کیا کورونا وئرس سچ مچ کی قدرتی وبا ہے یا کچھ مالدار کمپنیوں کی سازش ہے؟

غلام غوث، بنگلور

Thumb

یہ مضموں کئی کتابوں، اخباروں اور میگزینوں میں لکھے گئے حقائق کا نچوڑ ہے۔ مانا کہ کورونا وئرس ایک ایسی وبا ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ خاص طور پر امریکہ، اٹلی، اسپین۔ فرانس، برطانیہ، چین وغیرہ اس کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔اس وبا کے سلسلہ میں مغربی ممالک کے اخبارات، ٹی وی اور یو ٹیوب پر بیشمار تبصرے آ رہے ہیں۔اکٹوبر 2019میں میرے ایک رشتہ دار مسٹر فراز زئی نے میری توجہ اس طراف دلائی تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ وہ ایسی باتیں عام لوگوں کے سامنے نہ کریں کیونکہ وہ اسے خام خیالی اور جھوٹ سمجھیں گے۔ یہ کورونا وئرس سچ مچ کی وبا ہے یا کچھ بڑی کمپنیوں کا کر نا ہے اس پر فیس بک پر 16,000تبصرے آ چکے ہیں یہ میڈیا کا تجزیہ کر نے والی کمپنی Zignal Labsکا تجزیہ ہے جس پر 90لاکھ  لوگوں نے سچ مان کر لکھ دیا ہے۔بات یہ ہے کہ   2015  میں دنیا کے سب سے مالدار شخص اور philanthrophist مسٹر بل گیٹس نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا کہ دنیا بھر کے انسانوں کو جان و مال کا خطرہ دنیا میں موجود پانچ ہزار نیوکلیر بموں اور میزائلوں سے نہیں ہے بلکہ ایسی خطرناک جراثیمی وبا سے ہے جس میں کروڑوں انسانوں کو نقصان ہو گا۔قریباً دو کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا جو آج دنیا بھر میں پھیلی ہوی ہے اس کے محرک مسٹر بل گیٹس، مسٹر ٖ فوسی (Fauci)اور انکے مالدار ساتھی ہیں جو اس کا توڑ اپنی کمپنیوں میں بنا کر دنیا بھر کے ہیلتھ سسٹم پر اپنا قبضہ قائم کر نا،منافع کمانا اور ساری دنیا پر ذہنی کنٹرول قائم کر نا چاہتے ہیں۔مسٹر بل گیٹس مائکرو سافٹ کمپنی کے مالک ہیں۔ امریکہ کے صدر مسٹر ٹرمپ  کا اعلان کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی 3.5بلین مالی امداد بند کر دیں گے، اس پر بل گیٹس نے مذمت کی ہے کیونکہ یہ رقم ریسرچ کے لئے دی جاتی تھی۔ بل گیٹس پر ان الزامات کا سچ ہو نا یا غلط ہو نا اس بات پر اثر کر تا ہے کہ آئندہ چل کر اس وائرس کا توڑ (دوا) بل گیٹس کی کمپنی                     دریافت کرے گی یا نہیں۔بل گیٹس کے عوامی بہبودی کے ادارے (Gates Foundation)نے  2018  میں  46.8  ملین ڈالرس کا عطیہ غریب عوام کو دیا تھا۔اس ماہ اپریل میں بل گیٹس نے اعلان کیا کہ اس کی دواوں کی فیکٹریاں الگ الگ بیماریوں کو روکنے کے لئے سات قسم کے انجکشن تیار کر نے اور ریسرچ کر نے کے لئے مالی فنڈنگ کریں گے۔الزام یہ کہ یہ لوگ خود ہی بیماریاں پھیلائیں گے اور بے شمار اموات کے بعد اس کا توڑ کر نے کے لئے مارکیٹ میں انجکشن لائیں گے اور اس کا پیٹنٹ اپنی ہی کمپنی کے نام رکھیں گے۔ ان کی کمپنیوں نے فیملی پلاننگ کے  لئے،  جنٹک سبزیاں اور پھل اگانے کے لئے، پھلوں کو فوری پکانے کے لئے انجکشن اور دوائیاں تیار کرتا ہے اور انہیں افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں فروخت کر تا ہے۔ ان دواوں میں زہریلے اثرات ہو تے ہیں جو دیر سے کام کر تے ہیں۔حا ل میں بل گیٹس نے کہا کہ وہ کورونا وئرس کو کمزور کر نے کے لئے  250  ملین ڈالرس خرچ کرے گا اور توڑ دریافت کر نے کی کوشش کرے گا۔    21.1.2020کو یو ٹیوب سے تعلق رکھنے والے    Q Anon  نے کہاکہ بل گیٹس کو پہلے ہی سے کورونا وئرس کے آنے کا پتہ تھا جو کہ ایک تعجب کی بات ہے۔بل گیٹس کا ایک ساتھی Jeffrey Epsteinجو کسی معاملے میں قید ہے اس کا کہنا ہے کہ دنیا کا ایک سب سے مالدار شخص کورونا وئرس لانے والا ہے۔ایک نظریہ یہ بھی عام ہے کہ عنقریب ایک ایسا انجکشن لایا جائے گا جس کے ذریع ہر انسان کے جسم میں ایک آلہ  chipرکھ دیا جائے گا جس سے اس کے تمام حرکات و سکنات کا پتہ چلتا رہے گا۔یہ خیالات کتنے سچ ہیں کتنے جھوٹ ہیں یہ اللہ ہی جانے۔ امریکہ کے مشہور مسلمان ڈاکٹر مسٹر رشید بتار  جنہوں نے بیالوجی میں ڈبل ڈگری حاصل کی، ہیلتھ اور سائنس میں ڈگری لی، امریکی فوج میں ڈاکٹر رہے اور ہیلتھ محکمہ کے ڈئرکٹر رہے اور جن کا شمار پچھلے  20 سالوں میں امریکہ کے   50 چوٹی کے ڈاکٹروں میں شمار کیا جاتا ہے انہوں نے میڈیا میں سوال و جواب میں ثبوتوں کے ساتھ کہا کہ کورونا وئرس مسٹر بل گیٹس، مسٹر فوسی)  fouci)  اور انکے مالدار ساتھیوں کی تیار کردہ ساازش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ اس وئرس کا ریسرچ امریکہ میں شروع کیا گیا اور بعد میں چین کے شہر ووھان میں کیا گیا (   out sourcing)۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین کو یہ ریسرچ کر نے کے لئے   3.7 ملین ڈالر دیے۔ایسے ریسرچ کی ضرورت نہیں تھی مگر مسٹر فوسی نے  2015  میں اس ریسرچ کے لئے مالی مدد دی۔ مسٹر فوسی نیشنل  انسٹیٹوٹ  آف ہیلتھ کا ایک اعلی ڈائرکٹر ہے جو ریسرچ کے لئے فنڈ الاٹ کر تا ہے۔ اس نے   2013 میں کہا تھا کہ 2019/2020 میں یہ بیماری (وئر  س) دنیا میں نمودار ہو گا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگانائزیشن نے بھی اس کے حکم پر اس ریسرچ پر خرچ کر نا شروع کر دیا۔جو اموات ہو رہے ہیں وہ سب کے سب اس وئرس کے سبب ہیں یہ کہنا جھوٹ ہے کیونکہ اموات دوسرے مرضوں سے بھی ہو رہے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کے اس اعلان پر کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو مالی امداد بند کر دے گا اس پر بل گیٹس ناراض ہو گئے۔ بل گیٹس، فوسی اور ان کے ساتھیوں نے اکثر داکٹروں اور نرسوں کو ڈرا کر موت کا سبب کورونا کو بتانے پر مجبور کر رہے ہیں۔  ایک ڈاکٹر جس نے ان کی بات نہیں مانی اسے پانچ سال کے لئے  غلط الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے لئے مسٹر فوسی سیدھے سیدھے ذمہ دار ہیں۔ان لوگوں نے میڈیا کو بھی خاموش کر دیا ہے۔ کیونکہ میڈیا جو بھی کہیں گے اس کے لئے ثبوت نہیں پیش کر سکیں گے۔اس میں کون کون شامل ہیں یہ کہنا مشکل ہے۔امریکہ اور یوروپ میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو وہ سب کر دیتے ہیں جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ان کے ایک ملٹری کے دوست اور ساتھی نے بتایا کہ امریکہ صدام حسین کے خلاف پہلی جنگ اس الزام کے ساتھ کیا کہ عراقی  افواج نے کویت میں تیل کے چشموں کو آگ لگانا شروع کر دیا تھا۔ مگر سچائی یہ تھی کہ گیارہ تیل کے چشموں کو خود رشید کے دوست اور ان کے ماتحتوں نے آگ لگائی تھی اور الزام عراقی افواج پر ڈال دیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کورونا وئرس کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔جاپان کے فزیالوجی اور میڈیسن کے نوبل انعام یافتہ پروفیسر مسٹر  Dr Tasuku Honjoنے اپنے چالیس سالہ تجربہ کے بنیاد پر ثبوتوں کے ساتھ کہا  کہ یہ قدرتی وبا نہیں ہے اور یہ چالینج رکھا کہ اْس کے مرنے کے بعد بھی وہ غلط ثابت ہوا تواس کا نوبل انعام واپس لے لیا جائے۔
   اب سے   60سال پہلے جب فلمیں بنائی گئیں جن میں بتایا گیا کہ انسان چاند اور دیگر سیاروں میں جا رہا ہے، ہزاروں میل دور سے میزئلوں سے حملہ کر رہا ہے، ہوا پر قابو پا کر ہزاروں میل دور سے باتیں کر رہا ہے تو لوگ اسے خوابوں خیالوں کی فرضی باتیں سمجھنے لگے اور مذاق میں ٹال دیتے تھے۔ مگر آج وہ سب سچ ثابت ہو گئے۔آج جسے ہم نا قابل یقین اور فرضی سمجھ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہی کل کے دن سچ ہو جائے۔ ان تمام قیاس آرائیوں کے درمیان اگر کوئی قوم خاموش اور بے پرواہ ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ ہر مغربی ملک اس مسلہ پر تبصرہ کر رہا ہے سوائے مسلم ممالک اور افریقہ کے۔ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے عربوں کو تیل دے دیا مگر دماغ اور دوسرے مسلمانوں کی تکلیفوں پر دھڑکنے والا دل نہیں۔ ایک اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ حکومتیں کھل کر یہ کہہ نہیں رہی ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہم پر عذاب ہے۔ یہ بات نہ ٹرمپ کہہ رہے ہیں اور نہ کوئی اور۔ کچھ مذہبی حضرات کا کہنا ہے کہ قوم عاد،  ثمود، صالح، شْعیب اور قوم فرعون پر اللہ نے ان کے الگ الگ گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کر دیا اور انہیں نیست و نابود کر دیا۔ آج اگر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو تا ہے کہ تمام گناہ اور برائیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی جو ان تمام قوموں میں تھیں وہ سب کی سب ہم میں آج موجود ہیں چاہے وہ عیسائی ہوں یا یہودی یا مسلمان۔ اگر یہ سچ ہے تو کیا اللہ کا ناراض ہو نا بجا نہیں ہے۔ کیا اس کا عذاب نازل کر نا صحی نہیں ہے؟  وہ تو کئی وارننگس دے چکا مگر ہم نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اب اللہ نے ہم پر اور ساری دنیا پر ایسا نہ نظر آنے والا جراثیمی عذاب اتار دیا جس سے چاروں طرف ڈر اور خوف پیدا ہو گیا۔یوں تو اموات اب تک صرف دو لاکھ کے قریب ہیں مگر تمام لوگ اتنے خوفزدہ اور پریشان ہیں کہ پہلے کبھی نہیں تھے۔اب تک جو بھی عذاب آئے وہ سب ایک ایک شہر پر تھے(سوائے حضرت نوح کے زمانے کے)مگر یہ عذاب ساری دنیا پر ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں  170 لاکھ آدمی مارے گئے، دوسری جنگ عظیم میں آٹھ کروڑ، ویٹنام میں امریکہ کے  58 ہزار،  250  ہزار ساوتھ ویٹنامی،    150 ہزار شمالی ویٹنامی سپاہی اور 25  لاکھ عام آدمی۔،افغانستان میں  3.5 لاکھ، عراق میں پانچ لاکھ مرے اور پانچ لاکھ جلا وطن ہوے،شام میں چھ لاکھ مرے اور بارہ لاکھ جلا وطن ہوے۔ ان اموات اور جلا وطن لوگوں کی آہ و زاری نے اللہ کے غصہ کو اور اس کے قہر کو جگا دیا۔ دنیا آج کورونو وئرس سے ہو نے والے دو لاکھ اموات سے پریشان ہے مگر  پہلے ہونے والے لاکھوں اموات پر خاموش رہے اور معصوموں کی موت کو  colateral damage  کہہ کر نظر انداز کر تے رہے۔یہ سزا ہے ان تمام پر جو لاکھوں کی اموات پر خاموش رہے۔  ہمارے پانچ ہزار نیوکلیر بم، کروڑوں میزائل، کیمیکل اور جراثیمی ہتھیار سب کے سب آج ہمیں بچانے میں ناکام ہیں۔ اللہ اپنا عذاب یا تو سیدھے سیدھے اتار دیتا ہے یا خود ظالم انسانوں ہی کے ہاتھون اتار دیتا ہے۔ یہ وقت غور و فکر کرنے کا، اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا  اور اللہ کی رحمت کو آواز دینے کا ہے
 فون: 9980827221

Comments