ملیانہ قتل عام کیس کافیصلہ:می لارڈ یہ انصاف نہیں ہے

عابد انور

Thumb

میرٹھ ہاشم پورہ ملیانہ قتل عام کے 34 سال پورے 
ملیانہ قتل عام کے معاملے میں گزشتہ 31اکتوبر2018 کو دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا مسلم طبقینے خیرمقدم کیا اور کیا بھی جانا چاہئے، پہلی نظر میں فیصلہ قابل قدر ہے گرچہ یہ معاملہ نادر اور رئر آف دی ریرسٹ کے دائرہ میں آتا تھا ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تنے بڑے پیمانے پر نیم فوجی دستوں نے نشانہ بناکر مسلمانوں کو قتل کرکے نہر میں پھینک دیا ہو جب کہ وہ حفاظت پر مامور تھے۔ اس کی سزا پھانسی ہونی چاہئے تھی جیسا کہ افضل گرو،یعقوب میمن اور اجمل قصاب کیس میں فیصلہ دیا گیا ہے یعقوب میمن اور افضل گرو تو راست طور پر ملوث بھی نہیں تھے جب کہ پی اے سی نے مکمل طور پر خود قتل عام کو انجام دیا تھا۔ اس معاملے میں میرٹھ،ہاشم پورہ اور ملیانہ میں سیکورٹی فورسز نے سو کے قریب مسلمانوں کا قتل کیا تھا جسے کنویں اور دیگر جگہوں پر دفن کردیا تھا تاکہ کوئی ثبوت نہ ملے۔جن پر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر اس پر سماعت ہو اور فیصلہ آجابھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کیوں کہ تمام خاطی پرلوک سدھار چکے ہوں گے۔ اس معاملے میں بیشتر خاطی مرنے کے قریب ہیں۔ شاید ہی کوئی سزا بھگتنے کے لائق ہو۔ سزا کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سزا کا اثر اس وقت ہوتا جب انہیں سروس کے دوران سزا دی جاتی، معطل کیا جاتا، برخاست کیا جاتا، تو سزا کا اثر ہوتا ہے۔ انہیں مالی بحران سے گزرنا پڑتا جس طرح مسلم نوجوان کے خاندان مالی بحران مالی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے بسی، بے کسی، عزت کا نفس کا سودا، پیسے کے لئے دربدر بھٹکنا، معاشرے کی ذلت اور انتظامیہ کا قہر جھیلنا پڑا ہے اس طرح پی اے سی اور سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو جھیلنا نہیں پڑا ہے۔ اس لئے یہ سزا بے معنی ہے۔ یہ کوئی زمین جائداد کا معاملہ نہیں تھا کچھ ہاتھ آگیا، بلکہ ان مسلم خاندانوں کی زندگی تباہ ہوگئی اور تباہ کرنے والوں کی زندگی آباد رہی۔ جو لوگ اس میں مارے گئے تھے ان کا خاندان کس حال میں رہا اور ان کے ساتھ کیا مشکلات پیش آئیں حکومت نے اس کا کوئی مداوا نہیں کیا۔ اسے منفصانہ اور اطمینان بخش فیصلہ قطعی نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ متاثرین کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔جس طرح تقریباَ 32سال کے بعد فیصلہ آیا ہے عدالت نے اسے سزا دینے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟ یہ سوال کیا جانا چاہئے۔ جس طرح عدالت کو مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دینے میں 31سال سے زائد لگ گئے اسی طرح مسلمانوں کو رہا کرنے میں 15،20سال لگ جاتے ہیں۔ اسے انصاف کہیں گے یا انصاف کے نام پر سزا؟
اس سے قبل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی، ظلم و بربریت اور قتل عام کے مجرموں کے لئے 21مارچ 2015کا دن ایک خوشگوار دن ثابت ہوا تھاجب تیس ہزار کورٹ نے پی اے سی کو رہا کردیا تھا۔ ہندوستان جو کبھی عدل جہانگیری کے لئے مشہور تھا اور اب مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف آزادی کے بعد آج تک تقریباً پچاس ہزار سے زائد فسادات ہوچکے ہیں۔فسادات کی یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا خون کتنا ارزاں ہے۔ اسی کے ساتھ تعداد یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ امن و قانون کامعاملہ مسلمانوں کے تعلق سے کس قیدر ڈھیلا، تعصب سے بھرپور، امتیاز کے رنگ میں سرابور، مسلمانوں کے تئیں عدلیہ نظام میں نفرت اور پولیس انتظامیہ میں مسلمانوں کے تئیں کتنی زبردست بے وقعتی ہے۔ اقوام متحدہ کے معیار اور پیمانہ کے مطابق ملیانہ ہاشم پور قتل کو قتل عام کے زمرے میں رکھا جائے گا۔ ہندوستانی عدلیہ کا ایک بھیانک چہرہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب چند سال قبل بتھانی ٹولہ اور شنکر بیگھہ قتل کے عام کے سارے ملزمین پٹنہ ہائی کورٹ سے بری ہوگئے تھے۔ ایک دو واقعہ ہو تو اسے نظر انداز کیا جائے لیکن یہاں تو ناانصافی کا لامتناہی سلسلہ ہے اور یہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مجرموں کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ جب چاہتے ہیں کسی بھی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیتے ہیں۔ مجرموں کی ہمت کیوں نہ بڑھے جب اس طرح بھیانک جرائم کرنے والے ملک کے افراد کونسلر، رکن اسمبلی،رکن پارلیمنٹ اور وزیر اعلی سے لیکر وزیر اعظم تک بن جاتے ہیں تو اس سے کوئی کیوں پیچھے رہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی کے 282رکن پارلیمنٹ میں سے 97پر مقدمات ہیں۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیوندر فڑنویس پر فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے سمیت  22مقدمات ہیں۔اشتعال انگیزی کرنے والی اور مسلمانوں کے قتل عام پر اکسانے والی سادھوی نرنجن جیوتی مرکز میں وزیر ہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ چار پانچ بار سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت میں اہم کردار ادا کرنے والے اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں ہونے والے فسادات کے سبب تقریباً دس ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا لیکن ان میں سے کسی کو سزا نہیں ملی۔بلکہ اس میں اہم کردار اور ادا کے مرتکب اور کلیدی خاطی ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے بڑے بڑے سرکاری عہدے پر پہنچے۔ جہاں اس طرح کی باتیں ہوں گی وہاں کسی انصاف کی توقع کرنا فضول ہے۔ اترپردیش کا مغربی حصہ مسلم کش فسادات کے لئے بدنام ہے۔ یہاں بیشتر بار منظم طور پر فسادات کرائے گئے ہیں۔ مرادآباداور میرٹھ فسادات کے لئے بدنام رہے ہیں۔ مرادآباد میں عید کے دن کا قتل عام کو کون بھول سکتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ قتل عام ہوا بلکہ اس لئے بھی کہ کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ گجرات فسادات میں کچھ لوگوں کو سزائیں ضرور ہوئی ہیں لیکن اب وہ سب جیل سے باہر ہیں اور جب سے نریندر مودی مرکزمیں حکومت آئی ہے فسادات کے ملزمین ایک ایک کرکے بری ہورہے ہیں۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین فرضی تصادم میں ملوث افسران ایک ایک کرکے اب بری ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں کے بیشتر صحافی مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی داستان اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے بارے میں خاموش رہتے ہیں ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ملک کے خلاف کام ہوگا اور ملک کی بدنامی ہوگی۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور مسلمان ملزم ہوتے ہیں کہ ان کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بدلے سیکڑوں مسلمانوں کو سزا دی جائے اور یہ لوگ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھتے جب تک پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار نہ ہوجائے اور دوچار جگہ مسلم کش فسادات برپا نہ ہوجائیں۔یہاں مسلمانوں کے خلاف جمہوریت کے چاروں ستون کافی سرگرم ہوتے ہیں۔ ایک عدالت پر تھوڑا بہت بھروسہ رہ جاتا ہے لیکن بیشتر واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔ اگر مسلم کش فسادات کے ملزمین کو سزائیں دی جاتیں تو ہندوستان میں اتنے مسلم کش فسادات نہ ہوتے اور نہ ہی دنیا میں ہندوستان کو شرمسار ہونا نہ پڑتا۔

دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے 21مارچ 2015 کو میرٹھ شہر کے علاقے ہاشم پورہ میں مسلمان نوجوانوں کے قتل کے کیس میں 16 پولیس والوں کو بری کردیاتھا۔ان پی اے سی اہلکاروں پر  22مئی 1987 میں مذہبی فسادات کے دوران 42 مسلمان نوجوانوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے تھے۔1987 میں میرٹھ  مذہبی فسادات کی زد میں تھا اورپرونشیل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی 41ویں بٹالین کے ایک دستے نے میرٹھ کے ہاشم پورہ محلے سے مسلمان نوجوانوں کو ان کے گھروں سے باہر نکالا اور ٹرکوں میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔اس کے بعد ان نوجوانوں کی لاشیں میرٹھ سے تقریباً 50 کلومیٹر دور مراد نگر میں گنگ نہر سے ملیں۔اس واقعہ میں زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان ذوالفقار ناصر نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ پی اے سی کے اہلکار تقریباً 45 لوگوں کو ٹرک میں بٹھا کر لے گئے تھے۔اس نوجوان نے لوگوں کے سامنے پوری کہانی بیان کی تھی۔ اس وقت اترپردیش کے وزیر اعلی ویربہادر سنگھ تھے مرکز اور اترپردیش میں دونوں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس نوجوان نے بتایاکہ ’مرادنگر کے قریب ہمیں ٹرک سے اتارا گیا اور دو لوگوں کو میرے سامنے گولی مار دی گئی۔ میرا نمبر تیسرا تھا۔ لیکن گولی ان ہاتھ میں لگی اور وہ بچ گئے۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے انہیں مردہ سمجھ کر نہر میں پھینک دیا۔‘بعد میں ذوالفقار ناصر نے سابق وزیراعظم چندر شیکھر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اس واقعے کی تمام تفصیلات بتائی تھیں۔ اترپردیش حکومت کا رویہ اس کیس کے تئیں ہمیشہ کاہلانہ رہا اور اس کی پوری کوشش پی اے سی کو بچانے تک محدود رہی۔اس نے کبھی بھی اس کیس کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکومت کے لاپروائی اور تساہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  1994 اور 2000 کے درمیان ایک ملزم کے خلاف 23 مرتبہ وارنٹ جاری کیے گئے لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ جب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے دباؤ زیادہ بڑھا تو وہ عدالت میں پیش ہوا لیکن انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ کو بھی ملزم بنایا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ فائرنگ انہی کے حکم پر کی گئی تھی۔ لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران ان کا انتقال ہوگیا۔اس کیس کی سماعت اگرچہ غازی آباد میں شروع ہوئی تھی لیکن انصاف کے تقاضے کے تحت بعد میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسے دہلی منتقل کردیا گیا تھا لیکن انصاف کاتقاضہ پورا نہیں ہوا۔ اس کیس میں پی اے سی کے 19 اہلکاروں کو ملزم بنایا گیا تھا اور انہیں قتل کے الزام کا سامنا تھا۔ لیکن تین ملزمان کا مقدمے کی سماعت کے دوران ہی انتقال ہوگیا تھا۔دہلی کی تیس ہزار عدالت نے  عدالت نے 22 جنوری 2015کو جرح مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور جب فیصلہ سنایا تو  باقی 16ملزمان کو عدالت نے بری کردیا۔ملائم سنگھ یادو نے میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے تقرییاً 50 مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے کئی کو ترقی بھی دی۔ ملائم کی حکومت قصور وار اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ یہ مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا رہا۔ ملک میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی یا پھر حکومت کی پشت پناہی کے سبب ہوتے ہیں اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1992 -93 میں ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔لالو یادو 1989 کے بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انہوں نے 15 برس کے اپنے دورِ اقتدار میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا۔ نتیش کی حکومت بننے کے بعد مقدمہ چلا اور کئی افراد کو عمر قید کی سزا ہوئی اور متاثرین کو معاوضہ ملا۔
ہاشم پورہ کے معاملے میں اوپر سے نیچے لاپروائی نظر آتی ہے۔ حکومت کا منشاکبھی ملزموں کو سزا دینے کا رہا ہی نہیں۔اس وقت کے غازی آباد کے ایس پی وبھوتی نارائن سنگھ نے سی ڈی آئی کی تفتیش کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ حالات، قرائن اور پی اے سی کا ریکارڈ چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہا تھا کہ مجرم کون ہے۔ جس ٹرک پر لے جایا گیا تھا اس کا نمبر نہیں تھا۔ گولیاں جو چلائی گئی تھیں ثبوت نہیں تھے۔آخر اس کے لئے کون ذمہ دار ہے اس کا تعین لازمی ہے۔ہر گولیوں کا حساب دینا ہوتا ہے تو پھر اس معاملے میں حسب کیوں نہیں لیا گیا۔ داؤد ابراہیم کو ڈھونڈنے کے لئے زمین و آسمان ایک کردینے والی ایجنسی کو آخر ثبوت کیوں نہیں ملی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تاخیر سے حق میں بھی فیصلہ آئے تو اسے انصاف نہیں کہا جاسکتا۔اکشر دھام اور درجنوں کیس میں ہوا ہے۔ ذیلی عدالت نے ملزم کو پھانسی کی سزا دے دی لیکن عدالت عالیہ یا سپریم کورٹ میں جیسے ہی مقدمہ پہنچتا ہے وہ بری ہوجاتا ہے۔ ملک کے بہت سے ہمارے مسلم بھائی بھی کہتے ہیں عدالت سے مسلم نوجوان بری بھی ہورے ہیں اس لئے عدالت پرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔لیکن غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان دس سے چودہ سال کے بعد عدالت سے بری ہوتا ہے تو وہ بری کہاں ہوا۔ وہ تو عمر کی قیدکی سزا بھگت چکا ہوتا ہے اور انتظامیہ کا مقصد حل ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ چاہتی ہے کہ مسلم نوجوان کو عمر قید ہو اور دس بار ہ سال جیل میں گزارے، ان کی زندگی تباہ ہو اور ان کے خاندان برباد ہوجائیں۔ بری تو ہوجاتا ہے لیکن اس وقت تک ان کی شہرت، عزت اور دولت مٹ چکی ہوتی ہے، ان کے دامن اور خاندان پر بدنامی کا ایسا داغ لگ چکا ہوتاہے کہ وہ کسی لائق نہیں رہتا۔ ان کے خاندان کو نہ نوکری ملتی ہے اور نہ ہی کوئی سہارا ملتا ہے۔ اس لئے اسے بھی ناانصافی کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے۔ 
یہ مضمون نومبر 2018میں لکھا گیا تھا۔ جب اس پر فیصلہ آیا تھا۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335 
abidanwaruni@gmail.com

Comments