انسداددہشت گردی قانون این سی ٹی سی کیا ہے؟

عابد انور

Thumb

ہندوستانی جمہوری نظام اور دوسرے ملکوں کی جمہوری نظام میں نمایاں فرق یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی تشریح ہر پارٹی وقت،حالات اور نفع و نقصان دیکھ کر کرتی ہے۔ قومی مفاد پارٹی مفاد کے تابع ہوتا ہے، کسی ضابطے اور بل کی حمایت کرنے سے پہلے اس پر بات پر تدبر و تفکر ہوتا ہے کہ اس سے پارٹی کو کتنا نفع اور نقصان ہوگا۔ الیکشن میں اسے کتنا استعمال کیا جائے گا اور اس سے پارٹی کو کتنا فائدہ  پہونچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی بھی بل اس بنیاد پرپاس نہیں ہوتا کہ وہ ملکی مفاد میں ہے۔ پارٹی اپنی انانیت کی تسکین اور کچھ طبقہ کو خوش کرنے کیلئے خواہ وہ کسی کمیونٹی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو بڑے آرام سے بل پاس کراتی ہے۔ اسے دوسرے ایوان میں اگر مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے تو مشترکہ اجلاس بلاکر اس کوپاس کرایا جاتا ہے جیساکہ قومی جمہوری اتحاد نے صرف مسلمانوں کو سزا دینے اور ان کی زندگی تنگ کرنے کے لئے پوٹا پاس کروایا تھا۔ حالانکہ یہ قومی مفاد میں نہیں تھا لیکن پارٹی کی پسند تھی اس لئے یہ بل پاس ہوا تھا۔ اسی طرح پی وی نرسمہا راؤحکومت نے ٹاڈا قانون پاس کرایا تھا جس کے شکار صرف مسلما ن ہوئے۔ اب یو پی اے حکومت این سی ٹی سی قائم کرنے پر بضد ہے جس میں جانچ ایجنسیوں کو لامحدود اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ صرف مرکز کے زیر انتظام ہی نہیں بلکہ ریاستوں میں بھی بغیرکسی اجازت کے انہیں کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا۔ کوئی بھی قانون بنتا ہے تواس کا شکار زیادہ تر مسلمان ہوتے ہیں۔ اگر کسی ہندو کا معاملہ ہوتا ہے کہ تو اسے سرسری طور پر لیا جاتا ہے اور پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے اس کے یہاں ہونے والے دھماکے کو بھی پٹاخہ کے دھماکہ میں تبدیل کردیا جاتا ہے لیکن اگر دھماکہ کہیں اور ہوتا ہے توجانچ ایجنسیوں کی پہلی ترجیح کسی مسلم نوجوانوں کو تلاش کرنے کی ہوتی ہے۔ این سی ٹی سی کے قیام کو ریاستی حکومتیں وفاقی ڈھانچے میں مداخلت سے تعبیر کررہی ہیں اور یہ کچھ حدتک صحیح بھی ہے کیوں کہ آئین کے ساتویں شیڈول کے مطابق امن و قانون کا معاملہ ریاست کے دائرہ اختیار میں آتاہے اور اس ایجنسی کے قیام سے براہ راست اس میں مداخلت ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ یوپی اے کی اتحادی پارٹیاں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ حالیہ میٹنگ میں یہی باتیں سامنے آئیں۔ اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ ملک کی پارٹیوں کو ملکی مفاد یا ملک کی سیکورٹی سے کوئی مطلب نہیں ہے۔اگر اس وقت بی جے پی برسراقتدار ہوتی تو کیا وہ یہی رویہ اپناتی؟۔ بی جے پی کو وفاقی ڈھانچہ کے احترام کا اتنا ہی خیال ہوتا جتنا اس وقت ہے؟۔ بی جے پی کے چھ سالہ دوار اقتدار کو جن لوگوں نے بھی دیکھا ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں وہ اپنی مرضی تھوپنے میں کسی طرح کے لیت و لعل سے کام نہیں لیتی تھی۔ اگر کسی نے اس کی مخالفت کی تو انہیں ”دیش دروہی“ قرار دینے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتی تھی۔
قومی انسداد دہشت گردی مرکز (این سی ٹی سی) دراصل وہ پنجرہ ہے جس میں جس کو جب چاہے قیدکیا جاسکتا ہے۔ مرکزی حکومت نے اس کا جو روپ ریکھا تیار کیاہے وہ یہ ہے کہ انٹلی جنس بیوروکے ماتحت یہ مرکز کام کرے گا۔ بات اس پربھی ہورہی ہے کہ اس کو آئی بی کے دائرہ کارسے باہر نکالا جائے۔این سی ٹی سی ایک ایسی طاقتور ایجنسی ہے، جس کا کام دہشت گرد انہ واقعات کو روکنے کے لئے محرک کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ تمام سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کا کام کرے گا۔ این سی ٹی سی کا سربراہ آئی بی میں جوائنٹ ڈائرکٹر رینک کا افسر ہوگااور اس کے تین ڈویژن ہوں گے۔ پہلے ڈویژن کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کی خفیہ اطلاعات حاصل کرے۔ دوسرے ڈویژن کی ذمہ اری خفیہ اطلاعات کا مکمل اوربھرپور تجزیہ کرکے اور خطرے کی اطلاع آپریشن کے ذمہ دار رتیسر ے ڈویژن کو دینے کی ہوگی۔تیسر ا ڈویژن ریاستی اور مرکزی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کرے گااوربہتر تال میل کے ساتھ آپریشن کو انجام دے گا۔ اس ایجنسی میں کام کرنے والے افراد آئی بی میں کام کرنے والے یا اس میں راست بھرتی ہونے والے افراد ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس میں خفیہ ایجنسی ریسرچ انالیسس ونگ را، این ٹی آر او، جوائنٹ انٹلی جنیس کمیٹی (جے آئی سی)  سینا انٹلی جینس ڈائرکٹوریٹ، سنٹرل اکنوملک انٹلی بیورو (سی ای آئی بی) اور نارکوٹکس بیورو کے افسران کو شامل کیا جائے گا۔ این سی ٹی سی کی ایک اسٹینڈنگ کونسل ہوگی جس کا سب سے اہم کردار ہوگا۔ اس میں انسداد دہشت گردی تنظیموں مثلاً ایس ٹی ایف اور اے ٹی ایس کے سربراہ اس کونسل کے رکن ہوں گے اور ہر ریاست میں اس کا ایک دفتر ہوگا اور اسٹینڈنگ کونسل ہی آپریشن کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اس کونسل کی باضابطہ اور تواتر کے ساتھ میٹنگ بھی ہوگی جس میں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ یا بذات خود میٹنگ میں موجود ہوں گے یا ویڈیوکانفرنس کے ذریعہ حصہ لیں گے۔ ہندوستان کے حفاظتی امور سے متعلق تمام محکموں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خفیہ اطلاعات این سی ٹی سی کو فراہم کرے اور این سی ٹی سی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں اوران کی سرگرمیوں سے متعلق ایک ڈاٹابینک تیار کرے جس میں تمام اطلاعات رکھی جائیں۔ این سی ٹی سی آپریشن کو انجام دینے میں ضرورت پڑنے پر این ایس جی کمانڈوزکی مدد بھی لے گا۔
دراصل قومی انسداد دہشت گردی مرکز کے ذریعہ مرکزی حکومت یکطرفہ طور پر اختیارات حاصل کرناچاہتی ہے جس کے حکومت کے ہاتھ لگتے ہی ایسا نظام بن جائے گا جس میں ریاست کی رضامندی یا شرکت حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ جائے گا ایک طرح سے ملک پر خفیہ ایجنسیوں کی حکومت ہوگی۔ یہ ایجنسیاں اپنے حد اختیارات سے تجاوز کرنے میں کبھی بھی گریز نہیں کریں گی اور یہ چیزیں وفاقی نظام پر راست حملہ ہوگا۔ جس سے مرکز اور ریاست کے مابین تعلقات خراب ہونے کاسلسلہ شروع ہوجائے گا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے ریاستی حکومتوں کے شکوک و شبہات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے اور دونوں رہنماؤں کے بیانات اس کے شاہد ہیں۔ وزیر اعظم نے قومی انسدادِ دہشت گردی مزکر یعنی این سی ٹی سی کے قیام کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ این سی ٹی سی مرکز بمقابلہ ریاست نہیں ہے اس کا بنیادی مقصد ہندوستان جیسے وسیع ملک میں دہشت گردی سے لڑنے کی کوششوں کو مضبوط کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بات وزرائے اعلیٰ کی ایک میٹنگ میں کہی تھی جو اس موضوع پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔ اس موضوع پر کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کااختلاف ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مجوزہ این سی ٹی سی ملک کے وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے اور ریاستوں کے حقوق کو محدود کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن وزیر اعظم منموہن سنگھ کا خیال ہے کہ دہشت گردی آج ہماری قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس سے اکیلے اکیلے نہیں لڑ سکتی ہیں اس لیے اس میں تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ قومی انسداد دہشت گردی مرکز کا قیام بہتر طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر ریاستی حکومتیں ہمارا ساتھ دیں۔ ہم مختلف تجاویز کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اورریاستی حکومتوں نے اس ادارے کے تعلق سے جو فکرمندیاں اور تشویشات ظاہر کی ہیں ان پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔مرکزی حکومت نے وزرائے اعلی کے درمیان ایک نوٹ تقسیم کرکے بہت حدتک ان کے شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاستی پولیس کے سربراہوں کو این سی ٹی سی کے اسٹینڈنگ کونسل میں بہ اعتبار عہدہ ممبر بنایا جائے گا، 6 نکاتی میعاری ضابطہ عمل کا ایجنڈا بھی تیار کیا جائے گاجس کے تحت گرفتاری، تلاشی اور ضبطی کا اختیار ریاستوں کے انسداد دہشت گردی دستوں کے سربراہوں کے ساتھ این سی ٹی سی کو بھی حاصل ہوگا۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے این سی ٹی سی کے قیام کے بارے میں ہنگامہ کرنے والی ریاستوں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں ان کی شراکت کے سلسلے میں انہیں آئینہ بھی دکھایا۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بنی میک (ملٹی ایجنسی سینٹر)اسمیک (اسٹیٹ ملٹی ایجنسی سینٹر) کا تعاون نا کے برابر ہے۔ میک میں آنے والی 97 فیصد خفیہ معلومات مرکزی ایجنسیوں سے آتی ہیں۔ ریاستی حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف معلومات جمع کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں اور ریاستوں کی شراکت نہ ہونے کی وجہ سے میک کا مکمل استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے کئی اہم واقعات میں ہندوستانی دہشت گرد تنظیمیں ملوث رہی ہیں اور ان تنظیموں کا وجود ملک کے لیے گہری تشویش کا باعث ہیں۔ملک میں مقامی دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں اس لیے ان کا پتہ لگاکر انہیں تباہ کرنا ہوگا۔جہاں تک آئی بی کے زیر انتظام لانے کی بات ہے تو اسے لانے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ وزراء کے گروپ (جی اوایم) نے 2001 میں اپنی سفارشات میں آئی بی کو دہشت گردی کے خلاف ملک کی نوڈل ایجنسی بتایا تھا۔
قومی انسداد دہشت گردی مرکز (این سی ٹی سی) کے قیام کا خیال2008 میں ممبئی پر حملہ کے بعد آیا تھا اور اسی وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس حملے کو ٹالا جاسکتا تھا اگر یہاں کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان بہتر  تال میل اور ربط و ضبط ہوتا۔اس کے بعد مرکز نے پہل کرتے ہوئے قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) قائم کی تھی۔ جس کے ذمہ اس وقت بہت سارے معاملات ہیں جس میں مالیگاؤں بم دھماکہ کیس بھی شامل ہے جس میں کچھ عرصہ قبل مسلم نوجوانوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے۔ اس کے باوجود اس مرکز ایک ایسی ایجنسی قائم کرنا چاہتی ہے جو لامحدود اختیارات سے لیس ہوں۔ جسے ملک کے کونے کونے میں کارروائی کرنے کے تمام اختیارات حاصل ہوں۔ ہندوستان کے افسران خواہ وہ سول ہوں یا دیگر ذہنی طور پراتنے ترقی یافتہ نہیں ہوتے ہیں کہ وہ صرف قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں۔ قومی مفاد کے نام پر وہ مخصوص طبقہ کو ہراساں کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تقریباً95  فیصدسے زائد افسران کا ذہن پہلے سے بنا ہوا ہوتا ہے انہیں کیا کرنا ہے۔ اس کے لئے نہ تو انہیں کسی ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ٹھوس شواہد کی۔ ان کا مقصد صرف انہیں نشانہ بناکر مخصوص ملکوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی تفتیشی ایجنسی کا قیام بے معنی ہوگا جب تک کے اس کا ادراک نہ کرلیا جائے ملک میں بدامنی کون پھیلا رہا ہے۔بیماری کہاں ہے۔ کون کس کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلا رہا ہے۔سازش کہاں تیار ہورہی ہے۔ ملک میں بم دھماکے کون کرواتا ہے اورکون پکڑا جاتا ہے وغیر وغیرہ ایسے سوالات ہیں جن پر حکومت اور پورے ملک کو نہایت سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔تفتیشی ایجنسیاں اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب ان کا ذہن آئینہ کی طر ح صاف شفاف ہو لیکن پریشانی اس وقت کھڑی ہوجاتی ہے جب ان کے ذہن میں تعصب پہلے سے بھرا ہوتاہے اور وہ اصل مجرم کو نظر انداز کرکے کسی بے قصور کو پھنسانے کے لئے اپنی ساری قوت ضائع کرتی ہیں۔
غیر کانگریسی ریاستوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس کا وجود میں آنا مشکل معلوم ہورہا ہے جب تک ا س میں ترمیم کرکے نئی شکل میں پیش نہ کیا جائے۔ سب سے شدید مخالفین میں ممتا بنرجی، نریندر مودی، نتیش کمار، نوین پٹنائک اور دیگر غیر کانگریسی وزرائے اعلی شامل ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں کی پارٹیاں کسی بھی ایک بات پر متفق نہیں ہوتیں۔ ہر پارٹی اس کوشش میں ہوتی ہے کہ کسی بل پاس کرانے کا سہرا اس کے حصے میں آئے تاکہ الیکشن کے موقع پر اسے کیش کرسکیں۔ ریاستوں کایہ کہنا کہ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ پولیس کی جدید کاری کی جائے لیکن اس معاملے میں ریاستی حکومتیں حساس نہیں ہیں اور کئی ریاستوں نے مرکز کے دئے گئے پیسے کو استعمال نہیں کیا۔311 کروڑ روپے وزارت داخلہ کو واپس ہوگیا کیوں کہ ریاستی حکومتیں اس رقم کو پولیس کی جدید کاری پر خرچ کرنے سے قاصر رہیں۔ این سی ٹی سی کی مخالفت کی وجہ صرف پارٹی گائڈ لائن ہے۔اگر ریاستی حکومت اپنے امن و قانون کے تئیں اتنا ہی حساس ہیں تو اسے بغیر بھید بھاؤ کے اپنے یہاں امن و قانون کو برقرار رکھنا چاہئے اورانصاف کا عمل بغیر کسی امتیاز کے جاری و ساری رکھاجانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوتا اور ریاستی حکومت کی لاپروائی اور امتیاز کی وجہ سے کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور جب اس ضمن میں مرکزریاستی حکومت سے سوال کرتا ہے تو ریاستی حکومتیں نہایت بے شرمی سے کہتی ہیں کہ امن و قانون ریاست کا داخلی معاملہ ہے۔
یہ اپنی جگہ عیاں حقیقت ہے کہ ملک میں جتنی بھی خفیہ ایجنسیاں ہیں اور جتنے بھی قانون ہیں وہ ہر طرح کے معاملات سے نمٹنے کے اہل ہیں۔ کسی نئے قانون اور نہ ہی کسی خفیہ ایجنسی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی ایجنسی کے قیام پر غور کرنا سفید ہاتھی پالنے کے مترادف ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کے درمیان بہتر تال میل پیدا کیا جائے۔ایک دوسرے کو جواب دہ بنایا جائے اور انہیں اپنا کام ایمانداری سے کرنے کی ترغیب و ترہیب اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ مرکزی حکومت جو پیسہ نئی ایجنسی کے قیام پر خرچ کرنا چاہ رہی ہے وہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی جدید کاری، ان کے لئے مواصلات، سڑک، گاڑیاں، آلات کی خریداری اور ایجنسیوں کے ارکان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے۔  (یہ مضمون مئی 2012میں لکھا گیاتھا جب کانگریس انا تحریک کا مقابلہ کرنے کے لئے نرم ہندتو کی طرف بڑھ رہی تھی۔)
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments