فلم بینی،ڈرامہ ارطغرل اورعالمی لاک ڈائون

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

Thumb

مجھے یاد ہے کہ بچپن میںدور درشن پر جب سیریئل رامائن اور مہابھارت نشر ہوتا تھا تو پوری گلی سنسان پڑجایا کرتی تھی ۔آس پاس پڑوس کے لوگ بھی ان گھروں میں داخل ہوجایا کرتے تھے جن کے پاس ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ رام مندر تحریک کو تقویت پہنچانے میںسیریئل رامائن نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا لہذا عدالت کے جبری فیصلے کے بعد جب شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا ہے تو سیریئل رامائن کو دوبارہ نشر کیا جارہا ہے۔بھارت کو ہندو راشٹر بنانے میں ہندو تہذیب کا احیاء کرنے والے ان ڈرامہ سیریئلس کا کلیدی کردار ہے جنہوں نےغیر محسوس طریقے سے مسلم خواتین کو بھی شرکیہ اعمال پر آمادہ کر لیا ہے۔ بھارتی فلموں میں ہندو رسوم و روایات کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اب ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ’’اگنی پوجا‘‘میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا اور مشاعرہ کے ساتھ کلچرل پروگرام کا آغاز بھی ’’شمع روشن ‘‘کرکے کرتا ہے۔  
جن دنوںبالی ووڈ ڈائریکٹر مہیش بھٹ سے قربت تھی تووہ مسلم ایشوز پر بننے والی مختلف فلموں کے حوالہ سے کہا کرتے تھے کہ’’ جب کوئی بڑے پردے پر اپنے ہیروز کی پذیرائی کرتا ہے تو اسی کے ساتھ ’’ولن‘‘کے خلاف غصے کو بھی پالتا ہے ۔میں تو بس معاشرے کی عکاسی کرتا ہوں لیکن کچھ لوگ اسی کے ساتھ نیا معاشرہ بنا رہے ہیں ۔تم سوچو جب میں نے فلم ’’دھوکہ ‘‘کے کچھ ڈائیلاگ پریش راول سے کہلوانا چاہے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کشمیری مسلمانوں پر اس حد تک ظلم روا رکھا جا رہا ہے اور پھر بڑی مشقت کے بعد کچھ ڈائیلاگ پر راضی ہوئے۔‘‘انوراگ کشیپ جب فلم ’’گلال‘‘کی ریلیز میں مصروف تھے تو ایک ملاقات میں کہنے لگے کہ ’’ان کہانیوں پر کام کرو جو ’’زمینی حقیقت ‘‘کی عکاس ہوں ،میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن وہ کہنا نہیں چاہتے ‘‘۔اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی بیشتر فلمیں مسلمانوں کے ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں جہاں وہ ماضی کے حوالہ سے مستقبل پر نظر ڈالتے نظر آتے ہیں۔
لہذا ایک طرف بالی ووڈ جہاں نظریاتی اعتبار سے دو خانوں میں تقسیم ہوا وہیں ہندوستان کے مسلم گھرانوں میں دیکھے جانے والےٹی وی سیریئلس بھی یوٹیوب کی طرف منتقل ہوکر ان پاکستانی سیریئلس میں پناہ تلاشنے لگے جہاں ان کو اپنی تہذیب نظر آرہی تھی۔پردہ سیمیں پر جاری اس تہذیبی لڑائی میں مسلمانوں کا مذہبی دانشور طبقہ اس لئے کسی اظہار کی جرات نہیں کررہا تھا کہ فلم بینی ان کے معاشرے میں ایک لعنت ہے اور اس پر گفتگو کرکے وہ کسی ملامت کا شکار نہیں ہونا چاہ رہے تھے۔لیکن ان دنوںترکی ڈرامہ ارطغرل نے جس طرح مذہبی طبقہ کے اندر ہلچل پیدا کردی ہے اور فنون لطیفہ پر سنجیدہ علماء کرام بھی اظہار خیال کررہے ہیں وہیں ایک بڑی تعداد رات رات بھر جاگ کر اس ڈرامے کو ایسے دیکھ رہی ہے جیسے کوئی مذہبی فریضہ ادا کررہا ہو۔
