کے) پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں ہر تیسرے بچے کا وزن اوسط سے کم ہے۔ گجرات کی کارکردگی تعلیم اور صحت کے شعبے میں انتہائی خراب کارکردگی رہی ہے۔ کیوں کہ ان چیزوں پر بہت زیادہ خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔2001سے 2002کے دوران اپنے مجموعی مصاف میں سے 13.2 ان شعبوں پر خرچ کیا ہے۔ جب کہ قومی اوسط 14.8ہے۔ اسی طرح گجرات حکومت صحت کے تعلق سے کاانتہائی کنجوسی کا رہا ہے۔ اس نے اپنے خرچ میں صرف تین فیصد خرچ کیا ہے۔ تملناڈو میں چار فیصد، مہاراشٹر میں 3.5خرچ کیا گیا ہے۔ جب کہ جھارکھنڈ 4.8 فیصد اور راجستھان 4.5 فیصد اس میں آگے ہے۔ 
گجرات کے بارے میں کیگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے، ' اسپلیمنٹس پروگرام کے لئے 223.14 لاکھ بچے  کو غذا پہنچانا تھا لیکن ان میں سے 63.37 لاکھ بچے چھوٹ گئے۔یہ رپورٹ جمعرات کو گجرات اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔اس میں کیگ نے کہا، سالانہ طور پر 300 غذائیت دن کے ٹارگیٹ کے پس منظر میں بچوں کوا سپلیمنٹس مہیا کرانے کے دنوں کی کمی 96 تک پہنچ گئی۔لڑکیوں کی پرورش کی پروگرام میں 27 سے 48 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 1.87 کروڑ کی آبادی آئی سی ڈی ایس کے فوائد سے محروم رہ گئی۔کیگ نے کہا، 75، 480 آنگن واڑی مراکز کی ضرورت تھی، لیکن صرف 52137 مراکز کی منظوری دی گئی اور ان میں سے 50225 مرکز چل رہے ہیں. ایسے میں 1.87 کروڑ آبادی آئی سی ڈی ایس کے فوائد سے محروم رہ گئی۔کیگ کی رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے ریاست کو نومبر، 2008 میں ہدایت دی گئی تھی کہ وہ نظر ثانی آبادی کے معیار کی بنیاد پر اضافی منصوبوں کے سلسلے میں وہ تجویز سونپے، لیکن گجرات نے کوئی تجویز نہیں پیش کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے نو سے 40 فیصد آنگن واڑی مراکز پر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔کیگ نے کہا کہ نابارڈ نے 3333 آنگن واڑی مراکز کی تعمیر کی منظوری دی تھی، لیکن صرف 1979 مرکز بنے۔پورٹ میں کہا گیا ہے کہ09۔2008تک مرکزی حکومت نے آئی سی ڈی ایس کے لئے مکمل پیسہ دیا تھاجب کہ ریاست کو 10 فیصد تعاون  حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رگھورام راجن کمیٹی نے گجرات کو کم ترقی یافتہ ریاست قرار دیا ہے۔اس کمیٹی نے غریب ریاستوں کو اضافی مدد دینے کے لئے انہیں خصوصی درجہ دینے والے معیار کو ختم کرنے اور ملک کی28 ریاستوں کو سب سے کم ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ اور نسبتا تیار ریاستوں کے زمرے میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔گجرات کم ترقی یافتہ ریاستوں کے زمرے میں شامل ہے۔اس میں علاحدہ سے مسلمانوں کے تعلق اعداد و شمار کا ہم ذکر نہیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی حالت، صحت، تعلیم، تجارت، معاشیات میں بہت دگرگوں ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے وہ ترقی کیلئے قابل اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments