ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے گھر میں پولیس

عابد انور

Thumb

ہندوستان قانون کو منمانے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں صف اول میں آگیا ہے۔ تمام سطح پر اس کی رینکنگ گرتی جاری ہے لیکن حکومت اس پر غور کرنے اور ملک کی شبیہہ کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے کوئی قدم اٹھانے کے بجائے اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔گزشتہ پانچ ماہ کے دوران جب سے قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی  اے اے) این آر سی اور این پی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کیا تھا، خواتین کے پرائیویٹ پارٹس حملے کئے تھے، گندی اورفحش گالیاں دی تھیں، یہ بات حکومت کے علم میں آئی تھی لیکن حکومت نے پولیس کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی شان میں رطب اللسان نظر آئی۔ پردھان سیوک اور وزیر داخلہ ہر موقع پر پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ کیوں کہ ان کو جو کام ملا تھا وہ اس نے اس سے بڑھ کرکیا ہے تو تعریف تو ہوگی ہی۔ اب پولیس کی عادت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ مسلمانوں پر مسجد میں ڈھنڈے برساتی نظر آتی ہے جب کہ وہاں دس پندرہ لوگ ہوتے تھے جب کہ شراب کی دکانوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے اور ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے لیکن پولیس نے ڈنڈا چلانا دور کی بات ان لوگوں کو ہٹانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ یہ امتیازی سلوک اب ہندوستان کی شناخت بنتی جارہی ہے۔بے گناہ مسلمانوں کو پکڑو اور ہندو مجرموں کو اعزاز سے نوازو۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام کی گرفتاری اسی ذہنیت کا غماز ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں لکھی ہے۔ ملک کی جو صورت حال ہے جس طرح حکومت کی طرف سے کورونا کے بارے میں تبلیغی جماعت کو نشانہ پر لے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے انتہائی قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔ اس پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے اس پر دہلی حکومت اور مرکزی حکومت کو خط لکھا تھا اور کہا کہ الگ الگ نام لینے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے اور لوگ اس کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔اس لئے الگ سے نام نہ لیا جاے۔ اس کے باوجود دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے الگ سے نام لینا جاری رکھا تھا اور بعد میں نام نہ لیکر اسپیشل کہہ کر اشارہ کردیا گیا۔اس وقت کورونا صرف تین دن میں چالیس ہزار سے 52ہزار کی عدد کو چھو چکا ہے لیکن اب حکومت الگ سے نام نہیں بتارہی تھی کیوں کہ اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا جو ہوچکا اور مسلمانوں پر حملے تیز ہوگئے، ڈاکٹر وں نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے منع کردیا۔ کئی حاملہ عورتیں یا تو وہ خود بغیر علاج کے مرگئیں یا ان کا بچہ مرگیا۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ 

دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار نے بتایا تھا کہ مسٹر خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ124 A(بغاوت) اور 153A (دوفرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا)کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے۔153Aکی سوشل میڈیاپر جس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام لوگوں چھوڑیں مرکزی حکومت کے وزرائے اس دفعہ 153A کی خلاف ورزی کرتے ہر روز نظر آتے ہیں۔ بی جے پی کاادنی کارکن سے لیکرکونسلر، رکن اسمبلی، رکن پارلیمنٹ، وزرائے اور اعلی آئینی عہدے پر فائزلیڈران روزانہ مذکورہ دفعہ سمیت متعدد آئینی دفعات کی ھجیاں اڑاتے ہیں مگر کبھی پولیس ان کے گھر پر دستک نہیں دیتی۔دہلی فساد کے قبل کپل،مشرا یک ڈی سی پی کے سامنے ببانگ دہل مسلمانوں کو دھمکی اور دونوں فرقوں کے منافرت والی بات کہہ کر چلا گیا مگرپولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے کپل مشرا اور پرویش ورما اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔  اس کے بعد جو بینچ سماعت کے لئے بیٹھی اس نے سماعت ٹال دی۔ جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے اس پر سماعت کرنے کے بجائے واپس ہائی کورٹ بھیج دیا اور ہائی کورٹ اب تک اس پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرسکا ہے۔ پولیس نے اس وقت دلیل دی تھی کہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ اب حالات کیسے سازگار ہوگئے کہ پچاس سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔
ذرائع نے بتایا کہ دہلی پولیس بغیر کسی نوٹس کے آئی تھی۔ جب نوٹس طلب کیاگیا ہے اس نے دکھانے سے انکار کردیا اور پولیس والوں سے کہا گیا کہ پہلے نوٹس بھیجئے پھر پوچھ گچھ کے لئے بلائیے۔پھر پولیس نوٹس بھیجنے کی بات کہہ کر واپس چلی گئی۔ یہاں بھی پولیس نے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب افطار کا وقت تھا۔ لاک ڈاؤن نہ بھی ہوتا تو بھی مسلمان اس وقت گھر میں رہتے ہیں۔کیوں کہ افطار کرنا ہوتا ہے۔ پولیس نے سمجھا اس وقت پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیوں کہ سب لوگ گھروں میں ہوں گے۔ مگر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے۔ یہاں کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں، رکن اسمبلی امانت اللہ خاں اور متعدد افراد پہنچ گئے اور پولیس نے نوٹس دکھانے کا مطالبہ کرنے لگے تو للہ پولیس جانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے بعد اظہار یکجہتی کے لئے جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی، جنرل سکریٹری انجینئر محمد سلیم اور دیگر لوگ بھی آئے۔ 
واضح رہے کہ دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر، میران حیدر، سلیم اور دیگر کو پوچھ گچھ کے لئے صرف بلایا گیا تھا لیکن اسپیشل سیل والوں نے کورونا میں لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں کو گرفتار کرلیا اور ان پر دہلی میں فسادات میں کرانے کی سازش کا الزام مڑھ دیا جب صفورہ کو ضمانت مل گئی تو صفورہ سمیت متعدد پر یو اے پی اے جیسا سیاہ قانون لا د دیا۔ جب کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فساد کس نے کرایا تھا اور کون لوگ باہر ٹرک بھر بھر کے کرائے ٹٹو لیکر آئے تھے کئی ٹرک اینٹ پھر جمع کئے تھے۔ فسادات کے بعد پانچ ہزار سے زائد لوگوں کوگرفتار کیا تھا جس میں بیشتر مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ حکومت کی بے شرمی انتہا تو دیکھئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران جسمانی دوری کو قائم رکھنے کے لئے جیلوں کو خالی کرایا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس ضمن میں حکومت کو ہدایت جاری کی ہے لیکن اس دوران حکومت نے صرف دہلی میں ہی لاک  ڈاؤن کے دوران پچاس سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ 

 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنی اس پوسٹ پروضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ پوسٹ ایک ایسے غیر مناسب وقت جاری کی گئی جب ملک کو ایک طبی ایمرجنسی کا سامنا ہے بلکہ انہوں نے اپنے تفصیلی بیان میں ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ نہ پہلے اور نہ اب اپنے ملک کے خلاف عرب یا مسلم ممالک سے شکایت کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ادارے ہمارے لئے کافی ہیں۔اس کے بعدڈاکٹر ظفرالاسلام نے بروز اتوار 3 مئی 2020 کو ایک توضیحی بیان ٹوئیٹ کے ذریعے جاری کیا اور کہا کہ ”میڈیا کے ایک حصے نے  غلط بیانی کی ہے کہ میں نے اپنے 28 اپریل کے  ٹویٹ پر معذرت کرلی ہے اور اسے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے حذف کردیا ہے۔ میں نے بذات خود ٹویٹ پر معذرت نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے حذف کیا ہے۔ میں نے بذات خود ٹویٹ کے لئے نہیں بلکہ اس لئے معذرت کی کہ وہ ٹویٹ ایسے وقت میں آیا جب ہمارے ملک کو ایک طبی ایمرجنسی درپیش تھی جس کی وجہ سے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ ٹوئیٹ غیرمناسب اور غیر حساس تھا۔  وہ ٹویٹ اب بھی میرے ٹوئیٹر ہینڈل اور فیس بک پیج پر موجود ہے۔ مزید یہ کہ، میں نے اپنے  یکممئی 2020 کے توضیحی بیان میں واضح کردیا  ہے کہ میں اپنے خیالات اور نظریے پر قائم ہوں۔ میں اب اور مستقبل میں بھی ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف جدوجہد جاری رکھوں گا۔ ایف آئی آر، گرفتاری اور جیل کی قید و بند اس راستے کو تبدیل نہیں کرتی ہیں جو میں نے اپنے ملک، اپنے عوام، ہندوستانی سیکولر نظام اور آئین کو بچانے کے لئے شعوری طور پر برسوں پہلے اپنے لئے منتخب کیا ہے“۔
کورونالوجی کو سمجھئے کہ اسی دن مسٹرخان کے کویت والے ٹوئٹ کے خلاف یہ مقدمہ روز درج کیا گیا تھا جس روز میں بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرکے انہیں اقلیتی کمیشن کی صدارت سے برخاست کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ ان ممبران اسمبلی نے ڈاکٹرظفرالاسلام خان پر ملک کی یکجہتی اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے، دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہہ کوداغدار کرنے اور ہندو،مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کے الزامات لگائے تھے۔پولیس نے بھی فوراً مقدمہ درج کرلیا۔ 

جس طرح پولیس اور حکومت نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لئے نظام الدین مرکزکو نشانہ بنایا اور مولانا سعد پر منی لانڈرنگ، غیرارادتاً قتل اور دیگر مقدمات درج کئے ہیں اسی طرح دہلی پولیس نے ایرے غیرے کی شکایت پر فورا ملک سے غداری اور منافرت پھیلانے کا مقدمہ درج کرلیا۔اس میں حکومت کی منشا صاف نظر آرہی ہے کہ ہر بولنے والی آواز کو کچل دی جائے۔ اسی مقصد کے تحت ملک گیر سطح پر سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمانوں سے مزاحمت کی طاقت کو ختم کیا جاسکے۔ مسلمانوں کو اس قدر خو ف و دہشت میں مبتلا کردیا جائے وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھاسکیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کی مسلمانوں کے خلاف زیادتی کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے اور پہلی بار عرب نے ممالک نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور خاص طور پر عرب ممالک میں کام کرنے والے ہندوتو کے علمبردار وحشی، بدتمیز اور بد تہذیب کے خلاف سخت رخ اپنایا گیا ہے اور ہندوستانی حکومت سے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن مودی حکومت نے کرناٹک سے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ اور نظام آباد سے رکن پارلیمنٹ اروند دھرم پوری کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ 
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلمان مسلک، علاقائیت،ذات پات اور تمام چیزوں کو بالاتر ہوکر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اور ان جیسے لوگوں کے حق میں اپنی آواز بلند کریں۔ اس وقت اگر مسلمانوں نے اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت پیش نہیں کیا تو وہ اپنے قتل عام، ذلت و رسوائی،سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی استحصال کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت کے ان مظالم کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھائی جائے۔ جب آپ آواز اٹھائیں گے تو دوسرے لوگ آپ کا ساتھ دیں گے اگر آپ ہی (مسلمان) آواز نہیں اٹھائیں گے تو دوسرا کیسے ساتھ دے سکتا ہے۔
9810372335

Comments