مدارس اسلامیہ سے عنقا ہوتی شفافیت

عابد انور

Thumb

یہ مضمون مئی 2011 میں لکھا گیا تھا جو راشٹریہ سہارا کے امنگ میں شائع ہوا تھا۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس اسلامیہ کی خدمات اتنی عظیم اور شاندار ہیں کہ انہیں ضبط تحریر میں لانا مشکل امر ہے۔ مدارس کا وجود کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی آمدشروع ہوئی تھی۔ مسلم حکمراں علماء و فضلاء کا ایک بڑا طبقہ بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔جتنے بھی بڑے عالم تھے یہاں تک کے صوفیاء کا تعلق بھی مسلم ممالک سے تھا۔ انہوں نے ہندوستان میں رہ کر جہاں اسلامی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں نمایاں حصہ لیا وہیں وہ دیگر علم و فنون کو بھی رائج کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ ایک وقت ایسا آیا مدارس کا جال پورے ملک میں بچھ سا گیا۔ انگریزی مصنف تھامس رو کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھ میں ہی تقریباً چار سو مدارس تھے۔ غرض کہ مسلم حکومت کے دور میں تعلیم و تعلم کا ذریعہ ہی مدارس تھے اس میں جہاں عبداللہ تعلیم حاصل کرتے تھے وہیں رام پرساد بھی علم کے موتی پیرونے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ان مدارس نے ہندوستان میں قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کی قلیل تعداد ہونے کے باوجود کبھی کوئی قابل ذکر فساد نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی مسلم مخالف جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ہندوستان کے بارے میں جتنے تاریخی حقائق ہیں یا قدیم ہندوستان کے بارے میں صحیح معلومات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی ابن بطوطہ اورریحان البیرونی کی مرہون منت ہیں۔ بیرونی کی کتاب الہند اور ابن بطوطہ کا سفر نامہ ہندوستانی تاریخ کے اہم ماخذ ہیں۔اگر انہوں نے ہندوستان کے دوردراز علاقوں کا دورہ نہ کیا ہوتا اور ہندوستان کی تہذیب و تمدن، نشست و برخاست اور رہن سہن کا مطالعہ نہ کیا ہوتا تو آج تک ہم ان باتوں سے انجان رہتے۔ ہندوستان سے جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو اسی کے ساتھ مدارس اسلامیہ کا قلعہ بھی قمع ہوگیا۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ اثر تعلیم پر ہی پڑا کیوں کہ مدارس اسلامیہ نے 1857 کی جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا اس کے پہلے مسلمانوں کی کئی تحریک نے انگریزوں کا بے صبروسامانی کے عالم نہایت بے جگری سے مقابلہ کیا تھا۔ ان میں سید احمد شہید،سید اسماعیل شہید، حاجی امداداللہ مہاجرمکی، حافظ ضامین شہید، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کا نام لیا جاسکتا ہے۔

شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے ہندوستان میں اسلامی تعلیمات اور خصوصاً فن حدیث کو قائم و دائم رکھنے میں بے مثل کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں علم حدیث کاہر سرا ان ہی کے خاندان جا ملتا ہے۔ شاہ ولی اللہ تحریک نے نہ صرف یہ مسلمانوں میں نیا جوش اور نیا ولولہ بھرا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کی جتنی بھی تحریک انگریزوں کے خلاف اٹھی اس کاتار تحریک شاہ ولی اللہ سے ہی ملتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک شاہ ولی اللہ اسلامی تہذیب و اقدار کے بقاء اور دفاع میں مکمل طور پر کامیاب رہی۔اس تحریک نے ان چیزوں کو محسوس کرلیا تھا جو سو ڈیڑھ سو سال کے بعد وقوع پذیر ہونے والا تھا۔