دراصل ڈراما سیریل دیریلس ( Diriliş ) ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’آنے والا‘‘یا ’’ قیامت ‘‘کے ہیں۔ اس کے رائٹر محمد بزدک( Mehmet Bozdağ) اور کمال تکدن (Kemal Tekden) نے اس کی 76 اقساط دسمبر 2014 میں نشر کی تھیں جو خاصا مقبول ہوا تھا۔وکی پیڈیا کے مطابق ارطغرل (Ertuğrul) سلطنت عثمانیہ کے بانی غازی عثمان اول کے والد تھےجو ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلے کے سردار تھے۔ عثمان اول کے زمانے میں ملنے والے سکوں سے بھی ارطغرل کی تاریخی حیثیت ثابت ہوتی ہے۔دراصل بارہویں صدی عیسوی میں جب بازنطینی اورمنگول فتنہ سر اٹھا رہا تھا تو اطغرل غازی نے علم جہاد بلند کیا اور سلجوق سلطنت کا وفادار رہتے ہوئےبازنطینی اورمنگولوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی- سلطان علائوالدین کیکوباد نے ان کی خدمات سے متاثر ہو کر انہیںسردار اعلی کا عہدہ کے ساتھ سوگوت اور گرد و نواح کے شہر بطور جاگیر دے دیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آس پاس کے تمام ترک قبائل بھی ان کے ماتحت آ گئے۔
اسی تاریخی داستان کو دیریلس ( Diriliş ) سے موسوم پانچ سیزن میں پیش کیا گیا ہے جسے لاک ڈائون کے دوران پوری دنیا کی مسلم آبادی کا وہ نوجوان دیکھنے میں مصروف ہے جو عظمت رفتہ کی تلاش کا متمنی ہے۔ماضی قریب میں لیبیا کے معلم قرآن عمر المختار جب اطالوی فوجوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھےتو ان پر بننے والی فلم ہر وہ مسلمان دیکھنا چاہتا تھا جو جذبہ جہاد سے معمور تھا۔حقیقت یہ ہے کہ صیہونی مقتدرہ نے مسلمانوں کے جس جذبہ کو سب سے زیادہ کچلنے کی کوشش کی ہے وہ جذبہ جہاد ہی ہے۔دہشت گردی کے نام پر برپا کی گئی تہذیبی جنگ میں جہاد و شہادت پر گفتگو ان تمام لوگوں پر گراں گذرنے لگی جو ’’حب الدنیا و کراہیۃ الموت‘‘کا شکار ہوچکے تھے ایسے میں ڈراما سیریل دیریلس ( Diriliş ) کا پیش کیا جانا اسی جذبے کی آبیاری تھا جسے رجب طیب اردوگان ترکی میں محسوس کررہے تھے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لاک ڈائون کے دوران ہی پوری دنیا کے مسلم نوجوان اس سیریئل پر ٹوٹ پڑے ہیں اور اس کے کرداروں کو اپنی زندگی میں محسوس کرنا چاہ رہے ہیں۔مسلم نوجوان گھوڑے پر سوار ہوکر سیریئل کے میوزک ٹیون کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہا ہے اور اسے سوشل میڈیا میں شیئر کرکے فرحت محسوس کررہا ہے۔شاید ہم اس کو اس روایت سے سمجھ سکیں جسے السنن الواردۃ فی الفتن میں ا مام ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی اندلسی نے رقم کیا ہے کہ’’ قریب ہے کہ بحر شرقی کی ناکہ بندی کر دی جائے حتیٰ کہ اس میں کوئی جہاز نہ چلے اور یہاں تک کہ ایک بستی والوں کو دوسری بستی نہ جانے دیا جائے۔ اور یہ ملاحم (جنگوں) کے قریب ہو گا اور خروجِ مہدی کے قریب‘‘۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اندلس کے حوالے سے ہی کہا تھا کہ 
یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے  جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا  سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو  عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن  نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
یہ ہم تمام کے علم میں ہے کہ اس وقت ترکی اسلامی دنیا میں اہم کردار ادا کررہا ہے جبکہ عرب حکمراں ترکی کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں ۔ان تحفظات میں ایک بڑی شکایت یہی ہے کہ احیائے خلافت کی کوششوں میں ترکی جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے کہیں یہ جذبہ عرب حکمرانوں کے سقوط کا سبب نہ بن جائے اوروہ عثمانی خلافت جسے صیہونیوں نے کمال ہوشیاری سے کلعدم قرار دے دیا تھا کہیں دوبارہ منصہ شہود پر نہ آجائے ۔اگرترکی ڈراما سیریل دیریلس ( Diriliş ) اس جذبے کو پیدا کررہا ہے تو یقیناً یہ ان تمام طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہےجو صیہونی مقتدرہ کے حاشیہ بردار ہیں۔ 
دانش ریاض معیشت کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں-

Comments