مزدوروں کی بے بسی اور حکومت کی بے حسی

عابد انور

Thumb

ہندوستان میں انسان کی قیمت کیا ہے اسی وقت اچھی طرح پتہ چل گیا تھا جب ملک میں نوٹ کی منسوخی کو نافذ کیا گیا تھا اور جہاں لائن میں ہی ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں نے دم توڑ دیا تھا۔ لاکھوں لوگ بھوکمری کے شکار ہوگئے تھے۔ہر جگہ انسانیت دم توڑتی نظر آرہی تھی،کروڑوں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے، ان سے روزگار چھن گیا تھا، کسانوں کی کھیتی تباہ ہوگئی تھی، پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کاشت کاری نہیں کرپائے تھے اور  کتنوں کی شادیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ نوٹ کی منسوخی مکمل طور پر ناکام ہوگئی تھی، نہ کالا دھن آیا تھا اور نہ ہی دہشت گردی ختم ہوئی تھی اور نکسلی سرگرمی کم ہوئی تھی اور نہ ہی جعلی نوٹ کا چلن تھما تھا۔ پردھان سیوک نے کہا تھا کہ مجھے پچاس دن دیجئے اگر ناکام رہا تو جس چوراہے پر کہیں گے میں آجاؤں گا۔ہندوستان کے لاکھوں چوراہے اب انتظار کر رہے ہیں، لیکن پرودھان سیوک کسی چوراہے پر نہیں پہنچے۔ البتہ اس سے دہشت گردی، کالادھن، جعلی نوٹ کا چلن بڑھ گیا تھا۔ملک کا منظم اور غیر منظم سیکٹرتباہ ہوگیا تھا۔البتہ بی جے پی کا کا عالیشان اور سات ستارہ ہوٹل والی سہولت سے لیس ہیڈکوارٹر تیار ہوگیا تھا۔ اسی کے ساتھ ملک کے ہر ضلع اور بڑے شہر میں بی جے پی پرشکوہ عمارت بن کر تیارہوگئی۔ عوام نوٹ کی منسوخی کی مار سے پوری طرح کراہ رہے تھے۔اس کے بعد ہونے والے اترپردیش کے انتخاب میں بی جے پی کو تین سو سے زائد سیٹیں مل گئی تھیں اور بی جے پی نے اسے نوٹ کی منسوخی کا انعام قرار دیا تھا۔ سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں سب سے زیادہ عوام نوٹ کی منسوخی کے شکار ہوئے ہوں گے اور سب سے زیادہ تکلیف یہاں کے عوام نے ہی اٹھائی تھی۔ اس کے باوجود بی جے پی کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں کے عوام اسی لائق ہیں جو اس وقت ان کے ساتھ کیا جارہا ہے یا مرکزی حکومت قومی سطح پر مزدوروں کے ساتھ کر رہی تھی۔ جو قوم ملک کی ترقی کی بات کرنے والوں کو پپو کہے، سائنسی بات کرنے والوں گپو کہے، عقلیت پسند اور منطقی بات کرنے والوں ملک کا غدار کہے، ملک کوترقی کی آسمان تک پہنچنے والے کو نکما کہے اور ملک کے آئینی عہدیدار پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں اپنے خطاب میں یہ کہے ملک میں ترقی 2014 سے شروع ہوئی ہے اور یہاں کی قوم اس کو خاموشی سے سن لے اور اس کا کوئی جواب نہ دے اس قوم کے ساتھ اور کیا سلوک ہونا چاہئے۔ جو قوم ترقی اور تنزلی میں کوئی فرق نہ کرسکے اور دوسروں کی تکلیف سے خوش ہوتی ہو اس کا قوم کا نجام بھی تکلیف دہ اور ذلت بھری ہوتا ہے۔ احسان فراموشی قوم ایسے ہی لیڈر مسلط کرتی ہے جو کسی لائق نہیں بلکہ ذلیل کرتی ہے اور ذلت سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جو اس وقت ہورہا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے محض اس لئے ووٹ دیا تھا ان کو ترقی سے کوئی مطلب نہیں تھا، ان کے لئے یہ کافی تھا’مودی میاں کو مارتا ہے‘۔ 2014میں مودی کو ووٹ دینے کے لئے گاڑیوں بھیڑ بکریوں کی بھر کر گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ (سیکولر) مودی کو ہرانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ہم ان کوجیتنے نہیں دیں گے اور ان لوگوں نے تمام پریشانیوں، نوٹ کی منسوخی کی اذیتوں، لائنوں میں موت اور تمام دیگر تکلیفوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تھوک کے حساب سے مودی کو ووٹ دیا تھا جس کابدلہ پردھان سیوک مزدوروں کو بھوکے مار کر، ذلیل کرکے چکا رہے ہیں۔ 

ہندوستان میں اس وقت مزدوروں کے جو حالات ہیں اسے دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی تکلیف مناظر بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا میں ہر حصے میں اس وقت لاک ڈاؤن اور کورونا وبا کا خطرہ ہے  اور ملک گیر ہی نہیں عالم گیر لاک ڈاؤن ہے۔ اس کے باوجود کسی ملک میں مزدوروں کو اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں ہے۔ اس طرح کے حالات کا تصور صرف ہندوستان میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر لوگوں نے پچاس دن میں چوراہے پر انصاف کردیا ہوتا تو انہیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ یہی فرق ہوتا ہے تجربہ کار اور پڑھے لکھے منتظم میں اور جاہل منتظم میں۔ پڑھا لکھا سب کچھ سوچ سمجھ کرکر تا ہے اور جاہل کرنے کے بعد سوچتا ہے۔ اس وقت ڈھائی سو سے زائد مزدور پیدل چلنے، بھوک کی وجہ سے، پیا س کے سبب اور بیماری کی وجہ سے دم توڑ ہوچکے ہیں۔ ہندوستانی پولیس کا بربریت کا چہرہ ایک بار پھر سامنے آگیا ہے۔ جس طرح مزدورں پر پولیس لاٹھیاں بھانجتی ہے اور شراب لینے کی لائن میں لگنے والوں سے دلار سے پیش آتی ہے وہ ہندوستانی پولیس کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اورنگ آباد میں 17لوگ ریل پٹری پر کٹ کر مرگئے اس لئے روڈ سے جاتے تو پولیس سے مار کھانے کا خوف تھا۔ اس لئے ان لوگوں نے ریلوے ٹریک جیسے خطرناک راستہ کو منتخب کیا۔ اس کے علاوہ رجسٹریشن کا طریقہ کار اتنا مشکل ہے کہ مزدوریہ سب کر ہی نہیں پاتے۔ سب کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے کہ وہ اس سے آگاہ رہ سکیں۔ کانگریس نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن تارکین وطن مزدوروں کے لئے سب سے بڑا المیہ بن گیا ہے لیکن حکومت سینکڑوں کلومیٹر پیدل چل کر اپنے گھر جانے کو مجبور کارکنوں کے ساتھ بھدا مذاق کر رہی ہے۔کانگریس کے ترجمان سپریو شری نیت نے اتوار کو یہاں پریس کانفرنس میں کہا کہ ”تارکین وطن مزدوروں و کو زبردستی روکا جا رہا ہے۔ پیدل ہی اپنے گھروں کو جانے کو مجبور ہزاروں ورکرز مختلف ریاستوں کی سرحدوں پر پھنسے ہوئے ہیں اور ان کو آگے نہیں بڑھنے دیا جا رہا ہے۔ ورکرز چھوٹے بچوں اور خواتین کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل چل رہے ہیں۔ان مجبور لوگوں اور بے بس مزدوروں کے لئے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سب سے بڑ انسانی المیہ پیدا ہو گیا ہے“۔ حاملہ خواتین سڑکوں پر بچہ کو جنم دے رہی ہیں اور پھر اسی حالت میں پیدل چلنا شروع کردیتی ہیں، درجنوں خواتین ہیں جو سات ماہ  یا اس سے زائد مدت سے حاملہ ہیں، گرمی اور دھوپ میں بھوکے پیاسے پیدل چل رہی ہیں اس کا اثر ان کے پیٹ پلنے والے بچے پر ہوگا۔ دراصل یہ ہندو راشٹرکا ٹریلر ہے۔ ہندوستان میں جب ہندو راشٹر قائم ہوگا کمزور طبقوں کے ساتھ یہی حشر ہوگا اورغلام بنالئے جائیں گے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مزدوروں کے خلاف قانون بناکر یہ ثابت بھی کردیا ہے اور اس قانون میں مزدوروں کے حقوق سلب کرلئے گئے ہیں، کام کا وقت بڑھا دیا گیاہے، تنخواہ میں کٹوتی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آٹھ گھنٹے کے بجائے اب مزدور 12گھنٹے کام کریں گے۔ کام کی جگہ پر مزدوروں کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔ 

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کو مزدوروں کی تکلیف، بے بسی، مفلسی، دکھدردھ، جانوروں کی طرح ٹھس کرٹرکوں میں آنا، مسئلہ والے مشین میں چھپ کر آنا، سڑک حادثہ کا شکار ہوجانا،مزدوروں کا چپل نہ ہونے کے سبب پانی کے بوتل کا چپل بنالینا، پیر کا چھل جانا اورپولیس کی لاٹھی کھانا وغیرہ نظرنہیں آرہاہے۔ کیوں کہ الیکشن کا وقت نہیں ہے ورنہ بی جے پی اور ہمارے پردھان سیوک پانچ سو روپے کے ساتھ بسوں کا بھی انتظام کرتے۔ملک میں مزدوروں کی صورت حال پہلے سے ہی کربناک ہے۔ درج اعدادو شمار پیش کر رہا ہوں یہ 2014 سے پہلے کے ہیں۔ موجودہ حکومت کے کسی اعداد و شمار پر میں یقین نہیں کرتا اس لئے پرانے اعداد و شمار پیش کرنے پر مجبور ہوں۔ اس سے قارئین کو مزدوں کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 05-2004کے سروے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 45 کروڑ 90 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں دو کروڑ60 لاکھ مزدور منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں جب کہ غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد43 کروڑ30 لاکھ ہے۔ 43 کروڑ30 مزدورں میں سے 26 کروڑ90 لاکھ مزدور زرعی سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ دو کروڑ 60 لاکھ مزدور تعمیراتی شعبہ سے منسلک ہیں۔ باقی مزدور مختلف شعبوں میں جیسے بیڑی، موم بتی بنانے کے کا رخانے، اگربتی صنعت،  پاپڑ صنعت، سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری میں کام کرتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور معاشرتی حالت کیا ہے بہت کمیشنوں اور کمیٹیوں نے ظاہر کردیا ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مزودر مسلمان ہیں وہ بھی اس شعبہ میں ہیں جہاں ان کے لئے کوئی بنیادی سہولت نہیں ہے۔ غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے۔
ملک کے شہری اور دیہی علاقوں روزگار اور بیروزگاری پر حکومت کے ذریعہ کرائے گئے علامتی سروے میں شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں روزگار سے وابستہ لوگوں کی تعداد زیادہ پائی گئی۔ اسی طرح اس سروے میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی کہ شہری علاقوں میں یومیہ مزدور خواتین کی یومیہ مزدوری مرد مزدور کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سروے کے مطابق ملک کی سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیرا نتظام علاقوں کے  4755 گاؤں، 2669 شہری بلاکوں کے 59159 گھروں کے تین لاکھ تین ہزار 828 افراد کو شامل کیا کیا تھا۔اس سروے میں پایا گیا کہ دیہی علاقوں کے مزدور طبقے میں سبھی عمر کے مردوں میں 62 فیصد جب کہ شہری علاقوں میں 80 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے اور خواتین میں بالترتیب43 اور68 پایا گیا۔ دیہی علاقوں میں 44 فیصد مزدور ہیں جب کہ شہری علاقوں میں 37 فیصد مزدور ہیں۔ دیہی اور شہری دونوی علاقوں میں مردوں کے زمرہ میں 54 فیصد کہیں نہ کہیں روزگار سے وابستہ تھے جب کہ خواتین کے زمرہ میں دیہات میں 32 فیصد اور شہری علاقوں میں 15 فیصد خواتین ہی روزگار سے وابستہ تھیں۔ اسی طرح خودروزگار کے سیکٹر میں دیہی علاقوں میں 57 فیصد مرد اور62 فیصد خواتین اپنی زندگی کی گاڑی چلارہی ہیں جب کہ شہری علاقوں میں خودروزگار کے وابستہ افراد میں مردوں کی شرح 44 اور خواتین کی 45 فیصدتھی۔ سروے میں پایا گیا ہے کہ شہری علاقوں یومیہ مزدوروں کے زمرہ میں مردوں کے مقابلہ خواتین کی فیصد زیادہ ہے۔ سروے میں بات بھی سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں یومیہ مزدوروں میں مردوں کی آمدنی 56.53روپے اور یومیہ مزدور خواتین کی آمدنی 36.15 روپے یومیہ مزدوری تھی۔ شہری علاقوں میں مردوں اور عورتوں کے یومیہ مزدووں کی آمدنی نمایاں فرق پایا گیا ہے۔ جہاں مرد مزدور کی یومیہ آمدنی 75.15 روپے کے مقابلے خواتین مزدور کی آمدنی صرف44.28  روپے ہی ہے۔
انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کام کرنے والے ایک ارب40 کروڑ افراد یومیہ  2 ڈالر بھی نہیں کماتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ ان میں سے 55 کروڑ یا40 فیصد افراد وہ ہیں جن کی آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ 20  فیصد وہ افراد ہیں جن کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے۔ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں مزدوروں کے حالات بہت دگرگوں ہے مہنگائی آسمان چھو رہی ہے ادنی سا چاول اورا ٓٹا بھی 20 روپے فی کلو سے کم میں نہیں ملتا لیکن یہاں 20 کروڑ ایسے افراد ہیں جن کی یومیہ آمدنی صرف  بیس (20) روپے ہیں۔ ان کے اخراجات کے پورے ہونے کاصرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان کے حالات کی سنگینی کا صحیح معنوں میں ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ پورے ملک کو جانے دیں صرف دہلی میں ہی سرد راتوں میں 10 ہزار خواتین سڑکوں پر سوتی ہیں۔ خواتین کا سرد راتوں میں سڑکوں پر سونا سننے میں عجیب سا لگتا ہے۔ مردوں کی تعداد تو کئی گنا زیادہ ہوگی-
ہندوستان میں مجموعی مزدوروں کی تعداد میں سے تقریباً 93 فیصد مزدور غیر منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ ان میں تقریبا 62 فیصد زرعی سیکٹر میں،11  فیصد صنعت میں اور تقریباً 27 فیصد خدمات کے شعبہ کام کرتے ہیں۔ ملک میں رزوگار کی صورت حال اس طرح ہے کہ مستقبل تنخواہ پانے والے مزدوروں کی شرح صرف16 فیصد ہے۔ زیادہ تر مزدور خودروزگار کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کی تعداد میں تقریباً 53 فیصد ہے اس کے علاوہ تقریباً 31 فیصد مزدور یومیہ مزدوری کے طور پر کام کرتے ہیں جو نہ صرف بکھرے ہوئے بلکہ کام کی تلاش میں نقل مکانی بھی کرتے ہیں۔ خواتین کی مزدوروں میں سے96 فیصد خواتین غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں غیر منظم سیکٹر میں کا م کرنے والے مزدوروں صورت حال منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کے مقابلہ کہیں زیادہ خراب ہے اس سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کو ہفتہ واری چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی کوئی مدد، بیمار پڑنے یا دوران کام کوئی نقصان پہنچنے پر کوئی طبی مدد یا۔ان کی صورت تو یہ ہوتی ہے کہ روز کنواں کھودو اور پانی پیو۔ اسی کے ساتھ ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ برتا جاتاہے یہاں تک کے خواتین مزدور جنسی استحصال کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔
اگر ہندوستان کے عوام نوٹ کی منسوخی سے سبق لیکر موجودہ حکومت کو سبق سکھایا ہوتا ان کویہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔ جس طرح نوٹ کی منسوخی کا فیصلہ مضحکہ خیز تھا اسی طرح اچانک لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی احمقانہ ہے۔ کیو کہ اگر لاک ڈاؤن کرنے سے پہلے تین چار دن کی مہلت دے دی جاتی اور ٹرینوں اور بسوں کا انتظام کرکے لوگوں کو ان کے منزل مقصود پر بھیج دیا گیا ہوتا اتنا بڑا انسانی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ کروڑوں لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا اور نہ ہی کورونا اس قدر تیزی سے پھیلتا۔ حکومت نے مزدوروں کو جانے کی اجازت دی ہے لیکن اس وقت ان میں بہت سے اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں کیوں کہ مزدوروں کے درمیان جسمانی دوری کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اڑیسہ میں گجرات کے سورت سے واپس آئے 20 لوگوں میں کورونا وائرس (کووڈ۔ 19) کے انفیکشن کی تصدیق ہوئی ہے۔یہ تمام لوگ حال ہی سورت سے لوٹے ہیں۔ ریاست میں حال ہی میں 35000 سے زیادہ لوگ سورت سے لوٹے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان گھبراہٹ کا ماحول ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق گنجم ضلع کے ہی دو لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کارکنوں نے گھر واپسی کے لئے اڑیسہ حکومت کی ویب سائٹ پر رجسٹریشن کروایا ہے۔اڑیسہ کا میور بھنج ضلع ابھی تک کووڈ۔19 سے پاک تھا، لیکن سورت سے واپس آئے تین لوگوں کے کورونا مثبت پائے جانے کی وجہ سے متاثرہ اضلاع کی فہرست میں جڑ گیا اور اس طرح سے ریاست کے 30 اضلاع میں سے 17 ضلع اب اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے۔ اگر لاک ڈاؤن سے پہلے ان مزدوروں کو گھر بھیج دیا جاتا ہے تو حالات اتنے خراب نہیں ہوتے جو اس وقت پورے ملک میں ہیں۔ بے سوچے سمجھے فیصلہ کرنے کا انجام پورا بھگت رہا ہے۔

Comments