کیوں کہ وہ مومن تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اتقو من فراست المومنین و ہو ینظر بنوراللہ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کی نور سے دیکھتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں اسلام، مسلمانوں اور مدارس کی جو صورت حال ہے اور علماء کا جو رویہ ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ علماء میں شاید کوئی مومن نہیں ہے اگر وہ مومن ہوتے تو ان میں فراست بھی ضرورہوتی اورمسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کو تضحیک و تحقیرکا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس اسلامیہ اسلام کے مضبوط قلعے ہیں۔اگر ہندوستان میں مدارس نہ ہوتے تو شاید اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتااسلام کی تھوڑی بہت جو رمق دکھائی دیتی ہے وہ مدارس ہی کی دین ہے۔اسلام اور مسلمانوں کو دشمنان اسلام نے جڑ سے مٹانے میں کوئی کسرکبھی نہیں چھوڑی تھی۔ ہر دور میں مختلف شکلوں، صورتوں اور مختلف مکروہ سازشوں کے تحت انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے جی توڑ کوششیں کی ہیں لیکن وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نظر مدارس اسلامیہ پر لگی ہوئی ہے اور وہ مدارس کے ہر حرکات و سکنات پر ژرف بینی سے اپنی نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس پر وہ ضرب کاری لگاسکیں۔ مختلف بہانوں سے مدارس کو بدنام کرنے کی کوششوں میں یہ طاقتیں لگی رہتی ہیں وہ کبھی کبھی اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں کیوں کہ عالمی میڈیا اورمسلم دشمن طاقتوں کا سایہ ان کے سر پر فگن رہتا ہے۔اس میں غیروں کی سازش سے کہیں زیادہ مدارس کے مہتمم (مالکان) کی بیوقوفیاں، ذاتی کمزوریاں اور حرص طمع کا بڑا د خل ہوتا ہے۔ کچھ غلطیاں اہل مدارس کی بھی ہوتی ہیں کہ وہ اپنے نظام میں شفافیت کو برقرار نہیں رکھتے جس کی وجہ سے دشمنان اسلام سازش کو نقطہ انجام تک پہچانے میں بہ آسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کے سلسلے میں جتنے بھی علماء کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں بیشتر وہ لوگ ہیں ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو اپنا حساب و کتاب صاف شفاف نہیں رکھتے تھے۔ اسی کا فائدہ اٹھاکر مسلم دشمن افسران انہیں دہشت گردی اور دیگر الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا قیام (1283 ہجری) ایسا سنگ میل تھا اس کے قیام میں بھی فکر شاہ ولی اللہی ہی کا عمل دخل تھا،جس کی روشنی اب پوری دنیا میں پھیل رہی ہے اس کے بعد تو مدارس کے قیام کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ سارے مدارس اسلام کی نشر و اشاعت نمایاں خد مات انجام دے رہے ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں مدارس کے قیام کے باوجود مدارس میں صرف ۴ فیصدہی مسلم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ ایسا شور تھا کہ مدارس مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ ہیں لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ نے اس گمراہ کن پروپیگنڈہ پر پڑی دبیز چادر کو الٹ دیا ہے۔ چار فیصد مسلم طلباء اسلام کی توسیع واشاعت اورخدمت کے لئے کافی نہیں ہیں ان میں سے مدارس سے فارغین کا ایک طبقہ عصری علوم حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور پھر وہ کبھی مدارس کی طرف رخ نہیں کرتا۔ اسی کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلم ہے کہ یہ مدارس حکومت ہند پر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں اور حکومت کے اربوں روپے بچارہے ہیں کیوں کہ وہ چار فیصد مسلم آبادی کی نشو و نما اورپرورش و پرداخت کر رہے ہیں اور ان کے مکمل تعلیمی، رہائشی، طعام، طبی اور دیگر اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ تصور کیجئے اگرمدارس نہ ہوتے یہ چار فیصدغریب بچے کہاں جاتے ان کا انجام کیا ہوتا۔ چور بنتے، اٹھائی گیری کرتے اور دیگر جرائم میں ملوث ہوتے ویسے بھی مسلمانوں کی آبادی گرچہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق13 فیصد سے زائد ہے لیکن جرائم میں ان کا گراف کافی اونچا ہے ایک اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی مختلف جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد35 سے40 فیصد کے درمیان ہے یہ ہمارے لئے، علماء کے لئے، مسلم معاشرہ کے لئے اوراصلاح معاشرہ کے نام اربوں روپے لانے والوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کم از کم یہ مدارس ان چار فیصد مسلم بچوں کو اس لائق توبنادیتے ہیں کہ وہ دین کی خدمت انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنی روزی روٹی کا انتظام کرسکیں۔
مدارس اسلامیہ جہاں ایک طرف روشن خدمات انجام دے رہے ہیں وہیں مدارس کا ایک طبقہ خصوصاًاور شہر میں چلنے والے چھوٹے مدارس کے ناظم و مہتمم نے مدارس کو اپنی اور اپنے خاندان کی عیاشی کا وسیلہ بنالیا ہے۔ دہلی میں 2002 کے آ س پاس تقریباً ڈیڑھ ہزار مدارس تھے لیکن اس وقت تین ہزار کے آس پاس ہوں گے۔ سرکاری ریکارڈ میں تو اتنے مدارس ہیں لیکن درحقیقت اتنے مدارس نہیں ہیں بیشتر تو کاغذوں پر چل رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے محص انہیں اپنا ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ کئی لوگ دہلی میں ایسے ہیں جو خود نام نہاد مدرسہ چلا رہے ہیں، ان کے بھائی اور بہنوئی کامدرسہ ہے۔ مدرسوں کا یہ حال ہے کہ وہ محض ایک کمرے تک محدود ہے جہاں دو چار بچے نورانی قاعدہ پڑھتے ہوئے مل جائیں گے۔ قرآنی خوانی کروانے کے سلسلے میں ایک ایسے ہی مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا جو ابوالفضل انکلیو میں ہے جوکا غذ پر توبہت بڑا مدرسہ ہے اورخلیجی ممالک سمیت جنوبی افریقہ اور لندن سے چندے اکٹھے کئے جاتے ہیں لیکن ایک کمرے میں چل رہا ہے اور دو چار بچے نورانی قاعدہ پڑھتے ہوئے ملے۔
بعض اہل مدارس جنوبی افریقہ اور لندن میں چندہ کرتے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کی غربت و بدحالی کا رونا روکر فنڈ لاتے ہیں لیکن اس کا استعمال سیاسی قد اونچا کرنے صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک مولوی صاحب جن کا تعلق بہار کے سرحدی علاقے سے ہے، گزشتہ 15، 20 برسوں سے چند ہ کر رہے ہیں انہوں نے اپنے اہل  خانہ کے نام پر درجنوں ایکڑ زمینیں خریدی ہیں، پہلے کچھ نہیں تھا آج اب ان کے پاس سب کچھ ہے، وہ زکوۃ و فطرہ کے پیسے سے سیاسی لوگوں کی آؤ بھگت بھی خوب کرتے ہیں سیاسی پارٹیوں کو خطیر رقم چندے میں دیتے ہیں اس کے علاوہ مقامی پولیس اسٹیشن سے لے کر اوپر اور اعلی حکام تک پیسہ پہچاتے ہیں کیوں کہ وہ کئی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں۔ اگر وہ چندے کی رقم میں سے اتنا ہی پیسہ وہ استعمال کرلیتے جتنا پیسہ وہ سیاسی لیڈر اور فسران پر خرچ کرتے ہیں تو علاقے میں بہت بڑا کام ہوجاتااور انہیں اوپر سے نیچے تک پیسے پہنچانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک پروگرام کیا  تھاجس میں سیاسی لوگوں کو لانے لے جانے اور جیب گرم کرنے پر بیسیوں لاکھ روپے انہیں خرچ کرنے پڑے تھے۔جہاں ان کا مدرسہ واقع ہے وہ انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں لوگوں کو سخت ضرورت بھی ہے لیکن ان تک یہ پیسہ نہیں پہنچ جاتا۔ بعض علماء یہ بھی نہیں دیکھتے کہ دعوت دینے والا شخص زکوۃ و صدقات کے فنڈ کو کس طرح مستحقین کو دینے کی بجائے اپنے ذاتی مصارف میں صرف کرتا ہے۔ان کو کار کی سواری یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ چاہئے پھر انہیں آپ کہیں بھی بھیج دیں ہر جگہ جانے کو تیار ہوجائیں گے اس رویہ پر ایک شخص بہت اچھا تبصرہ کیا ”ان علماء کو جہنم کے لئے بھی ہوائی جہا ز کا ٹکٹ دے دیا جائے تو وہ خشوع و خضوع کے ساتھ چلے جائیں گے“۔اسی طر ح ایک عالم جو اپنے دونوں صاحبزادوں کے ساتھ چندہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں، ہماچل پردیش میں بیٹھ بہار کے ایک ضلع کی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ترقی کی بات کرنا کوئی غلط نہیں ہے لیکن ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جوغریب اوریتیم بچوں کے نام پر زکوۃ و صدقات اور عطیات ہڑپ کر جاتا ہو اور اس پیسے کا استعمال اپنے نام و نمود حاصل کرنے پر خرچ کرتا ہو۔ایسے علماء کو شہرت بٹورنے کا بہت شوق ہوتا ہے اس لئے وہ پیسے خرچ کرنے میں کسی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
اس طرح آپ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے جو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ کرائے کے ایک کمرے میں مدرسہ شروع کرتے ہیں، اگلے چھ ماہ میں موٹر سائیکل خریدتے ہیں، پھر اگلے چھ ماہ کے بعد کار اور پھر فلیٹ یا مکان۔ مدرسہ ایک طرح سے مختصر مدت میں امیر بننے کا ایک بڑا زاور زود اثر ذریعہ بنتاجارہا ہے۔ اس طرح کے جتنے بھی مدرسے قائم کئے جاتے ہیں وہ سوسائٹی رجسٹرڈ کے تحت ہوتے ہیں اس کا مالک کل مدرسہ کا مہتمم یا ناظم ہوتا ہے اور عوامی پیسے سے جتنی بھی زمینیں خریدی جاتی ہیں وہ سب ان کے نام پر ہوتا ہے۔ مدرس تو بیچارے کمپرسی کی حالت میں رات و دن تعلیم و تعلیم میں صرف کرتے ہیں اور اس کے عوض مہتم صاحبان عیش کرتے ہیں۔ ان کی طرز زندگی دیکھ کر کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں یا ان میں خوف خدا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ آج ہر مدرسے کے ناظم یا مہتمم کے پاس مہنگے سے مہنگے موبائل فون اور جدید ترین تکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں، چمچماتی کار ان کی پہلی پسند ہوتی ہے۔ ان سے کوئی بھی کچھ سوال نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ کسی معاشرے کے اندر نہیں ہوتے۔ کتنا پیسہ چندے میں آتاہے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ حساب و کتاب کا تو سوال ہی نہیں البتہ رمضان سے پہلے اپنی مرضی کے مطابق بیلنس شیٹ بنواتے ہیں جس میں اخراجات زیادہ اور آمد کم دکھائی جاتی ہے تاکہ قرضہ دکھاکر زیادہ سے زیادہ چند اکٹھے کئے جاسکیں۔یہ بیلنس شیٹ بھی فرضی ہونے کے ساتھ اس پر لگی ہوئی مہر بھی فرضی ہوتی ہے۔ ایک ایسی آل انڈیا تنظیم (کاغذی) جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے نام پر قائم کی گئی ہے اور وہ صاحب سوپول بہارمیں ایک مدرسہ بھی چلاتے ہیں۔ اس تنظیم کے تحت کوئی کام نہیں کرتے البتہ وہ اور ان کے کچھ ساتھی سال بھر اس تنظیم کے نام پر چندہ ضرور کرتے ہیں۔ ایک بار اس کے بیلنس شیٹ میں آمد 20 لاکھ روپے دکھایا گیا تھا اور اخراجات25 لاکھ روپے۔ اس تنظیم نے تمام ہونہار طلباء کو اسکالرشپ کے سمیت تمام فلاحی کام خواب میں کئے تھے۔جھوٹ کا یہ عالم ہے کہ اس تنظیم کے پاس اسکالر شپ کے فارم تک نہیں تھے۔ آج علماء کو اگر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ پہلی بات تویہ ہے یہ لوگ خودہی خفیہ ایجنسیوں تک اپنے حریف مدرسہ کے خلاف شکایت پہنچاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کا کوئی بھی معاملہ شفاف نہیں ہوتا۔ مثلاً ان کی جائداد اور یا بینک بلینس معلوم آمدنی (چندہ) سے میل نہیں کھاتے۔ مدارس اسلامیہ اور شفافیت ندی کے دو کنارے بن گئے ہیں جو آپس میں نہیں ملتے۔
مدارس میں رہنے والے طلباء کی کیفیت ہمیشہ کی طرح آج بھی دگرگوں ہے۔ وہ جسمانی سمیت مختلف طرح کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ مقوی غذا  انہیں میسر نہیں ہوتا۔ کھانے کا معیار اتنا پست ہوتا عام حالات میں کوئی اسے کھانا پسند نہیں کرے گا۔ ہندوستان سمیت پوری دنیا کے مسلمان ان ہی مہمانان رسول کے نام پر خطیر رقم دیتے ہیں۔ ایک طرف مدارس کے طالب علموں کو گھٹیا کھانا دیا جاتا ہے دوسری طرف مہتمم صاحبان کا کوئی کھانا مچھلی گوشت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ مہتم صاحبان کے صاحبزدگان کو دیکھیں گے تو وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگیں گے کیوں کہ فارغ البالی ان کی ہر حرکتوں سے نمایاں ہوتی ہے۔ آج اس طرح کے علماء کرام کسی سامنے حق کی بات اس لئے بھی نہیں کر پاتے کیوں کہ خود ان کے اندر بہت ساری خامیاں ہوتی ہیں وہ بہت سارے غیر شرعی کام کرتے ہیں۔ حکومت اور تفتیشی ایجنسیوں کے پاس ایسے علماء کا پورا کچا چٹھا موجود ہوتا ہے اسی لئے ایسے علماء اور ائمہ کرام اردو اخبارات میں اشتعال انگیز بیان دے کر ہی اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن جیسے ہی کسی وزیرکے پاس مسلمانوں کے مسائل کو لے کر پہنچتے ہیں بھیگی بلی بن جاتے ہیں کیوں کہ حق کی بات وہی کرسکتا ہے جو قربانی دینا جانتا ہو، بے لوث ہو اور حرص و طمع سے پاک ہو۔ اب قربانی دینے والے علماء کرام ہندوستان سے تقریباً ناپید ہوگئے ہیں۔
علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد خاص مولانا یوسف بنوری ؒجنہوں نے پاکستان کے بنوری ٹاؤن میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، مولانا نے اعلان کیا کہ مدرسہ میں جنہیں چندہ دینا ہے وہ عطیہ دیں زکوۃ نہیں ایک طویل عرصہ تک مولانا کے مدرسے میں زکوۃ کی رقم نہیں لی جاتی تھی جنہیں چندہ دینا ہوتا تھا وہ عطیہ ہی دیتے تھے وہ بھی ایک خاص تاریخ متعین ہوتی تھی اور شہرمیں یہ مشتہر کردیا جاتا کہ فلاں تاریخ کو چندہ لیا جاتائے گا۔اس دن عطیہ دہندگان رقم لے کر علی الصباح حاضرہوجاتے مولانا اتنی رقم لیتے جتنی کہ مدرسے کو ضرورت ہوتی اور اس کے بعد چندہ لینے سے انکار کردیتے اورکہتے کہ میری ضرورت پوری ہوگئی جنہیں چندہ دینا ہے وہ دوسرے مدرسے میں جائیں۔اس طرح چندہ دینے والے ایٹیچی میں روپے بھر کر علی الصباح حاضر ہوجاتے تاکہ وہ چندہ دے سکیں۔اسی طرح کا معاملہ مولانا صدیق باندوی ؒ روا رکھتے تھے اور اپنے مدرسے کے لئے اتنے ہی پیسے لیتے تھے جتنے روپے کی ضرورت ہوتی۔ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے جو مدرسہ میں پڑھایا کرتے تھے اور خالی وقت میں سائیکل پر کپڑے فروخت کیا کرتے تھے، ان کی غیر حاضری میں اینٹ کا نیم پختہ مکان تعمیر کرلیا جب مولانا باندویؒ سفر سے واپس آئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو سخت سست کہا اور وہ نیم پختہ مکان توڑ وادیا اور فرمایا کہ ہم غریبوں کے لئے جھونپڑی ہی مناسب ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسی حرکتوں سے ان لوگوں کی بدنامی ہورہی ہے جو صحیح معنوں میں کام کر رہے ہیں اورملک کے دور دراز اور سہولتوں سے کوسوں دور علاقوں میں فی سبیل اللہ دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں رہتے ہیں لیکن دینی تعلیم کی شمع کی لو کو کبھی بجھنے نہیں دیتے۔ چندہ خور علماء نے لوگوں میں علماء کی شبیہہ اتنی خراب کردی ہے کہ سچے عالم کو بھی اسی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ چندہ کرنے والے جو بھی نظر آجائیں پہلی نظر میں یہی احساس ہوتا ہے کہ کہیں یہ غلط تو نہیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں یہ طبقہ باہر جانے اور موٹی رقم ہڑپنے کے لئے جعلی کاغذات تک بناتے ہیں اورفریب دے کرچندہ حاصل کرنے کے جتنے بھی طریقے اپنائے جاسکتے ہیں وہ سب اپناتے ہیں۔ یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بنیاد اور مقصد ہی غلط ہوگا تو کسی فلاح و بہبود کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صالح علماء اس میدان میں آگے آئیں اور ان لوگوں سے عطیہ دہندگان کو بچائیں اور اس کے لئے تحریک چلائیں۔ مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی علماء کی ناقدری بہت سے سنگین مسائل کو جنم دے سکتی ہے اور بروقت اگر اس کاعلاج نہ کیا گیا یہ بھیانک رخ اختیار کرسکتا ہے۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments